میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے

محسن حجازی

محفلین
واہ حضور کیا کمال کیا آپ نے!
غزل میں غزل کہہ ڈالی!
ایک اس رنگ میں ایک اس رنگ میں! ہم کوتو یوں معلوم ہوتا ہے گویا غزل کے اشعار نہیں مجنوں کی پسلیاں ہیں کہ نہ باہم پیوست ہیں نہ جدا ہیں :grin:
ہم کو تو بتایا گیا تھا کہ آپ محصولات کے ماہر ہیں ادھر خراج دینے چلے آئے :grin:
ایں چہ چکر است؟

کچھ اشعار بھی قابل توجہ ہیں:

میری بےبسی ہر ہنسا ہے برسوں
کبھی مجھے ہنساے تو کوئی بات بنے


واہ! کیا بات ہے! خود کے ہنسنے کو ہمارا مشورہ ہے کہ خود کو دوسری طرف سےدیکھا جائے :grin:


جانے کی بات نہ کر تو کوئی بات بنے
آنسو میرے چراے تو کوئی بات بنے

چوری چکاری ڈکیتی راہزنی
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے۔۔۔۔ :grin: :grin:

میرا مرگ اور تو ناشاد ہو
اٹھ نہ جاوں جو کوئی بات بنے

اسی نفس مضموں کو ہمارے دوست جناب فاتح صاحب نے بھی باندھا سو ہم تب بھی سراپا سوال تھے کہ بعد اس سانحے کہ گر محبوب بتاشے بانٹنے نکل کھڑا ہوا توکیا ہوگا؟ :grin:


ہر راستہ میں تیرے کہے پہ چھوڑ دوں
جو تو راہ دیکھاے تو کوئی بات بنے

تو جو راہ دکھائی جائے گی اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ نہیں چھوڑ دی جائے گی؟؟ :grin:

وعلیکم معذرت :grin:

بہت خوب تک بندی کی ہم خوش ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
میرا انتظار کر رہی تھیں جیا۔۔ اور تم کو معلوم ہے کہ میں خواہ مخواہ کی تعریف نہیں کرتا اور اگر قابلِ اعتراض عنصر نظر آئے تو فوراً بتا دیتا ہوں۔ اس غزل کے تین اشعار میں کچھ کچھ الفاظ کھٹک رہے ہیں:

مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
ہاں آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے
دوسرے مصرعے میں ’ہاں“ محض ’ہ‘ تقطیع میں آتا ہے اور اچھا نہیں لگتا۔ اگر اس کو ’بس‘ کر دو تو مزا دو بالا ہو جاتا ہے۔ کم از کم مجھے ایسا محسوس ہوا یعنی
بس آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے

میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو نہ پاؤں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے
وارث ’نہ‘ کو بر وزن ’نا‘ جائز سمجھتے ہیں۔ مجھے پسند نہیں۔ مجبوری ہو تو بات دوسری ہے۔ یہاں زیادہ بہتر شکل کا مصرع مل رہا ہے تو کیوں نی اس ممکنہ سقم سے نجات بھی حاصل ہو جائے!!
پیلا مصرع یوں کہو تو۔۔۔
میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو پا نہ سکوں
اور

جیا نجانے کہ ہے ہجر اور بسمل کیا

اگر اسے ’نہ جانے‘ املا بھی کیا جائے تب بھی مصرع میں روانی نہیں آ رہی۔ مقطع ضروری سمجھتی ہو کیا؟ کہ رواں مصرع بغیر تخلص کے اس طرح ذہن میں آ رہا ہے:
مجھے پتہ ہی نہیں ہجر کیا ہے بسمل کیا!!
باقی اشعار بہت خوب۔ غزل مجموعی طور پر اچھی ہے۔ بس فنی نکات کی طرف اشارے کرتا رہتا ہوں کہ اس کا حسن ذرا مزید بڑھ جائے۔ اور کوئی اعتراض کا پہلو نہ رہے۔
 

جیا راؤ

محفلین
جناب لکھا تو آپ نے غضب کا ہے، خاص کر خیال مجھے پسند آیا، آپ کے اشعار میں زبردست خوداعتمادی ہے جو مشکل سے ملتی ہے، مبارک ہو۔


چیلنج تو آپ نے فاروقی کو دیا تھا، لیکن دل پر ہم نے لے لیا اور آپ ہی کے وزن میں یہ تک بندی کردی، ملاحظہ ہو ، آمید ہے ناراض نہ ہونگیں، اگر ہوں تو بتا دیجیے گا، میں اپنی ُپوسٹ فوراً ہٹالوں گا۔


وہ مجھ کو چھوڑ کے جائے تو کوئی بات بنے
کبھی نہ لوٹ کے آئے تو کوئی بات بنے


جانے کی بات نہ کر تو کوئی بات بنے
آنسو میرے چراے تو کوئی بات بنے


مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
ہاں آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے


میری بےبسی ہر ہنسا ہے برسوں
کبھی مجھے ہنساے تو کوئی بات بنے


میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو نہ پاؤں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے


میری نظر میں بس تو ہی تو
جو نظر نہ چراے تو کوئی بات بنے


میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے


میرا مرگ اور تو ناشاد ہو
اٹھ نہ جاوں جو کوئی بات بنے


میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے


ہر راستہ میں تیرے کہے پہ چھوڑ دوں
جو تو راہ دیکھاے تو کوئی بات بنے


میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے
وہ بار بار بتائے تو کوئی بات بنے


تو کہے تو اقرار کے صحیفے اتار دوں
پر ایک نگاہ میں سمجھ جاے تو کوئی بات بنے


جیا نجانے کہ ہے ہجر اور بسمل کیا
وہ آج مجھ کو بتائے تو کوئی بات بنے


وصل کی نہ میں نے کبھی طلب کی
جو تو ہجر میں نہ جاے تو کوئی بات بنے



ایک بار پھر معزرت

شکریہ سعود
اور معذرت بھی کہ ہماری غزل کی وجہ سے آپ کو بھی ایک طویل غزل لکھنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔:grin:
 

جیا راؤ

محفلین
واہ حضور کیا کمال کیا آپ نے!
غزل میں غزل کہہ ڈالی!
ایک اس رنگ میں ایک اس رنگ میں! ہم کوتو یوں معلوم ہوتا ہے گویا غزل کے اشعار نہیں مجنوں کی پسلیاں ہیں کہ نہ باہم پیوست ہیں نہ جدا ہیں :grin:
ہم کو تو بتایا گیا تھا کہ آپ محصولات کے ماہر ہیں ادھر خراج دینے چلے آئے :grin:
ایں چہ چکر است؟

کچھ اشعار بھی قابل توجہ ہیں:

میری بےبسی ہر ہنسا ہے برسوں
کبھی مجھے ہنساے تو کوئی بات بنے


واہ! کیا بات ہے! خود کے ہنسنے کو ہمارا مشورہ ہے کہ خود کو دوسری طرف سےدیکھا جائے :grin:


جانے کی بات نہ کر تو کوئی بات بنے
آنسو میرے چراے تو کوئی بات بنے

چوری چکاری ڈکیتی راہزنی
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے۔۔۔۔ :grin: :grin:

میرا مرگ اور تو ناشاد ہو
اٹھ نہ جاوں جو کوئی بات بنے

اسی نفس مضموں کو ہمارے دوست جناب فاتح صاحب نے بھی باندھا سو ہم تب بھی سراپا سوال تھے کہ بعد اس سانحے کہ گر محبوب بتاشے بانٹنے نکل کھڑا ہوا توکیا ہوگا؟ :grin:


ہر راستہ میں تیرے کہے پہ چھوڑ دوں
جو تو راہ دیکھاے تو کوئی بات بنے

تو جو راہ دکھائی جائے گی اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ نہیں چھوڑ دی جائے گی؟؟ :grin:

وعلیکم معذرت :grin:

بہت خوب تک بندی کی ہم خوش ہوئے

:grin::grin::grin:


ہم بھی بہت خوش ہوئے۔ :grin:
 

جیا راؤ

محفلین
میرا انتظار کر رہی تھیں جیا۔۔ اور تم کو معلوم ہے کہ میں خواہ مخواہ کی تعریف نہیں کرتا اور اگر قابلِ اعتراض عنصر نظر آئے تو فوراً بتا دیتا ہوں۔ اس غزل کے تین اشعار میں کچھ کچھ الفاظ کھٹک رہے ہیں:

مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
ہاں آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے
دوسرے مصرعے میں ’ہاں“ محض ’ہ‘ تقطیع میں آتا ہے اور اچھا نہیں لگتا۔ اگر اس کو ’بس‘ کر دو تو مزا دو بالا ہو جاتا ہے۔ کم از کم مجھے ایسا محسوس ہوا یعنی
بس آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے

میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو نہ پاؤں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے
وارث ’نہ‘ کو بر وزن ’نا‘ جائز سمجھتے ہیں۔ مجھے پسند نہیں۔ مجبوری ہو تو بات دوسری ہے۔ یہاں زیادہ بہتر شکل کا مصرع مل رہا ہے تو کیوں نی اس ممکنہ سقم سے نجات بھی حاصل ہو جائے!!
پیلا مصرع یوں کہو تو۔۔۔
میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو پا نہ سکوں
اور

جیا نجانے کہ ہے ہجر اور بسمل کیا

اگر اسے ’نہ جانے‘ املا بھی کیا جائے تب بھی مصرع میں روانی نہیں آ رہی۔ مقطع ضروری سمجھتی ہو کیا؟ کہ رواں مصرع بغیر تخلص کے اس طرح ذہن میں آ رہا ہے:
مجھے پتہ ہی نہیں ہجر کیا ہے بسمل کیا!!
باقی اشعار بہت خوب۔ غزل مجموعی طور پر اچھی ہے۔ بس فنی نکات کی طرف اشارے کرتا رہتا ہوں کہ اس کا حسن ذرا مزید بڑھ جائے۔ اور کوئی اعتراض کا پہلو نہ رہے۔


السلام علیکم

اعجاز انکل اسی لئے تو آپ کا انتظار کر رہی تھی۔
ان تینوں مصرعوں میں مجھے خود بھی 'شبہ' تھا اور یہاں لکھنے سے پہلے تینوں میں کچھ الفاظ تبدیل بھی کئے مگر پھر بھی بات نہیں بنی۔
مگر اب اچھے ہو گئے ہیں۔:) شکریہ انکل آپ کی اصلاح اور قیمتی وقت کا۔:)
 

جیا راؤ

محفلین

اصلاح شدہ غزل


وہ مجھ کو چھوڑ کے جائے تو کوئی بات بنے
کبھی نہ لوٹ کے آئے تو کوئی بات بنے

مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
بس آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے

میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو پا نہ سکوں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے

میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے

میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے

میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے
وہ بار بار بتائے تو کوئی بات بنے

مجھے پتہ ہی نہیں ہجر کیا ہے بسمل کیا!!
وہ آج مجھ کو بتائے تو کوئی بات بنے
 

نوید صادق

محفلین
جناب لکھا تو آپ نے غضب کا ہے، خاص کر خیال مجھے پسند آیا، آپ کے اشعار میں زبردست خوداعتمادی ہے جو مشکل سے ملتی ہے، مبارک ہو۔


چیلنج تو آپ نے فاروقی کو دیا تھا، لیکن دل پر ہم نے لے لیا اور آپ ہی کے وزن میں یہ تک بندی کردی، ملاحظہ ہو ، آمید ہے ناراض نہ ہونگیں، اگر ہوں تو بتا دیجیے گا، میں اپنی ُپوسٹ فوراً ہٹالوں گا۔


وہ مجھ کو چھوڑ کے جائے تو کوئی بات بنے
کبھی نہ لوٹ کے آئے تو کوئی بات بنے


جانے کی بات نہ کر تو کوئی بات بنے
آنسو میرے چراے تو کوئی بات بنے


مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
ہاں آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے


میری بےبسی ہر ہنسا ہے برسوں
کبھی مجھے ہنساے تو کوئی بات بنے


میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو نہ پاؤں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے


میری نظر میں بس تو ہی تو
جو نظر نہ چراے تو کوئی بات بنے


میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے


میرا مرگ اور تو ناشاد ہو
اٹھ نہ جاوں جو کوئی بات بنے


میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے


ہر راستہ میں تیرے کہے پہ چھوڑ دوں
جو تو راہ دیکھاے تو کوئی بات بنے


میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے
وہ بار بار بتائے تو کوئی بات بنے


تو کہے تو اقرار کے صحیفے اتار دوں
پر ایک نگاہ میں سمجھ جاے تو کوئی بات بنے


جیا نجانے کہ ہے ہجر اور بسمل کیا
وہ آج مجھ کو بتائے تو کوئی بات بنے


وصل کی نہ میں نے کبھی طلب کی
جو تو ہجر میں نہ جاے تو کوئی بات بنے



ایک بار پھر معزرت

برادرم! آپ جلدی میں باٹ کہیں بھول آئے ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
برادرم! آپ جلدی میں باٹ کہیں بھول آئے ہیں۔

نوید صادق صاحب آپ کا اشارہ بے وزنی کی طرف ہے گویا؟:grin:
وہ کیا ہے کہ غزل میں غزل کہی گئی ہے یہ نئی صنف ہے آپ کو شروع شروع میں دشواری تو ہوگی :grin:
ویسے باٹ جیب میں لے کر گھومنے کے حق میں ہم بھی نہیں۔:rolleyes:
آپ کے دوست آصف شفیع صاحب کیا فرماتے ہیں اس بابت؟ :grin:

ویسے ہم آپ کے نام کو نویدِصادق پڑھتے ہیں تو خوب لطف رہتا ہے۔:)
 

نوید صادق

محفلین
بھیا آپ ہماری رائے پوچھ لیتے تو زیادہ اچھا تھا۔ دوسروں کی رائے کی بابت میں کیسے کچھ کہہ سکتا ہوں۔
 

نوید صادق

محفلین

اصلاح شدہ غزل


وہ مجھ کو چھوڑ کے جائے تو کوئی بات بنے
کبھی نہ لوٹ کے آئے تو کوئی بات بنے

مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
بس آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے

میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو پا نہ سکوں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے

میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے

میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے

میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے
وہ بار بار بتائے تو کوئی بات بنے

مجھے پتہ ہی نہیں ہجر کیا ہے بسمل کیا!!
وہ آج مجھ کو بتائے تو کوئی بات بنے


جیا!
غزل اچھی ہے۔ اور اعجاز صاحب کی اصلاح کے بعد تو گویا چار چاند لگ گئے ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
بھیا آپ ہماری رائے پوچھ لیتے تو زیادہ اچھا تھا۔ دوسروں کی رائے کی بابت میں کیسے کچھ کہہ سکتا ہوں۔

حضور غلطی ہوگئی آئندہ آپ سے آپ ہی کی رائےپوچھیں گے تاہم رائے دینے کے بعد جو آپ نے فرما دیا کہ یہ رائے آپ کی نہیں تو ہمارا کیا بنے گا؟ :confused: :grin:

ہم نے سوچا آصف شفیع صاحب اور آپ کی رائے اس بابت ایک سی ہوگی کہ ہم خیال ہی دوست ہوا کرتے ہیں۔:)
ہم سے تو جو دوست جہاں مختلف ہوا ہم نے اسے جبری رخصت پر بھیج دیا! :grin:

امید ہے ہماری شوخی تحریرکا برا نہیں مانیں گے۔:)
 

زرقا مفتی

محفلین
میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے

میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے

بہت خوب
 

مغزل

محفلین
وہ مجھ کو چھوڑ کے جائے تو کوئی بات بنے
کبھی نہ لوٹ کے آئے تو کوئی بات بنے

مرے لئے تو وہ روتا رہا ہے برسوں ہی
ہاں آج مجھ کو رلائے تو کوئی بات بنے

میں اپنے بارے میں سوچوں تو خود کو نہ پاؤں
یوں مجھ سے مجھ کو چرائے تو کوئی بات بنے

میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے

میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے

میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے
وہ بار بار بتائے تو کوئی بات بنے

جیا نجانے کہ ہے ہجر اور بسمل کیا
وہ آج مجھ کو بتائے تو کوئی بات بنے

جیا جی ۔۔ آداب و سلام ِ مسنون
خاصی مشقت نظر آرہی ہے غزل میں۔ مصرعے کی بند اور خیالات کا تنوع غزل میں نمایاں نظر آرہا ہے، گو کہ غزل کی اصلاح ہوچکی مگر میں آپ کے اصل مراسلے پر ہی گواہی دینے آیا ہوں۔ امید ہے کہ آپ مشقِ سخن روز بروز بڑھائیں گی منزل کچھ دور نہیں، انشااللہ ۔۔۔ باوجود اس کے کہ غزل کی کرافٹنگ پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے جس سے عموما کلام کا حسن متاثر ہوتا ہے مگر آپ کے ہاں یہ خوبی ہے کہ مصرع بننے کے عمل میں غزل کا عمومی حسن بہت کم متاثر ہوتا ہے نتیجے کے طور پر ایک اچھی غزل پڑھنے کو میسر آتی ہے۔ اشعار میں نیا پن لانے کی کوشش روشن مستقبل کی ضمانت ہے ، سبھی اشعار اپنی جگہ نگینہ ہیں۔۔ تراش خراش کے بعد مزید نکھار آجائے گا۔۔۔۔۔
مندرجہ ذیل اشعار نسائی لہجے کی للک اور جذبوں کے سچے پن کی ضمانت ہیں۔ان پر خصوصی داد ، اپنے نسائی لہجے کا استعمال خوب خوب کیجئے ۔۔ اور الگ اسے شناخت بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔

میں روٹھ جاؤں گر اس سے تو بے وفا نہ کہے
وہ مر کے مجھ کو منائے تو کوئی بات بنے

میں جس سے ہنس کے نہ بولوں وہ اس کو چھوڑ چلے
یوں میرے ناز اٹھائے تو کوئی بات بنے

میں جانتی ہوں کہ ہوں ناگزیر اس کے لئے
وہ بار بار بتائے تو کوئی بات بنے

سو اس خوبصورت غزل پر ناچیز کی جناب سے مبارکباد، داد اور دعائیں کہ :
اللہ کرے زورِ قلم مشقِ سخن تیز

والسلام
خیر خواہ
عاقبت نا اندیش
م۔م۔مغل
 
Top