میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اُترنے والا | غزل ۔ مدحت الاختر

شاعر بدنام

محفلین
میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اُترنے والا
ہے کوئی پیاس کے صحرا سے گزرنے والا

تو سمجھتا ہے مجھے حرف مکرر لیکن
میں صحیفہ ہوں ترے دل پہ اُترنے والا

تو مجھے اپنی ہی آواز کا پابند نہ کر
میں تو نغمہ ہوں فضاؤں میں بکھرنے والا

اے بدلتے ہوئے موسم کے گریزاں پیکر
عکس دے جا کوئی آنکھوں میں ٹھہرنے والا

جا رہا ہے ترے ہونٹوں کی تمنا لے کر
زندگی بھر تری آواز پہ مرنے والا

میں ہوں دیوار پہ لکھا ہوا کب سے لیکن
کوئی پڑھتا نہیں رستے سے گزرنے والا


// مدحت الاختر
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ جناب۔
اے بدلتے ہوئے موسم کے گریزاں پیکر
عکس دے جا کوئی آنکھوں میں ٹھہرنے والا

جا رہا ہے ترے ہونٹوں کی تمنا لے کر
زندگی بھر تری آواز پہ مرنے والا
اعجاز صاحب! مدحت الاختر کا تعارف ہی کروا دیجیے کہ آپ کے دوست ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کامٹی، ناگپور کے قریب ان کا وطن ہے، مشہور غزل کے شاعر ہیں، مدحت اور ان کے دوست شاہد کبیر نے جدید غزلوں کا ایک انتخاب بھی شائع کیا تھا 60ء کے بعد کی غزل کا، جو کافی مقبول رہا، شمس الرحمٰن فاروقی کے ’نئے نام‘ کی طرح۔ ناگپور یونیورسٹی میں ہی شعبہ اردو کے صدر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، کامٹی میں ہی ہیں، علی گڑھ اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں آئے تھے تو احتشام اختر کے ساتھ ان کے کمرے میں ہی رہے تھے۔ ان دوستوں سے اس وقت خوب ملاقاتیں رہی تھیں۔ شاید تین مجموعے چھپ چکے ہیں، ؛پہلا ’منافقوں میں روز و شب‘ اور حال ہی میں ’میری گفتگو تجھ سے‘۔ میرے ناگپور قیام کے دوران اتنا کہا کہ اس کی سافٹ ھاپی حاصل کریں دہلی سے جہاں چھپوائی تھی کتاب، مگر وہ دے نہیں سکے۔ اس کے بعد ایک آدھ بار ہی فون پر بات ہوئی ہے ان سے۔
 

علی فاروقی

محفلین
بہت شکریہ "شاعر بدنام "صاحب، بہت اچھی غزل ہے،
اور جناب الف عین صاحب آپ کا بھی شکریہ کہ شاعر کا تعارف پیش کیا۔
 
Top