ساغر صدیقی میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا - ساغر صدیقی

کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر صدیقی)

میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
 

کاشفی

محفلین
غزل کی پسندیدگی کے لیئے تمام محفلین کا شکریہ۔

غزل
(ساغر صدیقی)
میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا


میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
 
میں تلخیءِ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقِیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چھلکے ہوئے تھے جام، پریشاں تھی زُلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجئے حُضُور
ان کی گُزارِشات سے گھبرا کے پی گیا!
 
Top