میڈیا کے منفی اثرات ۔۔

حجاب

محفلین
میڈیا کا مثبت یا منفی کردار اپنانا ہماری تربیت پر ہے ،ہمارا معاشرہ ترقی کی کسی بھی راہ پر گامزن ہو جائے میڈیا کچھ بھی دکھا اور سکھا رہا ہو اگر ہماری آج کی نسل کو اچھائی اور برائی کا فرق پتہ ہو تو وہ کسی بھی چیز کا کوئی اثر لینے سے پہلے یہ ضرور سوچے گی کہ یہ چیز اُس کے لیئے اچھی ہے یا بری ،الیکٹرانک میڈیا سے اگر کسی غیر اخلاقی چیز کی نمائش کی جا رہی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اُس کو دیکھ کر اس کا منفی اثر لیا جائے اُس کو صرف انجوائے منٹ کی حد تک کیوں نہ دیکھا جائے ؟ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کسی چیز کے مثبت پہلو پر عمل کرتے ہیں یا منفی ؟
بچوں کی تربیت کا وہ سہنرا دور جس وقت بچوں کو والدین کی ضرورت ہوتی ہے بچّے وہ ٹائم کیبل کی فضول نشریات دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں، والدین کے پاس ٹائم نہیں ہوتا کہ وہ بچّوں کو چیک کر سکیں کہ اُن کا بچّہ ذہنی تفریح کے نام پر کیبل سے چلنے والے چینلز سے کیا سیکھ اور سمجھ رہا ہے ،میڈیا کی تربیت کے ساتھ بڑے ہوتے بچّے جب ذرا اور شعور کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ڈراموں میں دکھایا جانے والا لائف اسٹائل بڑی بڑی گاڑیاں بنگلے بچّوں میں مادہ پرستی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اگر بچوں کو گھر سے پیسے نہ ملیں تو وہ اس کے حصول کے لیئے کوئی بھی طریقہ اختیار کر لینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے کیونکہ میڈیا اُن کو یہی سکھا رہا ہوتا ہے کہ ایک فلم کا ہیرو کس طرح منفی رویے اپنا کر زبردستی کسی سے کوئی چیز چھین سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ایسا ؟؟
آج کی نسل کو میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے کے لیئے سب سے پہلی ضرورت والدین کی تربیت ہے کیونکہ بچّہ جو چیز سات سال کی عمر میں سیکھتا ہے وہ ستر سال کی عمر تک اُس پر عمل کرتا ہے جس نوجوان کی تربیت صحیح طرح ہوگی وہ میڈیا پر دکھائے جانے والی کوئی بھی چیز دیکھ کر اُس پر منفی عمل کرنے سے پہلے یہ بات ضرور سوچے گا کہ یہ چیز اُس کے لیئے غلط ہے یا صحیح ؟ اسی طرح ہمارے ٹی وی چینلزاور موویز بنانے والوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈراموں اور موویز میں ہماری زندگی سے قریب تر واقعات پر ڈرامے اور موویز بنائیں، بچّے جس طرح منفی انداز میں پیش کیئے گئے ہیرو کو اپنی پسند بناتے ہیں اس طرح مثبت انداز کی سوچ کو بھی ضرور اپنائیں گے ،مگر اب اس منفی اثر کو مثبت انداز میں تبدیل ہونے میں آج کی نوجوان نسل بوڑھی ہوجائے گی اور شائد آج کی میڈیا سے ملنے والے سبق سے جو صرف خواب کی دنیا کی زندگی پیش کرتا ہے اُس سے اپنے آنے والی نسلوں کوخوابوں میں گُم ہونے سے بچا لے ، اور ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے جب ہمارے الیکٹرانک ، پرنٹ اور آؤٹ ڈور میڈیا آج کی جدید اور گلیمرس دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے خوابوں کی دنیا سے نکل کر، ہر بات کو منفی انداز میں لکھنا اور دکھانا چھوڑ دیں ، ایک طرح سے یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ مانا آج کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں اگر والدین کے پاس بچوں کی تربیت کا ٹائم نہیں اور یہ ذمہ داری میڈیا نے لے ہی لی ہے تو کیوں نہ میڈیا ایک اچھے والدین کی طرح آج کی نسل کی اچھی طرح پرورش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے نوجوان نسل کو مزید تباہی کی طرف بڑھنے سے بچا لے، میڈیا ہی اپنے منفی اثرات کو مثبت انداز میں تبدیل کر سکتا ہے ۔
 

طالوت

محفلین
اچھی تحریر ہے مگر انگریزی الفاظ کا غیر ضروری استعمال کافی زیادہ ہے ۔۔

اگر کسی غیر اخلاقی چیز کی نمائش کی جا رہی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اُس کو دیکھ کر اس کا منفی اثر لیا جائے اُس کو صرف انجوائے منٹ کی حد تک کیوں نہ دیکھا جائے ؟ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کسی چیز کے مثبت پہلو پر عمل کرتے ہیں یا منفی ؟

اگر آپ کسی چیز کو غیر اخلاقی مان رہی ہیں تو اس میں کسی مثبت پہلو کی تلاش کیسے ممکن ہے ، کوئی مثال دے کر سمجھا سکیں گی ؟ اور کیسے کسی منفی چیز کو صرف تفریح کی خاطر ہی سہی دیکھنے پر خود کو اس کے برے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے جبکہ آپ تفریح کے لیے انھی چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں جن سے آپ کی دلچسپی ہوتی ہے یا آپ انھیں اچھا سمجھتے ہیں ۔۔
وسلام
وسلام
 

Raheel Anjum

محفلین
حجاب بہن اچھی کوشش ہے لیکن میں آپ کی شروع کی رائے سے متفق نہیں ہوں۔لیکن یہاں اس حولے سے کوئی بحث بھی چھیڑنا نہیں چاہتا۔
 

گرو جی

محفلین
لکہا بہت اچہا ہے مگر بات میڈیا کے منفی تاثر سے شروع نہیں‌ہوئی بلکہ اپنے آپ سے شروع ہو گئی مثلاًَ یہی کہ غیر اخلاقی چیز کو بندہ تفریع کے عنصر سے دیکھے، جیسے لوگ اسے معلوماتی انداز سے دیکھتے ہیں
 

طالوت

محفلین
تفریحی مقصد اور معلوماتی مقصد دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔۔ ممکن ہے معلوماتی کہنا چاہ رہی ہوں
وسلام
 

حجاب

محفلین
اچھی تحریر ہے مگر انگریزی الفاظ کا غیر ضروری استعمال کافی زیادہ ہے ۔۔



اگر آپ کسی چیز کو غیر اخلاقی مان رہی ہیں تو اس میں کسی مثبت پہلو کی تلاش کیسے ممکن ہے ، کوئی مثال دے کر سمجھا سکیں گی ؟ اور کیسے کسی منفی چیز کو صرف تفریح کی خاطر ہی سہی دیکھنے پر خود کو اس کے برے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے جبکہ آپ تفریح کے لیے انھی چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں جن سے آپ کی دلچسپی ہوتی ہے یا آپ انھیں اچھا سمجھتے ہیں ۔۔
وسلام
وسلام

شکریہ طالوت ، میں نے اچھی طرح دیکھا ہے ابھی مجھے تو انگریزی حرف کا استعمال نظر نہیں آیا اپنی تحریر میں زیادہ ، انجوائے منٹ کو اگر یہاں مزہ لکھا جاتا اردو میں تو وہ صحیح نہیں لگتا اس کے علاوہ اور انگریزی کے ورڈز ؟؟؟؟؟؟؟؟

طالوت ، کوئی چیز غیر اخلاقی ہو تو اُس کے دیکھنے سے ضروری تو نہیں کہ ہم بھی اُس غیر اخلاقی حرکت کے مرتکب ہوں؟ ٹی وی یا مووی ٹائم پاس کرنے کے لیئے دیکھا جاتا ہے، تو ٹی وی کچھ منفی چیزیں بھی دکھائے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ اُس کا منفی اثر قبول بھی کیا جائے، میرا تو یہی خیال ہے کہ ہم تفریح کے لیئے کچھ بھی دیکھیں کہیں جائیں کسی بھی چیز میں دلچسپی ہو چاہے وہ غلط ہو مگر اُس کو صرف دلچسپی کی حد تک رہنا چاہیئے دلچسپی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کوئی چیز اچھی لگتی ہو اور وہ غلط ہو تو انسان جانتے بوجھتے اُس رنگ میں رنگ جائے ، میرا جو خیال ہے میں نے اُس نظریے سے لکھا آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔

شکریہ راحیل انجم ، گرو جی اور زین زیڈ ایف ۔
 

ظفری

لائبریرین
گڈ جاب حجاب ۔۔۔ بہت ہی اچھی تحریر ہے ۔ اس دور میں میڈیا سے کسی کو کنارہ کشی پر مجبور کرنا ممکن نہیں رہا ۔ مگر والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں میں کم از کم یہ احساس ضرور اُجاگر کریں کہ میڈیا کی طشتری میں سجا کر جو کچھ ییش کیا جاتا ہے ان میں سے ان کے لیئے کیا اچھا ہے اور کیا مضر ہے ۔
 
میں کسی بات سے اتفاق یا اختلاف کی ضرورت تو نہیں محسوس کرتا کیوں کہ بحث کا حصہ نہیں‌بننا چاہتا۔ لیکن ایک ناقدانہ تبصرہ ضرور کروں گا۔

موضوع کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکا۔ شروع سے اخیر تک صرف ذمہ داریوں پر زور رہا۔ جہاں تہاں اثرات کی بات ہوئی تو نوجوانوں کے بجائے بچوں پر، اور اس کا مقصد بھی صرف یہ واضح کرنا تھا کہ ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ مضمون خاکہ جاتی نظم سے عاری ہے اس لئے اسے مضمون کہنے میں عار ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ پہلؤں پر تجزیہ بہت اچھا ہے۔

جانے کیا سبب ہے کہ اسکول چھوڑنے کے بعد مضمون نگاری کے لئے اسکول میں سکھائے گئے ضابطے میں رہ کر کسی نے کیوں نہیں لکھا۔ خیر ابھی مزید کئی رسالے پڑھنا باقی ہیں ممکن ہے کسی نے خیال رکھا ہو۔
 

عندلیب

محفلین
آپ کے تبصرےپڑھ کر مجھے تو ہنسی چھوٹ گئی سعود بھائی ، اللہ جان میرے مضمون کو کیا کیا براداشت کرنا پڑ جائے ۔
 
عندلیب اپیا آپ کی باری آئے گی تو دیکھوں گا کہ آپ نے کیا گل افشانیاں کی ہیں۔ اور یہ بات ذہن میں رکھئے گا کہ وہاں آپ کو اپیا بھی نہیں کہوں گا کیوں کہ تبصرے کے وقت میرا مخاطب مضًون ہوگا نہ کہ صاحب مضمون۔

اور اس قدر سخت اور خلاف توقع رویے کا اظہار اس لئے کر رہا ہوں کیوں کہ میرے ذہن میں ان مضامین کے مجموعے کو کتابی شکل دے کر لائبریری میں شامل کرنے کا پلان تھا جو کہ مذکورہ خامیوں کے باعث شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ خیر میں مایوس نہیں ہوں۔ امید ہے کہ آئندہ احباب ان باتوں کا خیال ضرور رکھیں گے۔
 

عندلیب

محفلین
عندلیب اپیا آپ کی باری آئے گی تو دیکھوں گا کہ آپ نے کیا گل افشانیاں کی ہیں۔ اور یہ بات ذہن میں رکھئے گا کہ وہاں آپ کو اپیا بھی نہیں کہوں گا کیوں کہ تبصرے کے وقت میرا مخاطب مضًون ہوگا نہ کہ صاحب مضمون۔

اور اس قدر سخت اور خلاف توقع رویے کا اظہار اس لئے کر رہا ہوں کیوں کہ میرے ذہن میں ان مضامین کے مجموعے کو کتابی شکل دے کر لائبریری میں شامل کرنے کا پلان تھا جو کہ مذکورہ خامیوں کے باعث شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ خیر میں مایوس نہیں ہوں۔ امید ہے کہ آئندہ احباب ان باتوں کا خیال ضرور رکھیں گے۔
:):):):):):):):):):):)
 

ابن عادل

محفلین

ایک طرح سے یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ مانا آج کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں اگر والدین کے پاس بچوں کی تربیت کا ٹائم نہیں اور یہ ذمہ داری میڈیا نے لے ہی لی ہے تو کیوں نہ میڈیا ایک اچھے والدین کی طرح آج کی نسل کی اچھی طرح پرورش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے نوجوان نسل کو مزید تباہی کی طرف بڑھنے سے بچا لے، میڈیا ہی اپنے منفی اثرات کو مثبت انداز میں تبدیل کر سکتا ہے ۔
یہ حیرت انگیز ہے کہ آپ جسے مورد الزم ٹہرا رہی ہیں اسی کو ذمہ داری سونپ رہی ہیں ۔ والدین کے پاس بچوں کی تربیت کا وقت نہیں اور ی ذمہ داری میڈیا نے لے لی ہے ۔ اگر یوں ہے تو یہ غلط ہے اور یہ ناممکن ہے کہ میڈیا والدین کی ذمہ داری لے ۔ اس غلطی کو صحیح ہونا چاہیے نہ کہ ذمہ داری کو تبدیل کردیا جائے ۔ بلی کو دودہ پر نگران نہٰں بنایا جاسکتا۔
 

ماوراء

محفلین
آپ کے تبصرےپڑھ کر مجھے تو ہنسی چھوٹ گئی سعود بھائی ، اللہ جان میرے مضمون کو کیا کیا براداشت کرنا پڑ جائے ۔

عندلیب، سعود کے تبصرے میں آج ہی پڑھ رہی ہوں۔۔۔مجھے بھی اتنی ہنسی آ رہی ہے۔ :grin:
بقول اردو محفل کے ایک رکن کے۔۔کہ جن کے مضامین پر سعود بھیا نے اتنی تنقید کی ہے۔۔۔پل بھر کے لیے تو ان کو اچھا بھلا غصہ آیا ہو گا۔۔۔شکر ہے سعود ان کے سامنے نہیں تھے۔۔۔۔۔:laugh: :p
 

ماوراء

محفلین
حجاب، اچھا لکھا ہے۔ جہاں بہت سے ارکان نے ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے، پر بات نہیں کی۔ لیکن تم نے منفی اثرات اور ذمہ داری دونوں کے بارے میں لکھا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
میں نہیں سمجھتا کہ اردومحفل کے ممبران کے لکھے گئے مضامین پر اسقدر تنقید کی ضرورت تھی ۔ یہاں ایک عام قاری کو یہ دعوت دی گئی تھی کہ وہ "میڈیا اور اس کے منفی اثرات کا احاطہ کریں " اس کے لیئے مضمون نگاری کے ضابطے اور قوانین کو سامنے رکھنا ، ہرممبر کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ان میں صرف یہ تحریک ابھارنی تھی کہ وہ کچھ لکھیں ۔ تاکہ اگر ان میں لکھنے کی کوئی صلاحیت موجود ہے تو وہ اسکو بروئے کار لائیں ۔ اپنے مشاہدات و تجربات کو تقویت پہنچائیں اور ان کا بھرپور استعمال کریں ۔ اس کے لیئے میں سمجھتا ہوں کہ ، ان کی حوصلہ افزائی کی‌ ضرورت تھی ۔ بہت سے ایسے بھی ممبران تھے جنہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ قلم اٹھائیں گے ۔ ان کو یہاں لکھنے کی تحریک ملی اور انہوں نے اپنی بساط کے مطابق لکھا بھی ۔ اور کئی ایسے پہلووں کی طرف بھی نشاندہی کی جن کی طرف عام حالات میں دھیان نہیں جاتا ۔بہت سی نئی باتوں کا احاطہ کیا ۔ بہت سے نکات سامنے آئے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ احساس ہوا کہ اردو محفل پر آنے والے دوست و احباب کیسے نظریات اور احساسات رکھتے ہیں ۔ مجھے تو کسی بھی طور یہ مضمون نویسی کا مقابلہ نہیں لگا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیئے ووٹنگ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی موضوع پر لکھنے کے لیئے ایک عام آدمی میں لکھنے کی تحریک ابھاری جائے ، یعنی اس طرح جو شخص ، میڈیا کے منفی پہلوؤں کو سرسری انداز سے لیتا ہے یا پھر اس کو نظر انداز کردیتا ہے ۔ اس میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ ان تمام منفی پہلوؤں کا جائزہ لے ۔ اور سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرے کہ میڈیا ، آج کی نسل میں کیا اثرات پیدا کر رہا ہے ۔ اور میں نے دیکھا سب نے بھرپور انداز میں حصہ لیا ۔ اور کھل کر بات بھی کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مضمون نویسی کے ضابطے یا پیرائے کا احاطہ نہیں کرسکے ۔ مگر ہم یہاں کسی کو مضمون نویسی کے ضابطوں اور قوانین پڑھانے کے بعد یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ وہ ایک ہی جست میں اپنے آپ کو اعلی پائے کا لکھاری ثابت کریں گے۔ بلکہ یہ امید وابستہ تھی کہ اردو محفل کے بہت سے ممبران میں سے شاید کچھ ایسے لکھاری مل جائیں ۔ جن کی حوصلہ افزائی کی جائے تو شاید وہ مستقبل میں اور زیادہ بہتر لکھ سکیں ۔ انہی خطوط کو سامنے رکھ کر میں نے تقریباً پر لکھاری کی تعریف کی تھی ۔ ورنہ کسی کی پہلی کوشش کو مایوسی کے کنویں میں دھکیلنا ، کسی بھی طور سے مثبت نہیں ہے ۔ یہاں ہر قابل شخص کو استاد کی حیثیت سے نہیں بلکہ دوست کی حیثیت سے مشورہ دینے اور مذید اچھا لکھنے کی تحریک ابھارنے کے لیئے آگے آنا چاہیئے ۔
مضمون کی تنقید کے حوالے سے اس سلسلے میں میرا بس یہی تاثر ہے ۔
والسلام
 
سلام مسنون!

ظفری بھائی آپ کا مخاطب میں ہوں اس لئے کچھ باتوں کی وضاحت ضرور کروں گا۔

- سب سے پہلی بات یہ کہ لکھنے کی دعوت عام قاری کو ضرور دی گئی تھی پر یہ ایک مقابلہ بھی تھا اور اس کا فیصلہ صرف محاسن کو دیکھ کر نہیں ہو سکتا بلکہ معائب کو بھی نظروں میں رکھنا چاہئے۔
- باقی تقریباً سبھی لوگوں نے صرف تعریفیں کی ہیں کہیں کوئی نقص نکالنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 20 عدد "شاباش شاباش" میں ایک عدد "کچھ جچا نہیں" لکھاری پر ایسا تاثر چھوڑے گا کہ وہ آئندہ لکھنے سے دست بردار ہو جائے۔
- اگر مضمون نگاری کی بنیادی باتوں کو دو مضامین کے تقابل کے لئے نہ رکھا جائے تو کیا صرف نفس مضمون مددگار ہوگا؟ جبکہ نفس مضمون کسی کی رائے میں صحیح اور کسی کی نظروں میں غیر موزوں ہو سکتا ہے؟ لہٰذا یہ چیز فیصلے کے لئے کس حد تک معیار ہو سکتی ہے؟ اس بات کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ مثلا کئی احباب نے مضًون اس طرح لکھا ہے جیسے ان کا عنوان ہو "پاکستانی نوجوانوں پر میڈیا کے اثرات اور ہماری ذمہ داریاں۔" ممکن ہے پاکستانی احباب جو ان مضامین میں دی گئی مثالوں اور ان اثرات سے پوری طرح واقف ہوں اور انھیں احساس بھی نہ ہو کہ مضمون کہ دائرہ دانستہ یا غیر دانستہ تنگ ہو گیا ہے۔ اور ان کی پوری حمایت اس مضمون کے ساتھ ہو۔ پر مجھے یہ بات شدت سے کھل گئی۔ بھلا بتائیے ایسا مضمون میرے کس کام آ سکتا ہے یا ملیشیا میں بیٹھے کسی شخص کے لئے اس میں کیا ہو سکتا ہے؟
- میں نے سارے ہی مضامین میں بہت سی خامیوں کو اسی وجہ سے نظر انداز کیا ہے کہ بلا وجہ حوصلہ شکنی نہ ہو۔ صرف اتنا لکھا ہے کہ لوگوں کو اصلاح کا پہلو نظر آ جائے۔ اب یہ تبصرہ پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیا اخذ کرتا ہے۔
- اتنے سخت رویے کے اظہار کا ایک سبب میں نے اس دھاگے کے گیارہویں پیغام میں عرض کیا ہے۔
- اگر کوئی لکھاری صرف اپنے مضمون پر لکھے گئے تبصرے کے بجائے مقابلے میں شریک سبھی مضامین پر تبصرہ پڑھ لے تو شاید اس کی شکایت جاگتی رہے۔
- اور آخری بات یہ کہ ان نو مضامین میں جس مضمون کو میں نے سب سے کم اہمیت دی ہے اس کے مقابلے میں بھی کوئی مضمون لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

آپ کی حوصلہ افزائی والی بات سے مجھے پورا اتفاق ہے۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
سعود ۔۔۔ آپ میرے چھوٹے بھائیوں کی مانند ہو ۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ آپ نے جو اصطلاحی اور تیکنکی پہلوؤں کیساتھ مضامین میں جن خامیوں کا ذکر کیا ہے ۔ میں اس سے پورا اتفاق کرتا ہوں ۔ مگر آپ کا لہجہ کہیں کہیں بہت سخت ہوگیا ہے اور آپ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ گو کہ یہ ایک مقابلہ تھا مگر یہاں زیادہ تر نئے لکھنے والے تھے ۔ کوشش یہ ہونی چاہیئے تھی کہ ان کے مضامین میں مضمون کے پیرائے سے دوری اور ضابطوں کے فقدان کے بارے میں نرمی سے احساس دلایا جاتا ۔ ورنہ بات آپ نے بہت صحیح کی ہے مگر ستم یہ ہے کہ ان کو کسی نے ان مضامین کے لیئے تیار نہیں کیا تھا ۔ سو یہ سب تنقید سے بری الذمہ ہیں‌ ۔ دراصل مجھے آپ کے انداز سے وہ مشہور واقعہ یاد آگیا تھا کہ جب " خلیفہ مامون الرشید نے خواب میں دیکھا کہ اس کے تمام دانت جھڑ گئے ہیں ۔ تو وہ بہت پریشان ہوا اور صبح نجومیوں کو بلا کر اس خواب کی تعبیر پوچھی ۔ ایک نجومی نے کہا کہ " حضور خواب میں آپ کے تمام دانتوں کا جھڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کے تمام رشتہ دار آپ کے سامنے مر جائیں گے ۔ " یہ سن کر خلیفہ کا پارہ چڑھ گیا اور ان نے اس نجومی کو سو دُرے لگانے کا حکم دیا ۔
دوسرے نجومی کی باری آئی تو اس نے کہا کہ " حضور آپ کی عمر اپنے خاندان میں سب رشتہ داروں سے زیادہ دراز ہوگی ۔ " یہ سن کر خلیفہ بہت خوش ہوا ۔ اور اس کو انعام و کرام سے نواز دیا ۔ تھوڑی دیر بعد خلیفہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ " دیکھو بات دونوں کی ایک ہی تھی مگر انداز بیاں نے ماحول کو کتنا مخلتف بنا دیا ۔ "
 
ظفری بھائی بہت عمدہ!

مجھے احساس ہے کہ سبھی لکھاری میرے سارے تبصرے نہیں پڑھیں گے اور انھیں صدمہ ضرور پہونچے گا۔ حالات کچھ یوں ہو سکتے ہیں۔

"لکھاریوں پر سعود کے تبصروں کے منفی اثرات اور ہماری ذمہ داریاں"

یوں آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھا اب میری باری ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اس اثر کو کیسے ذائل کر سکتا ہوں۔
 
Top