میڈیا پر بھارتی کلچر پروموٹ کر کے قوم کو تباہ کیا جا رہا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

میڈیا پر بھارتی کلچر پروموٹ کر کے قوم کو تباہ کیا جا رہا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے شہداء فائونڈیشن کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح میڈیا پر عسکری اداروں کے سربراہان کیخلاف پروگرام چلانا جرم ہے اسی طرح عدلیہ کے ججز‘ ان کے خاندانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان پر پروگرام کرنا نا صر ف جر م بلکہ آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے‘ آرمی کی طر ح عدلیہ بھی ایک حساس ادارہ ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جس کے منہ میں جو الفاظ آتے ہیں وہ میڈیا پر بیٹھ کر عدلیہ اور آرمی کے سربراہان کیخلاف بولنا شروع کردیتا ہے۔ انہوں نے قائم مقام چیئرمین پیمرا پرویز راٹھور سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا کے کوئی قوانین ہیں جس کے تحت میڈیا پر ایسے پروگراموں کو روکا جائے‘ آئین میں سب کچھ موجود ہے لیکن کوئی عملدرآمد نہیں کراتا۔ میڈیا پر بھا رتی کلچر کو پروموٹ کرکے قوم کو تباہ کیا جارہا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہداء فائونڈیشن کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز پر مشتمل سنگل بنچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل محمد طارق اسد، قائم مقام چیئرمین پیمرا پرویز راٹھور‘ سیکرٹری اطلاعات و نشریات ڈاکٹر نذیر سعید‘ وفاق کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود‘ سٹینڈنگ کونسل فضل الرحمن نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سیکرٹری اطلاعات و نشریات ڈاکٹر نذیر سعید سے استفسار کیا کہ میڈیا پر کس کس طرح کے پروگرام نشر ہورہے ہیں۔ حکومت اور پیمرا کی طرف سے ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی پیمرا کے قوانین پر عملدرآمد کرایا جارہا ہے۔ جس پر سیکرٹری اطلاعات و نشریات سعید نذیر نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا کے رولز کی خلاف ورزی پر بعض چینلز کیخلاف کارروائی کی ہے اور ان کے لائسنس بھی معطل کئے جاچکے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات اور پیمرا کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا پر آرمی اور عدلیہ کیخلاف نشر ہونے والے پروگراموں پر ایکشن لے کر کارروائی کرے۔ جس طرح ایک آرمی کے ادارے کے سربراہ کو مجرم بناکر اس کی فوٹیج چلائی جاتی ہے اسی طرح عدلیہ کے جج صاحبان اور ان کے خاندانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور نہ صرف تنقید کی جاتی ہے بلکہ کھلے عام گالیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جس اینکر پرسن کے منہ میں جو الفاظ آتے ہیں وہ بولنا شروع کردیتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پاکستانی فلموں کیلئے سنسر بورڈ قائم ہیں جبکہ بھارتی فلموں کیخلاف کوئی سنسر بورڈ نہیں بنا۔ میڈیا پر بھارتی کلچر کو پروموٹ کرکے قوم کو کس طرح کا تاثر دیا جارہا ہے اور عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جس طرح ایک چینل نے انبیاء کرام علیہم السلام کیخلاف توہین آمیز مواد نشر کیا تو اس سے بڑھ کر دوسرے چینلوں نے بھی وہ فوٹیج بار بار دکھائی۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ مال بیچنے کیلئے موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے پتہ نہیں کیا کیا ایڈ دکھائے جاتے ہیں اور قوم کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پیمرا چیئرمین کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا کو اس طرح کے پروگراموں کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ عدالت نے جیو اور اے آر وائی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔ واضح رہے شہداء فائونڈیشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ ایک نجی چینل کے اینکر پرسن نے عدلیہ اور آرمی سربراہ کیخلاف باقاعدہ کمپین شروع کررکھی ہے۔
 
ایک سازش کے تحت قوم پر ہندو کلچر رائج کیا جارہاہے

پاکستانی قوم کو احساس نہیں کہ وہ کچھ کرلیں جب تک کہ یہ اعلان نہ کردیں کہ ہم مسلمان نہیں وہ اور ہندو ایک نہیں ہوسکتے ۔ بوسنیاکی مثال سامنے ہے
 
جب نواز شریف پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت پی ٹی وی پر دوپٹہ پالیسی شروع کی گئی تھی۔ جس کے تحت پی ٹی وی پر چلنے والے تمام ڈراموں میں خواتین کا دوپٹہ لینے اور خبریں پڑھنے والی تمام خواتین کو دوپٹہ لینے کا پابند کیا گیا تھا۔
مگر اب حکومتی پالیسی عجیب ہے۔ چند دن پہلے وزیر اطلاعات عوام کو مشورہ د ے رہے تھے کہ اگر آپ کو کسی چینل کا پروگرام (بے حیائی کے پس منظر میں) پسند نہیں ہے تو چینل بدل لیں۔
حکومت اب کس کو خوش کرنا چاہ رہی ہے؟
موجود حکومت امریکی یا مغربی ملکوں کے ووٹوں سے نہیں عوام کے ووٹوں سے آئی ہے ۔ اپنے عوام اور ووٹروں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنائے۔
 
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے

سپریم کورٹ کا قاضی حسین احمد مرحوم کی فحاشی کیخلاف درخواست نمٹانے سے انکار
09 جولائی 2013
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی جانب سے میڈیا پر فحاشی پھیلانے والے ڈراموں اور دیگر پروگراموں کے خلاف دائر درخواست نمٹانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد لگانے کا حکم دیا ہے۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو ممالک خود کو بہت ہی ترقی یافتہ سمجھتے ہیں وہ بھی فحاشی کیخلاف بند باندھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت بھی اس حوالے سے اقدامات کر رہی ہے‘ یہ معاملہ پہلی بار نہیں آیا مگر درخواست گزار محمد حنیف کہتے ہیں کہ ٹی وی کے تمام پروگرام ان کی مرضی کے مطابق چلائے جائیں ورنہ تمام ٹی وی چینلوں کو آگ لگادی جائے۔ ان کے نزدیک مرتد ہونا بہت آسان ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ ایمان اتنی کمزور شے نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص اتنی آسانی سے مرتد ہوجائے جبکہ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ جماعت اسلامی کی طرف سے اب یہ کہا جارہا ہے کہ ٹی وی پر جو کچھ آتا ہے انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے یہ بہت افسوسناک بات ہے‘ قاضی حسین احمد اپنی ذات کیلئے سپریم کورٹ نہیں آئے تھے۔ انہوں نے یہ ریمارکس گذشتہ روز دئیے۔ دوران سماعت ایک اور درخواست گزار محمد حنیف اعوان نے عدالت کو بتایا کہ جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی وفات کے بعد فحاشی کے حوالے سے مقدمے کو مزید نہیں چلانا چاہتی اس پر عدالت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس کو نہیں نمٹاسکتے۔ درخواست گزار نے مزید بتایا کہ ٹی وی پر ایک ڈرامہ صراط مستقیم کے نام سے دکھایا جارہا ہے مگر اس میں فحاشی اور بے حیائی کی حد کردی گئی ہے اور دیکھنے اور دکھانے والے سب مرتد ہوچکے ہیں۔ یہ وہ نہیں کہتے شریعت کہہ رہی ہے۔ اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ کوئی اتنی جلدی مرتد نہیں ہوگا۔ کیس کی سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کی جائے گی۔
 
قاضی حسین احمد کے بیٹے‘ بیٹی کو (میڈیا پر فحاشی کیخلاف) مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت
25 ستمبر 2013

اسلام آباد (ثناء نیوز) سپریم کورٹ نے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے بیٹے اور بیٹی کو میڈیا پر فحاشی کے خلاف مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اپنی تحریری درخواست ایک ہفتہ میں عدالت میں جمع کرائیں جبکہ مقدمہ کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی گئی ہے۔ منگل کو جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اقبال حمید الرحمن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے ڈویژن بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ اس دوران سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین کے بیٹے آصف لقمان قاضی اور سمیعہ راحیل قاضی بھی عدالت میں موجود تھے ان کی جانب سے اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ قاضی حسین احمد کے بیٹے آصف لقمان قاضی اور ان کی بیٹی سمیعہ راحیل قاضی کی جانب سے مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مرحوم والد قاضی حسین احمد کی جانب سے دائر اس مقدمہ کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اس لئے عدالت درخواست دائر کرنے کی اجازت دے۔ ان کی اس استدعا کو عدالت نے قبول کر لیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے وکیل توفیق آصف نے فاضل بنچ کو بتایا کہ اس معاملہ میں لفظ فحاشی و عریانی کی تشریح ہونا ہے جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ عدالت بعض اشیاء کو ری ڈیفائن نہیں کر سکتی۔ عدالت نے اپنے تحریری حکم میں کہا ہے کہ آصف لقمان قاضی اور سمیعہ راحیل قاضی اپنے والد کے چھوڑے ہوئے معاملے کو آگے لے کر چلنا چاہتے ہیں اس لئے انہیں موقع دینے کی اجازت دی جاتی ہے۔
 

x boy

محفلین
عوام کی چاہت و محبت یہ چینلز دکھاتے ہیں اگر عوام دیکھنے کو راضی نہ ہوتو کبھی بھی یہ نہ دکھائیں،، دکاندار کا فائدہ اسی میں ہے جس کی مانگ زیادہ ہو،،
 
عوام کی چاہت و محبت یہ چینلز دکھاتے ہیں اگر عوام دیکھنے کو راضی نہ ہوتو کبھی بھی یہ نہ دکھائیں،، دکاندار کا فائدہ اسی میں ہے جس کی مانگ زیادہ ہو،،
اگر سب کچھ عوام کی خوشی سے ہی کرنا ہے تو دنیامیں نزول مذہب کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟
 

شیزان

لائبریرین
اب تو میڈیا کے تمام چینلز پر بھارتی سے زیادہ ترکی کے ڈراموں کی بھرمار ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
میڈیا پر بھارتی کلچر پروموٹ کر کے قوم کو تباہ کیا جا رہا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد (آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے شہداء فائونڈیشن کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح میڈیا پر عسکری اداروں کے سربراہان کیخلاف پروگرام چلانا جرم ہے اسی طرح عدلیہ کے ججز‘ ان کے خاندانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان پر پروگرام کرنا نا صر ف جر م بلکہ آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے‘ آرمی کی طر ح عدلیہ بھی ایک حساس ادارہ ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جس کے منہ میں جو الفاظ آتے ہیں وہ میڈیا پر بیٹھ کر عدلیہ اور آرمی کے سربراہان کیخلاف بولنا شروع کردیتا ہے۔ انہوں نے قائم مقام چیئرمین پیمرا پرویز راٹھور سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا کے کوئی قوانین ہیں جس کے تحت میڈیا پر ایسے پروگراموں کو روکا جائے‘ آئین میں سب کچھ موجود ہے لیکن کوئی عملدرآمد نہیں کراتا۔ میڈیا پر بھا رتی کلچر کو پروموٹ کرکے قوم کو تباہ کیا جارہا ہے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں شہداء فائونڈیشن کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز پر مشتمل سنگل بنچ نے سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل محمد طارق اسد، قائم مقام چیئرمین پیمرا پرویز راٹھور‘ سیکرٹری اطلاعات و نشریات ڈاکٹر نذیر سعید‘ وفاق کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود‘ سٹینڈنگ کونسل فضل الرحمن نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سیکرٹری اطلاعات و نشریات ڈاکٹر نذیر سعید سے استفسار کیا کہ میڈیا پر کس کس طرح کے پروگرام نشر ہورہے ہیں۔ حکومت اور پیمرا کی طرف سے ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی پیمرا کے قوانین پر عملدرآمد کرایا جارہا ہے۔ جس پر سیکرٹری اطلاعات و نشریات سعید نذیر نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا کے رولز کی خلاف ورزی پر بعض چینلز کیخلاف کارروائی کی ہے اور ان کے لائسنس بھی معطل کئے جاچکے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات اور پیمرا کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا پر آرمی اور عدلیہ کیخلاف نشر ہونے والے پروگراموں پر ایکشن لے کر کارروائی کرے۔ جس طرح ایک آرمی کے ادارے کے سربراہ کو مجرم بناکر اس کی فوٹیج چلائی جاتی ہے اسی طرح عدلیہ کے جج صاحبان اور ان کے خاندانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور نہ صرف تنقید کی جاتی ہے بلکہ کھلے عام گالیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جس اینکر پرسن کے منہ میں جو الفاظ آتے ہیں وہ بولنا شروع کردیتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پاکستانی فلموں کیلئے سنسر بورڈ قائم ہیں جبکہ بھارتی فلموں کیخلاف کوئی سنسر بورڈ نہیں بنا۔ میڈیا پر بھارتی کلچر کو پروموٹ کرکے قوم کو کس طرح کا تاثر دیا جارہا ہے اور عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جس طرح ایک چینل نے انبیاء کرام علیہم السلام کیخلاف توہین آمیز مواد نشر کیا تو اس سے بڑھ کر دوسرے چینلوں نے بھی وہ فوٹیج بار بار دکھائی۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ مال بیچنے کیلئے موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے پتہ نہیں کیا کیا ایڈ دکھائے جاتے ہیں اور قوم کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پیمرا چیئرمین کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ پیمرا کو اس طرح کے پروگراموں کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ عدالت نے جیو اور اے آر وائی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔ واضح رہے شہداء فائونڈیشن نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ ایک نجی چینل کے اینکر پرسن نے عدلیہ اور آرمی سربراہ کیخلاف باقاعدہ کمپین شروع کررکھی ہے۔
اگر یہ توہینِ عدالت نہیں تو کہنے دیجئے کہ عدلیہ دم پر پیر آیا ہوا ہے۔ جب آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے خلاف پروگرام ہوئے تو شاید یہ جسٹس صاحب ستو پی کر سو رہے تھے، اب اپنے خلاف پروگرام پر اچانک جاگ گئے ہیں
 
اگر یہ توہینِ عدالت نہیں تو کہنے دیجئے کہ عدلیہ دم پر پیر آیا ہوا ہے۔ جب آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کے خلاف پروگرام ہوئے تو شاید یہ جسٹس صاحب ستو پی کر سو رہے تھے، اب اپنے خلاف پروگرام پر اچانک جاگ گئے ہیں
چلیں کسی بہانے جاگے تو سہی۔ آرمی چیف کے خلاف کونسا پروگرام چلا مجھے یاد نہیں آرہا آپ یاد دلا دیجئے۔ آئی ایس آئی چیف کے خلاف جیو نے کافی دیر تک خبر چلائی تھی۔ ویسے جنرل صاحب نے عدالتی اور پیمرا کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر ہی جیو اپنے ذرائع سے بند کرا دیا تھا۔ وہ شائد عدلیہ کے اتنے محتاج بھی نہیں ہیں عملی طور پر۔
سرخ زدہ الفاظ واقعی توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں :)
 

x boy

محفلین
اگر سب کچھ عوام کی خوشی سے ہی کرنا ہے تو دنیامیں نزول مذہب کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟
پھر آپ لوگ گلی گلی چلنے والی کیبل کو ختم کروادیں۔:)

آپ کی بات ایک ہمہ جہت تصور کا، صرف ایک رخ یا پہلو ہے

گھر گھر گلی گلی اسی کا دھوم ہے
اسی لئے تو وہاں کے حکمران کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان طاقت سے ختم نہیں کرنا ہے ہماری میڈیا کافی ہے:)
 

قیصرانی

لائبریرین
چلیں کسی بہانے جاگے تو سہی۔ آرمی چیف کے خلاف کونسا پروگرام چلا مجھے یاد نہیں آرہا آپ یاد دلا دیجئے۔ آئی ایس آئی چیف کے خلاف جیو نے کافی دیر تک خبر چلائی تھی۔ ویسے جنرل صاحب نے عدالتی اور پیمرا کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر ہی جیو اپنے ذرائع سے بند کرا دیا تھا۔ وہ شائد عدلیہ کے اتنے محتاج بھی نہیں ہیں عملی طور پر۔
سرخ زدہ الفاظ واقعی توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں :)
میں کلر بلائینڈ ہوں، اس لئے مجھے سرخ رنگ دکھائی نہیں دے رہا۔ چونکہ آپ نے وضاحت کر دی تو میں پھر یہ بات نہیں کرتا کہ توہین عدالت سے صرف سیاستدان ہی بچ سکتے ہیں :)
 

منیر

محفلین
پھر آپ لوگ گلی گلی چلنے والی کیبل کو ختم کروادیں۔:)



گھر گھر گلی گلی اسی کا دھوم ہے
اسی لئے تو وہاں کے حکمران کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان طاقت سے ختم نہیں کرنا ہے ہماری میڈیا کافی ہے:)


مگر اب پاکستانی ڈرامے بھی انڈیا پہنچ چکے ہیں
 

نایاب

لائبریرین
کرپٹ ترین عدلیہ ہے پاکستان کی ۔
سانپ پھنکاریں مارتا سامنے سے نکل جاتا ہے ۔ اور یہ جج صاحبان مدتوں لکیر پیٹتے رہتے ہیں ۔
سن اکہتر سے لیکر آج تک مجھے کسی بھی مقدمے میں صاف شفاف اور بر وقت انصاف ہوتا نہیں دکھا ۔
اگر کسی کے پاس کوئی مثال ہو تو افادہ عام کے لیئے شریک دھاگہ کر دے ۔
روز سوموٹو ایکشن کی خبر پڑھنے کو ملتی رہی مگر انصاف اک بھی کیس میں نہ دکھا ۔۔
سب دھندا ہے بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ابتداء ہے۔۔۔آگے پورا پیکج انتظار میں ہے
پھر انڈیا پاکستان مشترکہ پروڈکشن کیا رنگ لائے گی ۔۔۔ اللہ جانے
افسوس کا مقام یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی کوئی خواہش بے حیائی روکنے کی نظر نہیں آرہی۔ شاید یہ ابھی صرف اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔ جب تک موجودہ حکومت معیشت کو مضبوط اور عوام کو سکون کا سانس نہیں دلائے گی تب تک ان کے قدم مضبوط نہیں ہونگے اور تب تک یہ اپنی مرضی کی نئی پالیسیاں لاگو نہیں کر سکیں گے۔
 
Top