میڈیا پر بھارتی کلچر پروموٹ کر کے قوم کو تباہ کیا جا رہا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

تاریخی حقیقت ہے کہ بہتر تر کلچر ، بد تر کلچر کو کھا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کونسا کلچر باقی بچتا ہے اور کون سا تباہ ہوتا ہے۔

سکھوں کی شلوار قمیص پہن کر کوئی مسلمان سے سکھ نہیں بن جاتا ۔۔ سوٹ پہن کر عیسائی نہیں ہوجاتا ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اوپر سے کیا ہے ۔۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ کوئی اندر سے کیا ہے؟
 

طالوت

محفلین
دنیا بھر میں اپنی ثقافت میں اچھی چیزوں کا نہ صرف شہرہ کیا جاتا ہے بلکہ اس قائم رکھنے کے لئے مختلف اقدامات بھی کئے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں ہمیشہ کی طرح الٹ ۔ کہ ایک اور ثقافت کبھی نام نہاد تہذیب کے نام پر کبھی مذہب کے نام اور کبھی روشن خیالی کے نام پر مسلط کی جاتی ہے ۔ آجکل سب ملا جلا کر کی جا رہی ہے۔
 
" تہذیب کے ضمن میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ کچھ لوگ تہذیب اور تہذیب کے مظاہر میں فرق نہیں سمجھتے اور تہذیبوں کے مظاہر مثلا رسم رواج ،لباس اور رہن سہن کے معاملات کے فرق کو تہذیبی اختلاف قرار دیتے ہیں ۔یہ لوگ تہذیبی اختلاف کو شلوار یا پینٹ اور میز یا دستر خوان کے اختلاف سے پہچانتے ہیں مگر یہ ایک سطحی موازنہ ہے۔ یہ سب تہذیب کے مظاہر اور تفصیلات ہیں۔
تہذیبی مظاہر دو طرح کے ہوتے ہیں کہ کچھ تو تہذیب کے اساسی نظریات سے متعلق ہیں اور کچھ تمدن سے متعلق عام طور پر تمدن کے مظاہر کو تہذیب سمجھا جاتا ہے میری نظر میں عقیدہ کا اظہارکرتے مظاہر ہی تہذیب کا نمائندہ ہیں
تہذیب کی بنیاد اس کے چند اساسی نظریات ہوا کرتے ہیں
۔ تہذیب اپنے تصور کائنات (World View)اور تصور خالق اور تصور انسان سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تصورات اور ان پر مشتمل تہذیب ،ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ عقیدہ جب فکرو عمل میں ڈھلتا ہے تو چند مظاہر سامنے آتے ہیں۔ یہی مظاہر ”تہذیب” کہلا تے ہیں۔ عقائد کی درستی یا خرابی کا اندازہ تہذیبی مظاہر سے ہوتا ہے۔ اس لئے تہذیب ایک اعتبار سے عقائد کا اظہارہے اور عقائد تہذیب کا باطن ہیں ۔ عقائد اور تہذیب میں بیج اور درخت کا تعلق ہے ۔ تہذیب اپنے بنیادی عقائد اور ان کے مظاہر پر مشتمل ہوتی ہے۔

خالق کائنات، کائنات ، انسان اور علم کے بارے میں مختلف نظریات و عقائد تہذیبی اختلاف کا باعث بنتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سیکولر مغربی تہذیب، اسلامی تہذیب، ہندو تہذیب، عیسائی تہذیب، چینی تہذیب اور بدھ تہذیب سمیت کئی بڑی بڑی تہذیبیں موجود ہیں۔ اسلامی تہذیب کے علاوہ دیگر تمام تہذیبیںاپنی مخصوص ترکیب کی بنا ءپر سیکولر مغربی تہذیب سے مفاہمت اور تعاون کی راہ اپناچکی ہیں۔ عیسائیت چند صدی پیشتر ابتدائی تصادم کے بعد ہار مان چکی ہے۔ ہندو تہذیب بوجوہ ایک مکمل نظام زندگی دینے کی صلاحیت سے معذور ہے ،اس پر مستزاد یہ کہ ہندو اپنی تہذیبی اقدار پر اصرار کے بجائے مغربی اقدار کو اپنا نے میں سبقت لے جانے میں مصروف ہیں ۔ بدھ تہذیب کونظام زندگی سے کوئی سروکار نہیں ۔ البتہ چینی تہذیب میں موجود تاﺅ ازم اور کنفیوشس ازم کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں کے بنیاد پر آئندہ چین اور مغرب میں ٹکراﺅ ہوگا ۔ مگر یہ ممکنہ ٹکراﺅ محض مادی مفادات کی جنگ ہوگا جس کا تہذیبی اختلاف سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ خود تاﺅ ازم اور کنفیوشس ازم چند اخلاقی تعلیمات کا مجموعہ ہیں۔ اس وقت ہم جس تہذیبی تصادم کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ صرف مغربی سیکولر تہذیب اور اسلامی تہذیب کے درمیان ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟ سیکولر جدید مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں مفاہمت کیوں ممکن نہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
مغربی تہذیب کے ساتھ جن قوموں کا تصادم ہوا ان میں سے تو بعض وہ تھیں جن کا کوئی مستقل تہذیب نہ تھی اور اگر تھی تو اس قدر مضبوط نہ تھی کہ کسی دوسری تہذیب کے مقابلے میں ٹھہر سکتی۔ بعض تہذیبیں مغربی تہذیب سے ہم آہنگ تھیں۔ اس صورت حال میں زیادہ تر قومیں بہت آسانی سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ گئیں۔ لیکن اس ضمن میں اسلامی تہذیب کا معاملہ بالکل مختلف رہا۔ دنیا کی ہر تہذیب چار بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ مغربی تہذیب کے یہ چار بنیادی اصول مکمل طور پر اسلامی تہذیب کے مخالف واقع ہوئے ہیں ۔اس اختلاف کی وجہ سے دنیا میں اصل تہذیبی تصادم اسلامی تہذیب اور مغرب کی جدید سیکولر تہذیب کے درمیان برپا ہوا۔

1 الٰہیات (Ontology) کا اصول
دنیا کی ہر تہذیب کائنات کی تخلیق کے متعلق اپنا ایک نظریہ رکھتی ہے۔ یہ نظریہ تہذیب کی دیگر تمام تفصیلات کے طے کر دیتا ہے۔ اسی لئے دنیا کی ہر تہذیب اپنا ایک بنیادی تصوریعنی”تصور الٰہ”رکھتی ہے ۔ عیسائیت میں تین خداﺅں کا ذکر ہے تو اسلام میں واحد الٰہ کا۔ جو لوگ کسی خدا کو نہیں مانتے وہ بھی ما د ّے (Matter) انسان(Human)، فطرت(Nature)یا سرمائے (Capital) کی خدائی کے قائل ضرور ہیں۔ مختصر یہ کہ دنیا کی کوئی تہذیب تصور خدا سے خالی نہیں ۔ یہ تہذیب کا پہلا اصول ہے۔
کسی بھی تہذیب کے لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ کائنات کیا ہے ، انسان کی یہاں کیا حیثیت ہے جس کے لحاظ سے اس کے کردار کا تعین کیا جائے ۔انسان اس کائنات میں خدا ہے یا خدا کا بندہ ہے ،اس اصول کو خالصتاََ علمی زبان میں الٰہیات (Ontology) کا اصول کہا جاتا ہے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں بھی بنیادی فرق اسی”تصور الٰہ”ہی کا ہے۔ اسلامی تہذیب میں ایک واحد الٰہ در اصل اللہ ہی کی ذات ہے جو کہ کائنات کی تخلیق کرنے والا اور اسے چلانے والا ہے۔ مغربی تہذیب کے تصور کے مطابق یہ کائنات خود بخود بغیر کسی خالق کے وجود میں آئی ہے اور کائنات نے بتدریج اور خودکار عمل کے ذریعے اپنی پیدائش اور موجودہ شکل اختیار کی ہے۔مغربی تہذیب کے مطابق انسان خود ہی پوری کائنات کا مقصود اور محور ہے جو کسی بالاتر ہستی کا پابند نہیں ہے۔

2 ذریعہ علم یاEpstimology
تہذیبوں کی شناخت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ دنیا کی ہر تہذیب یقینی اور حتمی علم کا کوئی نہ کوئی شعور ضرور رکھتی ہے۔ یہ شعور بتاتا ہے کہ یقینی علم علم کہاں سے حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا ماننا ہے کہ یقینی اور حتمی علم صرف وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، بقیہ ذرائع سے حاصل ہونے والا علم”وحی”کی میزان پر پرکھا جائے گا۔ جدید مغربی تہذیب کا نظریہ علم یہ ہے کہ علم حتمی اور یقینی ذریعہ صرف”سائنس “ہے اور سائنس ہی ہر علم کی قدر و قیمت کا تعین کرے گا۔ علمی زبان میں اس اصول کو ذریعہ علم یاEpstimologyکہا جاتا ہے۔

3 Efficient Causeکا اصول
تہذیب کے ضمن میں تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ زندگی اور کائنات کیسے وجود میں آئی؟ یہEfficient Causeکا اصول کہلاتا ہے۔ یہاں اسلامی تہذیب بتاتی ہے کہ کائنات اور اس میں موجود زندگی کے وجود میں آنے کی واحد وجہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے۔ خالق کائنات نے “کُن” کہا اور کائنات اور اس میں موجود زندگی جلوہ گر ہو گئے۔ آدم علیہ اسلام پہلے دن بھی آدم ہی تھے اور آج بھی انسان اپنی ابتدائی شکل کے مطابق آدم ہی ہے۔ اس کے مقابلے میں جدید تہذیب کا اعلان ہے کہ انسان ڈارون کی تھیوری کے مطابق ایک کیڑے سے ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا آدمی بن گیا ہے۔

4 حتمی سبب یاFinal Causeکا اصول
دنیا کی ہر تہذیب نے انسانی تگ و دو کے نصب العین کاتعین ضرور کیاہے۔ انسان کے سامنے یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ اس کی ساری تگ و دو کا حاصل کیا ہے۔ وہ کو ن سا مقصد ہے جس کے لئے انسان اپنی تمام صلاحیتیں اور وقت صرف کردے۔ اسے حتمی سبب یاFinal Causeکا اصول کہا جاتا ہے۔اسلامی تہذیب اللہ کی رضااور آخرت میں نجات کو انسانی کاوشوں کا محور قرار دیتی ہے۔جدید تہذیب کے مطابق انسانی کاوشوں کا واحد مقصود مادی ترقی Progress ہے۔

جس طرح انسان اپنی خوبیوں پر اصرار کرتے ہیں اسی طرح ہر تہذیب نہ صرف خیر و شر کا اپنا نظام رکھتی ہے بلکہ اس پر اصرار بھی کرتی ہے۔ مختلف تہذیبوں کا اپنی اقدار پر یہ اصرار کسی نہ کسی مرحلے میں تہذیبی تصادم کو جنم دیتا ہے۔فرانس میں مسلم خواتین کو زبردستی پردہ کرنے سے روکا جارہاہے،اسکولوں میں طالبات کو اسکارف پہننے سے منع کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف مسلم خواتین پردہ کرنے کے حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ چھوٹا سا معا ملہ اس تہذیبی تصادم کاصرف ایک پہلو ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اسلامی اور مغربی دونوں تہذیبیں اپنے تصورکائنات اوراقدارترک کرنے پر تیار نہیں ۔ اپنی اپنی اقدار پر یہ اصرار تہذیبوں کے تصادم کو جنم دے رہا ہے۔"
 
"
تہذیبی مظاہر دو طرح کے ہوتے ہیں کہ کچھ تو تہذیب کے اساسی نظریات سے متعلق ہیں اور کچھ تمدن سے متعلق عام طور پر تمدن کے مظاہر کو تہذیب سمجھا جاتا ہے میری نظر میں عقیدہ کا اظہارکرتے مظاہر ہی تہذیب کا نمائندہ ہیں
تہذیب کی بنیاد اس کے چند اساسی نظریات ہوا کرتے ہیں
۔ تہذیب اپنے تصور کائنات (World View)اور تصور خالق اور تصور انسان سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تصورات اور ان پر مشتمل تہذیب ،ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ عقیدہ جب فکرو عمل میں ڈھلتا ہے تو چند مظاہر سامنے آتے ہیں۔ یہی مظاہر ”تہذیب” کہلا تے ہیں۔ عقائد کی درستی یا خرابی کا اندازہ تہذیبی مظاہر سے ہوتا ہے۔ اس لئے تہذیب ایک اعتبار سے عقائد کا اظہارہے اور عقائد تہذیب کا باطن ہیں ۔ عقائد اور تہذیب میں بیج اور درخت کا تعلق ہے ۔ تہذیب اپنے بنیادی عقائد اور ان کے مظاہر پر مشتمل ہوتی ہے۔
۔"

جزا ک اللہ۔
 

ساجد

محفلین
ہم کس بحث میں پڑے ہیں بھلا اور کسی دھرم کو ثقافت کے ساتھ کیوں خلط ملط کر رہے ہیں ؟
بات سیدھی سی ہے کہ جب آپ ایک مشترکہ ثقافت میں مختلف اقوام کے ساتھ دس بیس نہیں 1300 برس رہتے رہے تو آپ کے مزہب کو خطرہ لاحق ہوا نہ وجود کو اور نہ ہی ثقافت کو بلکہ ہوا یہ کہ آپ کی ظقافت کا رنگ یہاں کی ہر قوم نے اپنا لیا ۔ سلے ہوئے کپڑے پہننے سے لے کر سر پر دوپٹہ رکھنا اس ثقافت کو آپ نے دیا اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے آپ ہی کی طرح واویلا کر کے اس ثقافت کو ماننے سے انکار کیا نہ اسے مذہب سے جوڑ کر دیکھا ۔
اب جبکہ آپ آزاد ، خود مختار اور اسلامی مملکت کے باسی ہیں تو آپ کو یہ ثقافتی خطرے اس طرح سے محسوس کیوں ہو رہے ہیں ؟ ۔ کہیں ایساتو نہیں کہ اب ہمارے پاس ہی ایسا کچھ نہیں رہا جس کو دنیا قبول کرے اور ہم اپنے اس احساس کمتری کو چھپانے کے لئے کبھی مذہب کی پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی ثقافت و مذہب کا ملغوبہ بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔
بخدا ، ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہوئے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ ایسا ہے کہ نہیں ؟ ۔
 
ہم کس بحث میں پڑے ہیں بھلا اور کسی دھرم کو ثقافت کے ساتھ کیوں خلط ملط کر رہے ہیں ؟
بات سیدھی سی ہے کہ جب آپ ایک مشترکہ ثقافت میں مختلف اقوام کے ساتھ دس بیس نہیں 1300 برس رہتے رہے تو آپ کے مزہب کو خطرہ لاحق ہوا نہ وجود کو اور نہ ہی ثقافت کو بلکہ ہوا یہ کہ آپ کی ظقافت کا رنگ یہاں کی ہر قوم نے اپنا لیا ۔ سلے ہوئے کپڑے پہننے سے لے کر سر پر دوپٹہ رکھنا اس ثقافت کو آپ نے دیا اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے آپ ہی کی طرح واویلا کر کے اس ثقافت کو ماننے سے انکار کیا نہ اسے مذہب سے جوڑ کر دیکھا ۔
اب جبکہ آپ آزاد ، خود مختار اور اسلامی مملکت کے باسی ہیں تو آپ کو یہ ثقافتی خطرے اس طرح سے محسوس کیوں ہو رہے ہیں ؟ ۔ کہیں ایساتو نہیں کہ اب ہمارے پاس ہی ایسا کچھ نہیں رہا جس کو دنیا قبول کرے اور ہم اپنے اس احساس کمتری کو چھپانے کے لئے کبھی مذہب کی پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی ثقافت و مذہب کا ملغوبہ بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔
بخدا ، ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہوئے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ ایسا ہے کہ نہیں ؟ ۔
جب قومیں اپنی بنیادی اساس سے دور ہٹنے لگتی ہیں تو ایسے ہی خوف اور احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔ جب تک مسلمان طاقتور اور غالب تھے تو دوسری اقوام ہمارے کلچر کو اپنانا فخر محسوس کرتی تھیں۔ آج ہم کمزور ہیں اور ہماری نئی نسلیں طاقتور قوموں کے کلچر کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو ہمیں فکر اور پریشانی لاحق ہے۔
اگر ہم اپنی بنیادی اساس یعنی اسلامی تعلیمات سے غافل نا ہوں تو ان خطرات سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی انشآاللہ
 

فلک شیر

محفلین
بے خدا تہذیب کے ہر قدم پہ یہاں کے "اہل دانش"کا قدم پڑتا ہے ...........ترجیحات کے تعین میں التباس نے اُنہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ........امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آواز کہیں سے اٹھے، اس میں انہیں منافقت ، خود ترحمی اور جانے کیا کیا نظر آ جاتا ہے .........
مشرق ایک سمت ہے اور اسلام سمت سے آزاد ایک نظریہ .......اعلیٰ ترین انسانی اقدار، جن پہ رحمانی مہر ثبت ہو چکی ........پچھلے پندرہ سو برس سے ........نہ ہمیں بے لباس دیوی دیوتاؤں کے پجاریوں کا کلچر درکار ہے .........اور نہ Taboosتوڑنے کے شوقین اہل مغرب کی ثقافت.....اگر کوئی اسے ثقافت مان بھی لے تو .........محمدﷺ لوگوں کے درمیان فارق ہیں ........اپنی بعثت سے تا قیامت .........اُ ن کا طرز زندگی ، خوشی غمی کے طریقے، رشتوں ناطوں کے اسلوب ........تہوار ......طے شدہ patterns........اہلِ اسلام کے لیے حتمی و آخری نمونہ ہیں .........رہی بات ہماری سستیوں کی ، تو اس سے کسے انکار ہے .............لیکن خدارااپنی کمزوریوں اور نالائقیوں کے جواز "دانشوریوں"کے ذریعے نہ ڈھونڈے جائیں ............
بہت سے ایسے ہیں ، جو مغرب میں رہتے ہوئے بھی محمدی کلچر سے ذرا بھر بھی نہیں ہٹتے ............اور بہت سے ہم جیسے ، جو مسلم معاشروں میں رہتے سہتے بھی ..........
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کی سمجھ عطا فرمائے اور اُس پہ چلنے کا حوصلہ بھی..............اور باطل کے بطلان سمیت اُس سے احتراز کی توفیق بھی
 

ساجد

محفلین
آپ ثقافت اور مذہب کے باہمی تعلق اور ان کے درمیان مشترک عوامل پر کچھ کہیں گے ؟
جب قومیں اپنی بنیادی اساس سے دور ہٹنے لگتی ہیں تو ایسے ہی خوف اور احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔ جب تک مسلمان طاقتور اور غالب تھے تو دوسری اقوام ہمارے کلچر کو اپنانا فخر محسوس کرتی تھیں۔ آج ہم کمزور ہیں اور ہماری نئی نسلیں طاقتور قوموں کے کلچر کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو ہمیں فکر اور پریشانی لاحق ہے۔
اگر ہم اپنی بنیادی اساس یعنی اسلامی تعلیمات سے غافل نا ہوں تو ان خطرات سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی انشآاللہ
 
آپ ثقافت اور مذہب کے باہمی تعلق اور ان کے درمیان مشترک عوامل پر کچھ کہیں گے ؟
مذہب کے ثقافت پر اثرات کا ذکر آپ نے بھی پہلے یوں کیا
۔ سلے ہوئے کپڑے پہننے سے لے کر سر پر دوپٹہ رکھنا اس ثقافت کو آپ نے دیا ۔
جسم کو مناسب انداز سے ڈھک کر رکھنے کی لازمی ضرورت مذہب نے ہی ہمیں دی اسے ایک مثال کہا جاسکتاہے مذہب اور ثقافت کے درمیان ایک تعلق کی۔
مسلمان جہاں جہاں بھی پائے جاتے ہیں بہت سی ثقافتی چیزیں مذہب سے ہی بنیاد لیتی ہیں جیسے عید کے تہوار ہوں۔ عید کے موقع پر رشتہ داروں اور بزرگوں سے ملنے جانا ہو وغیرہ۔
ایک بات اہم ہے کہ اسلام صرف عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ نہیں ہے۔ مکمل ضابطہ حیات ہے اس لئے زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں رہنمائی دیتا ہے تو اس لئے لامحالہ ثقافتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔
 
Top