میرے لیے سزا کوئی کافی نہیں ہوئی

غ۔ن۔غ

محفلین
غزل

ناکردہ جرم کی بھی معافی نہیں ہوئی
میرے لیے سزا کوئی کافی نہیں ہوئی

جیسے لکھا تھا ویسے گزاری ہے زندگی
راحت عطا کوئی بھی اضافی نہیں ہوئی

ہر سانس صرف تیری اطاعت میں لی گئی
جنبش کوئی بھی اس کے منافی نہیں ہوئی

وعدہ وفا کا عشق میں تھا شرطِ اولیں
اور ہم سے کوئی وعدہ خلافی نہیں ہوئی

کاٹی ہے کتنے صبر سے ہم نے سزائے زیست
نقصان کیا تھا؟جس کی تلافی نہیں ہوئی

آصف مریضِ عشق دعاؤں سے بچ گیا
ورنہ دوا تو کوئی بھی شافی نہیں ہوئی

(ڈاکٹر آصف راز )
 
Top