میرے عزیز ہم وطنوں یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے ؟

السلام وعلیکم میں آج انٹر بورڈ گیا وہاں مجھے انٹر کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا میں نے سرٹیفیکیٹ تو لے لیا آپ سوچ رہے ہوں گے کے ہمیں کیوں بتا رہے ہیں وہ اِس لئے کہ ہمارے اسلام میں ہے کہ برائی کو دیکھ کر جو آپ سے ہو سکتا ہے وہ کریں اگر زبان سے روک سکتے ہو تو زبان سے روکو اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتے ہو تو ہاتھ سے روکو اور اگر اتنی بھی طاقت نہیں رکھتے تو ایمان کا سب سے کمزور درجہ یہ ہے کہ اُس برائی کو دل میں برا جانو میں یہ بات اِس لئے بیان کر رہا ہوں کہ بہت سے احباب اِس مسئلے سے دوچار ہو رہے ہیں اور لگاتار یہ دھوکے بازی چل رہی ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو ہمارے ملک کے پیسے غلط ہاتھوں میں چلے جائیں گے اور ہمارے ملک کی ترقی کم ہونے میں یہ رشوت کا بہت بڑا ہاتھ ہے چلیں اب بتاتاہوں کہ وہاں پر کیا ہورہا تھا ہو تو بہت کچھ رہا ہوگا پر مجھے جو پتا چلا میں وہ بیان کردیتا ہوں باقی آپ لوگ جو صاحب اختیار ہیں جو ایکشن لے سکتے ہیں آگے اب اُنہیں کام کرنا ہوگا مجھے انٹر کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اُس کے لئے مجھے ایک فارم جمع کرانا ہوگا یہ کہا وہاں کے معلومات پر بیٹھے شخص نے میں نے جاکر وہ فارم لے لیا پر جب میری اِس فارم پر نظر پڑی تو دیکھا کہ فارم پر 25 روپے لکھے ہوئے تھے پر بینک والوں نے میرا مطلب انٹر بورڈ آفس کے بینک والوں نے اُس پر 50 روپے لکھ رکھے تھے (مہر لگی ہوئی تھی پیسوں کی ) مطلب یہ کہ کچھ بھی ہو آپ نے دینے ہی دینے ہیں اتنا منافع بڑی بات ہے آپ سوچ رہے ہونگیں کہ یہ صاحب 25 روپے بچانے کے چکر میں یہ سب لکھ رہے ہیں نہیں میرے بھائی آپ خود حساب لگائیں کہ 25 روپے فی فارم کے حساب سے اگر ایک دن میں 1000 فارم بھی دے دئیے تو مطلب کے 25000 روپے روزانہ کے ، اور یہ رقم ماہانہ بن رہی ہے 750،000 ساڑھے ساتھ لاکھ روپے اور وہ بھی صرف جو میری نظر سے گزرا ہے چلیں وہیں ایک اور بھی بتاتا چلوں آپ کو بات اگر کسی صاحب کو لائن نہیں لگانی جلدی میں ہیں تو اُس جگہ پر کچھ شریف آدمی بھی موجود ہیں جن کو لائن لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی ہاں آپ اُن لوگوں کو تھوڑے پیسے دے دیں پھر دیکھیں کے وہ جہاں سے لگیں گے لائن وہیں سے شروع ہوجائے گی کیا یہی ہے ہمارے قائد کا پاکستان جی ہاں یہی ہے 2017 کا پاکستان چلیں میں نے تو اپنا کام کردیا اب اللہ مالک ہے آواز اُٹھائی میں نے اب آپ کی باری ہے اللہ حافظ ہم سب مسلمانوں کا میری صرف اتنی سی گذارش ہے آپ لوگوں سے آپ جہاں سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ یا یہ آدمی اِس کام کو صحیح کر سکتا ہے آپ اُس جگہ اِس تحریر کو شئیر کردیں آپ کچھ بھی نہ کریں بس یہ کام کردیں پھر دیکھنا کہ انشااللہ یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور کتنے ہی لوگ اِس برے کام سے بچ سکے گیں صرف آپ کے شئیر کرنے سے ہاں آپ شئیر نہ کریں اگر آپ خود اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں تو ۔۔۔۔ اگر یہی سارھے ساتھ لاکھ روپے سے کسی ایک مسجد میں لگ جائیں تو آپ خود سوچ لیں کہ مسجد کے نمازیوں کو سہولت کتنی ملے ہو سکتا ہے اتنا چندہ اگر مسجد میں آئے تو مسجد کی انتظامیہ اے سی وغیرہ ہی لگ وا دے مسجد میں اور جنریٹر بھی لگوادیں تو کتنا ہی اچھا ہو کم سے کم جو غریب لوگ ہیں جن کے گھر میں اے سی یا جنریٹر نہیں ہوتا وہ تو مسجد کا رُخ کرہی لیں گے ۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال بھی آسکتا ہے کہ بورڈ آفس میں جو بیٹھے ہیں وہ بھی تو انسان ہیں اگر وہ کھا لیں گے تو اِس میں کیا حرج ہے میرے بھائی حرج کیوں نہیں ہے کیا گورنمنٹ سے تنخواہ نہیں لیتے یہ لوگ اگر اِس تنخواہ میں ان کا گذارہ نہیں ہوتا تو چھوڑ دیں بڑی مہربانی اور ایسی جگہ نوکری ڈھونڈ لیں جہاں سے اِن کا گذارہ ہوسکے ۔ مجھے اللہ پر پورا بھروسہ ہے قلم میں بہت طاقت ہے یہ لوگ رشوت لینا نہیں چھوڑیں گے ایک دن ان کا بھی بُرا ہوگا برائی کی عمر زیادہ نہیں ہوتی بکرے کی خالہ کب تک خیر منائے گی کبھی تو چُھری کے نیچے آئے گی ۔
 
آخری تدوین:
عبدالقدیر بھائی ’’نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے‘‘ کے مصداق طوطی پاکستانی عوام ہے اور نقار خانہ ان کرپٹڈ حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کا ہے۔ لہٰذا آپ بھی ہماری طرح طوطی بن کر شور مچاتے رہیں سُننے والا یہاں کوئی نہیں سوائے اللہ کی ذات کے، جو ایک ایک پیسے کا حساب لینے والی ہے اور عنقریب ایسے حرام خوروں کی خراب آخرت ان کے سامنے پیش کی جائے گی پھر چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا غیر سرکاری سب کے سب جہنم کے آخری اور نچلے حصے میں اپنے اعمال کا مزہ چکھیں گے۔
ویسے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کس شہر کے عبداللہ کالج کی بات کر رہے ہیں؟
 
میرے بھائی آج آپ کا واسطہ جن حالات سے پڑا ہے اور جو واقع آپ کے ساتھ پیش آیا ۔ایسے حالات اور واقعات ہمارے ملک میں تقریبا ہر پاکستانی کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔سرکاری اداروں میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ہم اپنے جائز کاموں کو کروانے کے لیے کے لیے بھاری رشوت دینے پر مجبور ہیں۔کرپٹ مافیا نے ہر ادارہ اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔کرپشن میں صرف وزرا ہی نہیں سرکاری محکموں کے بڑے بڑے افسران سے لیے کر نچلے گریٹ کے ملازمین بھی شامل ہیں۔سب مل بانٹ کر پریشان حال عوام کو لوٹ کھسوٹ رہیے ہیں۔
 
عبد اللہ کالج کے ساتھ ہی انٹر میڈیٹ بورڈ آفس ،نارتھ ناظم آباد،کراچی واقع ہے۔
جی سر مجھے علم ہے، موصوف نے لکھا ہے کہ
میں آج عبداللہ کالج گیا وہاں مجھے انٹر کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا
حالانکہ عبداللہ کالج صنفِ نازک کے لئے ہے :confused1::confused1: اصل میں بھائی صاحب انٹر بورڈ گئے ہوں گے۔
 
عبدالقدیر بھائی ’’نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے‘‘ کے مصداق طوطی پاکستانی عوام ہے اور نقار خانہ ان کرپٹڈ حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کا ہے۔ لہٰذا آپ بھی ہماری طرح طوطی بن کر شور مچاتے رہیں سُننے والا یہاں کوئی نہیں سوائے اللہ کی ذات کے، جو ایک ایک پیسے کا حساب لینے والی ہے اور عنقریب ایسے حرام خوروں کی خراب آخرت ان کے سامنے پیش کی جائے گی پھر چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا غیر سرکاری سب کے سب جہنم کے آخری اور نچلے حصے میں اپنے اعمال کا مزہ چکھیں گے۔
ویسے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کس شہر کے عبداللہ کالج کی بات کر رہے ہیں؟
شیخ محمد نواز بھائی جتنا کرسکتے ہیں اُتنا تو کریں باقی اللہ پاک برکت ڈال دے گا ۔ میں شہر کراچی کی بات کررہا ہوں ۔
 
عبدالقدیر بھائی ’’نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے‘‘ کے مصداق طوطی پاکستانی عوام ہے اور نقار خانہ ان کرپٹڈ حکمرانوں اور سرکاری ملازمین کا ہے۔ لہٰذا آپ بھی ہماری طرح طوطی بن کر شور مچاتے رہیں سُننے والا یہاں کوئی نہیں سوائے اللہ کی ذات کے، جو ایک ایک پیسے کا حساب لینے والی ہے اور عنقریب ایسے حرام خوروں کی خراب آخرت ان کے سامنے پیش کی جائے گی پھر چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا غیر سرکاری سب کے سب جہنم کے آخری اور نچلے حصے میں اپنے اعمال کا مزہ چکھیں گے۔
ویسے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کس شہر کے عبداللہ کالج کی بات کر رہے ہیں؟
بھائی سرکاری ملازم سارے ہی کرپٹ نہیں ہوتے ۔
 
میرے بھائی آج آپ کا واسطہ جن حالات سے پڑا ہے اور جو واقع آپ کے ساتھ پیش آیا ۔ایسے حالات اور واقعات ہمارے ملک میں تقریبا ہر پاکستانی کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔سرکاری اداروں میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ہم اپنے جائز کاموں کو کروانے کے لیے کے لیے بھاری رشوت دینے پر مجبور ہیں۔کرپٹ مافیا نے ہر ادارہ اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔کرپشن میں صرف وزرا ہی نہیں سرکاری محکموں کے بڑے بڑے افسران سے لیے کر نچلے گریٹ کے ملازمین بھی شامل ہیں۔سب مل بانٹ کر پریشان حال عوام کو لوٹ کھسوٹ رہیے ہیں۔
آپ ہی بتائیں پھر کیا ہم لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں یہ آج 25 روپے کی رشوت لے رہے ہیں ہم لوگ خاموش ہیں کل کو یہ لوگ کوئی کھلے عام غلط کام کریں گے کسی شریف آدمی کو چار چار یا پانچ پانچ آدمی مل کر مارے گے اور ہم لوگ تماشہ دیکھتے رہیں گے ٹھیک ہے مانا ہمارے ساتھ تو نہیں ہورہا ہونے دو جو بھی ہو رہا ہے ۔ ٹھیک ہے پر کب تک کیا جو آج کسی کے ساتھ ہو رہا ہے کل کو کیا وہ ہمارے ساتھ نہیں ہوسکتا میرا کہنا بس اتنا ہے کہ آپ اِس بات کو اتنا شئیر کریں کہ کسی صاحب اقتدار کے کانوں تک چلے جائے ۔
 
آپ ہی بتائیں پھر کیا ہم لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں یہ آج 25 روپے کی رشوت لے رہے ہیں ہم لوگ خاموش ہیں کل کو یہ لوگ کوئی کھلے عام غلط کام کریں گے کسی شریف آدمی کو چار چار یا پانچ پانچ آدمی مل کر مارے گے اور ہم لوگ تماشہ دیکھتے رہیں گے ٹھیک ہے مانا ہمارے ساتھ تو نہیں ہورہا ہونے دو جو بھی ہو رہا ہے ۔ ٹھیک ہے پر کب تک کیا جو آج کسی کے ساتھ ہو رہا ہے کل کو کیا وہ ہمارے ساتھ نہیں ہوسکتا میرا کہنا بس اتنا ہے کہ آپ اِس بات کو اتنا شئیر کریں کہ کسی صاحب اقتدار کے کانوں تک چلے جائے ۔
بھائی آپ جن لوگوں کے کان کھولنا چاہ رہے ہو تو یہ لاقانونیت کا بازار ان صاحب اقتدار لوگوں کی ایماء پر ہی سرگرم ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی نہ اہل حکومت کی کارکردگی آپ سے یا کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔کراچی میں سڑکوں کی حالت زار اور کچرے کے ڈھیر بلدیاتی اور صوبائی حکومتوں کی کاکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
 
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہر بندو پیسے کی ہوس کا شکار ہے۔ اور اب تو بو حسی اس حد تک ہے کہ مجبور لوگوں سے خاص طور پر فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔
اِس کے لئے ہمیں ایک ہونا ہوگا ورنہ یہ لوگ ایسے ہی فائدہ اُٹھاتے رہیں گے عوام کی طاقت دکھانی ہوگی انھیں ۔
 
اِس کے لئے ہمیں ایک ہونا ہوگا ورنہ یہ لوگ ایسے ہی فائدہ اُٹھاتے رہیں گے عوام کی طاقت دکھانی ہوگی انھیں ۔
بھائی جان نہایت معذرت کرنا چاہوں گا آپ سے۔ کیوں آپ اپنا دل جلا رہے ہیں۔ ان حرام خور اور کرپٹڈ لوگوں کا عوام کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ بیچاری عوام کو اس درجے تک پستی میں دھکیل دیا گیا ہے کہ وہ صرف دو وقت کی روٹی کے لئے ہی کوشاں رہتی ہے اور جہاں کوئی اُس پستی سے باہر نکلنا تو دُور، صرف جھانکنے کی ہی کوشش کرتا ہے تو اُس بیچارے کو ایسی لات پڑتی ہے کہ پھر اسے دو وقت کی روٹی بھی یاد نہیں رہتی۔ لہٰذا آج کی عوام میں ابھی وہ طاقت نہیں کہ ان ظالموں کا مقابلہ کرسکے۔ بہرحال اللہ کا شیرعنقریب آئے گا اور ظالموں کو چیر پھاڑ دے گا !
 
Top