میرے خدا نے آپ کو کیا کچھ دیا نہیں ------برائے اصلاح

الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع:راحل
------------
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
میرے خدا نے آپ کو کیا کچھ دیا نہیں
کیسے کہیں گے آپ یہ ہم کو ملا نہیں
---------------
چاروں طرف خدا کی یہ آیات دیکھ کر
کیسے کہیں گے آپ یہ کوئی خدا نہیں
-----------
مجھ کو بنا دیا ہے یوں جیسے میں غیر ہوں
دل میں گلہ ہے آپ سے لیکن کہا نہیں
-----------
غیروں کے ساتھ آپ نے مجھ کو بٹھا دیا
یہ بات کچھ عجیب تھی لیکن گلہ نہیں
------------
میرے رقیب آپ سے ملتے نہیں ہیں کیا؟
پھر بھی کہیں گے آپ یہ میں بے وفا نہیں
-----------
یہ راز کی ہے بات جو کہنا پڑی مجھے
دل میں کسی کی یاد بھی تیرے سوا نہیں
----------
دینا ہے ساتھ آپ کا جیسے بھی ہو سکے
چلتے رہے ہیں آپ بھی میں بھی رکا نہیں
-----------
مجھ کو بھلا کے آپ نے اچھا نہیں کیا
وعدہ وفا یوں آپ نے نے مجھ سے کیا نہیں
------------
تجھ سے ملا تھا پیار جو وہ یاد ہے مجھے
ارشد ترا خیال تو دل سے گیا نہیں
---------
 
الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع:راحل
------------
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
میرے خدا نے آپ کو کیا کچھ دیا نہیں
کیسے کہیں گے آپ یہ ہم کو ملا نہیں
---------------
چاروں طرف خدا کی یہ آیات دیکھ کر
کیسے کہیں گے آپ یہ کوئی خدا نہیں
-----------
مجھ کو بنا دیا ہے یوں جیسے میں غیر ہوں
دل میں گلہ ہے آپ سے لیکن کہا نہیں
-----------
غیروں کے ساتھ آپ نے مجھ کو بٹھا دیا
یہ بات کچھ عجیب تھی لیکن گلہ نہیں
------------
میرے رقیب آپ سے ملتے نہیں ہیں کیا؟
پھر بھی کہیں گے آپ یہ میں بے وفا نہیں
-----------
یہ راز کی ہے بات جو کہنا پڑی مجھے
دل میں کسی کی یاد بھی تیرے سوا نہیں
----------
دینا ہے ساتھ آپ کا جیسے بھی ہو سکے
چلتے رہے ہیں آپ بھی میں بھی رکا نہیں
-----------
مجھ کو بھلا کے آپ نے اچھا نہیں کیا
وعدہ وفا یوں آپ نے نے مجھ سے کیا نہیں
------------
تجھ سے ملا تھا پیار جو وہ یاد ہے مجھے
ارشد ترا خیال تو دل سے گیا نہیں
---------
ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاھئیے
 

الف عین

لائبریرین
میرے خدا نے آپ کو کیا کچھ دیا نہیں
کیسے کہیں گے آپ یہ ہم کو ملا نہیں
--------------- 'میرےخدا' ہی کیوں؟
ویسے تو رب نے....
اللہ نے یوں تو... ۔
دوسرے مصرعے میں 'یہ' کا تعلق 'کیا کچھ' سے کچھ بعید لگتا ہے
.... ٓپ، ہمیں کچھ ملا نہیں
شاید بہتر لگے

چاروں طرف خدا کی یہ آیات دیکھ کر
کیسے کہیں گے آپ یہ کوئی خدا نہیں
----------- دوسرے مصرعے کا ' یہ' بھی اضافی ہے، 'کہ' سے تنافر ہوتا ہے۔ کچھ اور سوچو

مجھ کو بنا دیا ہے یوں جیسے میں غیر ہوں
دل میں گلہ ہے آپ سے لیکن کہا نہیں
----------- جیسے میں غیر ہوں، مجھے ایسا بنا دیا
زیادہ رواں ہے۔ دوسرے مصرعے میں بھی 'مجھے' کی
کمی کھل رہی ہے۔

غیروں کے ساتھ آپ نے مجھ کو بٹھا دیا
یہ بات کچھ عجیب تھی لیکن گلہ نہیں
------------ گلہ تو کر ہی رہے ہیں نا! یہ اور اوپر والا، دونوں اشعار ایک ہی مفہوم کے ہیں۔ 'عجیب' بھی عجیب ہے!

میرے رقیب آپ سے ملتے نہیں ہیں کیا؟
پھر بھی کہیں گے آپ یہ میں بے وفا نہیں
----------- 'کہ میں بے وفا....' کر دیں، درست ہو جائے گا

یہ راز کی ہے بات جو کہنا پڑی مجھے
دل میں کسی کی یاد بھی تیرے سوا نہیں
---------- کیوں کہنا پڑی؟ اولی مصرع کچھ اور کہیں

دینا ہے ساتھ آپ کا جیسے بھی ہو سکے
چلتے رہے ہیں آپ بھی میں بھی رکا نہیں
----------- چلنے میں ساتھ دے رہے ہیں؟ اس کا واضح ذکر کریں

مجھ کو بھلا کے آپ نے اچھا نہیں کیا
وعدہ وفا یوں آپ نے نے مجھ سے کیا نہیں
------------ دونوں الگ الگ باتیں لگ رہی ہیں

تجھ سے ملا تھا پیار جو وہ یاد ہے مجھے
ارشد ترا خیال تو دل سے گیا نہیں
---- جو کہنا چاہتے ہیں، وہ کہہ نہیں پائے
مجموعی طور پر غزل پسند نہیں آئی، ما فی الضمیر واضح کرنے کے لئے الفاظ بدلنے ہوں گے تقریباً ہر شعر میں۔
 
الف عین
(اصلاح کے بعد )
-----------
ویسے تو رب نے آپ کو کیا کچھ دیا نہیں
کیسے کہیں گے آپ ہمیں کچھ ملا نہیں
-----------
مانا کہ تجھ سے دور ہوں لیکن جدا نہیں
تیری کسی بھی بات پہ تجھ سے خفا نہیں
---------
چاروں طرف خدا کی یہ آیات دیکھ کر
پھر بھی کہیں گے آپ یوں کوئی خدا نہیں
--------
جیسے میں غیر ہوں مجھے ایسا بنا دیا
شکوہ مجھے ہے آپ سے لیکن کیا نہیں
-----------
میرے رقیب آپ سے ملتے نہیں ہیں کیا؟
پھر بھی کہیں گے آپ یہ ِ میں بے وفا نہیں
---------
کہتا ہوں دل کی بات میں دنیا کے سامنے
دل میں کسی کی یاد بھی تیرے سوا نہیں
----------
قربت ملی ہے آپ کی مجھ کو جہان میں
کتنا میں خوش نصیب ہوں تنہا رہا نہیں
------------
میری وفا کو آپ نے یکسر بھلا دیا
اچھا سلوک آپ نے مجھ سے کیا نہیں
-----------
مجبور ہو کے آپ یوں مھ سے جدا ہوئے
میں جانتا آپ کی اس میں خطا نہیں
---------
اظہار تجھ سے پیار کا ارشد نہ کر سکا
اس کے تھا دل میں پیار ترا جو گیا نہیں
---------یا
دل میں تھا تیرا پیار جو اب تک گیا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔---------------
 

الف عین

لائبریرین
پھر بھی کہیں گے آپ یوں کوئی خدا نہیں
اب بھی اچھا نہیں لگا

پھر بھی کہیں گے آپ یہ ِ میں بے وفا نہیں
.. یوں بہتر ہو
پھر بھی یہ آپ کہتے ہیں، میں بے وفا نہیں

کہتا ہوں دل کی بات میں دنیا کے سامنے
دل میں کسی کی یاد بھی تیرے سوا نہیں
---------- اسے نکال ہی دیں

قربت ملی ہے آپ کی مجھ کو جہان میں
کتنا میں خوش نصیب ہوں تنہا رہا نہیں
------------ اس خیال کو 'اسی جہان میں' کے ساتھ دوسرے الفاظ میں پھر کہیں

مجبور ہو کے آپ یوں مھ سے جدا ہوئے
میں جانتا آپ کی اس میں خطا نہیں
---------
اظہار تجھ سے پیار کا ارشد نہ کر سکا
اس کے تھا دل میں پیار ترا جو گیا نہیں
---------یا
دل میں تھا تیرا پیار جو اب تک گیا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں پسند نہیں آئے، مقطع دوسرا کہیے
 
الف عین
(اصلاح )
قربت اسی جہان میں تیری ملی مجھے
کتنا میں خوش نصیب ہوں تنہا رہا نہیں
------------
جس کی وفا پہ آج بھی ارشد کو ناز ہے
اس نے کبھی بھی پیار کو دھوکہ دیا نہیں
--------
 

الف عین

لائبریرین
قربت اسی جہان میں تیری ملی مجھے
کتنا میں خوش نصیب ہوں تنہا رہا نہیں
------------ کہ تنہا رہا نہیں کہنا چاہیے تھا، یہ تجویز ذہن میں آئی ہے
قربت مجھے نصیب ہوئی اس جہان میں
خوش بخت ہوں میں کتنا/کیسا کہ تنہا رہا نہیں

جس کی وفا پہ آج بھی ارشد کو ناز ہے
اس نے کبھی بھی پیار کو دھوکہ دیا نہیں
.. پیار کو یا 'پیار میں'؟
لیکن کس کی وفا پہ ناز ہے، اور کس نے دھوکا نہیں دیا؟ واضح نہیں
 
Top