امیر مینائی میرے بس میں ، یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا

مرے اتقا کا باعث تو ہے مری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا ہو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بیقرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت مجھے آکے منہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لحد فِشار دیتی
سر راہِ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچا کہوں لاکھ بار کہہ دوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا
 

فاتح

لائبریرین
اس خوبصورت انتخاب پر شکریہ جناب کاشفی صاحب۔
کیا ہی رواں زمیں ہے۔ امیر مینائی کی یہ غزل پڑھ کر نہ صرف غالب کی مشہورِ زمانہ غزل "یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا" یاد آ گئی بلکہ داغ کی غزل "عجب اپنا حال ہوتا جو وصالِ یار ہوتا" اور فیض کی نظم "دل من مسافر من" بھی یاد آ گئیں۔
 
Top