میری ڈائری کا ایک ورق

سیما علی

لائبریرین
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
دانہ خاک میں مل کر گل گزار ہوتا ہے
محبت کا بیج نرم دل زمین میں بویا جاتا ہے پھر موسم کی سختیاں جھیلتا ہوا پودا بنتا ہے دھوپ لگتی ہے تو دانہ پکتا ہے ورنہ خراب ہوجاتا ہے پھر اس کو کوٹا جاتا ہے تاکہ بھوسی الگ ہوجائے پھر پیسا جاتا ہے تاکہ ہستی ہی مٹ جائے پھر زور سے گوندھا جاتا ہے پھر بیلا جاتا ہے اور آخر میں آگ پر پکایا جاتا ہے۔
کونسا مرحلہ آسان ہے یہ کم ظرفوں کا نصیب نہیں کہ وہ خوشبودار روٹی بن سکیں بہت اعلیٰ ظرف چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
دانہ خاک میں مل کر گل گزار ہوتا ہے
محبت کا بیج نرم دل زمین میں بویا جاتا ہے پھر موسم کی سختیاں جھیلتا ہوا پودا بنتا ہے دھوپ لگتی ہے تو دانہ پکتا ہے ورنہ خراب ہوجاتا ہے پھر اس کو کوٹا جاتا ہے تاکہ بھوسی الگ ہوجائے پھر پیسا جاتا ہے تاکہ ہستی ہی مٹ جائے پھر زور سے گوندھا جاتا ہے پھر بیلا جاتا ہے اور آخر میں آگ پر پکایا جاتا ہے۔
کونسا مرحلہ آسان ہے یہ کم ظرفوں کا نصیب نہیں کہ وہ خوشبودار روٹی بن سکیں بہت اعلیٰ ظرف چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہی اچھی مثال ہے ہمت اور حوصلہ بڑھانے کے لئے
 

سیما علی

لائبریرین
تفسیر اسرار الفاتحہ میں ہے کہ ایک دن حضرت خواجہ حسن بصریؒ ،حضرت مالک بن دینار ؒ ،حضرت شفیق بلخی ؒ اور حضرت رابعہ بصریؒ ایک محفل میں اکٹھے ہوئے اور بات اللہ تعالیٰ کی رضا میں صدق پر چل نکلی ۔ حضرت خواجہ حسن بصری ؒ بولے ” وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔ ” حضرت رابعہ بصری ؒ نے فرمایا ” اس قول سے خود نمائی کی بو آتی ہے ۔بات اس سے بڑھ کر ہونی چاہیے ۔” حضرت شفیق بلخی ؒ بولے ” وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی دی ہوئی تکلیف سے لطف اندوز نہیں ہوتا ۔ ”حضرت رابعہ بصری نے فرمایا ”اس بات سے بھی خود نمائی کی بوآتی ہے۔ ” حضرت مالک بن دینارؒ بولے ” وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف پر شکر نہیں کرتا ” حضرت رابعہ بصری ؒ بولیں ” وہ شخص طلبِ مولیٰ میں صادق نہیں جو مشاہدہ مطلوب میں غرق ہو کر مولیٰ کی طرف سے دی گئی تکلیف کو بھول نہیں جاتا۔”( عین الفقر)
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی بار بار نہیں ملتی صرف ایک بار ملتی ہے اور وقت سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی طرح ہے تم اس میں کتنی مٹھیاں بھر سکتے ہو ایک یا پھر دو، وقت تو بس پچاس یا سو برس کا ہے، مگر اس سے زیادہ نہیں پھر سوچو، تم اس ریت کو کھا نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ تم اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں جھونک سکتے ہو اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں پھر کچھ لوگ جو اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی آنکھوں میں ڈال لیتے ہیں وہ لوگ بزدل اور اذیت پسند ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ اس ریت سے محل بناتے ہیں وہ لوگ احمق ہوتے ہیں کچھ لوگ نہایت احتیاط سے ریت کے ایک ایک ذرے کو گننے لگتے ہیں وہ اس دنیا کے کنجوس ہیں کچھ لوگ اس ریت کو اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں وہ لوگ اس دنیا کے بچے ہیں اور دنیا کی ساری معصومیت ان ہی کے نام سے قائم ہے۔

(کرشن چندر کی کتاب "باون پتے" سے اقتباس)
 
زندگی بار بار نہیں ملتی صرف ایک بار ملتی ہے اور وقت سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی طرح ہے تم اس میں کتنی مٹھیاں بھر سکتے ہو ایک یا پھر دو، وقت تو بس پچاس یا سو برس کا ہے، مگر اس سے زیادہ نہیں پھر سوچو، تم اس ریت کو کھا نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ تم اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں جھونک سکتے ہو اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں پھر کچھ لوگ جو اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی آنکھوں میں ڈال لیتے ہیں وہ لوگ بزدل اور اذیت پسند ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ اس ریت سے محل بناتے ہیں وہ لوگ احمق ہوتے ہیں کچھ لوگ نہایت احتیاط سے ریت کے ایک ایک ذرے کو گننے لگتے ہیں وہ اس دنیا کے کنجوس ہیں کچھ لوگ اس ریت کو اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں وہ لوگ اس دنیا کے بچے ہیں اور دنیا کی ساری معصومیت ان ہی کے نام سے قائم ہے۔

(کرشن چندر کی کتاب "باون پتے" سے اقتباس)
سیما بہن اِس کی تھوڑی تشریح ہوجائے تو اچھے سے سمجھ آجائے گا کہ ریت سے کیا مقصد اخذ کیا جائے
 

سیما علی

لائبریرین
سیما بہن اِس کی تھوڑی تشریح ہوجائے تو اچھے سے سمجھ آجائے گا کہ ریت سے کیا مقصد اخذ کیا جائے
بھیا زندگی کے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کسطر ح زندگی ریت کی طرح ہماری ہاتھوں سے نکلتی چلی جاتی ہے کبھی کبھی لکھنے والے اسی طرح ہمیں زندگی کے بارے میں مثالیں دے کر بتاتے ہیں کرشن چندر تو بہت بڑا نام ہے !!!اسی طر ح چالاک اور شاطر وں کی مثال دیتے ہیں کہ وہ بظاہر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہوتا پر دراصل وہ اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔اسی طرح کچھ بیوقوف لوگ اسی طر ح سے محل تعمیر کرتے ہیں ۔۔۔جیسے ہمیشہ اُس میں رہنا ہے یہاں دراصل زندگی کی بے ثباتی مراد ہے ۔۔۔جوڑنے کو بتایا ہے کہ وہ جوڑا کچھ کام نہ آئے گا ۔۔۔پھر بچوں کی مثال دی ہے کہ صحیح معنوں میں وہ زندگی جیتے ہیں اپنی معصومیت کی وجہ سے اور دنیا کی اصل خوبصورتی اُنہی کے دم سے ہے ۔۔۔۔
 
بھیا زندگی کے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کسطر ح زندگی ریت کی طرح ہماری ہاتھوں سے نکلتی چلی جاتی ہے کبھی کبھی لکھنے والے اسی طرح ہمیں زندگی کے بارے میں مثالیں دے کر بتاتے ہیں کرشن چندر تو بہت بڑا نام ہے !!!اسی طر ح چالاک اور شاطر وں کی مثال دیتے ہیں کہ وہ بظاہر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہوتا پر دراصل وہ اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔اسی طرح کچھ بیوقوف لوگ اسی طر ح سے محل تعمیر کرتے ہیں ۔۔۔جیسے ہمیشہ اُس میں رہنا ہے یہاں دراصل زندگی کی بے ثباتی مراد ہے ۔۔۔جوڑنے کو بتایا ہے کہ وہ جوڑا کچھ کام نہ آئے گا ۔۔۔پھر بچوں کی مثال دی ہے کہ صحیح معنوں میں وہ زندگی جیتے ہیں اپنی معصومیت کی وجہ سے اور دنیا کی اصل خوبصورتی اُنہی کے دم سے ہے ۔۔۔۔
جی درست کہا آپ نے زندگی اصل میں دیکھا جائے تو اللہ پاک کی طرف سے ایک تحفہ ہے انسان کے لئے کیونکہ اللہ پاک نے جزا اور سزا صرف جنت ، دوزخ انسانوں کے لئے ہی رکھی ہے اگر اِس زندگی کو جس طرح ہمیں اللہ پاک نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے اور سُنت کے طریقے سے گزارا جائے تو ہمارے لئے آخرت میں بہت بڑا انعام ہوگا ہم لوگ اصل مقصد سے ہٹیں گیں تو پھر مصیبتیں اور مشکلاتوں کا سامنا ہوگا اور سب سے بڑی ذلت جو کہ دوزخ کا عذاب ہے اُس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاھئیے کیونکہ عزت ذلت سب اللہ پاک کے قبضہ قدرت میں ہے ہم اللہ کے کاموں میں لگ جائیں گے تو اللہ پاک ہمارے کاموں میں لگ جائیں گے جس کے کاموں میں اللہ پاک لگ جائیں اُس کے کام ادھورے نہیں رہتے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک بوڑھا شخص وضو کرنے میں مصروف تھا لیکن وضو کو صحیح طور سے انجام نہیں دے رہا تھا۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ (جو اس وقت بچے تھے)نے اس بوڑھے کے غلط وضو کو دیکھا اور اس بوڑھے کی رہنمائی کے لیے اسے اس طرح دعوت دی کہ ہم میں سے ہر ایک آپ کے سامنے وضو کر رہا ہے اور آپ منصف کے طور پر فیصلہ دیں کہ ہم میں سے کس کا وضو درست ہے؟ بوڑھے نے دونوں بچوں کے وضو کو دیکھنے کے بعد کہا کہ کا آپ دونوں کا وضو صحیح ہے اور میرا وضو باطل ہے۔

ان دو حضرات کی یہ نمائش ایک ماہرانہ اور غیر مستقیم تربیت تھی جس میں بوڑھے کی عزت و آبرو کے تحفظ کا پورا خیا ل رکھا گیا تھا اور یہ طریقہ امربالمعروف کا بہترین طریقہ ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ﺟﺐ امام رضا علیہ السلام ﻣﺪﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﻭ ﯾﺎ ﺧﺮﺍﺳﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﺎﺯﻡ ﺳﻔﺮ ﺗﮭﮯ، ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮﺍﯾﮏ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺑﻌﺪ ﺍﺯ ﺷﮑﺎﺭ ذﺑﺢ ﮐﯿﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮨﺮﻧﯽ ﺍﺳﮑﮯﭼﻨﮕﻞ ﺳﮯ ﭼﮭﭩﮑﺎﺭﮦ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺣﺮﺑﮧ ﺁﺯﻣﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ، ﻣﮕﺮ ﺑﮯ ﺳﻮﺩ۔ ﺍﺳﯽ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺟﺐ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﯽﻧﻈﺮ ﻭﺍﺭﺙ ِ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ، ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﺭﺥ ِ ﺍﻧﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﺩ ﮐﯽ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ۔

ﮨﺮﻧﯽ ﮐﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﻣﺎﻡ ‏علیہ السلام ﻧﮯ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:-

"ﺍﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ۔ ﺍﺳﮑﺎ ﺑﭽﮧ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﯽﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﮍﭖ ﺭﻫﯽ ﻫﮯ۔ ﮨﻢ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻼ ﭼﮑﮯ ﮔﯽ، ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﻭﺍﭘﺲﺁﺟﺎﺋﯿﮕﯽ."



ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﮐﮯﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻣﺎﻡ ‏علیہ السلام ﻣﻄﻤﺌﻦ، ﺟﺒﮑﮧ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﻣﻀﻄﺮﺏ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭﺍﭘﻨﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﭘﺮ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔

ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﺌﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﺒﻘﺖ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺷﺸﺪﺭ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﺮﻧﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﻣﭩﺎ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺮیئے ﮐﮯ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯽ۔

ﺷﮑﺎﺭﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺴﺖ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﭘﺮ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻔﺖ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ‏علیہ السلام ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻋﺠﺎﺯ ِ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﮯﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮨﺮﻧﯽ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ.

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﻬﺮﯼ ﻣﺎﻣﺘﺎ ﮐﺎ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ٬ ﺍﻣﺎﻡﺭﺿﺎ ‏علیہ السلام ﮐﻮ ﺿﺎﻣﻦِ ﺁﮬﻮ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺩﻟﻮﺍ ﮔﺌﯽ. ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻣﺎﻡ ِ ﺛﺎﻣﻦ، ﺍﻣﺎﻡ ِ ﺿﺎﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ.

کافی ج6.ص298.

(ﺑﺤ۔۔۔ﺎﺭﺍﻻﻧ۔۔۔ﻮﺍﺭ، ﺟ۔۔۔ﻠﺪ _٣ - ٤.)"
 
گزشتہ روز نعت خوانی کی محفل میں ایک واقعہ سُنا سوچا کہ آپ لوگوں کہ ساتھ شئیر کرنا چاھئیے
اللہ پاک کمی بیشی اپنی رحمت سے معاف فرمائے
چودہ سو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہمارے نبی ﷺ ساتھ تھے سب صحابہ اور جانور پیاسے تھے پانی کا کہیں ناموں نشان نہ تھا ہمارے نبی ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اِس پہاڑ کے پیچھے ایک حبشی غلام مشکیزہ لے کر جارہا ہے اُسے لے آو صحابہ نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ اتنا بڑا پہاڑ ہے چل کر جانا بھی محال ہے پتا نہیں کہ پیچھے ایک حبشی غلام مشکیزے میں پانی لے کر کھڑا ہو بھی نہ ہو جیسے ہی حکم ملا فوراً بجا لائے جب وہاں پہنچے تو اُس شخص سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ چلو اِس مشکیزے کے ساتھ ہمارے آقا نے تمہیں بُلایا ہے اُس حبشی غلام نے کہا کہ میں یہ اپنے آقا کے لئے لے کر جارہا ہوں صحابہ نے کہا تجھے تیرے آقا نے کہا ہے ہمیں ہمارے آقا نے کہا ہے کہ لاو بہتر یہ ہے کہ ہمارے ساتھ چلو تو وہ حبشی غلام بھی ساتھ ہو لیا وہاں پہنچتے ہیں تو ہمارے نبی ﷺ سے حبشی غلام کہتا ہے کہ یہ چودہ سو لوگ کِس طرح ایک مشکیزے سے پیاس بجھا سکتے ہیں ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ بس تیرا کام ہے کہ تو میرے ہاتھوں پر مشکیزے کا منہ رکھ دے باقی کام میرا ہے جیسے ہی حبشی غلام نے مشکیزے کا منہ آپ کے ہاتھوں پر رکھا ہمارے نبی ﷺ کی دسوں انگلیوں سے چشمے بہہ نکلے ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا آجاو صحابہ اور لے آو جتنے بھی جانور ہیں سب کی پیاس بجھا دو سب نے پانی پیا مشکیزے کی طرف دیکھا تو مشکیزہ پانی سے اُتنا ہی بھرا ہوا تھا جتنا لایا گیا تھا حبشی غلام کو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اب جاو تمہارا کام ختم ہوچکا لیکن حبشی غلام نے کہا اے نبی ﷺ مجھے بھی اپنا غلام بنا لو میں بھی آپ کی غلامی میں آنا چاہتا ہوں ہمارے نبی ﷺ نے اُس حبشی غلام کو جیسے ہی کلمہ پڑھا کر اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اُس کی کالک اُتر گئی اور وہ گورا ہوگیا ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا اب جاو اُس حبشی غلام نے کہا کہ اب کہاں جاوں آپ کو چھوڑ کر ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا جاو تمہارے جانے میں بھی حکمت ہے وہ غلام جاتا جاتا اور پیچھے مڑ مُڑ کر دیکھتا جاتا وہ جب اپنے آقا کے دروازے پر پہنچا تو اُس نے دروازے پر دستک دی اندر سے اُس کا مالک باہر آیا اور کہا اے شخص تو کون ہے اُس شخص نے کہا میں تیرا غلام ہوں مالک نے کہا تو میرا غلام نہیں ہوسکتا میرا غلام تو کالا تھا اُس نے یہ سارا واقعہ سُنایا یہ سب سُن کر اُس مالک نے بھی اسلام کو قبول کرلیا ۔
 

سیما علی

لائبریرین
گزشتہ روز نعت خوانی کی محفل میں ایک واقعہ سُنا سوچا کہ آپ لوگوں کہ ساتھ شئیر کرنا چاھئیے
اللہ پاک کمی بیشی اپنی رحمت سے معاف فرمائے
چودہ سو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہمارے نبی ﷺ ساتھ تھے سب صحابہ اور جانور پیاسے تھے پانی کا کہیں ناموں نشان نہ تھا ہمارے نبی ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اِس پہاڑ کے پیچھے ایک حبشی غلام مشکیزہ لے کر جارہا ہے اُسے لے آو صحابہ نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ اتنا بڑا پہاڑ ہے چل کر جانا بھی محال ہے پتا نہیں کہ پیچھے ایک حبشی غلام مشکیزے میں پانی لے کر کھڑا ہو بھی نہ ہو جیسے ہی حکم ملا فوراً بجا لائے جب وہاں پہنچے تو اُس شخص سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ چلو اِس مشکیزے کے ساتھ ہمارے آقا نے تمہیں بُلایا ہے اُس حبشی غلام نے کہا کہ میں یہ اپنے آقا کے لئے لے کر جارہا ہوں صحابہ نے کہا تجھے تیرے آقا نے کہا ہے ہمیں ہمارے آقا نے کہا ہے کہ لاو بہتر یہ ہے کہ ہمارے ساتھ چلو تو وہ حبشی غلام بھی ساتھ ہو لیا وہاں پہنچتے ہیں تو ہمارے نبی ﷺ سے حبشی غلام کہتا ہے کہ یہ چودہ سو لوگ کِس طرح ایک مشکیزے سے پیاس بجھا سکتے ہیں ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ بس تیرا کام ہے کہ تو میرے ہاتھوں پر مشکیزے کا منہ رکھ دے باقی کام میرا ہے جیسے ہی حبشی غلام نے مشکیزے کا منہ آپ کے ہاتھوں پر رکھا ہمارے نبی ﷺ کی دسوں انگلیوں سے چشمے بہہ نکلے ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا آجاو صحابہ اور لے آو جتنے بھی جانور ہیں سب کی پیاس بجھا دو سب نے پانی پیا مشکیزے کی طرف دیکھا تو مشکیزہ پانی سے اُتنا ہی بھرا ہوا تھا جتنا لایا گیا تھا حبشی غلام کو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اب جاو تمہارا کام ختم ہوچکا لیکن حبشی غلام نے کہا اے نبی ﷺ مجھے بھی اپنا غلام بنا لو میں بھی آپ کی غلامی میں آنا چاہتا ہوں ہمارے نبی ﷺ نے اُس حبشی غلام کو جیسے ہی کلمہ پڑھا کر اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اُس کی کالک اُتر گئی اور وہ گورا ہوگیا ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا اب جاو اُس حبشی غلام نے کہا کہ اب کہاں جاوں آپ کو چھوڑ کر ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا جاو تمہارے جانے میں بھی حکمت ہے وہ غلام جاتا جاتا اور پیچھے مڑ مُڑ کر دیکھتا جاتا وہ جب اپنے آقا کے دروازے پر پہنچا تو اُس نے دروازے پر دستک دی اندر سے اُس کا مالک باہر آیا اور کہا اے شخص تو کون ہے اُس شخص نے کہا میں تیرا غلام ہوں مالک نے کہا تو میرا غلام نہیں ہوسکتا میرا غلام تو کالا تھا اُس نے یہ سارا واقعہ سُنایا یہ سب سُن کر اُس مالک نے بھی اسلام کو قبول کرلیا ۔
زبان ِ دل سے درود و سلام ہوجائے
سکونِ روح کاکچھ اہتمام ہوجائے
تمام عمر اسی فکر میں کئے راغب
پیام شاہِ مدینہ ﷺکا عام ہوجائے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
فیض کی نظم ”صبح آزادی“ ….

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گذیدہ سحروہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہی ں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کی آرزو لے کرچلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزلکہیں تو ہوگا موج کا ساحل
جواں لہو کی پُر اسرار شاہراہوں پرچلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کے بے صبر خواب گاہوں سے پکارتی رہیں بانہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رُخِ سحر کی لگنبہت قریب تھا حسینانِ نور کا دامن
سُبک سُبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن
مخدوم آزادی کے متوالوں سے اپنی نظم ” چاند تاروں کا بن “ میں کچھ اِس طرح سے مخاطب ہیں ملاحظہ کریں….
موسم کی طرح جلتے رہے ، ہم شہیدوں کے تن
رات بھر جھلملاتی رہی شمعِ صبحِ وطن تشنگی تھی مگر
تشنگی میں بھی سر شاد تھے
پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لئےمنتظر مرد و زن
مستیاں ختم، مدہوشیاں ختم، ختم تھا بانکپن
راکے کے جگمگارے دہکتے بدن
اسی نظم کا ایک اور بند ملاحظہ کریں کہ مخدوم تحریک آزای کے پرواوں سے کیا کہنا چاہتے ہیں ….
رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے
صبح کا کچھ اُجالا، اُجالا بھی ہےہم دمو
ہاتھ میں ہاتھ دوسوئے منزل چلو
منزلیں داد کیکوئے دل دار کی منزلیں
دوش پر اپنی صلیبیں اُٹھائے چلو
 

سیما علی

لائبریرین
‏میں شہباز کراں پرواز
‏وِچ دریا کرم دے ھُو

‏زبان تاں میری کُن برابر
‏موڑاں کم قلم دے ھُو

‏افلاطون ارسطو ورگے
‏میرے اگے کِس کم دے ھُو

‏حاتم جہیے کئی لاکھ کروڑاں
‏در باھُو دے منگدے ھُو

‏{ ابیاتِ باھو : رحمتہ اللّٰه علیہ : 177 }
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی کو ایک امانت کی طرح گزارو ایک نہ ایک دن یہ اپنے مالک کو واپس کرنی ہے

‏اپنے دل میں مٹھاس ڈھونڈو ___
‏پھر آپکو ہر دل میں مٹھاس ملے گی __

‏انسان کا دل توڑنے والا شخص ___
‏ اللّٰه تعالی کی تلاش نہیں کرسکتا___

‏{ حضرت مولانا جلال الدین رومی }
‏{ رحمتہ اللّٰه علیہ }
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا ’’ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9بجے سے 12تک بلا روک ٹوک تشریف لاسکتے ہیں‘‘۔
ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی ، رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے۔ جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60-70 میل دور اس گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔

ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شرانگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے ایک جزدان اُٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا

'’حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں‘‘،
گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔ ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اُٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کردیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا ’’لو بی بی تمہارا کام ہوگیا، اب خوش رہو، بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبر دار سے کہا سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے۔ نمبر دار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
📚 *شہاب نامہ*

✍ *قدرت اللہ شہاب*
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرتا ہے" اور بس یہ سوچنا ہی کافی ہوتا ہے کہ سب اندھیروں کو پار کرتے ہوئے ۔ میں واپس لوٹ آتا ہوں ۔ ان کی بات سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ شاید ان کو یہ سوچ اس لیے اتنی تقویت بخشتی ہے کیوں کہ ان کہ پاس دنیا کی ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ایک عام انسان کو خواہش اور ضرورت ہوتی ہے۔ واقعتاً اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے ۔ تبھی تو ہر چیز سے نوازا ہے۔ پھر مجھے یہی بات رات و دن تنگ کرنے لگی کے کیا حقیقتاً اللہ ہم سے محبت نہیں کرتے ؟ کیا ہم اس کے بندے نہیں ہیں؟ان سوچوں میں اکتر اوقات مجھے ایک شعر یاد آتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائینگے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائینگے
صرف وہی ہے جو بے لوث محبت کرتا ہے ، بغیر کسی غرض کہ کرتا ہے ۔وہ رات کی تاریکی میں بھی سنتا ہے ، اور دن کے اُجالے میں بھی ہمارے ہمراہ ہوتا ہے۔ وہی ہے جو ہر وقت ہمارا مددگار ہے ۔
کاش ہم بھی تھوڑا اس محبت میں سرشار ہوجائیں ۔۔۔
آمین ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی تبدیلی سفر آسان نہیں کر سکتی، کسی قسم کی ترقی انسان کو مکمل طور پر سکون، قناعت پسند، مسرت آشنا نہیں بنا سکتی۔ جب تک اُوپر والے کا فضل نہ ہو، کچھ بھی مثبت نہیں ہتا۔
بانو قدسیہ
 

سیما علی

لائبریرین
انسان
انسان عجب مخلوق ہے خود تماشا ہے اور خود تماشائی، انسان خود ہی میلہ لگاتا ہے اور خود ہی میلہ دیکھنے نکلتا ہے ۔ ہجوم میں ہر انسان ہجوم کا حصہ ہے اور ہر انسان اپنے علاوہ انسانوں کو ہجوم کہتا ہے۔ تنہائیاں اکٹھی ہو جائیں تو میلے بن جاتے ہیں ننھے چراغ مل کر چراغاں بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top