میرے پسندیدہ اشعار

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے
کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے

آج تو جیسے ساری دنیا
ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے

تو ہے اور بے خواب دریچے
میں ہوں اور سنسان گلی ہے

خیر تجھے تو جانا ہی تھا
جان بھی تیرے ساتھ چلی ہے

اب تو آنکھ لگا لے ناصر
دیکھ تو کتنی رات گئی ہے

( ناصر کاظمی)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب تیرے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مراا نام تیرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
روز کی مسافت سے چُور ہو گے دریا
پتھروں کے سینے پر تھک کے سو گئے دریا
بجھ گئی ہیں قندیلیں خواب ہو گئے چہرے
آنکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا
 

سیما علی

لائبریرین
میں تیری آنکھوں سے اپنا وجود دیکھتی ہوں
ترے لبوں کی ہنسی بھی سنبھال رکھتی ہوں

محاذ عشق پہ قربت کی جنگ لڑتے ہوئے
میں فرقتوں کے مماثل وصال رکھتی ہوں

غنیم جان سے نگہتؔ مقابلے کے لئے
میں اپنے سامنے تیری مثال رکھتی ہوں
نگہت نسیم
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہے محبت کا سلسلہ کچھ اور
درد کچھ اور ہے دوا کچھ اور
غم کا صحرا عجیب صحرا ہے
جتنا کاٹا یہ بڑھ گیا کچھ اور
( امجد اسلام امجد)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک کہ کوئی اوجھل نہ ہو
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ، آخری سیڑھی پہ آنکھ
منزلوں کی جستجو میں، رائیگاں کوئی پل نہ ہو
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
ہر حسن سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم لوگ تو خوشبو کی طرح ہیں تیرے اطراف
ہم سادہ دلوں سے تو سیاست نہیں کرنا
میں خود کو میسر نہیں آیا ہوں ابھی تک
تم سے بھی نہ مل پاؤں تو حیرت نہیں کرنا
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میری گفتگو کے گلاب سے ہو دلوں میں ایسی شگفتگی
کوئی ایسی نکہت خاص ہو کہ مہک اٹھیں درد و بام سے
میری آرزو ہے کہ موم ہوں کبھی ان کے دل بھی میرے لئے
جنہیں بیر ہے میری ذات سے جو ہیں بدگماں میرے نام سے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں
آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش ، دعا ؤں والے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
شام ہوتے ہی یادیں اتر آتی ہیں
جیسے چڑیاں کہیں دور سے گھر آتی ہیں
روز لے جاتی ہیں اک خواب ہوائیں
اور ایک ہی شخص کی دہلیز پہ رکھ آتی ہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کسی کے ہجر کا پھر امتحان ٹوٹ پڑا
ہمارے دل پہ کوئی آسمان ٹوٹ پڑا

بس ایک لمحے کو کمزور پڑ گئے تھے ہم
اس ایک لمحے میں سارا جہان ٹوٹ پڑا

پھر اس کے بعد تھا اپنا نہ کوئی اور خیال
مرے دماغ پہ اس کا دھیان ٹوٹ پڑا

کبھی کبھی یہ بھی سننے میں آتا رہتا ہے
مکین سوئے ہوئے تھے مکان ٹوٹ پڑا

عجیب سے کوئی سائے مجھے ڈر آتے ہیں
مرے یقین پہ جب سے گمان ٹوٹ پڑا

تمہارا روٹھ کے جانا بنا کہے کچھ بھی
ہمیشہ ہم پہ اچانک ہی آن ٹوٹ پڑا

( فرحت عباس شاہ)
 
Top