میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا سبھی راحتیں سبھی کلفتیں،
کبھی صحبتیں کبھی فرقتیں کبھی دوریاں کبھی قربتیں،

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں سب ورق تری یاد کے،
کوئی لمحہ صبح وصال کا کوئی شام ہجر کی مدتیں،

جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں ڪیا،
نہ ڪسی عدو کی عداوتیں نہ ڪسی صنم کی مروتیں،

چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں،
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہل صدق کی تربتیں،

مری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کاتب وقت نے،
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں۔

فیض احمد فیض
 

سیما علی

لائبریرین
تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا
کیسے رشتے تیری خاطر یونہی توڑ آیا ہوں

کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
زندگی کا سفر کاٹنا ہے اگر
آگ پر رقص کرنے کا فن سیکھ لے
تیرا سوز دروں تجھ کو دے گا سکوں
جینا چاہے تو مرنے کا فن سیکھ لے

( مظفر وارثی)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
دل کا موسم کبھی غیروں پر عیا ں کرتے نہیں
ٹوٹ کر بکھرے مگر ضبط کی آغوش میں رہے
وہ تیرا ظرف تھا تو شعور کے پہلو میں رہا
ظرف یہ اپنا ہے ہم آج بھی خاموش رہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
گھاؤ گنتے نہ کبھی زخم شماری کرتے
عشق میں اگر ہم بھی وقت گزاری کرتے
وقت آیا ہے جدائی کا تو پھر سوچتے ہیں
تجھ کو اعصاب پر اتنا بھی نہ طاری کرتے

:heehee:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نہ دید ہے نہ سخن ، نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہء تسکین نہیں اور آس بہت ہے
امید یار ، نظر کا مزاج ، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے

:atwitsend:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بے مقصد سب لوگ مُسلسل بولتے رہتے ہیں
شہر میں دیکھو سناٹے کی دہشت کتنی ہے
لفظ تو سب کے ایک جیسے ہیں کیسے بات کھلے
دنیا داری کتنی ہے اور چاہت کتنی ہے
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
خزاں کی دھند میں لپٹے ہوئے ہیں
شجر مجبوریاں پہنے ہوئے ہیں
یہ کیسی فصل گل آئی چمن میں
پرندے خوف سے سہمے ہوئے ہیں
( امجد اسلام امجد)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفر ، ہم سفر نہیں آیا

پلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صبح کا بھولا مگر نہیں آیا

کسی چراغ نے پوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو کہ کوچہء قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا

خدا کے خوف سے جو دل لرزتے رہتے ہیں
انھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

کدھر کو جاتے ہیں رستے، یہ راز کیسے کھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِدگر نہیں آیا

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چین دل کو مرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
یہ عمر کیسے کٹے گی ، اگر نہیں آیا

( امجد اسلام امجد)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میرے لیے تو حرف دعا ہو گیا وہ شخص
سارے دکھوں کی جیسے دوا ہو گیا وہ شخص

میں آسماں پہ تھا تو زمیں کی کشش تھا وہ
اترا زمین پر تو ہوا ہو گیا وہ شخص

میں اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا کہ دفعتا
سمٹا ، سمٹ کے رنگ حنا ہو گیا وہ شخص

پھرتا ہے لے کے آنکھ کا کشکول در بدر
دل کا بھرم لٹا تو گدا ہو گیا وہ شخص

یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص

پڑھتا تھا میں نماز سمجھ کر اسے رشید
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے قضا ہو گیا وہ شخص

( رشید قیصرانی)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کس کا چہرہ دمکتا ہے میری آنکھوں میں
یہ کس کی یاد مجھے کہکشاں سے آتی ہے
عبید اللہ صدیقی
 
Top