میری دوسری غزل -

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم سخنور جی
بہت خوب
لطیف سا شکوہ و گلہ ہے ۔
یقین کامل کے ساتھ حیرانگی بھی ہے ۔
جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

یہ پاک کتاب جس نے نازل فرما کر اس کی حفاظت کرنے کاوعدہ بھی خود ہی کیا ۔
جو راہ ہدایت کے متلاشیوں کے لیے سچی رہنما ہے ۔
فلاح و ہدایت کا سر چشمہ ہے ۔
یقین کامل ہے یہ
مگر
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس کتاب کی پیروکار امت کی حالت جب نظر میں آتی ہے تو شکوہ زبان پر کہ
اے مولا یقین کامل کے ساتھ اس کتاب کو پڑھتے ہیں تو ایقاں کیوں نہیں ملتا ۔
؟؟؟؟؟؟؟؟
نایاب
 

فرخ منظور

لائبریرین
وعلیکم السلام نایاب صاحب۔
بہت شکریہ تبصرے کے لئے۔

جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

اس شعر میں میں نے یہی کہنا چاہا ہے کہ ہماری رہ نمائی کرنے والی کتاب ایک ہی ہے تو ہم فرقوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں؟
ہمارے یقین ایک کیوں نہیں ہے۔ اگر کتاب ایک ہے تو نظریات ایک کیوں نہیں؟ اختلافات کیوں ہیں؟
 
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں

جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"

اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں

جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں

بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں

مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں

جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

ماورا کردے دو جہاں سے مجھے
تیری آنکھوں میں‌ وہ شراب کہاں

یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں

کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے
میرے فرخ ابھی حساب کہاں

بہت خوب ۔ بہت خوب
 
Top