مرا مقام اگر ہوسکا نہ طے ابھی تک
مرا ہنر تو مری دسترس میں ہے ابھی تک
مرے غموں میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے
اگرچہ پیتا ہوں اشکِ رواں کی مے ابھی تک
تجھے گئے ہوئے اک عمر ہوگئی لیکن
تری مہک میں رچی ہے ہر ایک شے ابھی تک
بھلا زمانہ تھا، کہسار اور تیشہ تھے
سماعتوں میں سمائی ہوئے ہے لے ابھی تک
یہیں کہیں تھا مرا شہرِ آرزو یاسر
تلاش کرتا ہوں میں ایک ایک شے ابھی تک
علی یاسر