میرا سوال۔۔۔۔!!

نور وجدان

لائبریرین
بہت دنوں سے ایک سوال نے پریشان کر رکھا ہے ، اس سوال نے دل میں عجیب سی تڑپ پیدا کردی کہ اب میں سرِ عام دل کا حال لکھنے پر مجبور ہوں کہ کوئی تو ہو مجھے بتائے میرے ساتھ معاملہ کیا ہے اگرچہ مجھے کسی اچھے ، نیک ، معتبر اسی محفل کے شخص سے کچھ پتا چلا مگر شاید میرے سوال کی تشفی نہیں ہورہی کہ ایسا ہے کہ لگتا ہے دل پگھل کر باہر نکل آئے گا۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے روح بدن کے پیرائے سے نکلنا چاہتی ہے اور نکل نہیں پاتی ۔۔ اس جستجو میں میری روح مجھے بڑا پریشان کرتی ہے ۔۔۔ میں یہ لکھ بھی تڑپ میں رہی ہوں کہ مجھے پرواہ نہیں کون کیا کہتا اور کون کیا جواب دیتا ہے ، بس دل میں ایک آگ ہے ، میں چاہتی ہوں وہ آگ اتنی بڑھ جائے اور مجھے جلا دے اور کچھ نہیں رہے مجھ میں ۔۔ میرا مطمع نظر کیا ہے وہ میں جانتی ہوں اور مجھے منزل سے دوری محسوس ہوتی ہے۔۔رہنما کون ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔؟ یوں لگتا ہے میں منزل جس کا سوچتی ہوں مجھے مل جائے گی اور کبھی اتنی مایوسی ہوتی ہے کہ نہیں ملے گی ۔۔جب مایوس ہوتی ہیں دل بہت تڑپتا ہے ۔۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا جب سے میں نے لکھنا شروع کیا۔۔۔یہ حالت ہوگئی ۔۔ اس پر تحقیق کی میں نے ایسا کیوں ہے ۔۔۔ جواب جو پایا کہ لکھنے سے انسان تحت الشعور کے قریب ہوجاتا اور اس کے بعد لاشعور تک رسائی ہوتئ ۔۔ ایک خاص قسم کی ٹرم پڑھی جس کو سب جانتے مگر اس کے بارے میں لکھنا نہین چاہ رہی ہوں ۔۔۔۔دوسری صورت میں انسان معمول بن جاتا ک کیونکہ تحت الشعور عمر کا وہ حصہ یاد دلاتا ہے جب آپ بالغ ہو رہے ہو یا اس سے چھوٹے ہیں اور لاشعور پیدائش کے بعد کے حالات سے اور پیدائش کے بھی ۔۔۔۔۔

میری منزل کیا ہوگی ؟
میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟
یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟
میں اتنی بے چین کیوں ؟

دکھ کی تشریح تو میں نے کردی مگر تعبیر کون دے گا اور یہ تعبیر کتنی درست ہوسکتی اور میں یقین کی منزل کیسے طے کر سکتی ہوں ایک لمحے کو دل میں معصم ارادہ اور یقین کامل اور دوسرے پل یا اگلے دن کیفیت برعکس ۔۔۔ پھر اس سے اگلے دن کامل یقین۔۔۔ یہ تو وہ بات ہوئی ایک مسلمان کے دل میں دو قلب سما نہیں سکتے ۔۔یا تو یقین ہو یا بے یقینی ۔۔یہ یقینی اور بے یقینی کے بین بین کی کیفیت کیوں ؟ اس کو ختم کرکے آگے کیسے جاؤں ۔۔

محترم شاکرالقادری [USER=9336]آوازِ دوست اور تمام محفلین

اور اگر جھوٹ ہے کیفیت تو میرے اندر کا سچ کیا ہے ؟ کبھی کبھی سوال کرتی ہوں کہ مگر کوئی تو اسکو جواب دے سکے[/USER]
 
آخری تدوین:
آپ سوچتی زیادہ ہیں اور دیکھتی کم ہیں، نور بی بی۔
مکھن کو پانی سے نتھارتے ہی جائیں تو وہ مکھن نہیں رہتا، زہر بن جاتا ہے۔ دماغ کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ عمدہ سے عمدہ خیال پہ بھی ایک حد سے زیادہ دماغ سوزی کی جائے تو اس کی دمک ماند پڑنے لگتی ہے۔
اسلام ہمیں ایک روشن راہ سجھاتا ہے۔ قرآن پڑھتی جائیے۔ آپ دیکھیں گی کہ "کیا یہ سوچتے نہیں؟" کے ساتھ ساتھ "کیا یہ دیکھتے نہیں؟" کی غیرت بھی دلائی جا رہی ہے۔ مومن کا فکر کبھی محض دماغی نہیں ہوتا۔ اسے ٹھوس مشاہدے کی بنیاد بھی میسر ہوتی ہے۔ مومن دماغ کے ساتھ ساتھ آنکھ، ناک، کان، دل وغیرہ جملہ حسیات کو تلاشِ حق کا عین وسیلہ گردانتا ہے۔ ایک ماہر کاریگر کی طرح جو ہتھوڑی سے لے کر پیچ کس تک ہر آلے کو اس کے محل پر استعمال کر کے ایک عمدہ کل تیار کر دیتا ہے، مومن بھی اپنی ہر حس سے مناسب کام لیتے ہوئے رموزِ کائنات کو سمجھتا چلا جاتا ہے۔
آپ کی سوچیں جب گہری ہو کر بے کلی پیدا کرنے لگیں تو سمجھ لیجیے مکھن زیادہ دھل کر زہر بنا چاہتا ہے۔ سوچنا ترک کیجیے اور اپنے کمرے کے فرش سے لے کر ہمالہ کی چوٹیوں تک جو کچھ نظر کو فراہم ہے، اس کا مشاہدہ کیجیے۔ یہ سب مالک کی آیات ہیں۔ ان سے رہنمائی لیجیے۔ یہ قرآن کے بعد علم کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ آپ کا رب مچھر کی مثال دینے سے نہیں گھبراتا۔ آپ ہم مشاہدے کو محدود کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ یاد رکھیے، دماغ کا استعمال دماغ کا شکرانہ ہے۔ مگر باقی حسیات کا عدم استعمال بھی ان کا کفرانِ نعمت ہے۔ میں نے اس کفران کی آپ سے کہیں زیادہ کڑی سزا پائی ہے۔
آخری بات۔ لکھنے کا عمل فی نفسہ ہرگز کوئی بابرکت، روحانی، سعد یا غیرمعمولی وظیفہ نہیں۔ شاعری یا افسانہ نگاری وغیرہ بذاتِ خود ہرگز حق پرستی، حق جوئی یا راستئِ فکر کی دلیل نہیں۔ رومیؔ سے پوچھیے۔ یار لوگ تو لوہا کوٹتے کوٹتے بھی دلوں کی دنیائیں بدل دیتے ہیں۔صدر ہر جا کہ نشیند صدر است۔ دل والے جو کام کرتے ہیں وہ غیرمعمولی ہوتا ہے۔ چاہے وہ لوہاری ہی کیوں نہ ہو!
میں نے آپ کے مراسلوں پر نہ ہونے کے برابر ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ یہی سوچ کر جھجکتا تھا کہ آپ برا نہ مان جائیں۔ لیکن آج ۔۔۔ ہر چہ بادا باد!
 

متلاشی

محفلین
نور سعدیہ شیخ بہنا! کسی زمانے میں میں نے بھی ’’جستجو ‘‘ کے عنوان سے ذیل کا افسانہ لکھا تھا اس میں بھی کچھ اسی قسم کی کیفیات کو بیان کیا گیا تھا۔۔۔

جستجو!
وہ صحرا کی تپتی ریت پر دنیا و مافیہا سے بے خبر چلا جا رہا تھا …آفتاب کی تپش اپنے جوبن پر تھی …دُوردُور تک کوئی ذی روح موجودنہ تھا …دھوپ کی تمازت سے اُس کی سرخ و سفید رنگت سیاہ پڑ چکی تھی … پیاس کی شدت سے اُس کا حلق کسی ویران کنوئیں کی مانند خشک ہو چکا تھا …اُس کی ٹانگیں اس کے وجود کا ساتھ نہ دے رہیںتھیں …مگر وہ چلے جا رہا تھا … کیونکہ چلنا ہی اُس کا مقدر تھا …ہاں…وہ اَزلی مسافر تھا …وہ اک نامعلوم منزل کا راہی تھا … اسے گِرد و بیش کی کچھ خبر نہ تھی … نہ معلوم کب سے وہ اس ویرانے بھٹک رہا تھا … شاید اس کی یاداشت دنیا کی بھیڑ میں کہیں کھو گئی تھی …یا شاید بے نام منزل کی جستجو نے اُسے دیوانہ بنا دیا تھا … ہاں …شاید وہ دیوانہ ہی تھا … نامعلوم منزل کی لگن میں پھرنے والا …جسے اپنے آپ کی بھی کچھ خبر نہ ہو… تو لوگ ایسے شخص کو دیوانہ ہی تو کہتے ہیں … وہ اس عالم دیوانگی میں نہ جانے کہاں کہاں سے گزرا تھا …اور نہ جانے کتنی مسافتیں ابھی اس کی راہ میں حائل تھیں …مگر اُسے کسی چیز کی پروا نہ تھی … اُسے تو بس منزل پر پہنچنے کی لگن تھی… اک نامعلوم منزل کی لگن …!
وہ چل رہا تھا …مگراُس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے … بالآخر اس کی قوت صحرا کی وسعتوں کے سامنے بے بس ہو گئی …وہ نڈھال سا ہو کر بیٹھ گیا …اس کی منزل ابھی بہت دُور تھی … بہت دُور …! شاید میں اپنی منزل کو نہ پاسکوں …! وہ سوچنے لگا …دنیا میں بے شمار انسان بستے ہیں …سب اپنی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں …وہ بہت خوش قسمت ہیں … انہیں کوئی فکر ہے نہ غم …کتنی پرسکون اور پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں … اک میں ہی وہ بد نصیب ہوں جسے اس بھری پری دنیا میں چین نہ ملا … ہاں …شاید میری قسمت ہی کھوٹی تھی …جو نا معلوم منزلوں کی جستجو میں چل نکلا …مگر میں کیا کرتا…؟ میری روح بے چین تھی … مجھے سکون درکار تھا … مگر لوگ بھی تو پر سکون زندگی گزارتے ہیں … و ہ کتنے آرام سے رہتے ہیں … بڑے بڑے بنگلے ، لمبی لمبی کاریں ،فیکٹریاں ، بینک بیلنس … ان کے پاس سب کچھ ہے …وہ آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں … پھر مجھے سکون کیوں نہ ملا…؟ میرے پاس بھی تو یہ سب کچھ تھا … مگر میں بے کُل تھا …بے قرار تھا … بے چین تھا …کوئی ہے جو مجھے دائمی سکون کا راز بتا دے … مگر کوئی نہیں … ہاں … کوئی نہیں …! شاید میں اس دنیا میں اکیلا ہوں … کوئی میرا ہم نوا نہیں … کوئی میرا دوست نہیں … کوئی میرا ہمددر نہیں … کوئی نہیں جو میرے درد کا ساماں کرے … کو ئی نہیں جو میرے احساسات کو سمجھ سکے … کوئی نہیں جو میرے خیالات کا ادراک کر سکے … ہاں … میں اکیلا ہوں … اس بھری پری دنیا میں اکیلا … کوئی میرا ہم سفر نہیں … کوئی نہیں جو مجھے میری منزل تک پہنچائے … مجھے میری منزل تک کون پہنچائے گا …؟ مگر کوئی پہنچا بھی کیسے سکتا ہے …! کیوں کہ میں تو اک نامعلوم منزل کا راہی ہوں … اک ان دیکھی منزل کا مسافر … ! مگر میں اپنی منزل پر پہنچوں گا … ہاں … مجھے یقین ہے میں اپنی منزل پر ضرور پہنچوں گا … کوئی میرا ہم سفر نہیں تو کیا ہوا…کوئی میرا ہمدرد نہیں تو کیا ہوا …! میری لگن … میرا جذبہ … میری تڑپ … اور میری جستجو ہی مجھے میری منزل تک پہنچائے گی …!
اس سوچ نے اس کے اندر اک نئی طاقت بھر دی …وہ اک نئے عزم…نئے جذبے …کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہوا …اور چلنے لگا …چلتے چلتے اسے دور ریت میں چمکتی ہوئی کوئی چیز نظر آئی … شاید وہ پانی ہے … اُس نے سوچا … اس کے قدم تیزی سے اس طرف بڑھنے لگے …پانی دیکھتے ہی اُس کی پیاس بھڑک اُٹھی تھی … وہ جلد از جلد وہاں تک پہنچ جانا چاہتا تھا … مگر جوں جوں آگے بڑھتا … پانی دور سے دور ہوتا چلا جاتا…تب اُسے پتہ چلا کہ وہ پانی نہیں تھا … وہ تو نظر کا دھوکہ تھا … وہ تو محض اک سراب تھا … تیز تیز چلنے کے بعد وہ تھک چکا تھا … پانی دیکھتے ہی جو قوت اُس کے اندر اُبھری تھی وہ ماند پڑ چکی تھی … وہ نڈھال سا ہو کربیٹھ گیا …اس حالت میں بھی اس کا ذہن مصروف تھا … وہ کچھ سوچ رہا تھا … یہ دنیا بھی تو دھوکے کا اک گھر ہے … یہ بھی تو محض اک سراب ہے … جب انسان دنیا میں ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے اس کے پاس بہت کچھ ہے … اُس کے پاس مکان ہے … دکان ہے … رقم ہے … اس کے پاس محبت کرنے والی بیوی اور فرماں بردار اولاد ہے … اُس کے دوست ہیں … اُس کے رشتہ دار ہیں … وہ سب اس کے اپنے ہیں … وہ سب اُس کے پیارے ہیں … وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ سب اُس کا اپنا ہے … مگر جب اس دنیا میں اس کی سانسیں پوری ہو چکتی ہیں … جب وہ اس عالمِ فانی سے دارِ آخرت کی طرف کوچ کرتا ہے … توا ُس کے اپنے ہی اُسے منوں مٹی کے نیچے اکیلا دفن کر آتے ہیں … کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں رہتا … سب اسے چھوڑ آتے ہیں … پھر چند دن کے سوگ کے بعد… وہ اُسے اس طرح بھول جاتے ہیں… جیسے وہ اس دنیا میں آیا ہی نہ تھا …! تب جا کر انسان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ یہ دنیا بھی اک فریب خانہ ہے … یہ دھوکے کا گھر ہے … یہ بھی محض اک سراب ہے … اس کی کچھ حقیقت نہیں … اس میں کوئی کسی کا نہیں … سب اپنی اپنی راہ پر چل رہے ہیں … ہاں … یہ دنیا اک راہ گزر ہے … اس
میں بسنے والے سب مسافر ہیں … سب راہی ہیں … !
تھوڑی دیر سستانے کے بعد وہ چل پڑا … کیونکہ کہ اُسے ہر صورت اپنی گمنام منزل پر پہنچنا تھا … دن ڈھل رہا تھا …سورج کی تماز ت کم پڑ رہی تھی … وہ چلے جا رہا تھا… مگر صحرا تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا … یوں لگتا تھا جیسے وہ ساری عمر اس صحرامیں بھٹکنے میں گزار دے گا … اور یہ وسیع و عریض صحرا ہی اس کا مدفن بنے گا … وہ چلتا رہا …بالآخر وہ اک ٹیلے کے قریب پہنچا … اور بیٹھ گیا … وہ بہت تھک چکا تھا … اب اس کے پاؤں میں مزید چلنے کی سکت باقی نہ رہی تھی … شام ہونے کو تھی … وہ سورج کو دیکھنے لگا … جو رفتہ رفتہ دور افق میں غائب ہو رہا تھا …اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا … دفعتاً ایک خیا ل اس کے ذہن میں کوندا … کیا میں بھی سورج کی طرح غروب ہو جاؤں گا…؟ یا اپنی منزل کو حاصل کر لوں گا … سورج …! آگ کا اتنا بڑا گولا … جو سارا دن روشنی دیتا ہے … اور پھر بالآخر غروب ہو جاتا ہے …شاید میری زندگی کا ٹمٹاتا چراغ بھی سورج کی طرح بجھنے کو ہے … وہ سوچ رہا تھا … کیا واقعی سورج بھی غروب ہوجاتا ہے …؟ اس کے ذہن میں اک سوال ابھرا …لوگ تو یہی کہتے ہیں … مگر جب یہ اک خطہ ٔ ارض پر بسنے والوں کی نظر سے غائب ہوتا ہے … تو وہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہو گیا … مگر وہی سورج اُسی وقت کسی دوسرے خطہ ٔ ارض پر طلوع ہو رہا ہوتا ہے… اور کسی اور خطہ ٔ ارض پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہوتا ہے … اس کی سوچ کا سلسلہ جاری تھا … تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل میں سورج غروب نہیں ہوتا … بلکہ زمین کا وہ حصہ جہاں شام ہوتی ہے …وہ حرکت کرتے کرتے سورج کے سامنے سے ہٹ جاتا … سورج تو ازل سے چل رہا ہے … اس کا کام تو چلنا ہے … وہ سوچ رہا تھا … کیا سورج بھی میری طرح اک مسافر ہے …؟ اک راہی ہے …؟ کیا اسے بھی کسی کی تلاش ہے …؟ کیا وہ بھی کسی کی جستجو میں پھر رہا ہے …؟ وہ سوچ رہا تھا … رات ڈھل رہی تھی … پھر آسمان پر سیاہ بادلوں کی اوٹ سے چاند نے چپکے سے اپنا سر باہر نکالا …تو اس کی سوچ کا رُخ آفتاب سے ماہتاب کی طرف مڑ گیا …اس نے سوچا… یہ ماہتاب بھی تو آفتاب کی طرح اک مسافرہی ہے … یہ بھی تو ازل سے کسی کی تلاش میں سر گرداں ہے … ؟ ہاں … شاید یہ چاند… سورج … ستارے …یہ سب کے سب مسافر ہیں … یہ بھی میری طرح اپنی اپنی منزل کی طرف از ل سے چل رہے ہیں … ہاں … اب میں اکیلا نہیں ہوں … یہ آفتاب … یہ ماہتاب … اور یہ ستارے … سب کے سب میرے ہمراہی ہیں … یہ سب میرے ہم سفر ہیں … اب میں اکیلا نہیں ہوں … ہاں … اب میں اکیلا نہیں ہوں … !
وہ انہی سوچوں میں مگن تھا … نیند اس سے کوسوں دور تھی … وہ سونا چاہتا تھا … وہ آرام کرنا چاہتا تھا … مگر شاید نیند اس سے رُوٹھ گئی تھی … اس کا ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا … سو چتا سوچتا وہ اپنے ماضی میں کھو گیا … !
جب سے اُس نے لڑکپن کے بعد شعور کی منزل پر قدم رکھا تھا … اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ اک عجیب صورتحال سے دوچار تھا … اُسے اپنی زندگی میں کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی تھی … اُس کے پاس سب کچھ تھا … حد سے زیادہ مہربان والدین … بہت زیادہ محبت کرنے والے بھائی بہن … اچھے دوست …مگر زندگی کی حقیقی خوشی سے وہ محروم تھا … شاید وہ اک احساسِ محرومی تھا… جس نے اس کی زندگی سے سکون چھین لیا تھا … وہ بہت اداس تھا … اس کی زندگی ادھوری تھی … اُس کی آنکھوں میں ہر وقت ویرانیاں سی چھائی رہتی تھیں … اس کا چہرہ ہر وقت مرجھائی ہوئی کلی کی مانند ہو تا تھا … اسے کوئی خوشی … خوشی محسوس نہ ہوتی … خوشی کے ان لمحات میں اگروہ مسکرا بھی لیتا …تو اس کی مسکراہٹ بھی اک غم زدہ مسکراہٹ ہوتی … اسے حقیقی خوشی حاصل نہ تھی … شاید دنیا میں دائمی خوشی کا حصول نا ممکن ہے … اُس کی روح بے چین تھی … وہ مضطرب تھا … اُسے سکون چاہیے تھا … اُسے سکھ درکار تھا … مگر اُس کی روح کو تسکین نہ ملتی … اس کی زندگی میں شاید کسی چیز کی کمی تھی … مگر اُسے اس چیز کے بارے میں معلوم ہی نہ تھا … اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کی زندگی ادھوری ہے … مگراس ادھورے پن کا سبب اسے معلوم نہ تھا… وہ اک عجیب صورتحال سے دوچار تھا … اُس کے دوست اُسے کہتے تھے کہ … شاید اُسے کسی سے محبت ہو گئی ہے … ایک لمحہ کے لئے وہ سوچتا … مگر پھر وہ خود ہی اس خیال کو رَد کر دیتا … کیونکہ اُس کے ذہن میں کوئی نام نہ تھا … کوئی ایسا چہرہ نہ تھا …جسے وہ اپنی محبت کہتا … جسے وہ اپنی منزل ٹھہراتا … جسے وہ اپنی جستجو کا سبب سمجھتا … پھر … وہ بے چین کیوں تھا … ؟ بے سکون کیوں تھا …؟ کوئی ہے …؟ جو اُسے اُس کی بے چینی کا سبب بتلائے … کوئی ہے جو اُسے سکون دے سکے … ؟کوئی ہے جو اس کے احساسات کو سمجھ سکے …؟ کوئی ہے جو اس کی زندگی میں حقیقی خوشی بھر دے …؟ کوئی ہے …؟ کوئی ہے …؟ مگر … کوئی نہیں … یہ دنیا اک صحرا ہے … جس میں وہ اکیلا بھٹک رہا ہے … بظاہر تو وہ اس بھری پُری دنیا میں رہ رہا ہے … مگر یہ دنیا اُس کے لئے اک صحرا کی مانند ہے … جس میں کوئی اس کا اپنا نہیں … کوئی اس کا دوست نہیں … کوئی اس کا ہمدرد نہیں … کوئی اس کا ہم سفر نہیں … کوئی اس کا ہم نوا نہیں … کوئی اس کا ہم مزاج نہیں … کوئی اس کا غمخوار نہیں … وہ … وہ اکیلا ہی اس بھری پُری دنیا کے ویرانے میں بھٹک رہا ہے … مگر اس کا حوصلہ پختہ ہے … اس کا جذبہ جوان ہے … اس کی لگن سچی ہے … اس کی تڑپ کامل ہے … اس کا شوق ، اس کا ذوق دیدنی ہے … اُس جستجو اُس کی امنگوں کی گواہ ہے … اس کی یہی سوچ … اس کا یہی جذبہ…اس کا یہی شوق … اس کا یہی ذوق …اس کی یہی لگن … اس کی یہی تڑپ … اس کا یہی ولولہ … اس کی یہی امنگیں … اس کی یہ کوششیں … اس کی یہی کسک… اس کی یہی تلاش … اور اس کی یہی جستجو … ہی اُسے اُس کی منزل تک پہنچائے گی … وہ اپنی منزل تک ضرور پہنچے گا … یہ اُس کا ایمان ہے…یہ اُس کا یقین ہے … اور یہی اس کا مقصدِ حیات ہے … یہی اس کی منزل مرُادہے … اور یہی اس کی جستجو کا حاصل ہے … ہاں …یہی ہے اس کا حاصلِ جستجو … !
بتحریر… متلاشی…لاہور
22-06-2010
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ سوچتی زیادہ ہیں اور دیکھتی کم ہیں، نور بی بی۔
مکھن کو پانی سے نتھارتے ہی جائیں تو وہ مکھن نہیں رہتا، زہر بن جاتا ہے۔ دماغ کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ عمدہ سے عمدہ خیال پہ بھی ایک حد سے زیادہ دماغ سوزی کی جائے تو اس کی دمک ماند پڑنے لگتی ہے۔
اسلام ہمیں ایک روشن راہ سجھاتا ہے۔ قرآن پڑھتی جائیے۔ آپ دیکھیں گی کہ "کیا یہ سوچتے نہیں؟" کے ساتھ ساتھ "کیا یہ دیکھتے نہیں؟" کی غیرت بھی دلائی جا رہی ہے۔ مومن کا فکر کبھی محض دماغی نہیں ہوتا۔ اسے ٹھوس مشاہدے کی بنیاد بھی میسر ہوتی ہے۔ مومن دماغ کے ساتھ ساتھ آنکھ، ناک، کان، دل وغیرہ جملہ حسیات کو تلاشِ حق کا عین وسیلہ گردانتا ہے۔ ایک ماہر کاریگر کی طرح جو ہتھوڑی سے لے کر پیچ کس تک ہر آلے کو اس کے محل پر استعمال کر کے ایک عمدہ کل تیار کر دیتا ہے، مومن بھی اپنی ہر حس سے مناسب کام لیتے ہوئے رموزِ کائنات کو سمجھتا چلا جاتا ہے۔
آپ کی سوچیں جب گہری ہو کر بے کلی پیدا کرنے لگیں تو سمجھ لیجیے مکھن زیادہ دھل کر زہر بنا چاہتا ہے۔ سوچنا ترک کیجیے اور اپنے کمرے کے فرش سے لے کر ہمالہ کی چوٹیوں تک جو کچھ نظر کو فراہم ہے، اس کا مشاہدہ کیجیے۔ یہ سب مالک کی آیات ہیں۔ ان سے رہنمائی لیجیے۔ یہ قرآن کے بعد علم کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ آپ کا رب مچھر کی مثال دینے سے نہیں گھبراتا۔ آپ ہم مشاہدے کو محدود کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ یاد رکھیے، دماغ کا استعمال دماغ کا شکرانہ ہے۔ مگر باقی حسیات کا عدم استعمال بھی ان کا کفرانِ نعمت ہے۔ میں نے اس کفران کی آپ سے کہیں زیادہ کڑی سزا پائی ہے۔
آخری بات۔ لکھنے کا عمل فی نفسہ ہرگز کوئی بابرکت، روحانی، سعد یا غیرمعمولی وظیفہ نہیں۔ شاعری یا افسانہ نگاری وغیرہ بذاتِ خود ہرگز حق پرستی، حق جوئی یا راستئِ فکر کی دلیل نہیں۔ رومیؔ سے پوچھیے۔ یار لوگ تو لوہا کوٹتے کوٹتے بھی دلوں کی دنیائیں بدل دیتے ہیں۔صدر ہر جا کہ نشیند صدر است۔ دل والے جو کام کرتے ہیں وہ غیرمعمولی ہوتا ہے۔ چاہے وہ لوہاری ہی کیوں نہ ہو!
میں نے آپ کے مراسلوں پر نہ ہونے کے برابر ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ یہی سوچ کر جھجکتا تھا کہ آپ برا نہ مان جائیں۔ لیکن آج ۔۔۔ ہر چہ بادا باد!

ایک بات کہوں ،آپ کو ہر اُس مراسلے پر جہاں آپ کا دل چاہ رہا تھا ، ضرور تبصرہ دے کر رہنمائی کرنی چاہیے تھی ۔۔۔یہاں آپ نے میری رہنمائی کی مگر سوال کا جواب تشنہ ہے۔۔

آپ نے لوہا کاٹنے کی مثال دے ۔۔۔بالکل اسی طرح جب شیخ عبدالقادر جیلانی کے سلسلہ میں کوئی صاحب تھے وعظ دیتے ہوئے ظاہری علم کا سہارا لیا متاثر نہ کرسکے مگر وہ آئے اور ایک بلی کا واقعہ سنایا ۔۔اور لوگوں کی دنیا کیا بدلی بلکہ ان میں سے کئی اس بات پر نعرہ حق کہتے کہتے آخری منزل کی طرف چلے گئے۔۔ سوال تو یہ ہوا کہ بصارت کو کیسے حاصل کروں جس کے بعد انسان آتا ہے'' افلا یتدبروں '' پر ۔۔میری تخییل کی قوت کمزور ہے ۔۔۔ اس پر تبصرہ کرکے بتائیں ۔۔ جہاں رہنمائی کی اور کیجیے

انسان کے حواس دو طرح سے کام کرتے ہیں : ایک مشاہدہ اور دوسرا قوت متخیلہ ۔۔۔۔۔مشاہدہ کیا اور دیکھا اور غور کیا۔۔۔ کہ پہلے حواس سے دیکھو۔۔۔ اور پھر غور کرو۔۔۔۔ مجھے آپ کی حواس کی بات نے متاثر کیا ۔۔ایک کمزوری ہے وہ قوت متخیلہ کی کمی ۔۔۔ میں کسی چیز کا تصور نہیں کرنا چاہوں یا سوچ کو تصور کے عکس میں ڈھالوں ۔۔یعنی باہر سے دیکھا ۔۔۔(حواس) پھر سوچا اور پھرتخییل( دیکھا) یہ والا دیکھنا مجھ سے نہیں ہو پارہا ہے۔۔۔ یہی دیکھنا ہم کو اس راستے پر چلاتا ہے جہاں منزل کے راستے اور سمت کا تعین ہوتا ہے مگر جب منزل سے آگاہی اور منزل پا نہیں سکو تو حال کیا ہوگا؟ یہی اضطرابی اور بے چینی ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
آپ توحید کا ازسرنو مطالعہ کیجیے، نئی نظر سے اور گرہیں کھل جائیں گی ان شاءاللہ۔

مشورہ اچھا ہے ، صائب ہے مگر درست کہوں تو مجھے اوپر والے تبصرے سے 100 فیصد اتفاق ہے ۔۔مطالعہ کرکے دماغ خشک کرلیا مگر حسیات سے کام ہی نہیں لیا۔۔میں اس کو ازنوسر حسیات کے بل بوتے پر کوشش کرتی ہوں ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ سوچ کو حسیات سے کس طرح ملاؤں
 

محمدظہیر

محفلین
آپ کے اندر کچھ پانے یا حاصل کرنے کی خواہش ہے۔یہ خواہش تقریباً ہر شخص کے پاس ہوتی ہے۔لیکن آپ میں خواہش کے علاوہ تڑپ اور جستجو بھی محسوس ہوتی ہے۔ جسے انگریزی میں برننگ ڈیزائر کہتے ہیں۔
آپ اپنی دل کی کیفیات کو دوسروں تک تحریر کے ذریعے آسانی سے پہنچا سکتی ہیں۔

آپ کے سوالات

میری منزل کیا ہوگی ؟
آپ اپنے فیصلے اور عمل سے خود معلوم کرلیں گے

میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟
یہ آپ کے فیصلوں اور اس پر کی گئی مسلسل محنتوں پر منحصر ہے

یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟
منفی پہلوؤں کو سوچتے رہنے سے

میں اتنی بے چین کیوں؟
مجھے نہیں معلوم : )

آپ انڈپنڈنٹ رہیں۔خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر مزید نکھاریں اور کمزوریوں کو پہچان کر اسے بھی صلاحیتوں میں تبدیل کیجیے۔ لوگ چاہے جتنی حوصلہ شکنی کرتے رہیں اگر آپ کو لگتا ہے آپ جو کر رہی ہیں ٹھیک ہے تو جو کرنا اچھا لگتا ہے کیجیے اور اپنی منزل کو حاصل کیے بغیر نہ چھوڑیے۔ آل دی بیسٹ
 

نور وجدان

لائبریرین
متلاشی بھیا!

آپ کا افسانہ خوب ہے۔۔قدم قدم پر لگا میرا دل اس پر گواہی دے رہا مگر آخر میں یقین ہے میرے پاس یقین نہیں ہے منزل کا۔۔منزل کیا ہے۔۔۔۔۔۔آپ بھی جانتے میں بھی جانتے مگر اس کو پانا ۔۔۔چاہے جان جائے ، چاہے روح نکلے ، پانا ہے ، مگر وہی بات خالص جذبہ کارگر نہیں ۔۔ خود کو صنعت بنانے کے لیے کیمیا گر کی ضرورت ہوتی ہے یا کیمیا گری کی ۔۔انسان اتنا اچھا ہوتا ہے کہ خود کو صنعت بنا دے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ کے اندر کچھ پانے یا حاصل کرنے کی خواہش ہے۔یہ خواہش تقریباً ہر شخص کے پاس ہوتی ہے۔لیکن آپ میں خواہش کے علاوہ تڑپ اور جستجو بھی محسوس ہوتی ہے۔ جسے انگریزی میں برننگ ڈیزائر کہتے ہیں۔
آپ اپنی دل کی کیفیات کو دوسروں تک تحریر کے ذریعے آسانی سے پہنچا سکتی ہیں۔

آپ کے سوالات

میری منزل کیا ہوگی ؟
آپ اپنے فیصلے اور عمل سے خود معلوم کرلیں گے

میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟
یہ آپ کے فیصلوں اور اس پر کی گئی مسلسل محنتوں پر منحصر ہے

یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟
منفی پہلوؤں کو سوچتے رہنے سے

میں اتنی بے چین کیوں؟
مجھے نہیں معلوم : )

آپ انڈپنڈنٹ رہیں۔خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر مزید نکھاریں اور کمزوریوں کو پہچان کر اسے بھی صلاحیتوں میں تبدیل کیجیے۔ لوگ چاہے جتنی حوصلہ شکنی کرتے رہیں اگر آپ کو لگتا ہے آپ جو کر رہی ہیں ٹھیک ہے تو جو کرنا اچھا لگتا ہے کیجیے اور اپنی منزل کو حاصل کیے بغیر نہ چھوڑیے۔ آل دی بیسٹ

آپ کا شکریہ! آپ تک بات پہنچی اور آپ نے جواب دیا! اس سے بڑھ کر پڑھنے کے بعد جواب دیا ! شکریہ !


انسان کی یہ سوچ وہ خود پر انحصار کرسکتا ہے ، جب کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے ، اس کو خدائی کی طرف لے جاتی ہے ۔۔! ہم نے سوچا تھا کہ ہم بھی خود پر انحصار کرتے ہیں وہی ہوا۔۔ہم خدا تھوڑی ہیں!!! مجھے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی پرواہ ہوتی تو یہاں پر پوسٹ کرتی ہی کچھ نا!!!

بے شک انسان جس کی کوشش کرتا ہے ، اس کو وہی ملتا ہے ۔۔۔میں تو کررہی ہوں کوشش ۔۔مگر اس کوشش میں خود مختاری انسان کس حد تک حاصل کرسکتا ہے؟ انسان کے ساتھ جڑے ہیں رشتے ! انسان جو بڑا بے بس و لاچار ہے ، جب پہاڑ پر چڑھتا ہے تو گرتا ہے اور گرتا ہے تو کھائی میں گرتا ہے ، جب راستہ بناتا ہے ، سیڑھیاں ، اور سیڑھیاں بنانا اس کی بصارت ۔۔ ایک نئی ایجاد ، ایک دریافت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے انسان علم سے استفادہ حاصل کرتا ہے ، اپنے تجربے ، سے حواس سے حاصل کردہ علم اور دوسرا کتابوں کا علم ۔۔۔میرے لیے کتابوں سے زیادہ اب تجربے کا علم مجھے فائدہ دے سکتا ہے ِ؟ وہی کہ دیکھوں اور سوچوں ، دیکھوں اور کروں ، اس کے بعد اس کو خود نوشت کروں ۔۔ ایک عجیب سے بے کلی ہے جو یہ لکھنے پر مجبور کر رہی ہے ۔
 

محمدظہیر

محفلین
آپ کا شکریہ! آپ تک بات پہنچی اور آپ نے جواب دیا! اس سے بڑھ کر پڑھنے کے بعد جواب دیا ! شکریہ !


انسان کی یہ سوچ وہ خود پر انحصار کرسکتا ہے ، جب کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے ، اس کو خدائی کی طرف لے جاتی ہے ۔۔! ہم نے سوچا تھا کہ ہم بھی خود پر انحصار کرتے ہیں وہی ہوا۔۔ہم خدا تھوڑی ہیں!!! مجھے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی پرواہ ہوتی تو یہاں پر پوسٹ کرتی ہی کچھ نا!!!

بے شک انسان جس کی کوشش کرتا ہے ، اس کو وہی ملتا ہے ۔۔۔میں تو کررہی ہوں کوشش ۔۔مگر اس کوشش میں خود مختاری انسان کس حد تک حاصل کرسکتا ہے؟ انسان کے ساتھ جڑے ہیں رشتے ! انسان جو بڑا بے بس و لاچار ہے ، جب پہاڑ پر چڑھتا ہے تو گرتا ہے اور گرتا ہے تو کھائی میں گرتا ہے ، جب راستہ بناتا ہے ، سیڑھیاں ، اور سیڑھیاں بنانا اس کی بصارت ۔۔ ایک نئی ایجاد ، ایک دریافت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے انسان علم سے استفادہ حاصل کرتا ہے ، اپنے تجربے ، سے حواس سے حاصل کردہ علم اور دوسرا کتابوں کا علم ۔۔۔میرے لیے کتابوں سے زیادہ اب تجربے کا علم مجھے فائدہ دے سکتا ہے ِ؟ وہی کہ دیکھوں اور سوچوں ، دیکھوں اور کروں ، اس کے بعد اس کو خود نوشت کروں ۔۔ ایک عجیب سے بے کلی ہے جو یہ لکھنے پر مجبور کر رہی ہے ۔
جب آپ منزل کو پانے کے راستے میں ہوں گی اس وقت کی حوصلہ شکنی کی بات کر رہا ہوں میں۔ آپ یہاں لکھنے کو ہی منزل سمجھتی ہیں تو الگ بات ہے : ) دوسری بات آپ نے رشتوں کے تعلق سے کی۔ صرف پانچ فیصد لوگ سب رشتوں کو نبھا کر اور ہر قسم کی مشکلوں کو پار کر کے اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اگر آپ بھی ان پانچ فیصد لوگوں میں سے ہیں تو ہر قسم کے عذر اپنے آپ کو پیش کرنے سے اجتناب کریں گی۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جب آپ منزل کو پانے کے راستے میں ہوں گی اس وقت کی حوصلہ شکنی کی بات کر رہا ہوں میں۔ آپ یہاں لکھنے کو ہی منزل سمجھتی ہیں تو الگ بات ہے : ) دوسری بات آپ نے رشتوں کے تعلق سے کی۔ صرف پانچ فیصد لوگ سب رشتوں کو نبھا کر اور ہر قسم کی مشکلوں کو پار کر کے اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔ اگر آپ بھی ان پانچ فیصد لوگوں میں سے ہیں تو ہر قسم کے عذر اپنے آپ کو پیش کرنے سے اجتناب کریں گی۔

یہ ایک مثال دی تھی لکھنے کی۔۔۔ جانتی ہوں جس راستے پر چلنا پڑتا ہے اُس راہ میں رکاوٹیں حوصلہ بڑھا بھی سکتی ہیں اور گرا بھی سکتی ہیں۔۔۔ یعنی اپنا منفی پوٹیینشل مثبت قوت میں بھر دیجئے اور دیکھئے منزل آپ کو عظمت کو سلام کرے گی ۔۔۔

میں نے خود سوچا چاند کے پاس جانا ہے ۔میری منزل ہے مگر کیسے جانا ہے ؟ کیا کرنا ہے ؟ عذر تو وہ پیش کرتا ہے جس کا ارادہ قوی نہ ہوں ۔ جس کا حوصلہ جوان نہ ہوں ۔۔۔ عذر کی بات نہیں۔۔۔ جاؤں کیسے ِ ؟ کیسے ؟ کیسے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک مثال ہے ۔۔۔ اس میں بصارت نکالیں۔۔ ''اپنے کپڑے صاف رکھو '' میں قران پاک کی ایک آیت پڑھ رہی تھی سوچا اس کو پیش کروں کہ میرے مسئلے کا حل نکلے ۔

کپڑے کو میں نے محسوس کیا ہے ۔۔۔یہ جو سوچا میں نے محسوس کرکے ۔۔کیا یہ صرف سوچ ہے یا میری حسیات بھی اس میں داخل ہیں۔۔۔
1۔ خاکی جسد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پاک تو روح پاک کرنا ہے ، ظاہر صاف تو باطن صاف
2۔ انسانی سوچ کا ہالہ۔۔۔دماغ کی پراگندگی۔۔نفس کی پاکی ، شیطان سے پاکی
3۔ زمین کی مٹی ۔۔۔ خاکی لوگ۔۔۔ان کو بچاؤ آگ سے
4۔ زمین پر ہوا کا کور۔۔،جن ،ان کو راہ راست پر لاؤؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی طرف لاؤ
5۔بصیرت ،، تاکہ بصارت اچھی ہو۔۔کیمیا گر بننے کی نصیحت ۔۔۔عشق کا عین یعنی معراج پا سکو۔۔
6۔ ''سونگھو ''یا پھونک پھونک کر قدم رکھو یعنی تقوی۔۔۔اللہ سے ڈر ۔۔خشیت
7۔میں سنوں۔۔۔ میں تو وہ سن سکتی نہیں جو انسانی روح سننا چاہتی ہے۔۔وہ میٹھا سر، محبت کا نغمہ جو ختم کردے نفرت کے نغمے کو۔۔ میں کیسے اپنی سماعت کو غیبت ، چغل خوری سے پاک رکھو۔۔میرا نفس۔آہ ،،کیسے بنائے گا ایک سرمدی نغمہ ۔۔


یعنی صفائی نصف ایمان ہے

کپڑے صاف رکھنے کا تدبر کیا ہوگا۔۔؟ اگر اس میں حسیات کا عمل دخل ۔۔

سب سے پہلے تو بصارت آئے گی کہ یہاں سے بنتی ہے بصیرت ۔۔۔۔میں اپنی نگاہ پاک رکھوں ۔۔۔ کیسے ِ؟ برا نہ دیکھوں یا برا دیکھ کر اس کو اچھا کروں۔۔۔ برا نہ دیکھنا حیا ہے مگر'' برا'' دیکھ کر اس کو اچھائی کی طرف لانا تدبر ہے ۔۔۔ابھی تو میں ''برا ''دیکھنے سے ڈرتی ہوں ۔۔ تو تدبر کیا خاک کروں گی!!!
 
آخری تدوین:

محمدظہیر

محفلین
یہ ایک مثال دی تھی لکھنے کی۔۔۔ جانتی ہوں جس راستے پر چلنا پڑتا ہے اُس راہ میں رکاوٹیں حوصلہ بڑھا بھی سکتی ہیں اور گرا بھی سکتی ہیں۔۔۔ یعنی اپنا منفی پوٹیینشل مثبت قوت میں بھر دیجئے اور دیکھئے منزل آپ کو عظمت کو سلام کرے گی ۔۔۔

میں نے خود سوچا چاند کے پاس جانا ہے ۔میری منزل ہے مگر کیسے جانا ہے ؟ کیا کرنا ہے ؟ عذر تو وہ پیش کرتا ہے جس کا ارادہ قوی نہ ہوں ۔ جس کا حوصلہ جوان نہ ہوں ۔۔۔ عذر کی بات نہیں۔۔۔ جاؤں کیسے ِ ؟ کیسے ؟ کیسے ؟
آپ بالکل صحیح فرما رہی ہیں۔
واقعی آپ کا ارادہ چاند پر جانا ہے تو آپ ان لوگوں سے رابطہ فرمائیں جنہیں اس بارے میں معلوم ہے۔ وہ صحیح راستہ بتائیں گے۔ میں نے پڑھا تھا قرآن میں ہے اگر تمہیں کسی بات کا علم نہیں ہے تو ان لوگوں سے پوچھو جو اس کا علم رکھتے ہیں۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ بالکل صحیح فرما رہی ہیں۔
واقعی آپ کا ارادہ چاند پر جانا ہے تو آپ ان لوگوں سے رابطہ فرمائیں جنہیں اس بارے میں معلوم ہے۔ وہ صحیح راستہ بتائیں گے۔ میں نے پڑھا تھا قرآن میں ہے اگر تمہیں کسی بات کا علم نہیں ہے تو ان لوگوں سے پوچھو جو اس کا علم رکھتے ہیں۔​
اس وجہ سے پریشان ہوں ، بے کل ہوں ۔۔کہیں میں پیچھے نہ رہ جاؤں اور میری ندامت کے اشک کام نہ دیں میرے لفظ مجھے رُسوا کردیں کہ میں نے عمل کا ارادہ کیا مگر منزل پا نہ سکی ۔۔ انسان لکھتا تب جب اندر آگ لگتی ہے اور اس آگ کی تپش نے اندر صحرا کردیا ہے مگر عجب بات ہے دل کی زمین بنجر نہیں لگتی ۔۔ میں یہ نہیں کہ سکتی دل کی زمین بنجر ہے مگر یہ بھی نہیں کہ سکتی سب کچھ ہرا ہرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون جانے گا اس درد کو ۔۔۔۔۔کون!
 

نکتہ ور

محفلین
مشورہ اچھا ہے ، صائب ہے مگر درست کہوں تو مجھے اوپر والے تبصرے سے 100 فیصد اتفاق ہے ۔۔مطالعہ کرکے دماغ خشک کرلیا مگر حسیات سے کام ہی نہیں لیا۔۔میں اس کو ازنوسر حسیات کے بل بوتے پر کوشش کرتی ہوں ۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ سوچ کو حسیات سے کس طرح ملاؤں
محنت اتنی کریں جتنی قوت ہے۔
فرمان الہی ہے " فاتقوا الله ما استطعتم " سورہ التغابن 16
ازسر نو سے میری مراد یہ تھی کہ توحید کا مطالعہ کرنے سے پہلے سب سوچیں ذہن سے نکال دیں تاکہ پرسکون ہو کر مطالعہ کر سکیں۔
یہ ایک مثال دی تھی لکھنے کی۔۔۔ جانتی ہوں جس راستے پر چلنا پڑتا ہے اُس راہ میں رکاوٹیں حوصلہ بڑھا بھی سکتی ہیں اور گرا بھی سکتی ہیں۔۔۔ یعنی اپنا منفی پوٹیینشل مثبت قوت میں بھر دیجئے اور دیکھئے منزل آپ کو عظمت کو سلام کرے گی ۔۔۔

میں نے خود سوچا چاند کے پاس جانا ہے ۔میری منزل ہے مگر کیسے جانا ہے ؟ کیا کرنا ہے ؟ عذر تو وہ پیش کرتا ہے جس کا ارادہ قوی نہ ہوں ۔ جس کا حوصلہ جوان نہ ہوں ۔۔۔ عذر کی بات نہیں۔۔۔ جاؤں کیسے ِ ؟ کیسے ؟ کیسے ؟
مطالعہ کر کے دیکھیے امید ہے کہ مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک مثال ہے ۔۔۔ اس میں بصارت نکالیں۔۔ ''اپنے کپڑے صاف رکھو '' میں قران پاک کی ایک آیت پڑھ رہی تھی سوچا اس کو پیش کروں کہ میرے مسئلے کا حل نکلے ۔

کپڑے کو میں نے محسوس کیا ہے ۔۔۔یہ جو سوچا میں نے محسوس کرکے ۔۔کیا یہ صرف سوچ ہے یا میری حسیات بھی اس میں داخل ہیں۔۔۔
1۔ خاکی جسد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پاک تو روح پاک کرنا ہے ، ظاہر صاف تو باطن صاف
2۔ انسانی سوچ کا ہالہ۔۔۔دماغ کی پراگندگی۔۔نفس کی پاکی ، شیطان سے پاکی
3۔ زمین کی مٹی ۔۔۔ خاکی لوگ۔۔۔ان کو بچاؤ آگ سے
4۔ زمین پر ہوا کا کور۔۔،جن ،ان کو راہ راست پر لاؤؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی طرف لاؤ
5۔بصیرت ،، تاکہ بصارت اچھی ہو۔۔کیمیا گر بننے کی نصیحت ۔۔۔عشق کا عین یعنی معراج پا سکو۔۔
6۔ ''سونگھو ''یا پھونک پھونک کر قدم رکھو یعنی تقوی۔۔۔اللہ سے ڈر ۔۔خشیت
7۔میں سنوں۔۔۔ میں تو وہ سن سکتی نہیں جو انسانی روح سننا چاہتی ہے۔۔وہ میٹھا سر، محبت کا نغمہ جو ختم کردے نفرت کے نغمے کو۔۔ میں کیسے اپنی سماعت کو غیبت ، چغل خوری سے پاک رکھو۔۔میرا نفس۔آہ ،،کیسے بنائے گا ایک سرمدی نغمہ ۔۔


یعنی صفائی نصف ایمان ہے

کپڑے صاف رکھنے کا تدبر کیا ہوگا۔۔؟ اگر اس میں حسیات کا عمل دخل ۔۔

سب سے پہلے تو بصیرت آئے گی کہ یہاں سے بنتی ہے بصارت ۔۔۔۔میں اپنی نگاہ پاک رکھوں ۔۔۔ کیسے ِ؟ برا نہ دیکھوں یا برا دیکھ کر اس کو اچھا کروں۔۔۔ برا نہ دیکھنا حیا ہے مگر'' برا'' دیکھ کر اس کو اچھائی کی طرف لانا تدبر ہے ۔۔۔ابھی تو میں ''برا ''دیکھنے سے ڈرتی ہوں ۔۔ تو تدبر کیا خاک کروں گی!!!

اگر یہ لکھا ہے اور درست ہے تو یقین جانیے میں تو قران پاک پڑھنے سے رہی کہ اس اک آیت کی مکمل تفہیم نہیں کرسکی مگر جو کی اس پر عمل کروں تو زندگی بیت جائے گی ۔۔۔ جب میں نے اک دفعہ کسی نیک بندے کا سنا تھا کہ وہ قران پاک پڑھ نہیں سکے ایک آیت ہی پر عمل کرنے سے قاصر ہوئے اس بات نے حیرت زدہ کردیا تھا۔۔ خدانخواستہ میں وہ نیک بندی نہیں مگر ایک عام سی انسان جس کے اندر جاننے کا شعور بیدار ہوگیا ہے اور جب جانتی ہوں تو ہوں بھی جلد باز کہ یک دم یہ مشت کی تھیلی دل میں سما جائے مگر آج حیران ہوں اگر میں ایک آیت پر عمل نہیں کر پائی تو آگے کیسے جاؤں گی اور اگر میں اس کو سمجھنے میں غلط ہوں تو رہنمائی چاہیے ۔۔۔ کوئی تو بتائے
 

نکتہ ور

محفلین
اگر یہ لکھا ہے اور درست ہے تو یقین جانیے میں تو قران پاک پڑھنے سے رہی کہ اس اک آیت کی مکمل تفہیم نہیں کرسکی مگر جو کی اس پر عمل کروں تو زندگی بیت جائے گی ۔۔۔ جب میں نے اک دفعہ کسی نیک بندے کا سنا تھا کہ وہ قران پاک پڑھ نہیں سکے ایک آیت ہی پر عمل کرنے سے قاصر ہوئے اس بات نے حیرت زدہ کردیا تھا۔۔ خدانخواستہ میں وہ نیک بندی نہیں مگر ایک عام سی انسان جس کے اندر جاننے کا شعور بیدار ہوگیا ہے اور جب جانتی ہوں تو ہوں بھی جلد باز کہ یک دم یہ مشت کی تھیلی دل میں سما جائے مگر آج حیران ہوں اگر میں ایک آیت پر عمل نہیں کر پائی تو آگے کیسے جاؤں گی اور اگر میں اس کو سمجھنے میں غلط ہوں تو رہنمائی چاہیے ۔۔۔ کوئی تو بتائے
ہم میں سے کون ہے جو مکمل تفہیم اور اس پر عمل کا دعوی کر سکے، سیکھنے کا عمل تو ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ ایک دفعہ دو دفعہ پڑھیے جو سمجھ آئے وہ یاد رکھیے اور آگے پڑھیے، پورا ہو جائے تو پھر سے شروع کیجیے ۔
ہمت سے زیادہ وزن اٹھانے کی کوشش مت کیجئے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ہم میں سے کون ہے جو مکمل تفہیم اور اس پر عمل کا دعوی کر سکے، سیکھنے کا عمل تو ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ ایک دفعہ دو دفعہ پڑھیے جو سمجھ آئے وہ یاد رکھیے اور آگے پڑھیے، پورا ہو جائے تو پھر سے شروع کیجیے ۔
ہمت سے زیادہ وزن اٹھانے کی کوشش مت کیجئے۔

آپ درست فرما رے ہیں ۔۔۔ یہ ایک مثال دی ہے ۔۔۔اللہ تعالیٰ مجھے اچھا کرنے کی توفیق دے ۔۔ میں نے سنا ہے قران پاک پڑھنے کا فائدہ تب ہے جب میں اس پر عمل کروں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی میں پڑھنے پر اور تفہیم پر ۔۔شروع ہوتی ہوں ۔۔ یہ تو کروں پھر جاؤں آگے ۔۔۔
 
آخری تدوین:

نکتہ ور

محفلین
آپ درست فرما رہیں ہیں ۔۔۔ یہ ایک مثال دی ہے ۔۔۔اللہ تعالیٰ مجھے اچھا کرنے کی توفیق دے ۔۔ میں نے سنا ہے قران پاک پڑھنے کا فائدہ تب ہے جب میں اس پر عمل کروں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر پھر بھی میں پڑھنے پر اور تفہیم پر ۔۔شروع ہوتی ہوں ۔۔ یہ تو کروں پھر جاؤں آگے ۔۔۔
میں پھر سے یہ کہوں گا کہ ہمت سے زیادہ وزن اٹھانے کی کوشش مت کیجئے۔
میں اس بات کی تحسین کرتا ہوں کہ آپ میں سیکھنے کی لگن ہے لیکن اس کام میں قدم بقدم چلیے ابتدا میں ہی دوڑنا مناسب نہیں۔
آپ دل چھوٹا مت کیجیے قرآن پڑھنے پر بھی نیکیاں ملتی ہیں۔اس کے بعد عمل کرنے پر مزید نیکیاں۔
 
Top