میان - (ایک خیال) - فصیح احمد

سید فصیح احمد

لائبریرین
ایک کہاوت ہے ۔۔۔ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ۔۔۔ یہ بات کس نے کہی اور کیوں کہی اس کا تو علم نہیں ۔۔۔۔ ریاستی بادشاہت کی بات ہو تو سمجھ سکتا ہوں۔ مگر کیا رشتے بھی ریاستی بادشاہت کی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ کون حاکم ہے اور کون محکوم! (بالخصوص ازواجی تعلق، کہ اس نظریاتی مرض کا زیادہ شکار یہی ہوتا ہے) کیا اس کہاوت میں بات فقط دھار کی، زور آوری کی یا شیر مزاجی کی ہے؟ میان کی نہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ریاست کی حکومت میں انفرادی بادشاہت اور ازواجی رشتے میں مشترکہ بادشاہت ہوتی ہے تو یقیناً مشترکہ بادشاہت میں اضافی اصول بھی ہوں گے! ۔۔۔ آج کل اکثر لوگ اس کہاوت کو "من مرضی" کے اصول پر بول کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر دوسرے پر دباؤ ثابت نہ کیا گیا تو ہار ہو جائے گی! افسوس! کس سے ہار؟ میان سے یا اپنے آدھے بادشاہ سے؟ کہ آدھے بادشاہ تو آپ خود ہوتے ہیں۔ اپنی ریاست، اپنے بندھن، اپنی دوستی کے! میں نے دوستی کا لفظ استعمال کیا تو میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ کہاوت استعمال کر کے رشوں کو دفنانے والے اکثر ایک اہم عنصر، احترام کا موازنہ نہیں کرتے۔ بالخصوص ازواجی رشتے میں!اس بارے ایک ہم خیال دوست سے گفتگو ہوئی تو اس نے انگریزی کا لفظ کامپرومائز استعمال کیا، مجھے بہت بھلا لگا۔ میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کامپرومائز ایک بلا ہے ایک قید ہے مگر شاید میرا زاویہ میرے تجربات کی قید میں تھا؟ وہ دوست کہنے لگا کامپرومائز احترام بھی ہوتا ہے ہمیشہ مجبوری نہیں ہوتی ۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ دو لوگوں کے نجی معاملات میں اور بھی سینکڑوں عوامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں زور آور لوگ ( دو تلواریں) صرف اسی وقت ایک میان (ازاوجی تعلق) میں سما سکتے ہیں جب وہ ظاہری اور سطحی منظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر اس میان کا حسن قائم رکھنا ہے، جو کہ اس کے نظام کی بقا ہے، تو ایک دوسرے کی دھار کا احترام لازمی ہے! تا کہ مل کر جنگ میں کار آمد ہوں، ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک دوسرے کو کند نہ کر دیں۔

دو شیروں کا مل کر حکومت کرنا اس وقت تک خطرہ نہیں، جب تک وہ مل کر شکار کریں، تباہی تب ہوتی ہے جب وہ ایک دوسرے کا شکار کرنے لگتے ہیں!
 

زوجہ اظہر

محفلین
آپ میاں بیوی کو تلواریں اور ازدواجی تعلق کو میان ہی سمجھنے پر کیوں مصر ہیں جناب
یہ سمجھنا شروع کریں کہ چڑا اور چڑیا ہیں جو باہم گھونسلے میں مل جل کر سرد وگرم برداشت کرکے کررہتے ہیں پھر کبھی چونچیں لڑ بھی جائیں تو کیا ہوا ۔۔ 🙂
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
آپ میاں بیوی کو تلواریں اور ازدواجی تعلق کو میان ہی سمجھنے پر کیوں مصر ہیں جناب
یہ سمجھنا شروع کریں کہ چڑا اور چڑیا ہیں جو باہم گھونسلے میں مل جل کر سرد وگرم برداشت کرکے کررہتے ہیں پھر کبھی چونچیں لڑ بھی جائیں تو کیا ہوا ۔۔ 🙂

یہ سمجھنا بھی اچھا ہے، مگر میں زور آور شیروں کی بات کرنا چاہ رہا تھا۔ چڑیا تو نوک ٹھونک کے بعد خود ہی سمجھوتے کی جانب رواں ہو جاتی ہے۔ بہر حال شیروں کا حال قدر مختلف ہے۔ فطرت انسان بھی دھنک کےرنگوں جیسی ڈھیروں پٹیاں لیے ہے۔ :):)
 
ایک کہاوت ہے ۔۔۔ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ۔۔۔ یہ بات کس نے کہی اور کیوں کہی اس کا تو علم نہیں ۔۔۔۔ ریاستی بادشاہت کی بات ہو تو سمجھ سکتا ہوں۔ مگر کیا رشتے بھی ریاستی بادشاہت کی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ کون حاکم ہے اور کون محکوم! (بالخصوص ازواجی تعلق، کہ اس نظریاتی مرض کا زیادہ شکار یہی ہوتا ہے) کیا اس کہاوت میں بات فقط دھار کی، زور آوری کی یا شیر مزاجی کی ہے؟ میان کی نہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ریاست کی حکومت میں انفرادی بادشاہت اور ازواجی رشتے میں مشترکہ بادشاہت ہوتی ہے تو یقیناً مشترکہ بادشاہت میں اضافی اصول بھی ہوں گے! ۔۔۔ آج کل اکثر لوگ اس کہاوت کو "من مرضی" کے اصول پر بول کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر دوسرے پر دباؤ ثابت نہ کیا گیا تو ہار ہو جائے گی! افسوس! کس سے ہار؟ میان سے یا اپنے آدھے بادشاہ سے؟ کہ آدھے بادشاہ تو آپ خود ہوتے ہیں۔ اپنی ریاست، اپنے بندھن، اپنی دوستی کے! میں نے دوستی کا لفظ استعمال کیا تو میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ کہاوت استعمال کر کے رشوں کو دفنانے والے اکثر ایک اہم عنصر، احترام کا موازنہ نہیں کرتے۔ بالخصوص ازواجی رشتے میں!اس بارے ایک ہم خیال دوست سے گفتگو ہوئی تو اس نے انگریزی کا لفظ کامپرومائز استعمال کیا، مجھے بہت بھلا لگا۔ میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کامپرومائز ایک بلا ہے ایک قید ہے مگر شاید میرا زاویہ میرے تجربات کی قید میں تھا؟ وہ دوست کہنے لگا کامپرومائز احترام بھی ہوتا ہے ہمیشہ مجبوری نہیں ہوتی ۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ دو لوگوں کے نجی معاملات میں اور بھی سینکڑوں عوامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں زور آور لوگ ( دو تلواریں) صرف اسی وقت ایک میان (ازاوجی تعلق) میں سما سکتے ہیں جب وہ ظاہری اور سطحی منظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر اس میان کا حسن قائم رکھنا ہے، جو کہ اس کے نظام کی بقا ہے، تو ایک دوسرے کی دھار کا احترام لازمی ہے! تا کہ مل کر جنگ میں کار آمد ہوں، ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک دوسرے کو کند نہ کر دیں۔

دو شیروں کا مل کر حکومت کرنا اس وقت تک خطرہ نہیں، جب تک وہ مل کر شکار کریں، تباہی تب ہوتی ہے جب وہ ایک دوسرے کا شکار کرنے لگتے ہیں!
شاہ جی گو کہ مدعا اس گفتگو کا یہی تھا کہ گھر میں دو افراد کو مل جل کر رہنے میں کیسی سوچ درکار ہے۔ تلوار اور میان کہیئے یا حاکم و محکوم کہہ لیں ۔ دو بادشاہ کہہ لیں یا دو ملکائیں کہہ لیجئے۔ آدھے آدھے بادشاہ کا نام دے لیں یا دوستی کہہ لیں ، کمپرو مائز کا نام دے لیں یا احترام ، مجبوری کہہ لیں یا دونوں کو تلواریں کہہ لیں ۔ مختصر تو یہ ہے کہ جیسے ہم کسی بس میں ڈرامہ کرتے ہیں اپنے باذوق ، مہذب اور دوسروں کی سننے سمجھنے والا ہونے کا تو کیوں ناں ، یہی ڈرامہ ہم حقیقی زندگی میں کر لیں تاکہ یہ مختصر سا سفر محبتوں سے بھر جائے ۔

پچاس ہزار سالہ دن میں سو پچاس سال کی جو حیثیت ہے وہی ہماری پوری زندگی کی ہے۔ اور اس میں بھی پہلے پندرہ بیس سال بس کو سمجھنے میں گزر جاتے ہیں ، اگلے پندرہ بیس برس اردگرد کی سواریوں کو سمجھنے میں گزر جاتے ہیں پھر اس سے اگلے پندرہ بیس سال اپنی کہانیاں سنانے میں بیت جاتے ہیں ۔ جب لوگوں کو ہم اپنی کہانیاں سنا چکتے ہیں تو اس قابل ہی نہیں بچتے کہ ہم سفر کو مزید جاری رکھ سکیں ۔ اپنے سامنے کتنے ہی مسافروں کو زندگی کی بس سے بے بس ہو کر اترتے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا سٹاپ ابھی بہت دور ہے حالانکہ سٹاپ واحد شے ہے اس سفر میں جس کا کسی کو نہیں پتہ کہ اس کا اپنا سٹاپ کب آجائے اور کنڈکٹر گاڑی سے نیچے اتارنے کو آن موجود ہو۔
 
آخری تدوین:
مزے کی بات تو یہ ہے ۔ جس زندگی کی طوالت کی ہم تمنا کرتے ہیں ۔ جس زندگی میں ہر طرف جھگڑتے پھرتے ہیں اگر اس کی مدت سو سال بھی ہو تو اس کی اصل حقیقت کائنات کے ریفرنس سے تین منٹ سے کم بنتی ہے ۔ ایک منٹ سمجھنے میں گزر جاتا ہے ، اگلا منٹ کرنے ، لڑنے ، مرنے میں اور اس سے اگلا پچھلے دو منٹ کوسنے میں گزر جاتا ہے۔ یہ بھی اس صورت ہے جب پورا سو سال تک کوئی زندہ رہا ہو۔ ورنہ چالیس پچاس سال والے یا پچاس ساٹھ والے کی زندگی تو اصل میں دو منٹ بھی مکمل نہیں ہوتی۔

وہ کیا کہتے ہیں (روندے زندگی نوں )
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک کہاوت ہے ۔۔۔ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ۔۔۔ یہ بات کس نے کہی اور کیوں کہی اس کا تو علم نہیں ۔۔۔۔ ریاستی بادشاہت کی بات ہو تو سمجھ سکتا ہوں۔ مگر کیا رشتے بھی ریاستی بادشاہت کی بنیاد پر ہوتے ہیں؟ کون حاکم ہے اور کون محکوم! (بالخصوص ازواجی تعلق، کہ اس نظریاتی مرض کا زیادہ شکار یہی ہوتا ہے) کیا اس کہاوت میں بات فقط دھار کی، زور آوری کی یا شیر مزاجی کی ہے؟ میان کی نہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ریاست کی حکومت میں انفرادی بادشاہت اور ازواجی رشتے میں مشترکہ بادشاہت ہوتی ہے تو یقیناً مشترکہ بادشاہت میں اضافی اصول بھی ہوں گے! ۔۔۔ آج کل اکثر لوگ اس کہاوت کو "من مرضی" کے اصول پر بول کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر دوسرے پر دباؤ ثابت نہ کیا گیا تو ہار ہو جائے گی! افسوس! کس سے ہار؟ میان سے یا اپنے آدھے بادشاہ سے؟ کہ آدھے بادشاہ تو آپ خود ہوتے ہیں۔ اپنی ریاست، اپنے بندھن، اپنی دوستی کے! میں نے دوستی کا لفظ استعمال کیا تو میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ کہاوت استعمال کر کے رشوں کو دفنانے والے اکثر ایک اہم عنصر، احترام کا موازنہ نہیں کرتے۔ بالخصوص ازواجی رشتے میں!اس بارے ایک ہم خیال دوست سے گفتگو ہوئی تو اس نے انگریزی کا لفظ کامپرومائز استعمال کیا، مجھے بہت بھلا لگا۔ میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کامپرومائز ایک بلا ہے ایک قید ہے مگر شاید میرا زاویہ میرے تجربات کی قید میں تھا؟ وہ دوست کہنے لگا کامپرومائز احترام بھی ہوتا ہے ہمیشہ مجبوری نہیں ہوتی ۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ دو لوگوں کے نجی معاملات میں اور بھی سینکڑوں عوامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں زور آور لوگ ( دو تلواریں) صرف اسی وقت ایک میان (ازاوجی تعلق) میں سما سکتے ہیں جب وہ ظاہری اور سطحی منظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اگر اس میان کا حسن قائم رکھنا ہے، جو کہ اس کے نظام کی بقا ہے، تو ایک دوسرے کی دھار کا احترام لازمی ہے! تا کہ مل کر جنگ میں کار آمد ہوں، ایک دوسرے سے ٹکرا کر ایک دوسرے کو کند نہ کر دیں۔

دو شیروں کا مل کر حکومت کرنا اس وقت تک خطرہ نہیں، جب تک وہ مل کر شکار کریں، تباہی تب ہوتی ہے جب وہ ایک دوسرے کا شکار کرنے لگتے ہیں!
خوش آمدید اور شادی کروانے کے بعد روتے ہوئے آنے پر ایک شاندار خوش آمدید ۔۔۔ کہو تو محفل کے شادی شدہ حضرات جمع کر لیں۔۔۔ ویسے یہ تلواریں شلواریں۔۔۔۔ شیر ویر۔۔۔۔ مطلب۔۔ اچھا بھلا ہوتا تھا ہمارا بھائی۔۔۔ اتنا پرتشدد کیوں ہوتا جا رہا ہے۔۔۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
خوش آمدید اور شادی کروانے کے بعد روتے ہوئے آنے پر ایک شاندار خوش آمدید ۔۔۔ کہو تو محفل کے شادی شدہ حضرات جمع کر لیں۔۔۔ ویسے یہ تلواریں شلواریں۔۔۔۔ شیر ویر۔۔۔۔ مطلب۔۔ اچھا بھلا ہوتا تھا ہمارا بھائی۔۔۔ اتنا پرتشدد کیوں ہوتا جا رہا ہے۔۔۔

ھاھاھا ۔۔۔۔ یار بس دو شیروں کو لڑتے دیکھا تو بہت سی باتیں کہنے کو جی چاہا ۔۔۔ یہ سب اس لیے لکھا! کیسے ہو؟ :) :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
شاہ جی گو کہ مدعا اس گفتگو کا یہی تھا کہ گھر میں دو افراد کو مل جل کر رہنے میں کیسی سوچ درکار ہے۔ تلوار اور میان کہیئے یا حاکم و محکوم کہہ لیں ۔ دو بادشاہ کہہ لیں یا دو ملکائیں کہہ لیجئے۔ آدھے آدھے بادشاہ کا نام دے لیں یا دوستی کہہ لیں ، کمپرو مائز کا نام دے لیں یا احترام ، مجبوری کہہ لیں یا دونوں کو تلواریں کہہ لیں ۔ مختصر تو یہ ہے کہ جیسے ہم کسی بس میں ڈرامہ کرتے ہیں اپنے باذوق ، مہذب اور دوسروں کی سننے سمجھنے والا ہونے کا تو کیوں ناں ، یہی ڈرامہ ہم حقیقی زندگی میں کر لیں تاکہ یہ مختصر سا سفر محبتوں سے بھر جائے ۔

پچاس ہزار سالہ دن میں سو پچاس سال کی جو حیثیت ہے وہی ہماری پوری زندگی کی ہے۔ اور اس میں بھی پہلے پندرہ بیس سال بس کو سمجھنے میں گزر جاتے ہیں ، اگلے پندرہ بیس برس اردگرد کی سواریوں کو سمجھنے میں گزر جاتے ہیں پھر اس سے اگلے پندرہ بیس سال اپنی کہانیاں سنانے میں بیت جاتے ہیں ۔ جب لوگوں کو ہم اپنی کہانیاں سنا چکتے ہیں تو اس قابل ہی نہیں بچتے کہ ہم سفر کو مزید جاری رکھ سکیں ۔ اپنے سامنے کتنے ہی مسافروں کو زندگی کی بس سے بے بس ہو کر اترتے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی امید رکھتے ہیں کہ ہمارا سٹاپ ابھی بہت دور ہے حالانکہ سٹاپ واحد شے ہے اس سفر میں جس کا کسی کو نہیں پتہ کہ اس کا اپنا سٹاپ کب آجائے اور کنڈکٹر گاڑی سے نیچے اتارنے کو آن موجود ہو۔

پیاری باتیں کہیں محترم بھائی، آج کل فرصت بھی فرصت سے ملتی ہے اس لیے جواب نہیں دے پا رہا۔ مگر جلد ہی بات ہو گی ان شاء اللہ :) :)
 

سید عمران

محفلین
سید فصیح احمد

فصیح بھائی!

تحریر کافی گھمبیر ہے۔

سید عمران بھائی کو بلاتا ہوں۔ شاید وہ کچھ مدد کریں۔ :)
ناحق آپ نے ہمیں یہاں بلانے کی زحمت دی۔۔۔
اچھی بھلی تو تحریر ہے، گھمبیرتا کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔۔۔
اصل میں ادیب اس شہ پارہ ادب میں کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ خبردار اگر کبھو جو بیوی کے منہ لگنے کی کوشش کی ہو تو۔۔۔
ورنہ وہ تماشا بنے گا کہ سارا محلہ چھت سے لٹک لٹک کے دیکھے گا۔۔۔
صبح کا ناشتہ الگ کھٹائی میں پڑے گا۔۔۔
اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ رات چارپائی کسی ہوٹل میں ڈالنی پڑجائے!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
ناحق آپ نے ہمیں یہاں بلانے کی زحمت دی۔۔۔
اچھی بھلی تو تحریر ہے، گھمبیرتا کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں۔۔۔
اصل میں ادیب اس شہ پارہ ادب میں کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ خبردار اگر کبھو جو بیوی کے منہ لگنے کی کوشش کی ہو تو۔۔۔
ورنہ وہ تماشا بنے گا کہ سارا محلہ چھت سے لٹک لٹک کے دیکھے گا۔۔۔
صبح کا ناشتہ الگ کھٹائی میں پڑے گا۔۔۔
اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ رات چارپائی کسی ہوٹل میں ڈالنی پڑجائے!!!
ہاہاہاہا۔۔۔!

دراصل تحریر تو کافی مشکل تھی۔ بس عنوان میں نے کچھ اس طرح پڑھا "ایک میان دو تلواریں" تو مجھے گمان ہوا کہ شاید دوسری شادی کی بات ہو رہی ہے۔

تو پھر خیال آیا کہ کسی ماہرِ فن کو ٹیگ کیا جائے۔ :) : )
 

سید عمران

محفلین
ہاہاہاہا۔۔۔!

دراصل تحریر تو کافی مشکل تھی۔ بس عنوان میں نے کچھ اس طرح پڑھا "ایک میان دو تلواریں" تو مجھے گمان ہوا کہ شاید دوسری شادی کی بات ہو رہی ہے۔

تو پھر خیال آیا کہ کسی ماہرِ فن کو ٹیگ کیا جائے۔ :) : )
جب ہم نے عنوان دیکھا تو سکڑ کر فقط میان رہ گیا تھا۔۔۔
تلوار دو تو کیا ایک نہ رہی۔۔۔
اور میان کو بھی ہم تاحال ٹائپو خیال کرکے میاں پڑھ رہے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
تو پھر خیال آیا کہ کسی ماہرِ فن کو ٹیگ کیا جائے۔ :) : )
اجی کیسا ماہر فن کہاں کی مہارت۔۔۔
جدید تعلیم، نئی روشنی اور جدت طرازی اوروں کے لیے ہوگی۔۔۔
ہماری باری پر تو وہی فرسودہ خیالات اٹکے ہوئے ہیں۔۔۔
ایک ہو اور نیک ہو!!!
:sigh::sigh::sigh:
 
آخری تدوین:
Top