میانمر، بدھ انتہا پسندوں نے 2 سال میں 25 ہزار مسلمان شہید کیے، اقوام متحدہ

عمیر فہد

محفلین
میانمر، بدھ انتہا پسندوں نے 2 سال میں 25 ہزار مسلمان شہید کیے، اقوام متحدہ


ایجنسی خبریں روهنجيا‎:‎‏ ‏واشنگٹن / نیویارک / ینگون: انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ میانمرمیں بدھ مت کے انتہاپسندوں نے صرف 2سال میں 25ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا۔

فسادات کے دوران بڑی تعدادمیں مسلمان خواتین کوعصمت دری کے بعدقتل جبکہ سیکڑوں مساجد کو نذرآتش کیاگیا۔ مسلمانوں کے قتل عام میں سیکیورٹی فورسزبھی شامل ہیں۔ بعض دیگر رپورٹوں کے حقیقی اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ مسلمانو ں کی ٹارگٹ کلنگ کادوبارہ آغازمارچ 2013میں ہوا۔ مارچ کے آخری ہفتے میں 100کے قریب مسلمانوں کوگولی ماردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق میانمرسے 50ہزار سے زائدمسلمان ہجرت کرچکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیااور انڈونیشیامنتقل ہوگئے جہاں انھیں قانونی مسائل کاسامنا ہے۔ بنگلہ دیش سمیت بعض ممالک نے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کوپناہ دینے سے انکارکر دیاہے۔ بدھ مت کے دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسزکے سامنے مسلمانوںکو قتل کیا۔ رپورٹ میں مزیدکہا گیاہے کہ بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمانوںکی املاک کوبھی تباہ کردیا ہے۔


2_zpsb4b98680.jpg

امریکی تجزیہ کارنے اپنی رپورٹ میں کہاکہ مسلمانوںکے خاتمے کے لیے ملک میں 969تحریکیں بدھ مت کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ تاحال مسلم دنیاکے کسی بھی رہنمانے مشکلات کاشکار اس ملک کادورہ کرنے کااعلان نہیں کیاہے۔ میانمرمیں مسلمانوںکا قتل عام 50سال سے جاری ہے لیکن 2011کے دوران اس میں شدت آئی ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ نے گزشتہ روزاپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ ریاست رکھائن میں گزشتہ ہفتے ہونے والے فسادات میں 48روہنگیا مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب یہ خبرپھیلی کہ روہنگیا مسلمانوں کے بنگلہ دیش ہجرت کرنے کے دوران ایک پولیس اہلکارہلاک ہواہے۔ اس افواہ کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے۔ مقامی بدھوں نے سیکیورٹی فورسزکی موجودگی میںایک گائوںپر دھاوابول کر 48مسلمانوں کوشہید کردیا۔ انسانی حقوق کے گروپ ’فورٹی فائی رائٹس‘ نے دعویٰ کیاہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران سلسلے وارحملے کیے گئے تاہم حکومت اورمقامی حکام نے قتل وغارت کے دعووںکو مسترد کردیا۔
 
میانمار میں یہ ظلم کافی عرصے سے ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کے عالی ٹھیکیداروں کو یہ ظلم نظر کیوں نہیں آتا؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
انتہائی افسوسناک انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار تو رہے ایکطرف مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ طالبان ،داعش اور القاعدہ کہاں مر گئی ہیں کہاں گئیں وہ جہاد کی آیات؟؟؟ کیا وہ فقط مسلمانوں پر ہی جہاد کے لیے سنائی جاتی ہیں ؟؟؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
میانمر، بدھ انتہا پسندوں نے 2 سال میں 25 ہزار مسلمان شہید کیے، اقوام متحدہ


ایجنسی خبریں روهنجيا‎:‎‏ ‏واشنگٹن / نیویارک / ینگون: انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ میانمرمیں بدھ مت کے انتہاپسندوں نے صرف 2سال میں 25ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا۔

فسادات کے دوران بڑی تعدادمیں مسلمان خواتین کوعصمت دری کے بعدقتل جبکہ سیکڑوں مساجد کو نذرآتش کیاگیا۔ مسلمانوں کے قتل عام میں سیکیورٹی فورسزبھی شامل ہیں۔ بعض دیگر رپورٹوں کے حقیقی اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ مسلمانو ں کی ٹارگٹ کلنگ کادوبارہ آغازمارچ 2013میں ہوا۔ مارچ کے آخری ہفتے میں 100کے قریب مسلمانوں کوگولی ماردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق میانمرسے 50ہزار سے زائدمسلمان ہجرت کرچکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیااور انڈونیشیامنتقل ہوگئے جہاں انھیں قانونی مسائل کاسامنا ہے۔ بنگلہ دیش سمیت بعض ممالک نے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کوپناہ دینے سے انکارکر دیاہے۔ بدھ مت کے دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسزکے سامنے مسلمانوںکو قتل کیا۔ رپورٹ میں مزیدکہا گیاہے کہ بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمانوںکی املاک کوبھی تباہ کردیا ہے۔


2_zpsb4b98680.jpg

امریکی تجزیہ کارنے اپنی رپورٹ میں کہاکہ مسلمانوںکے خاتمے کے لیے ملک میں 969تحریکیں بدھ مت کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ تاحال مسلم دنیاکے کسی بھی رہنمانے مشکلات کاشکار اس ملک کادورہ کرنے کااعلان نہیں کیاہے۔ میانمرمیں مسلمانوںکا قتل عام 50سال سے جاری ہے لیکن 2011کے دوران اس میں شدت آئی ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ نے گزشتہ روزاپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ ریاست رکھائن میں گزشتہ ہفتے ہونے والے فسادات میں 48روہنگیا مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب یہ خبرپھیلی کہ روہنگیا مسلمانوں کے بنگلہ دیش ہجرت کرنے کے دوران ایک پولیس اہلکارہلاک ہواہے۔ اس افواہ کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے۔ مقامی بدھوں نے سیکیورٹی فورسزکی موجودگی میںایک گائوںپر دھاوابول کر 48مسلمانوں کوشہید کردیا۔ انسانی حقوق کے گروپ ’فورٹی فائی رائٹس‘ نے دعویٰ کیاہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران سلسلے وارحملے کیے گئے تاہم حکومت اورمقامی حکام نے قتل وغارت کے دعووںکو مسترد کردیا۔

اس خبر اور رپورٹ کا کوئی ماخذ؟
 

x boy

محفلین
یہ ظلم پاکستان بننے سے پہلے سے ہی ہورہا ہے جب جاپان قابض ہوا تھا تو اس وقت بھی اس طرح ہوا تھا مسلمانوں نے برطانیہ کا ساتھ دیاتھا
پھر یہ ایک روایت بن چکا ہے جب چاہا مسلمانوں کے املاک، مذہبی عمارتیں اور لوگوں کے گھروں کو نذر آتش کردیتے ۔ یہ بڈھسٹ دنیا کی
غلیظ قوموں میں سے ہے دوسری قوموں پر جب قابض ہوتے ہیں تو قتل عام عام مشغلہ ہوتا ہے۔
چاپانی ، اور چینی تاریخ ان باتوں سے بھری پڑی ہے۔ اسی طرح چین میں بھی مسلمانوں کا قتل عام خفیہ طریقوں سے جاری ہے
اللہ ہم سب مسلمانوں پر رحم کرے اور اپنا کرم کرے آمین
اور مسلمان اپنے طریق میں واپس آجائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔ آمین ثم آمین
 

تلمیذ

لائبریرین
یہ کون سی ’اہنسا‘ ہے۔ بدھ مت میں تو، سنا ہے، چیونٹی تک کو مارنا منع ہے۔
 

ماسٹر

محفلین
یہاں مغربی میڈیا میں تو اس کی ایک خبر سے زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ حالانکہ مسلمانوں پر ہونے والے اس ظلم کا اقرار کربھی رہے ہیں ۔
مگر افسوس تو اس بات پر ہے کہ اسلامی دنیا بھی بالکل خاموش ہے۔ اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ہی گلے کاٹ رہے ہیں ۔
یہ کون سی ’اہنسا‘ ہے۔ بدھ مت میں تو، سنا ہے، چیونٹی تک کو مارنا منع ہے۔
بدھ مذہب میں بھی انتہا پسند مولویوں کی کمی نہیں ہے جو مارنے کے بہانے نکال لیتے ہیں ۔
 
بدھ مت کا تاریک پہلو
چارلس ہیوی لینڈبی بی سی نیوز، کولمبو
31 مئ 2015
150531120828_1buddhists.jpg

بدھ مت کو امن کا مذہب سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس کا ایک پرتشدد روپ بھی دیکھنے کو ملا ہے
بدھ مت کی تعلیمات میں تشدد نہ کرنے کا اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن سری لنکا میں کچھ بودھ راہبوں پر الزام ہے کہ وہ دوسری نسلی اقلیتوں اور مذاہب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔

کولمبو کے نواح میں ایک چھوٹا سا مندر بڑا پرسکون ہے۔ اس میں بدھا کی شبہہ کو جامنی اور سفید کنول کے درمیان رکھا گیا ہے جبکہ چھوٹے بدھا دیوار کے ساتھ کھڑے ہیں۔

لیکن اس کے اوپر والی منزل میں ایک بھاری بھرکم راہب کی حکومت ہے جو نارنجی رنگ کے کپڑے پہنے بیٹھا ہوا ہے۔ یہ ہے سخت گیر بودھ تنظیم ’دی بودھا بالا سینا‘ یا بدھسٹ پاور فورس (بی بی ایس) کا صدر دفتر۔

بدھ مت کی پرامن نصحیتیں جن کی وجہ سے یہ مذہب پہچانا جاتا ہے شاید ہی ان کی گفتگو میں کبھی آئیں ہوں۔

اس کے برعکس راہب گالا گوڈا آتھے گناناسارا تھیرو بدھ مت کی بات بطور ایک نسل کے کرتے ہیں۔ سری لنکا کے زیادہ تر بودھ سنہالا ہیں اور سنہالا تقریباً اس ملک کی آبادی کا تین چوتھائی ہیں۔

گناناسارا تھیرو کہتے ہیں کہ ’یہ ملک سنہالا کا ہے، اور سنہالا ہی ہیں جنھوں نے اس کی تہذیب، ثقافت اور آبادیوں کو تعمیر کیا ہے۔ سفید فام لوگوں نے سب مسائل کھڑے کیے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ برطانوی نو آبادکاروں نے اس ملک کو تباہ کیا تھا اور اس کے حالیہ مسائل کے ذمہ دار بھی بقول ان کے ’باہر والے‘ ہی ہیں جس سے ان کا مطلب تمل اور مسلمان ہیں۔

حقیقت میں اگرچہ تمل کی ایک چھوٹی اقلیت یہاں انڈیا سے چائے کے باغات لگانے کے لیے آئی تھی، لیکن یہاں رہنے والے زیادہ تر تمل اور مسلمان اتنے ہی سری لنکن ہیں جتنے سنہالا ہیں اور ان کی جڑیں صدیوں پیچھے تک جاتی ہیں۔

گناناسارا تھیرو کہتے ہیں کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سنہالا ملک واپس سنہالا ہو جائے۔ جب تک ہم اس کو ٹھیک نہیں کرتے، ہم لڑتے رہیں گے۔‘

150531120829_1gnanasara.jpg

بی بی ایس کے سربراہ گالا گوڈا آتھےگناناسارا تھیرو
بدھ مت کا یہ پہلو کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا۔ بیسویں صدی کے اہم بودھ احیائے کار آناگارکا دھرماپالا غیر سنہالا لوگوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔

ان کا خیال تھا کہ آریائی سنہالا لوگوں نے اس جزیرے کو جنت بنایا ہے جبکہ عیسائی اور دوسرے مذاہب اس کو تباہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو بھی یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ وہ سود پر قرض دینے والے طریقوں سے اس مٹی میں جنم لینے والوں کا استحصال کر کے پھلے پھولے ہیں۔

1958 میں ایک بودھ راہب ہی تھا جس نے وزیرِ اعظم ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے کو قتل کیا تھا۔

تمل ٹائیگروں کے خلاف ایک لمبی جنگ نے سخت گیر بودھوؤں کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر دیا ہے۔

2004 میں نو راہبوں کو پارلیمان میں منتخب کر کے یہ بتانے کی کوشش کی گئئ تھی کہ یہ جنگ سنہالا اور بدھ مت کو بچانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

بعد میں راہبوں کی اہم جماعت سے گناناسارا تھیرو الگ ہو گئے اور ایک الگ جماعت بی بی ایس کی بنیاد رکھی۔ 2012 سے بی بی ایس نے براہ راست کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے ذبح خانوں پر یہ کہہ کر حملے کیے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایک لاء کالج پر حملہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں نتائج دیتا ہے۔

اب چونکہ ان کے تمل حریف کو شکست ہو چکی ہے ان کی کارروائیوں کا نشانہ مسلمان اور عیسائی ہی بنتے ہیں۔

بی بی ایس کے ترجمان دلانتھا وتھاناگے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بودھ راہب کوئی غلط کرتا ہے تو ہماری شہرت کی وجہ سے ہم پر الزام لگایا جاتا ہے۔‘

’بی بی ایس کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بی بی ایس کسی کے خلاف بھی تشدد کو ہوا نہیں دے رہی۔۔۔ لیکن ہم کئی چیزوں کے خلاف ہیں۔‘

150531120828_1dilantha.jpg

بی بی ایس کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بی بی ایس کسی کے خلاف بھی تشدد کو ہوا نہیں دے رہی: دلانتھا وتھاناگے
لیکن صرف وہ ہی نہیں کئی اور سنہالا بھی سری لنکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی قدامت پرستی کی وجہ سے خوش نہیں ہیں۔ اب اس ملک میں زیادہ عورتیں سر ڈھانپے ہوئے نظر آتی ہیں اور کئی علاقوں میں تو سعودی عرب کے زیرِ اثر وہابی مسلمانوں اور آزاد خیال لوگوں میں تناؤ بھی پیدا ہوا ہے۔

تاہم سری لنکن مسلمانوں کی طرف سے کسی پرتشدد کارروائی کی کوئی شہادت نہیں ملی ہے۔ بلکہ ان پر حملے ہی ہوتے رہے ہیں۔

گذشتہ جون آلوتھگاما کے چھوٹے سے قصبے میں ایک مسلم اکثریت کے علاقے میں بی بی ایس کی ایک مسلم مخالف ریلی کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کے گھر اور دکانیں جلا دی گئی تھیں اور انھیں سکولوں میں پناہ لینی پڑی تھی۔

سخت گیر بودھوؤں نے اعتدال پسند بودھوؤں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

گذشتہ برس واتھاریکا وجیتھا تھیرو کو اغوا کر کے بے ہوش کرنے کے بعد باندھا گیا اور زبردستی ان کے ختنے کر دیے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ان کی تذلیل کرنا تھا کیونکہ وہ بودھوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قریبی تعاون کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔

ان کے مطابق یہ بودھ راہبوں نے ہی کیا تھا لیکن وہ کسی خاص شخص یا گروہ پر الزام نہیں لگاتے۔

اس سے کچھ ہفتے قبل وجیتھا تھیرو نے مسلمان برادری کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک نیوز کانفرنس منعقد کی تھی جس میں بی بی ایس نے توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس وقت انھیں گناناسارا تھیرو نے دھمکی دی تھی کہ ’اگر تم اس طرح کی دغا بازی میں دوبارہ شامل ہوئے تو تمہیں پکڑ کر مہاویلی دریا میں پھینک دیا جائے گا۔‘

مہاویلی دریا کی طرف اشارہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ 1989 میں سری لنکا کی حکومت کے خلاف بائیں بازو کے محاذ نے ایک بغاوت کی تھی جس کے بعد ایک اندازے کے مطابق تقریباً 60,000 افراد لاپتہ ہو گئے تھے اور اسی دریا میں بہت سی لاشیں پائی گئی تھیں۔

ایک اور ملک جہاں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں وہ میانمار ہے جسے پہلے برما کہا جاتا تھا۔ یہاں کے بودھ دھڑے نے جس کا نام 969 تحریک ہے تشدد میں بڑھ چڑھا کر حصہ لیا۔

150531120829_1sin.jpg

شن وراتھو (درمیان) 2014 میں کولمبو میں ہونے والے بدھسٹ پاور فورس کنوینشن میں گناناسارا تھیرو (بائیں) کے ہمراہ
حال ہی میں بی بی ایس کے دعوت نامے پر اس کے رہنما شن وراتھو سری لنکا آئے۔ دونوں تنظیمیوں کہتی ہیں اگرچہ ان کے ملکوں میں بدھ مت اکثریتی مذہب ہے لیکن مجموعی طور پر اس کو خطرہ ہے۔ وتھاناگے کہتے ہیں کہ ’ہم اس کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ہم نے ایشیائی خطے میں اتحاد کے لیے ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔‘

جنوری میں سری لنکا میں میئتھرپالا سری سینا نئے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ سابق صدر ماہندے راجاپاکشے کی انتظامیہ نے بی بی ایس کی پشت پناہی کی تھی۔ تاہم یہ بات عیاں ہے کہ سابق حکومت اس تنظیم کی حمایت ضرور کرتی تھی۔

بدھ مت کے امور کے نئے وزیر کارو جے سوریا کہتے ہیں کہ یہ گروہ اس لیے پروان چڑھا کیونکہ کہ ملک کے قانون کو توڑا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ بی بی ایس تباہ ہو جائے گی۔

منگل کوگناناسارا تھیرو کو بغیر اجازت احتجاجی مظاہرہ کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ابھی تک تو نئی حکومت جس میں ایک مضبوط بودھ قوم پرست جماعت شامل ہے، نارنجی لباس کے لوگوں کے خلاف نرم ہاتھ ہی رکھے ہوئے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
بدھ مذہب کے پیروکاروں کی جانب سے روا رکھا گیا یہ ظلم انتہائی افسوسناک اور نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ قابل مرمت بھی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان جتنے مسلمانوں کے ہاتھ یا سبب جنت یا جہنم پچھلی ایک دہائی میں رخصت ہو چکے ہیں یہ اس کے مقابلے کچھ بھی نہیں۔ مسلمان ایک قوم یا امہ کا غبارہ اور کتنی بار پھٹے گا تو ہمیں یقین آئے گا کہ موجود دنیا میں یہ چڑیا ناپید ہے اور اسکی چہچاہٹ کے قصہ پارینہ۔
روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اس بربریت کے اسباب پر بھی بات ہونی چاہیے تاکہ مسئلہ کی جڑ پکڑی جا سکے۔
 
یعنی لڑی کے عنوان کے برعکس یہ مذہبی نہیں بلکہ نسلی معاملہ ہے؟
اس بارے میں میں نے جو خبریں پڑھی ہی اس کے مطابق مسلمانوں کو نسلی تعصب کی بنا پر شہید کیا جارہا ہے۔ اور ہمیں بہرحال ان مسلمانوں سے مذہبی رشتے کی وجہ سے ہمدردی ہے
 

زیک

مسافر
اس بارے میں میں نے جو خبریں پڑھی ہی اس کے مطابق مسلمانوں کو نسلی تعصب کی بنا پر شہید کیا جارہا ہے۔ اور ہمیں بہرحال ان مسلمانوں سے مذہبی رشتے کی وجہ سے ہمدردی ہے
روہنگیا کو، مسلمانوں کو نہیں۔ برما مین تمام مسلمان روہنگیا نہیں ہیں۔ روہنگیا کے ساتھ برمیوں کا سکول انتہائی غلط ہے مگر اس کی مذمت کرتے ہوئے ہمیں صورتحال کو صحیح طور دیکھنا چاہیئے۔

روہنگیا بنگلہ دیش کے علاقے سے پچھلے سو دو سو سال میں برما منتقل ہوئے۔ آج برما والے انہیں برمی ماننے سے منکر ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ برما کی آبادی کا سب سے بڑا گروپ ایک دو ہزار سال پہلے جنوبی چین سے آیا تھا اور آج برما کی آبادی کی اکثریت انہیں کی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

Obama_on_Rohingya.jpg


ہميں برما ميں جاری نسلی تشدد کے حوالے سے شديد تشويش ہے۔ تاہم دوسرے ممالک کے اقدامات کے ليے امريکہ کو مورد الزام قرار نہيں ديا جا سکتا ہے۔ سال 2014 سے اب تک امريکہ نے روہنگيا سميت برما کے زير عتاب شہريوں کی انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے 109 ملين ڈالرز فراہم کيے ہيں۔

ہم سمجھتے ہيں کہ يہ ايک ايسی ہنگامی صورت حال ہے جس پر فوری کاروائ کی ضرورت ہے تا کہ ہزاروں کی تعداد ميں بے آسرا مہاجرين اور پناہ گزينوں کی زندگيوں کو محفوظ کرنے کے ليے علاقائ سطح پر باہمی تعاون اور کوششوں سے اس مسلئے کو حل کيا جا سکے۔

امريکی حکومت بدستور خطے کے ممالک پر زور دے رہی ہے کہ وہ سمندر ميں انسانی جانوں کو محفوظ کرنے کے ليے مل جل کر کام کريں۔

امريکہ، عالمی برادری کے ساتھ مل کر برما کے مقامی رہنماؤں بشمول مسلمانوں، بدھ مذہب کے پيروکاروں اور روہنگيا سميت ديگر ذمہ دار نمائيندوں کو يہ باور کروا رہا ہے کہ تشدد کو فوری بند کيا جائے، پرامن حل کے ليے گفتگو کا آغاز کيا جائے اور اس بات کو يقینی بنايا جائے کہ ان واقعات کے ضمن ميں ايسی فوری اور شفاف تحقيقات کی جائيں گی جن ميں قانون کی بالادستی اور قواعد کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

امريکہ کو پاکستان کے بعض میڈيا فورمز پر اس حوالے سے ہدف تنقيد بنايا جا رہا ہے کہ ہم برما میں تشدد کو ختم کرنے کے ليے اپنی افواج کيوں نہيں بيجھتے۔ فرض کريں کہ اگر امريکہ برما ميں نسلی تشدد کے خاتمے کے ليے اپنی افواج بھيج دے تو پھر کيا امريکہ پر يہ الزام نہیں لگايا جائے گا کہ يہ دوسرے خودمختار ممالک پر حملہ کرتا ہے اور وہاں پر مستقل فوجی بيس تعينات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟

يہ امر قابل افسوس ہے کہ کچھ رائے دہندگان مسلمانوں کی تکاليف کے ليے امريکہ پر الزام دھر رہے ہيں، باوجود اس کے کہ امريکہ نے بغير کسی مذہبی تفريق کے تشدد اور قدرتی آفات سے متاثرہ خطوں ميں عام شہريوں کو ہر ممکن مدد اور تعاون فراہم کرنے کے ليے ہميشہ اپنا کردار ادا کيا ہے۔ ايک جانب تو يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ امريکہ مسلمانوں پرہونے والے ظلم پر خاموش تماشائ بنا رہتا ہے ليکن يہ باور نہيں کروايا جاتا کہ يہ امريکہ ہی تھا جس نے کوسوو اور بوسنیا کے مسلمانوں کو غیر مسلم لوگوں کے مظالم سے بچانے کی کوششيں کيں تھيں۔

ہمارے نزديک برما ميں حاليہ مسلئے کا حل يہی ہے کہ رياست راخائن ميں روہنگيا باشندوں کے ليے امن، استحکام اور ان کی شہريت کو يقينی بنايا جائے۔

امريکی حکومت ميانمار پر زور دے رہی ہے کہ وہ حاليہ صورت حال سے متاثرہ ہزاروں کی تعداد ميں مہاجرين کی مدد کے ليے اقوام متحدہ اور انٹرنيشنل آرگنائزيشن فار مائگريشن کے ساتھ مل کر کام کرے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

حمیر یوسف

محفلین
اس صورتحال میں بہترین طریقے یہی ہے کہ برما کے مسلمانوں کو خود ہتھیار اٹھا لینا چاہئے۔ کب تک وہ دوسروں کی اسطرح امداد کے منتظر رہے گے اور کٹتے رہیں گے؟؟ ایک انگریزی کہاوت ہے The best defense is the offence جب تک یہ برمی مسلمان اپنی مدد آپ خود ان خون آشام درندوں کے خلاف ہتھیار نہیں آٹھائے گے، اسی طرح پٹتے رہے گے۔ جب مرنا ہی ٹہرا اسطرح تو کیوں نہ دو چار "بھیڑیوں" کو مار کر نہ مرا جائے؟؟؟؟؟
 
Top