طارق شاہ
محفلین

کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا ہی رہا
دھڑکنیں دِل کی، سبھی کُچھ کہہ گئیں
دِل کو مَیں خاموش کرتا ہی رہا
تُم نے نظریں پھیر لیں تو کیا ہُوا
دِل میں اِک نشتر اُترتا ہی رہا
جِگر مُرادآبادی
***
آخری تدوین: