مَیں اُس کی نگاہِ ناز کا جب سے دیوانہ ہو گیا : از : جعفر بشیر

جعفر بشیر

محفلین
مَیں اُس کی نگاہِ ناز کا جب سے دیوانہ ہو گیا
زندگی جینے کا گویا اِک بہانہ ہو گیا
اُفتاں وخیزاں ترے کُوچے تلک پہنچا جو مَیں
اندازِ دل پھر سے وہی عاشقانہ ہوگیا
جب سے نکلے ہم تری محفل سے بے نیل ومرام
دشت ہی پھر تو مرا آشیانہ ہو گیا
دلِ شکستہ کے لئے مئے ناب بھی اب کُچھ نہیں
بے کیف ساقی اب ترا کیوں یہ مئے خانہ ہوگیا
اشک شوئی کے لئے آئے گا وہ سمجھا تھا مَیں
رقیبِ رُوسیا ہ کی طرف ہی وہ روانہ ہوگیا
تیری فُرقت میں مرا دَم گُھٹا جاتا ہے کیوں
ختم کیا میرا یہاں آب و دانہ ہو گیا
جعفرؔ جہدِ للبقا ہو اب یہاں کس کے لئے
تیرا تھا اپنا جو اب تک وہ بیگانہ ہوگیا
 

جعفر بشیر

محفلین
مَیں اُس کی نگاہِ ناز کا جب سے دیوانہ ہو گیا
زندگی جینے کا گویا اِک بہانہ ہو گیا
اُفتاں وخیزاں ترے کُوچے تلک پہنچا جو مَیں
اندازِ دل پھر سے وہی عاشقانہ ہوگیا
جب سے نکلے ہم تری محفل سے بے نیل ومرام
دشت ہی پھر تو مرا آشیانہ ہو گیا
دلِ شکستہ کے لئے مئے ناب بھی اب کُچھ نہیں
بے کیف ساقی اب ترا کیوں یہ مئے خانہ ہوگیا
اشک شوئی کے لئے آئے گا وہ سمجھا تھا مَیں
رقیبِ رُوسیا ہ کی طرف ہی وہ روانہ ہوگیا
تیری فُرقت میں مرا دَم گُھٹا جاتا ہے کیوں
ختم کیا میرا یہاں آب و دانہ ہو گیا
جعفرؔ جہدِ للبقا ہو اب یہاں کس کے لئے
تیرا تھا اپنا جو اب تک وہ بیگانہ ہوگیا
 

جعفر بشیر

محفلین
محترم الف عین صاحب
میں نے اپنی غزل اصلاحِ سخن میں پوسٹ کر دی ہے براہ کرم آپ ہی میری اصلاح فرما دیجیئے --- شکریہ
 
جعفر بشیر صاحب، آپ کی اجازت سے، استادِ محترم کی آمد سے پہلے آپ کی اور ہماری کوشش۔
اُس نگاہِ ناز کا جب سے دیوانہ ہو گیا
زندگی جینے کا گویا اِک بہانہ ہو گیا
مست و رقصاں یوں ترےکُوچے تلک پہنچا جو مَیں
دل مرا پھر سے یکایک عاشقانہ ہوگیا
جب سے نکلے ہم تری محفل سے بے نیل ومرام
دشت ِ ویراں ہی مرا پھرآشیانہ ہو گیا
دلِ شکستہ کے لئے جام و سبو اب کُچھ نہیں
کیف سے خالی مرا کیوں جامِ جانہ ہوگیا
اشک شوئی کے لئے وہ آئے گا سمجھا تھا مَیں
غیر کی جانب ہی کیوں اب وہ روانہ ہوگیا
تیری فُرقت میں مرا دَم یوں گُھٹا جائے بشیر
ختم کیا اب اس جگہ سے آب و دانہ ہو گیا
جہدِ بے پایاں کی چاہت اب یہاں ہوکس کے لئے
تیرا اپنا تھا جو اب تک وہ فسانہ ہوگیا
 
جعفر بشیر صاحب، آپ کی اجازت سے، استادِ محترم کی آمد سے پہلے آپ کی اور ہماری کوشش۔
اُس نگاہِ ناز کا جب سے دیوانہ ہو گیا
زندگی جینے کا گویا اِک بہانہ ہو گیا
مست و رقصاں یوں ترےکُوچے تلک پہنچا جو مَیں
دل مرا پھر سے یکایک عاشقانہ ہوگیا
جب سے نکلے ہم تری محفل سے بے نیل ومرام
دشت ِ ویراں ہی پھر مرا آشیانہ ہو گیا
دلِ شکستہ کے لئے جام و سبو اب کُچھ نہیں
کیف سے خالی مرا کیوں جامِ جانہ ہوگیا
اشک شوئی کے لئے وہ آئے گا سمجھا تھا مَیں
غیر کی جانب ہی کیوں اب وہ روانہ ہوگیا
تیری فُرقت میں مرا دَم یوں گُھٹا جائے بشیر
ختم کیا اب اس جگہ سے آب و دانہ ہو گیا
جہدِ بے پایاں کی چاہت اب یہاں ہوکس کے لئے
تیرا اپنا تھا جو اب تک وہ بیگانہ ہوگیا
 
انتخاب نہیں، یہ جعفر بشیر کی خود کی شاعری ہے، جو اگر اصلاحِ سخن میں پوسٹ ہوتا تو خلیل کے لئے اچھا ہوم ورک تھا۔
ناچیز کی عزت افزائی پر دلی شکریہ قبول کیجیے استادِ محترم۔
ویسے بھی ہمیں یہ اطمینان تو رہتا ہی ہے کہ ہم کچھ بھی بگاڑ پیدا کردیں، سنبھالنے کے لیے اساتذہ موجود ہیں۔ ہماری کوشش اصلاح کی لڑی میں ملاحظہ فرمائیے۔ جزاک اللہ
 

مغزل

محفلین
جعفر بشیر صاحب سلامت رہیں ۔ گزارش ہے کہ اپنا کلام اصلاح کی غرض سے یہاں شامل کیا کیجے ، میں نے منتقل کردیا ہے ۔ امید ہے آپ بزرگانِ بزم سے شعری امور میں خوب خوب سیکھ سکیں گے ۔۔ والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اب دیکھتا ہوں اس غزل کو، تین چوتھائی کام تو خلیل نے کر ہی دیا ہے، لیکن جعفر بشیر سے بھی درخواست ہے کہ کچھ تو عروض کی شد بد حاصل کریں اور پھر اشعار کہیں۔
مست و رقصاں یوں ترےکُوچے تلک پہنچا جو مَیں
دل مرا پھر سے یکایک عاشقانہ ہوگیا
پہلے مصرع میں ’یوں‘ اور ’جو‘ ایک ساتھ؟
مست و رقصاں جب ترے کوچے میں جا پہنچا تھا میں۔
دوسرے مصرع میں ’یکایک‘ کا کیا محل ہے یہاں؟۔
جانے کیوں دل میرا پھر سے عاشقانہ ہو گیا
ویسے اس کا مفہوم؟​
دشت ِ ویراں ہی پھر مرا آشیانہ ہو گیا
یہاں شاید خلیل سے ٹائپو ہوئی ہے۔
دشت ِ ویراں ہی مرا پھر آشیانہ ہو گیا
دلِ شکستہ کے لئے جام و سبو اب کُچھ نہیں
کیف سے خالی مرا کیوں جامِ جانہ ہوگیا
جام جانہ ہو گیا؟ سمجھ میں نہیں آیا۔ دلَ شکستہ بھی وزن میں نہیں آتا۔ جعفر میاں کے شعر پر ہی اصلاح دیتا ہوں۔
میرے ٹوٹے دل پہ مے بھی بے اثر ثابت ہوئی
اس طرح بے کیف ساقی بادہ خانہ ہوگیا
اس مفہوم میں ’مے خانہ‘ ہی ہونا چاہئے تھا، لیکن وزن کی وجہ سے نیا لفظ بنانا پڑا۔

تیری فُرقت میں مرا دَم یوں گُھٹا جائے بشیر
ختم کیا اب اس جگہ سے آب و دانہ ہو گیا
یہاں ’گھٹا جائے‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کی جگہ یوں ہو
یوں گھٹا جاتا ہے میرا دم جدائی میں بشیر​
مزید یہ کہ اکثر اشعار واضح نہیں ہیں۔​
 
Top