مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۔ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟

مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۔ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟

آج کے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی زیادہ فکر مند ہیں۔
ہم سب ہی چاہتے ہیں ہمارے بچوں کے مستقبل تابناک ہو۔
اس کے لئے ہم جو کر سکتے ہیں اپنی بساط بھر ساری زندگی کرتے رہتے ہیں۔
ہم میں جو مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات پر کاربند ہیں اپنے بچے کو ایک اچھا مسلمان بنانے کی بھی پوری کوشش کرتے ہیں۔
بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے مطابق ہم آذان اور اقامت سے اُسے اِس دنیا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم اپنے بچے کیلئے اچھا سا نام تجویز کرتے ہیں۔ بچے کی صحت کا پورا پورا خیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ مائیں رات کو جاگتی ہیں اور بچے کی ایک ایک لمحے کا خیال رکھتی ہیں۔ بچے کو ہرسہولت وآسائشِ زندگی بہم پہنچانا ہمارا اولین مقصد ہوتاہے ‘ اس کیلئے چاہے ہمیں اپنے والدین کے حقوق ہی کیوں نہ غصب کرنا پڑے۔
اب تو بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی سٹی اسکول‘ بیکون ہاوٴس جیسے تعلیمی اداروں میں بھاری رقوم جمع کراکر ریجسٹریشن بھی کرانی پڑتی ہے۔ بچہ ابھی تین سال کا بھی نہیں ہوتا کہ بچے کے مستقبل سنوارنے کی فکر میں دیر تک سونے والی مائیں علی لصبح اپنی نیندیں خراب کرکے بچے کو اسکول بھیجنے کیلئے اپنے دروازے پر کھڑ ی نظر آتی ہیں۔ صرف ایک ہی فکر ہے کہ ہمارے بچے کی ’مستقبل‘بن جائے۔ لیکن یہ ’ مستقبل‘ کتنے دنوں کی ہے زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر سال کی۔ جس میں تقریباً 25 سال اِس مستقبل کو بننے میں لگے گا اور باقی زیاد سے زیادہ 40 - 50 سال وہ بچہ عیش کرے گا۔ اِس قدر قلیل مستقبل کیلئے ہم کتنے فکر مند اور کوشاں ہیں۔ اُس پر اُمیدِ کامل نہیں کہ مستقبل بن ہی جائے اور ہر بچہ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ایم بی اے‘ سائنسدان وغیرہ یا ہم جو چاہتے ہیں وہ بن ہی جائے۔

لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ ہم اپنے بچے کی دائمی اور ابدی مستقبل کی فکر بھی نہیں کرتے۔ ہم بچے کو قرآن بھی پڑھاتے ہیں۔ ایک قاری رکھ لیتے ہیں جو مہینے بھر آ کر ہمارے بچے کو قرآن پڑھاتا ہے اور اُسے اتنا دیتے ہیں جتنے میں ہم ایک وقت باہر کھانا بھی نہیں کھا سکتے لیکن اُس پر احسان جتاتے ہیں۔ ہمارے احسانوں میں دبا اور غربت کا مارا قاری کیا تعلیم دے گا اور کیا کردار سازی کرے گا ہمارے بچے کی لیکن ہماری ایسی سوچ کہاں؟

ہم میں جو لوگ کچھ زیادہ ہی دیندار ہیں وہ بچے کو قرآن حفظ بھی کراتے ہیں‘ کیونکہ اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ بچہ حافظِ قرآن ہوگیا تو ہم سیدھے جنت میں جائیں گے‘ چاہے ہم کچھ بھی کرتے پھریں۔۔۔
-- چاہے ہم توحید کو نہ سمجھیں
--- چاہے ہم ساری زندگی شرک‘ بدعات و خرافات میں ہی کیوں نہ ڈوبے رہیں؟ اور مزاروں پرسجدےکرتے رہیں؟
--- اپنی نمازوں میں ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘ پڑھتے رہیں‘ پھر ہاتھ اُٹھا کر یاغوث‘ یا خواجہ‘یا داتا یا علی ہی کیوں نہ پکاریں؟​

ہم سات سال کی عمر میں اپنے بچے کو نماز بھی سکھاتے ہیں اور دس سال کی عمر سے نماز نہ پڑھنے پر اُنہیں سرزنش بھی کرتے ہیں۔
جب بچہ روزہ رکھ سکنے کی طاقت کو پہنچ جاتا ہے تو اسے روزہ بھی رکھواتے ہیں اور بلوغت کے بعد ہمارے بچے ہر سال روزہ بھی رکھتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو اِخلاقیات اور حلال و حرام کی تعلیم بھی دیتے ہیں ۔ حقوق اللہ اورحقوق العباد کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔ اللہ اور رسول اللہﷺ کا محبت بھی ان کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کویہ بھی بتاتے ہیں کہ:
اللہ ہی ہمارا اور پورے کائنات کا خالق‘ مالک اور رب ہے ۔۔۔ ’’ اللہ نے ہمیں صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے‘‘اورانہیں عبادت کا مفہوم بھی سمجھاتے ہیں۔
[’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾‎ اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے‘‘۔ سورة الذاريات]​

ہم اپنے بچوں کو اللہ کے حقوق اور اللہ پر بندوں کے حقوق کے بارے میں معاز بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی سناتے ہیں:

''حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبیﷺکے پیچھے (سواری پر) بیٹھا ہوا تھا اور میرے اور آپﷺ کے بیچ میں صرف کجاوے کی آخری حصہ تھی۔

آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ بن جبل،
میں نے کہا: لبیک و سعدیک‘ یارسول اللہ،
پھر آپ ﷺ کچھ دیر چلتے رہے، پھر فرمایا: اے معاذ بن جبل،
میں نے کہا: لبیک و سعدیک ‘ یارسول اللہ،
پھر آپ ﷺ کچھ دیر چلتے رہے۔ پھر فرمایا: اے معاذ بن جبل،
میں نے کہا: لبیک و سعدیک ‘ یارسول اللہ،
آپﷺ نے پوچھا: تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟
میں نے کہا: اللہ اور اس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپﷺ نے بتایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
پھر آپ ﷺ کچھ دیر چلے۔ پھر کہا: اے معاذ بن جبل،

میں نے کہا: لبیک و سعدیک‘ یارسول اللہ،
آپ ﷺنے فرمایا: جانتے ہو، جب اس کے بندے یہ کر لیں تو بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟
میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: یہ کہ وہ انھیں عذاب نہ دے۔'' (بخاری و مسلم)

اس کے علاوہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نوجوان صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جن دس باتوں کی وصیت کی تھی ہم اپنے بچوں کو وہ وصیتیں بھی یاد دلاتے ہیں:

1. شرک نہ کرنا‘خواہ کوئی تجھے قتل کر دے یا جلا دے۔
2. والدین کو تکلیف نہ پہنچانا۔
3. فرض نماز کبھی ترک نہ کرنا‘ کیونکہ جو شخص قصداً نماز چھوڑتا ہے اللہ اس کے ذمہ داری سے بری ہو جاتا ہے۔
4. شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
5. گناہ میں مبتلا نہ ہونا‘ کیونکہ گناہ میں مبتلا ہونے والے پر اللہ کا غصہ حلال ہو جاتا ہے۔
6. جہاد میں پیٹھ پھیر کر نہ بھاگنا۔
7. کسی علاقے میں بیماری کی وبا پھوٹ پڑے تو ثابت قدم رہنا۔
8. اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
9. اولاد کو ادب سکھانا۔
10. اولاد کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرنا۔ (مسند امام احمد)
اور ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی سنت پرعمل کرتے ہوئے اپنے بچے کی معصوم ذہن میں دینی حقائق نقش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:

ایک روز میں (عبداللہ بن عباسؓ ) رسول اللہ ﷺکے پیچھے سواری پر تھا آپ ﷺنے مجھ سے فرمایا:

’’ اے بچے (بیٹے) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں:

تم اللہ کے حقوق اللہ کا خیال رکھو تو اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے‘
اور جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو‘
اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو‘
اور اس بات کو جان لو کے اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں صرف وہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ ‘‘ (ترمذی)۔۔۔
انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے دیگر محبوب بندوں نے اپنے بچوں کو جو سکھایا تھا ہم اپنے بچوں وہ سبق بھی سکھاتے ہیں:

جب یعقوب علیہ السلام وقتِ وفات اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ
’’ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۔ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ‘‘ (سورۃ البقرہ ۔ ۱۳۳)​
تو سب نے جواب دیا :
’’ نَعْبُدُ إِلَ۔ٰهَكَ وَإِلَ۔ٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَ۔ٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾ سورة البقرة
ہم عبادت کریں گے آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم اور اسماعیل اور اسحاق (علیھم السلام) کے معبود کی جو واحد و یکتا معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار (مسلم) رہیں گے۔‘‘

اور اسی طرح لقمان حکیم کی وصیت بھی یاد دلاتے رہتے ہیں:
’’ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّ۔هِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ﴿١٣﴾ سورة لقمان
میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺنے حقوق اللہ بیان کرتے ہوئے یا کسی کو وصیت کرتے ہوئے ہمیشہ شرک سے بچنے کی تلقین کو ہی مقدم رکھا۔ آپ ﷺ سے جب بھی کوئی بعیت کرتا تو آپ ﷺ کی پہلی نصیحت یہی ہوتی ’’ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا‘‘۔

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے قرآن و سنت میں بچے کو شرک سے بچانے کی تربیت ہی اولین ترجیح ہے۔ لہذا اگر ہم بھی اپنے قول ‘ عمل اور عبادات سے اپنے بچوں کو شرک سے بچانے کی تربیت کو ہی سرِ فہرشت رکھتے ہیں تو ہم اپنے بچوں کی دائمی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں اور انشاء اللہ ہمارے بچے دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہونگے۔

لیکن آج مسلمانوں میں کچھ نام نہاد مفکر ہیں جو کہتے ہیں ’’ مسلمان شرک کر ہی نہیں سکتا ‘‘ اس لئے شرک کے بارے میں سونچنا چھوڑ دو۔ ہمارے حیلے بہانے سنو اور ہمارے ساتھ مل کر اللہ کے ساتھ شرک کرتے رہو۔ شرک کی جن باتوں کا قرآن و حدیث میں بیان ہے اُن پر کان نہ دھرو۔ نہ ہی خود بچو اور نہ ہی اپنے بچوں کی فکر کرو۔ اگر یہ اِس بات کا اقرار کر لیں کہ آج مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلا ہے اور یہی اُمت مسلمہ کی تنزلی کی اصل سبب ہے تو ان لوگوں نے شرک کی جو فیکٹریاں لگا ر کھی ہیں وہ کیسے چلے گی۔ یہ صرف اپنی دنیا کیلئے ایسا کہتے ہیں ۔۔۔ دنیاوی نام و نمود کیلئے انہیں اپنی شرک کی فیکٹریاں چلانی ہے ۔۔۔

یہ شیطان کے چیلے ہیں ۔۔۔ ان کے پاس جو علم ہے وہ شیطانی علم ہے ۔۔۔ یہ اپنی شیطانی علم سے قرآن کی باتوں کو پھیرتے ہیں اور احادیث کی غلط ترجمانی کرتے ہیں ۔۔۔ خود بھی اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شرک کرکے گناہِ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں اور عام مسلمانوں کو بھی اسی چکر میں پھانستے ہیں ۔۔۔

جانور بھی خطرات بھانپ کر کان کھڑے کر لیتے ہیں۔ خطرات کو بھانپئے اور اپنے اِرد گِرد پھیلے شرک کو سمجھئے ۔۔۔ خود بھی بچئے‘ اپنے بچوں کو بھی بچائیے اور شرک کا قلع قمع کیجئے۔

اللہ وحدہ لاشریک ہمیں‘ ہمارے اہل و عیال ‘ دوست احباب‘ ہماری آئندہ نسلوں کو اور تمام مسلمانوں کو شرک جیسی گناہِ عظیم سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین
 
Top