مولانا کا سراپا (مکمل)

سچ تو یہ ہےکہ اِس چورنگی نے ہمیں اہم سربستہ رازوں سے آشکار کیا ہے مثال کے طور پر ، ہم یہ جانتےہی نہیں تھے کہ کرہِ ارض پر مکہ اور مدینہ کے بعد سب سے متبرک خطے ٹونک اور بہار شریف ہیں - ہمیں انتہائی پر آشوب مذاکروں میں یہ بات اچھی طرح سمجھائی جاچکی ہے کہ اِن دونوں علاقوں کی باقی مانده دنیا پر فضیلت صرف اس لئے نہیں ہے کہ ہمارے دوستوں کی بڑی تعداد انہی دو جنتوں سے تعلق رکھتی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ وہ گوہر آبدار ہیں جنہوں نے عالم اروح میں ہی یہاں کے علاوہ کہیں اور پیدا ہونے سے انکار کر دیا تھا - بقول فاطمی بھائی و ہم خیال مولانا کہ ، ٹونک میں اتنی بڑی بڑی شخصیات اس کثرت سے پیدا ہوئی ہیں کہ اب اگر کسی ٹونکی کے گھر عام سا بچہ پیدا ہو جائے تو اُسے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے

ایک مذاکرے میں احبابِ ٹونک اسی جنت نظیر وادی کی مدح میں مصروف تھے کہ اچانک شعیب بھائی اُوچھا سوال داغ گئے - " وہ تو سب ٹھیک ہے مگر ٹونک میں کوئی نبی تو نہیں آیا نا ؟" اس سے پیشتر کہ اس سوال پر ٹونکیوں کے چہرے مرجھا جاتے اور ایک صفِ ماتم بچھ جاتی مولانا نے عَلمِ سیادت تھاما اور صفِ دشمناں کو پسپائی پر مجبور کر دیا - کہنے لگے " نام کے ساتھ تذکرہ چھبیس کا ہے مگر الله نے ہر بڑے شہر میں اپنے انبیاء بھیجے ہیں ، اگر ہم اور آپ نہیں جانتے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ " اہلِ ٹونک کے چہرے کِھل اٹھے مخالفین بغلیں جھانکنے لگے - مولانا کا سینہ تن گیا فاتحانہ انداز میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر غیر ٹونکیوں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھنے لگے- شخصیات کے حوالے سے یہ حضرات کوئی متعصبانہ رویہ نہیں رکھتے الہ یہ کہ شخصیت ٹونک سے باہر کی ہو

مولانا عموماََ گفتگو کم کرتے ہیں زیادہ تر بحث ہی کرتے ہیں اور یہ مباحثے اُس وقت زور پکڑ جاتے ہیں جب مخالفین کو یہ احساس ہو جائے کے وہ غلطی پر ہیں - یہاں لفظ "وہ" کی ضمیر کس طرف ہے 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ' - بیشتر مواقوں پر ، اگر مولانا کا موقف درست نہ ہو تو چورنگی پر مباحثوں کی نوبت ہی پیش نہ آئے - بقول شیخ صاحب، مولانا تقریباََ چالیس ہزار کتابیں پڑھ چکے ہیں اور انکی اِسی علمی بےراہروی کی وجہ سے چورنگی کا لہوعموماََ گرم رہتا ہے - ایسا نہیں ہے کہ چورنگی پر علمی شخصیات کی کمی ہو ، لیکن ان علمی شخصیات کی علمیت کو تسلیم کرنے والے یقیناََ کم ہیں - قبلہ اسلام الدین صاحب ایک مرتبہ مولانا سے ، مولانا کی نادیدہ خواہش کے عین مطابق اُلجھ پڑے اور اِسی معرکے میں وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو اب زباں زدِ چورنگی ہے " آپ نے پڑھا ہی کیا ہے ؟ چار کتابیں پڑھی ہیں اُن میں سے بھی دو کتابچے" مولانا کے بارے میں یہ جملے سن کر یہ احساس ہوا کہ واقعی

"یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے"

مولانا غصہ بہت کم کرتے ہیں غصے کی جگہ بھی وہ بحث ہی کر لیتے ہیں - لیکن چند ایک دفع بے تحاشہ غصہ کیا آپے سے باہر ہو گئے سنبھالے نہ سنبھلے - ہوا کچھ یوں کے مولانا پر ناگہانی "ڈرون" حملہ ہوا ، مولانا ، ارشد بھائی کو تو برداشت کر جاتے ہیں مگر انکا "ڈرون" مولانا سے برداشت نہ ہوا (موصوف ڈرون صاحب کا تذکرہ بھی آگے آتا ہے ) - پلٹ کر وہ کھری کھری سنائی کے طبیعت ہری کر دی - اپنا چہرہ بھی غصے سے لال ہوا - ایک مرتبہ فیاض بھائی سے ہو گئی تھی، تب میں موجود نہیں تھا - اس کے راوی پروفیسر ہیں، اس واقعے میں مولانا ناراض ہو کر چلے گئے تھے بڑی مشکل سے واپس آئے - دو مرتبہ مرحوم خیام قادری بھائی اسرار کر کے واپس لائے، کئی بار یہ شرف مجھے بھی حاصل ہوا الغرض مولانا چورنگی پر اتنا آئے نہیں ہیں جتنا لائے گئے ہیں

لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مولانا کی موجودگی چورنگی کی خوش بختی ہے اب تمام دقیق موضوعات کی گرد آپ اور ارشد بھائی اپنی دھواں دھار تقریر سے بیٹھا دیتے ہیں اور باقی مسلمان آسانی سے شفاف ماحول میں اپنی گفتگو کر لیتے ہیں - مولانا حقیقتاََ ایک صالح انسان ہیں بہت شریف النفس ، سادہ طبیعت - انتہائی غم انگیز واقعات پر ، گو آپ کی آنکھ نم ہوتی ہے مگر دل صاف رہتا ہے

ویسے تو یہ خوبی تمام احباب میں موجود ہے کہ وہ انتہائی رکیک مباحثوں کے بعد ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں جس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ اس طرح نئے مباحثوں کو اخلاقی بنیادیں فراہم ہو جاتی ہیں جسکی بدولت ایک دوسرے پر نجی نوعیت کے غیر اخلاقی حملے کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، لیکن اس سلسلے میں مولانا کا ظرف واقعی دیدنی ہے کیونکہ موضوع ، شدت اور تعداد کے اعتبار سے جتنے مباحثوں کا سابقہ مولانا سے پڑتا ہے کوئی دوسرا اسکے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا

دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی رائے سے پلٹ جائے تو اسے منافقت سے تعبیر کیا جاتا ہے - " اچھی منافقت ہے !! ابھی کیا کہہ رہے تھے ، اور اب بلکل ہی اُلٹی بات کر رہے ہیں" - یہ بات بھی میں نے چورنگی پر ہی سمجھی ہے کہ افزائشِ نسل کی طرح تبدیلیِ رائے میں بھی مناسب وقفہ بہت ضروری ہے - اگر رائے کی تبدیلی میں ایک خاص مدت (جس کا پیمانہ صرف ارشد بھائی کے پاس ہے ) نہ لگے تو یہ منافقت کہلاے گی - مگر ایک رائے سے تائب ہونے ، اور مقررہ عدت گزار لینے کے بعد ، جو رائے قائم کی جائے گی اسے حق شناسی اور شعور و اگہی کی منازل کی فتحیابی کہا جائے گا-

شیخ صاحب کہتے ہیں مولانا اپنے الفاظ گھر سے تول کر لاتے ہیں -اور جب تک یہ "لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے" کے مصداق کر نہیں گذرتے محفل میں کوئی چین سے نہیں بیٹھ سکتا یہی وجہ ہے کہ ، اگرکوئی شخص گفتگو کے آغاز میں ہی حق کو پہچان کر اپنی باطل رائے سے تائب ہو بھی جائے تب بھی بحث ختم نہیں ہوتی کیونکہ تشفّیِ دلائل کے لیے ضروری ہے کہ باتوں کے سارے انبار انڈیل دئیے جائیں - اتفاقاََ کسی بات پر اگر طرفین کا موقف ایک ہی ہو تو ذیلی معلومات کے اعتبار سے کوئی ایسا نقطہ ڈھونڈا جاتا ہے جس سے بحث کا آغاز ہو سکے جیسے - اگر یہ بات ہو رہی ہوکہ چنگیزخان نے واقعی ظلم کیا اور سب اس پر متفق ہو جائیں تو اس بات پر بحث ہو جائے گی کہ قبلای خان کو گھٹی کس نے پلائی ؟ جب اس طرح کی علمی بحث ذاتیات پر اختتام پذیر ہو جائے اور احباب چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں گھومانا شروع کر دیں یا سگرٹ کا کش لیتے ہوئے نگاہ انگارے پر مرکوز کر دیں تو سمجھ لیں کہ محفل "نشستم گفتم برخاستم" کے آخری مرحلے پر ہے -ایسے میں وہ صاحب جنھیں شکست و ریخت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا گیا تھا اور جنکی برآمدگی کی کوئی صورت اگلی محفل کے انقعاد تک نظر نہیں آرہی کہتے ہیں " پروفیسر !! ذرا چائے کا تو کہہ دو"

مولانا کا سراپا اتنا پُرنور ہے کے دیکھتے ہی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے - مستورات کے معاملے میں بھی یہی نورانی دیوار حائل ہے - میرا ذاتی مشاہدہ ہے کے خواتین صرف دینی مسائل کیلئے مولانا سے مخاطب ہوتی ہیں ورنہ ایک تعظیمی خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں جو خواتین کے بھروسے اور مولانا کے ایمان کی واحد ضامن ہوتی ہے - انپی فطری تمناؤں کے حصول کیلئے اگر مولانا ، بزرگوں کی دعاوں کے حصار سے نکل بھی جائیں تب بھی سراپے کا یہ روحانی ہالہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا

اس میں شک نہیں کہ مولانا بہت حسین انسان ہیں ، بارعب و باشرع چہرہ ، نشست و برخاست مہذبانہ ، عادت و اطوار شریفانہ ، بولنے بات کرنے کا سلیقہ ... لیکن مولانا کے پاس ایک دل بھی ہے جو مذکورہ بالا تمام آلائشوں سے پاک عین فطری انداز میں دھڑکتا ہے- جس کے غماز مولانا کے وہ فی البدیع اشعار ہیں جو وہ اکثر پروفیسر کے کان میں سناتے ہیں پھر دونوں شرارتی انداز میں شرما شرما کر ہنستے ہیں - مولانا کا ایک شعر کافی دنوں تک چورنگی کا موضوع بنا رہا

اُس کو روکیں یا اُس کو جانے دیں
ہم بہت دیر گومگوں میں رہے

اس سے پہلے کہ چورنگی پر یہ شعر سنا کر مولانا داد سمیٹے یا تنقید سنتے ، شیخ صاحب نے اُچک لیا- کہنے لگے " مولانا مجھے اس کا مطلب تو نہیں پتہ مگر دوسرے مصرع میں "مگوں"اضافی ہے " کچھ دیر خاموشی کے بعد ایک قہقہ بلند ہوا ............... مولانا بیچارے اور کیا کہتے ...

"کر گیا بدمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا "مگوں"

اقتباس: چورنگی از حسن علی امام
 
آخری تدوین:
سچ تو یہ ہےکہ اِس چورنگی نے ہمیں اہم سربستہ رازوں سے آشکار کیا ہے مثال کے طور پر ، ہم یہ جانتےہی نہیں تھے کہ کرہِ عرض پر مکہ اور مدینہ کے بعد سب سے متبرک خطے ٹونک اور بہار شریف ہیں - ہمیں انتہائی پر آشوب مذاکروں میں یہ بات اچھی طرح سمجھائی جاچکی ہے کہ اِن دونوں علاقوں کی باقی مانده دنیا پر فضیلت صرف اس لئے نہیں ہے کہ ہمارے دوستوں کی بڑی تعداد انہی دو جنتوں سے تعلق رکھتی ہے بلکہ اس کی اصل وجہ وہ گوہر آبدار ہیں جنہوں نے عالم اروح میں ہی یہاں کے علاوہ کہیں اور پیدا ہونے سے انکار کر دیا تھا - بقول فاطمی بھائی و ہم خیال مولانا کہ ، ٹونک میں اتنی بڑی بڑی شخصیات اس کثرت سے پیدا ہوئی ہیں کہ اب اگر کسی ٹونکی کے گھر عام سا بچہ پیدا ہو جائے تو اُسے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے

ایک مذاکرے میں احبابِ ٹونک اسی جنت نظیر وادی کی مدح میں مصروف تھے کہ اچانک شعیب بھائی اُوچھا سوال داغ گئے - " وہ تو سب ٹھیک ہے مگر ٹونک میں کوئی نبی تو نہیں آیا نا ؟" اس سے پیشتر کہ اس سوال پر ٹونکیوں کے چہرے مرجھا جاتے اور ایک صفِ ماتم بچھ جاتی مولانا نے عَلمِ سیادت تھاما اور صفِ دشمناں کو پسپائی پر مجبور کر دیا - کہنے لگے " نام کے ساتھ تذکرہ چھبیس کا ہے مگر الله نے ہر بڑے شہر میں اپنے انبیاء بھیجے ہیں ، اگر ہم اور آپ نہیں جانتے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ " اہلِ ٹونک کے چہرے کِھل اٹھے مخالفین بغلیں جھانکنے لگے - مولانا کا سینہ تن گیا فاتحانہ انداز میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر غیر ٹونکیوں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھنے لگے- شخصیات کے حوالے سے یہ حضرات کوئی متعصبانہ رویہ نہیں رکھتے الہ یہ کہ شخصیت ٹونک سے باہر کی ہو

مولانا عموماََ گفتگو کم کرتے ہیں زیادہ تر بحث ہی کرتے ہیں اور یہ موباحثے اُس وقت زور پکڑ جاتے ہیں جب مخالفین کو یہ احساس ہو جائے کے وہ غلطی پر ہیں - یہاں لفظ "وہ" کی ضمیر کس طرف ہے 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ' - بیشتر مواقوں پر ، اگر مولانا کا موقف درست نہ ہو تو چورنگی پر مباحثوں کی نوبت ہی پیش نہ آئے - بقول شیخ صاحب، مولانا تقریباََ چالیس ہزار کتابیں پڑھ چکے ہیں اور انکی اِسی علمی بےراہروی کی وجہ سے چورنگی کا لہوعموماََ گرم رہتا ہے - ایسا نہیں ہے کہ چورنگی پر علمی شخصیات کی کمی ہو ، لیکن ان علمی شخصیات کی علمیت کو تسلیم کرنے والے یقیناََ کم ہیں - قبلہ اسلام الدین صاحب ایک مرتبہ مولانا سے ، مولانا کی نادیدہ خواہش کے عین مطابق اُلجھ پڑے اور اِسی معرکے میں وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو اب زباں زدِ چورنگی ہے " آپ نے پڑھا ہی کیا ہے ؟ چار کتابیں پڑھی ہیں اُن میں سے بھی دو کتابچے" مولانا کے بارے میں یہ جملے سن کر یہ احساس ہوا کہ واقعی

"یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے"

مولانا غصہ بہت کم کرتے ہیں غصے کی جگہ بھی وہ بحث ہی کر لیتے ہیں - لیکن چند ایک دفع بے تحاشہ غصہ کیا آپے سے باہر ہو گئے سنبھالے نہ سنبھلے - ہوا کچھ یوں کے مولانا پر ناگہانی "ڈرون" حملہ ہوا ، مولانا ، ارشد بھائی کو تو برداشت کر جاتے ہیں مگر انکا "ڈرون" مولانا سے برداشت نہ ہوا (موصوف ڈرون صاحب کا تذکرہ بھی آگے آتا ہے ) - پلٹ کر وہ کھری کھری سنائی کے طبیت ہری کر دی - اپنا چہرہ بھی غصے سے لال ہوا - ایک مرتبہ فیاض بھائی سے ہو گئی تھی، تب میں موجود نہیں تھا - اس کے راوی پروفیسر ہیں، اس واقعے میں مولانا ناراض ہو کر چلے گئے تھے بڑی مشکل سے واپس آئے - دو مرتبہ مرحوم خیام قادری بھائی اسرار کر کے واپس لائے، کئی بار یہ شرف مجھے بھی حاصل ہوا الغرض مولانا چورنگی پر اتنا آئے نہیں ہیں جتنا لائے گئے ہیں

لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مولانا کی موجودگی چورنگی کی خوش بختی ہے اب تمام دقیق موضوعات کی گرد آپ اور ارشد بھائی اپنی دھواں دھار تقریر سے بیٹھا دیتے ہیں اور باقی مسلمان آسانی سے شفاف ماحول میں اپنی گفتگو کر لیتے ہیں - مولانا حقیقتاََ ایک صالح انسان ہیں بہت شریف النفس ، سادہ طبیعت - انتہائی غم انگیز واقیات پر ، گو آپ کی آنکھ نم ہوتی ہے مگر دل صاف رہتا ہے

ویسے تو یہ خوبی تمام احباب میں موجود ہے کہ وہ انتہائی رکیک مباحثوں کے بعد ایک دوسرے سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں جس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ اس طرح نئے مباحثوں کو اخلاقی بنیادیں فراہم ہو جاتی ہیں جسکی بدولت ایک دوسرے پر نجی نوعیت کے غیر اخلاقی حملے کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، لیکن اس سلسلے میں مولانا کا ظرف واقعی دیدنی ہے کیونکہ موضوع ، شدت اور تعداد کے اعتبار سے جتنے مباحثوں کا سابقہ مولانا سے پڑتا ہے کوئی دوسرا اسکے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا

دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی رائے سے پلٹ جائے تو اسے منافقت سے تعبیر کیا جاتا ہے - " اچھی منافقت ہے !! ابھی کیا کہہ رہے تھے ، اور اب بلکل ہی اُلٹی بات کر رہے ہیں" - یہ بات بھی میں نے چورنگی پر ہی سمجھی ہے کہ افزائشِ نسل کی طرح تبدیلیِ رائے میں بھی مناسب وقفہ بہت ضروری ہے - اگر رائے کی تبدیلی میں ایک خاص مدت (جس کا پیمانہ صرف ارشد بھائی کے پاس ہے ) نہ لگے تو یہ منافقت کہلاے گی - مگر ایک رائے سے تائب ہونے ، اور مقررہ عدت گزار لینے کے بعد ، جو رائے قائم کی جائے گی اسے حق شناسی اور شعور و اگہی کی منازل کی فتحیابی کہا جائے گا-

شیخ صاحب کہتے ہیں مولانا اپنے الفاظ گھر سے تول کر لاتے ہیں -اور جب تک یہ "لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے" کے مصداق کر نہیں گذرتے محفل میں کوئی چین سے نہیں بیٹھ سکتا یہی وجہ ہے کہ ، اگرکوئی شخص گفتگو کے آغاز میں ہی حق کو پہچان کر اپنی باطل رائے سے تائب ہو بھی جائے تب بھی بحث ختم نہیں ہوتی کیونکہ تشفّیِ دلائل کے لیے ضروری ہے کہ باتوں کے سارے انبار انڈیل دئیے جائیں - اتفاقاََ کسی بات پر اگر طرفین کا موقف ایک ہی ہو تو ذیلی معلومات کے اعتبار سے کوئی ایسا نقطہ ڈھونڈا جاتا ہے جس سے بحث کا آغاز ہو سکے جیسے - اگر یہ بات ہو رہی ہوکہ چنگیزخان نے واقعی ظلم کیا اور سب اس پر متفق ہو جائیں تو اس بات پر بحث ہو جائے گی کہ قبلای خان کو گھٹی کس نے پلائی ؟ جب اس طرح کی علمی بحث ذاتیات پر اختتام پذیر ہو جائے اور احباب چائے کی پیالیاں ہاتھوں میں گھومانا شروع کر دیں یا سگرٹ کا کش لیتے ہوئے نگاہ انگارے پر مرکوز کر دیں تو سمجھ لیں کہ محفل "نشستم گفتم برخاستم" کے آخری مرحلے پر ہے -ایسے میں وہ صاحب جنھیں شکست و ریخت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلا گیا تھا اور جنکی برآمدگی کی کوئی صورت اگلی محفل کے انقعاد تک نظر نہیں آرہی کہتے ہیں " پروفیسر !! ذرا چائے کا تو کہہ دو"

مولانا کا سراپا اتنا پُرنور ہے کے دیکھتے ہی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے - مستورات کے معاملے میں بھی یہی نورانی دیوار حائل ہے - میرا ذاتی مشاہدہ ہے کے خواتین صرف دینی مسائل کیلئے مولانا سے مخاطب ہوتی ہیں ورنہ ایک تعظیمی خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں جو خواتین کے بھروسے اور مولانا کے ایمان کی واحد ضامن ہوتی ہے - انپی فطری تمناؤں کے حصول کیلئے اگر مولانا ، بزرگوں کی دعاوں کے حصار سے نکل بھی جائیں تب بھی سراپے کا یہ روحانی ہالہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا

اس میں شک نہیں کہ مولانا بہت حسین انسان ہیں ، بارعب و باشرع چہرہ ، نشست و برخاست مہذبانہ ، عادت و اطوار شریفانہ ، بولنے بات کرنے کا سلیقہ ... لیکن مولانا کے پاس ایک دل بھی ہے جو مذکورہ بالا تمام آلائشوں سے پاک عین فطری انداز میں دھڑکتا ہے- جس کے غماز مولانا کے وہ فی البدیع اشعار ہیں جو وہ اکثر پروفیسر کے کان میں سناتے ہیں پھر دونوں شرارتی انداز میں شرما شرما کر ہنستے ہیں - مولانا کا ایک شعر کافی دنوں تک چورنگی کا موضوع بنا رہا

اُس کو روکیں یا اُس کو جانے دیں
ہم بہت دیر گومگوں میں رہے

اس سے پہلے کہ چورنگی پر یہ شعر سنا کر مولانا داد سمیٹے یا تنقید سنتے ، شیخ صاحب نے اُچک لیا- کہنے لگے " مولانا مجھے اس کا مطلب تو نہیں پتہ مگر دوسرے مصرع میں "مگوں"اضافی ہے " کچھ دیر خاموشی کے بعد ایک قہقہ بلند ہوا ............... مولانا بیچارے اور کیا کہتے ...

"کر گیا بدمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا "مگوں"

اقتباس: چورنگی از حسن علی امام
زبردست، شاندار، بہترین۔
بہت شکریہ
مزا آیا پڑھ کر۔
صاحب تحریر کی بارے میں کچھ معلومات مل سکیں گی !!!
 
لگتاہے عین سے آنے والے ہرلفظ سے چاہت کا ناطہ ہے! :sneaky: (تصحیح: عرض عین سے نہیں ہمزہ سے ہے)
مولانا اپنے الفاظ گھر سے تول کر لاتے ہیں
بہترین ولاجواب مولانا کا بیانیہ طول وعرض کھینچا ہے!
ویسے ہم سمجھے کہ روالپنڈی کے مولانا ٹوکہ سے آپ کےدوہاتھ ہوگئے!:D
 
زبردست، شاندار، بہترین۔
بہت شکریہ
مزا آیا پڑھ کر۔
صاحب تحریر کی بارے میں کچھ معلومات مل سکیں گی !!!

نوازش ، چوہدری صاحب ، وقت نکال کر یہ کام بھی کرتا ہوں
اے پنڈ دے چوہدری نے ساڈی جان کَڈ لینی اے اک دن :ROFLMAO::D:grin::mrgreen::eek::sad::noxxx::clown::dancing:
 
چورنگی از حسن علی امام
ہم توعلامہ غوغل سے پوچھ پوچھ کرتھک گئے تھے!:)
ہم نے تصور میں تصورکرلیا کہ غوغل کادماغ کام نہیں کررہاہوگا۔ :D
اب بتالگا کہ وہ توخود کلامی ہے۔
یہ آپ کا کتابی نام ہے؟
 
ہم توعلامہ غوغل سے پوچھ پوچھ کرتھک گئے تھے!:)
ہم نے تصور میں تصورکرلیا کہ غوغل کادماغ کام نہیں کررہاہوگا۔ :D
اب بتالگا کہ وہ توخود کلامی ہے۔
یہ آپ کا کتابی نام ہے؟
جی احسان اللہ بھائی ، چوہدری صاحب کو بھی بتانا ہے آپ کو بھی ، ذرا وقت نکال کر میں لکھتا ہوں -
 
اور یہ موباحثے اُس وقت زور پکڑ جاتے ہیں
لگتا ہے مباحثے کی جگہ موباحثے کا لفظ مولانا کے بارے میں مبالغے کی وجہ سے استعمال ہو گیا:sneaky::sneaky::sneaky:
یہ کون سے مواقع ہوتے ہیں بھائی:sneaky::sneaky::sneaky:
اور انکی اِسی علمی بےراہروی کی وجہ سے چورنگی کا لہوعموماََ گرم رہتا ہے
مزہ آ گیا بھئی کیا کمال کا جملہ ہے:):)
پلٹ کر وہ کھری کھری سنائی کے طبیت ہری کر دی -
طبیعت کو کیا کمال بنایا آپ نے:sneaky::sneaky::sneaky:
الغرض مولانا چورنگی پر اتنا آئے نہیں ہیں جتنا لائے گئے ہیں
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
انتہائی غم انگیز واقیات پر ،
واقعات، تو واقعی غم انگیز ہو گیا:sneaky::sneaky::sneaky:
 
یہ صاحب کون ہیں میں نہیں جانتا انہیں !
روالپنڈی میں ایک مقرر ہے۔
جو تقریر کرتے ہوئے اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کےلیے کہتے ہیں کہ :
اگریہ یوں نہ ہوتو یہ ٹوکہ اور میرا سر ورنہ مخالف کا سرمیں اپنے ہاتھ سے کاٹوں گا۔
مزیدتفصیلات ان کے مسلک سے منسلک کوئی شخص ہی بتاسکتا ہے۔
 
Top