فرقان احمد

محفلین

الف نظامی

لائبریرین
آزادی مارچ والے لاہور کے قریب پہنچ گئے
4bsm54e831f79a1iyjk_800C450.jpg

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپوزیشن کا آزادی مارچ ملتان سے لاہور کے قریب پہنچ گیا ہے۔

ملتان سے لاہور روانگی سے قبل شرکا سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آزادی مارچ پوری قوم کی ترجمانی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آئینی حق اور وطن عزیز کی حفاظت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا مقصد وزیراعظم عمران خان سے استعفے لینا بتایا ہے جس کی اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی حمایت کر رہی ہیں۔
کراچی میں آزادی کے مارچ کے آغاز کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'ہم اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ بقول ان کے پچیس جولائی کے جعلی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔
 

الف نظامی

لائبریرین

ملتان سے آزادی مارچ کی اگلی منزل کی جانب سے روانگی سے قبل مولانا فضل الرحمان نے شرکا سے خطاب کے دوران کہا کہ ہم نے آئین پاکستان کو میثاق ملی تسلیم کیا ہے، ہم اپنے آئینی حق اور وطن عزیز کی حفاظت کی جنگ لڑ رہے ہیں، آزادی مارچ پوری قوم کی ترجمانی کر رہا ہے، حکمرانوں کو ہماری تصویر سے بھی خوف آتا ہے، حکومت پرامن لوگوں سے کیوں خوف کھارہی ہے؟

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا مودی کامیاب ہو گا تو مسئلہ کشمیر حل ہو گا، مودی کامیاب بھی ہو گیا اور اس نے مسئلہ حل بھی کردیا، کشمیر کو بیچ کر مگرمچھ کے آنسو بہائے جا رہے ہیں، وزیراعظم کی تقریر اگر اتنی اچھی تھی تو اس کا کوئی اثر ہونا چاہیے تھا، اقوام متحدہ میں اگلے دن ووٹنگ ہوئی کسی نے ہمیں ووٹ نہیں دیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تفصیلات کے مطابق:
  • ٹھوکرنیاز بیگ میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما آزادی مارچ کا استقبال کریں گے
  • منصورہ ملتان چونگی میں جماعت اسلامی پاکستان
  • کھاڑک سٹاپ سبزہ زارمیں جے یو آئی (ایف)
  • چوک یتیم خانہ ملتان روڈ پر پاکستان پیپلز پارٹی
  • چوبرجی چوک میں پاکستان مسلم لیگ استقبال کرے گی جبکہ اے این پی بھی معاونت کرے گی
  • داتا دربارپر جمعیت علمائے پاکستان
  • بتی چوک راوی روڈپر جمعیت اہل حدیث پاکستان
  • شاہدرہ چوک پرجمعیت علماءاسلام کے زیراہتمام پاکستان مسلم لیگ
  • شاہدرہ سٹیشن پرپاکستان پیپلز پارٹی
  • مینار پاکستان پرجمعیت علمائے اسلام کے زیراہتمام عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت استقبال کرے گی
 

جاسم محمد

محفلین
ملتان سے لاہور روانگی سے قبل شرکا سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آزادی مارچ پوری قوم کی ترجمانی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آئینی حق اور وطن عزیز کی حفاظت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا مقصد وزیراعظم عمران خان سے استعفے لینا بتایا ہے جس کی اپوزیشن کی دوسری جماعتیں بھی حمایت کر رہی ہیں۔
کراچی میں آزادی کے مارچ کے آغاز کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'ہم اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ بقول ان کے پچیس جولائی کے جعلی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔
web-whatsapp-com-ce6f67a7-54db-48c5-a6c5-307a1d831962.jpg

EH-b-Rl-SXk-AAjo-Ey.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن نے آزادی مارچ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو سخت کارروائی کی جائے گی، وزیراعظم
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1860474-imrankhan-1572355107-818-640x480.jpg

وزیراعظم کی کابینہ اراکین کو نوازشریف کی صحت سے متعلق سیاسی بیان نہ دینے کی ہدایت ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے آزادی مارچ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو سخت کارروائی کی جائے گی

ایکسپریس نیوزکے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت خصوصی کمیٹی بنانے کی منظوری دی گئی جب کہ ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ قائم کرنے کی بھی منظوری دی گئی جس کے سربراہ وفاقی وزیر حماد اظہر ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وزیراعظم عمران خان سے وزراء کے رویے پر شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا کے فیصلے پر حکومتی ارکان نے سوشل میڈیا پر ایسے تنقید کی جیسے وہ اپوزیشن میں ہوں، فیصلوں پر خود وزرا تنقید کریں تو سبکی ہوتی ہے، جس پر وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ سبکی تب ہوتی ہے جب فیصلے کرکے گھنٹوں میں واپس لیے جائیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں آزادی مارچ پر ایک گھنٹہ تک گفتگو ہوئی، اور برینفنگ میں بتایا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کے مارچ کو کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر دیکھ رہی ہے، یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ مارچ کے شرکا معاہدے پر عمل کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ سے متعلق معاہدہ کرنا اچھا عمل ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی آزادی مارچ سے متعلق فیصلوں کے لیے مکمل طور پر بااختیار ہے، احتجاج پرامن اور قانون کے دائرے میں ہو تو کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کریں گے اور معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو سخت کارروائی ہو گی ، حکومت کسی ڈیل کا حصہ نہیں اور نہ ہی کرپشن کیسز پر کوئی سمجھوتہ ہوگا۔

وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو ہدایت کی کہ نواز شریف کی صحت سے متعلق کوئی سیاسی بیان نہ دے، نواز شریف کو علاج کی ہر ممکن سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور ان کی صحت کے لئے دعاگو ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے اُس دھرنے میں تو اینٹرٹینمنٹ (کے سامان کا الزام :) ) بھی سامان تھا ۔ یہاں کیا انتظام ہے ؟
یہ کسی نے سوچا ؟ برسبیل تذکرہ !!!
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے اُس دھرنے میں تو اینٹرٹینمنٹ (کے سامان کا الزام :) ) بھی سامان تھا ۔ یہاں کیا انتظام ہے ؟
یہ کسی نے سوچا ؟ برسبیل تذکرہ !!!
مولویوں کے دھرنے میں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے۔ انٹرٹینمنٹ کیلئے شق نمبر 6 استعمال ہو گی :)
’بی بی آپ آزادی مارچ میں کیا کر رہی ہیں؟‘
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت نہ تو کسی ڈیل کا حصہ ہے اور نہ ہی کرپشن کیسوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے گا، وزیر اعظم عمران خان
آزادی مارچ کو کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کر رہی ہے، مارچ کے شرکا کی معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، وزیراعظم کو بریفنگ

منگل 29 اکتوبر 2019 23:00

pic_09469_1572262068.jpg._3


اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اکتوبر2019ء) وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ حکومت نہ تو کسی ڈیل کا حصہ ہے اور نہ ہی کرپشن کیسوں پر کسی قسم کا سمجھوتہ کیا جائے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی کابینہ اجلاس میں آزادی مارچ پر گفتگو کی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ پر واضح کیا کہ حکومت کسی ڈیل کا حصہ نہیں، کرپشن کیسز پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نے نواز شریف کو علاج کی ہر ممکن سہولیات فراہم کیں۔

انہوں نے ہدایت جاری کی کہ ان کی صحت سے متعلق کوئی بیان نہ دیا جائے۔وزیراعظم کو اجلاس میں بریفنگ دی گئی کہ آزادی مارچ کو کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کر رہی ہے، مارچ کے شرکا کی معاہدے پر عملدرآمد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ آزادی مارچ سے متعلق معاہدہ کرنا اچھا عمل ہے۔ مذاکراتی کمیٹی آزادی مارچ سے متعلق فیصلوں کیلئے با اختیار ہے۔ احتجاج پرامن اور قانون کے دائرے میں ہو تو رکاوٹ نہیں کھڑی کریں گے لیکن اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو سخت کارروائی ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
عجیب نواز شریف ہے
28/10/2019 حماد حسن
میڈیا پر اس کا نام لینے پر پابندی ہے لیکن میڈیا پر وہ چھایا ہوا ہے۔ ”کرپٹ“ بھی وہ ہے اور اُمیدوں کا محور بھی وہ ہے۔ مشکل ترین دنوں اور آزمائشوں کا شکار بھی وہ ہے اور ملک بھر میں سب سے زیادہ چاھا جانے والا اور مقبول بھی وہ ہے۔ عجیب نواز شریف ہے خود بیمار اور کمزور ہے لیکن اس ملک کے طاقتوروں کی چیخیں بھی وہ نکال رہا ہے۔ خود جیل میں ہے لیکن اپنے ہر مخالف کو اس کی چاردیواری تک بھی محدود کرتا جا رہا ہے۔

عجیب نواز شریف ہے۔ اس ملک کے امیر ترین خاندان میں پیدا ہوا اور ناز ونعم میں پھلا بڑھا لیکن خلاف معمول ریشم بننے کی بجائے فولاد بن کر ہی سامنے آیا۔ جو لوگ اسے ایک معمولی کھلونا سمجھ بیٹھے تھے اب وہی لوگ اسے ایک ”بلا“ کے روپ میں دیکھ کر اس سے کانپنے بھی لگے ہیں۔ جس بیٹی کواس کی کمزوری بنایا جا رہا تھا اسے وہ اپنی طاقت بنا بیھٹا۔ جس جیل سے اسے ڈرایا جا رہا تھا اس جیل سے نکلنے کے لئے اس کی تر لے منتیں کی جانے لگیں۔

عجیب نواز شریف ہے جن لوگوں نے اس کے خلاف کرپشن کا طوفان اُٹھایا وہی طوفان رُخ بدل کر خود ان کے بام و در کی طرف پلٹا۔ جن لوگوں نے میڈیا میں اس کے خلاف مہم چلائی وہی لوگ ایک ایک کرکے خود پر۔ جی ہاں خود پر لعنت بھیجنے لگے۔ جس سیاستدان نے اسے نا اہل کہا وہ اب اپنی ہی نااہلی کی وجہ سے رسوا ہو کر منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ جس نے اسے مودی کا یار کہا وہ خود مودی کا یار بننے کے لئے ذلت آمیز لیکن ناکام جتن کرنے لگا۔

عجیب نواز شریف ہے جو اسے سیاست سے نکالنا چاہے وہ غلام اسحق سے مشرف تک عبرت آمیز کہانی بن جاتا ہے۔ جو میڈیا میں اس کے خلاف لعن طعن کا بازار سجائے وہ یا تو شاہد مسعود بن کر کرپشن میں جیل چلا جاتا ہے یا شہزاد اکبر اور شہباز گل بن کر رسوا کن گمشدگی کی دھول ہو جاتا ہے، جو اسے مجرم بنانے کے درپے ہو وہ یا تو ثاقب نثار کی طرح بھاگنے اور چھپنے میں عافیت سمجھتا ہے یا چیئرمین نیب کی مانند ”سر سے پاؤں تک“ گندا ہو جاتا ہے۔

عجیب نواز شریف ہے جو اس کے خلاف کفن اور قبر کی سیاست شروع کرے وہ نہ صرف زندہ درگور ہو جاتا ہے بلکہ گلوگیر لہجے میں ہمیشہ کے لئے سیاست سے توبہ تائب ہونے کا اعلان کر کے ملک اور سیاسی منظر نامے دونوں ہی سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ جو اس کے خلاف ”فیض آباد“ سجاتا ہے اس کے خلاف اعلٰی ترین عدالت سے ”بے فیض“ فیصلہ آ کر مستقبل کے مؤرخ کے سامنے شرمندگی بھرا مواد چھوڑ جاتا ہے جبکہ اس ڈرامے کا مزاحیہ کردار پین دی سری بن کر المیہ کردار کا روپ دھار لیتا ہے اور عبرت بانٹنے لگتا ہے۔

عجیب نواز شریف ہے میڈیا میں جو اس کے خلاف عامر لیاقت بن کر ذاتی اور گھریلو معاملات تک چلا جاتا ہے اس کے اپنے ہی گھر پر ”بربادی کی آفت“ ٹوٹ پڑتی ہے۔ جو مبشر لقمان بن کر اس کے خلاف کذب بیانی کرنے لگے وہ ”رنگے ہاتھوں“ پکڑا جاتا ہے اور جو صابر شاکر بن کر جھوٹے الزامات لگائے تو اسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان بھری عدالت میں ڈانٹ کر ثبوت مانگنے لگتے ہیں۔

عجیب نواز شریف ہے جو لوگ اس کی پارٹی توڑنے کے درپے تھے وہ پورے ملک کو اس کی پارٹی بنا گئے، جو لوگ اسے پارٹی صدارت سے ہٹانے لگے تھے وہ اسے ملک کا غیرعلانیہ صدر بنا بیٹھے، جو لوگ اس کی اہلیہ کلثوم نواز کی آخری سانسوں کے مشکل وقت کو اس کے لئے اذیت بنانا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے ہاتھوں اس مشکل وقت اور منصوبے کو نواز شریف کے لئے دلیری اور عظمت میں بدل دیا۔ اور جو لوگ اس کے خاندان کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے، اس خاندان کو اُنھوں نے نشان جرات بنا دیا۔

عجیب نوازشریف ہے نہ چیختا چھنگاڑتا ہے، نہ گالیاں دیتا ہے، نہ لعن طعن کرتا ہے، نہ بد زبانی پر اُتر آ تا ہے، نہ کسی کی پگڑی اُچھالتا ہے، نہ گریبان پر ہاتھ ڈالتا ہے، نہ رائج سیاست کا حصہ بن کر لمبی لمبی چھوڑتا ہے اور نہ الزام و دُشنام کو سیاسی ہتھیار بناتا ہے لیکن ہفتوں، مہینوں بعد کبھی اس کے منہ سے مختصر سا جملہ بھی نکلے تو وہ لمحوں میں قومی بیانیے کا روپ دھار لیتا ہے۔

عجیب نواز شریف ہے جس سیاسی حریف (عمران خان ) نے اسے آرام سے کام نہیں کرنے دیا اس عمران خان کو پورے ملک کے لوگوں نے ”آرام“ کرنے نہیں دیا۔ جس عمران خان نے اس کے خلاف ڈی چوک سجایا اس عمران خان کے خلاف ملک بھر میں گلی گلی ڈی چوک سج گئے۔ جس نے اس کے خلاف محض اسلام آباد کے ایک چوک میں دھرنا دیا تھا، اس ہی کے خلاف پورا ملک ”جہاں ہے جیسا ہے“ کہ اصول پر دھرنا گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جو عمران خان اپنے سپانسرز اور طاہر القادری کی مدد سے بمشکل چند سو کارکن (؟) اکٹھے کرکے صرف شاہراہ دستور پر جس نواز شریف کے خلاف جلوس لے کر آیا اسی عمران خان کے خلاف آج پشاور سے کراچی تک ہر شاہراہ بلکہ ہر راستے پر لاکھوں عوام نکل آئے ہیں اور اسی شاھراہ دستور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں عمران خان خوف اور سراسیمگی کا شکار بن کر ”فوج میرے پیچھے کھڑی ہے“ جیسی غیر سیاسی سوچ کو سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ جس عمران نے اس کے بی آر ٹی کا مذاق اڑایا تھا اب وھی بی آر ٹی اس کے گلے پڑ کر اسے طنز و تضحیک کے دلدل سے نکلنے نہیں دے رہی ہے۔

عجیب نواز شریف ہے اس کا سیاسی حریف عمران خان اختیار واقتدار کا مالک ہے، محکمہ اطلاعات کا خفیہ فنڈ بھی اس کے ہاتھ میں ہے، ملکی و غیر امراء اور ”انویسٹرز“ بھی اس کے نورتنوں میں شامل ہیں۔ لفافے بانٹنے والے ماہرین کی فوج ظفر موج کو منصب بھی سونپ دیے گئے ہیں اور خرید و فروخت کا پورا اختیار اور وسائل بھی فراہم کر دیے گئیے ہیں جبکہ نواز شریف اپنے خاندان سمیت ابتلا اور آزمائشوں، قید وبند کی صعوبتوں، شدید بیماریوں اور ناسازگار حالات کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اختیار و اقتدار سے الگ منصب سے دور اور کسی پر اثر انداز ہونے سے حد درجہ بے بس ہے لیکن باضمیر لکھاریوں دانشوروں اور صحافیوں کی اکثریت ان حالات میں بھی اپنے ضمیر کی آواز اور اپنے پیشے کی بھرم کی خاطر رضاکارانہ طور پر ایک مشکل جدوجہد میں اس کے ساتھ کھڑے نظر آ تے ہیں۔

عجیب نواز شریف ہے جو لوگ اس کے اعصاب توڑنے نکلے تھے وہ اسے تاریخ کے مضبوط اعصاب والے لیڈروں کے منصب پر ہی پہنچا گئے لیکن خود اپنے اعصاب کا وہ حشر کیا کہ ان کی حواس باختگی پر عالمی میڈیا قہقہے لگا رہا ہے۔

عجیب نوازشریف ہے کہ۔ لیکن ٹہریئے تصوف پر میرا علم نہ ہونے کے برابر ہے کہ اس زاویئے سے بحث کروں۔ سو یہ کام کسی عالم دوست پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور قرآن پاک کی اس آیت سے روشنی لیتے ہیں (جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ) اور جس میں اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ ترجمہ انہوں نے بھی ایک منصوبہ بنایا اور اللہ تعالی نے بھی ایک منصوبہ بنایا اور بے شک اللہ تعالی ہی بہترین منصوبہ ساز ہے۔ اور شاید یہ اسی بہترین منصوبہ ساز ہی کا کمال ہے جس نے ایک سادہ دل لیکن بے بس اور مظلوم آدمی کو ایک عجیب نوازشریف بنا دیا ہے اور وہ بھی ایسا عجیب کہ تاریخ خود کو اس کے سپرد کر چکی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
باضمیر لکھاریوں دانشوروں اور صحافیوں کی اکثریت ان حالات میں بھی اپنے ضمیر کی آواز اور اپنے پیشے کی بھرم کی خاطر رضاکارانہ طور پر ایک مشکل جدوجہد میں اس کے ساتھ کھڑے نظر آ تے ہیں۔
لفافوں کی اکثریت جنہیں پچھلی حکومتوں میں نوازا گیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس ملک کا نظام یا کسی بھی ملک کا نظام کسی ایک شخصیت کے سر پر چلتا ہے اور نہ ہی چل سکتا ہے اور موجودہ سیاسی منظرنامے پر چھائی ہوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں ہے جو عہد ساز ہو۔ کسی پر بدعنوانی اور اقربا پروری کے الزام ہیں تو کوئی نالائقی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ اس ملک میں جمہوری نظام کو ایک طویل عرصے تک چلنے دیا جائے کیونکہ آمریت نے آج تک کسی ملک کو دیرپا فائدہ نہیں پہنچایا۔ خان صاحب کو پانچ سال ملنے چاہئیں تاکہ وہ ہمیں غلط ثابت کر سکیں اور اپنی 'صلاحیتوں' کو بروئے کار لا کر واقعی نیا پاکستان بنا کر دکھا سکیں۔ فی الوقت، ان کی کارکردگی دعووں کی نسبت سے صفر کے قریب ہے تاہم ان کے پاس چار سال ہیں یا ہونے چاہئیں جس میں وہ اپنی کاکردگی کو بہتر بنا کر داد سمیٹ سکتے ہیں۔ مولانا فضل کا مارچ یا دھرنا بھی بے وقت کی راگنی ہے، اور ویسے، ہم اس قدر ریسپانس کی توقع بھی نہیں رکھے ہوئے تھے۔ شاید ایک سال میں ہی عوام اس حکومت سے کافی حد تک بے زار ہو چکے ہیں گو کہ ابھی عامۃ الناس کی اکثریت عملی طور پر اس مارچ میں زیادہ بڑی تعداد میں شریک نہیں ہے۔ البتہ، اگر حکومت کی کارکردگی ایسی پست رہی تو مستقبل قریب میں ایسا کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا جو کہ تحریک انصاف کے حق میں بہتر ثابت نہ ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم مولانا فضل الرحمان اور مقتدر قوتوں کا پلان بی
30/10/2019 شازار جیلانی


مسلم لیگ کے تاسیسی مقاصد میں، سر فہرست مقصد، برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں انگریز آقا کیلئے محبت اور وفاداری کے جذبات کا فروغ تھا۔ بابائے قوم وکیل تھے۔ اس لئے مختصر اور نپے تلے الفاظ ادا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ مسلم لیگی سیاستدانوں کے بارے میں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ جب تک انگریز نے چاہا یہ یونینسٹ تھے اور جب اس نے اشارہ کیا یہ راتوں رات انگریز کے خلاف جلوس نکال کر مسلم لیگی بنے۔

انگریزی حکومت فوجی قوت کی رہین منت تھی۔ اس لئے اپنی ذہنی ساخت اور سیاسی پرداخت کی بنا پر آج تک مسلم لیگ کا تعلق قوت کے سرچشموں کے ساتھ ہے۔ پتہ نہیں نوازشریف کہاں سے آکر رنگ میں بھنگ ڈال گیا، ورنہ شہباز تو آج بھی قابلِ پرواز ہے۔ ابھی کل کی بات ہے چوہدری پرویز الٰہی کی معیت میں مسلم لیگ ق نے جنرل مشرف کو وردی سمیت دس دفعہ صدر منتخب کرانے کا عندیہ بار بار دیا تھا۔ پنجاب سے ہونے کی وجہ سے پرویز الٰہی کو پریس اور اخبارات نے زیادہ توجہ دی ورنہ مشرف کے دوسرے لیکن پرویز الٰہی سے زیادہ اہم حکومتی ساجھے دار اور”مخالف،” ایم ایم اے کے روح رواں، مولانا فضل الرحمان صاحب تھے، جنہوں نے پرویز الٰہی کی طرح بھڑکیں نہیں ماریں لیکن وقت پڑنے پر، ایم ایم اے اور اپنے اتحادیوں کے دل توڑے لیکن پرویز مشرف کو دوبارہ باوردی صدر منتخب کرانے کی خاطر پختونخوا اسمبلی نہیں توڑی، اگرچہ ‘مسلم لیگ’ کا سلیس اردو میں ترجمہ جماعت اسلامی بنتا ہے۔ چونکہ تاریخی طور پر چرچ نے ہمیشہ کراؤن کو حمایت مہیا کی ہے اس لئے نام میں کیا رکھا۔ عمران خان کو “مشرف کی ٹیم” کے ساتھ کھیلنے کا طعنہ اکثر ملتا ہے جو مکمل طور پر صحیح نہیں، کیونکہ مولانا صاحب بھی مشرف کے ٹیم میں تھے اور عمران خان کے ساتھ نہیں تھے۔

میرے گزشتہ کالم “مولانا اور وزیراعظم حلیف تھے، حریف نہیں” میں، میں نے لکھا تھا کہ دونوں حلیف تھے۔ دونوں میں بے حد مماثلتیں اور مشترکات تھیں۔ لیکن حریف بنے رہے، آخر کیوں؟ اس سوال کی ایک توجیہہ یہ ممکن ہے کہ مولانا کو عمران خان کے حلیف ہونے کے باوجود حریف بنا کر پیش کیا گیا۔ جس میں ایک وجہ، عمران خان کی سیاسی ناسمجھی اور ‘حمایتیوں’ کی غلط ہدایات اور مشورے تھے، جو جان بوجھ کر عمران خان کو دیئے گئے تاکہ عمران خان کی ناکامی کی صورت میں، جس کا صحیح اندازہ لگایا گیا تھا، مولانا کو متبادل کے طور پر میدان میں اتارا جائے۔ تاکہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور قوم پرست سیاسی پارٹیاں، عمران خان کی ناکامی سے پیدا شدہ خلا میں کوئی فیصلہ کن سیاسی پوزیشن حاصل نہ کرسکیں۔ نیز عمران خان کے مایوس سیاسی کارکن (خصوصاً پختونخوا کے) تتر بتر ہوکر واپس اپنی سابقہ پارٹیوں میں جانے کی بجائے متبادل قیادت پر بھروسہ کریں اور منصوبے کے مطابق نظام بھی برقرار رہے، صرف چہرے بدلے جائیں۔ یعنی مدینے کی ریاست بنانے کے دعویدار کی بجائے، مدینے کی وراثت کے دعویدار کو لایا جائے۔ یوں اصل حکمرانوں کی حکمرانی قائم رہے گی۔ مہنگائی کے مارے عوام ایک اور سراب کو نخلستان سمجھ کر سانس لینے بیٹھ جائیں گے۔

حکومتی نااہلی، نئے ٹیکسوں اور نیب کے چھاپوں سے بدحال تاجروں اور سرمایہ کاروں کو تحفظ کا احساس ہوجائے گا اور عالمی گاؤں کے سب سے بڑے چوہدری کے ہوش بھی ٹھکانے آ جائیں گے۔ جب وہ کراچی سے اسلام آباد تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا پگڑیوں اور داڑھیوں پر مشتمل یہ جم غفیر اپنے ظاہری اور خفیہ ذرائع سے دیکھے گا تو پاکستان کو ڈومور کی تڑی دیتے ہوئے سو دفعہ سوچے گا، کہ ایران کی طرح کہیں پاکستان بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ جو افغانستان میں ایک فیصلہ کن شرمندگی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ ایران کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑی عالمی مصیبت بن سکتا ہے۔ چینی کیمپ کی حمایت اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان اگر تنگ آ کر مذہبی قوتوں کے قبضے میں چلا گیا تو امریکہ اور اس کے حواریوں کے اوسان خطا ہو جائیں گےجو پہلے سے ایران کے بارے میں پریشان ہیں۔ اس لئے مولانا کا موجودہ سیاسی قوت کا اظہار نہ صرف یہ کہ اندرون ملک بہت ساری تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے بلکہ بیرونی طاقتوں کو بھی پاکستان کے بارے میں اپنے منصوبوں اور رویوں پر نظر ثانی کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کراچی کے سمندری شہر سے شہر اقتدار کی طرف بڑھتا ہوا حقیقی سونامی، جس کے خواب عمران خان دکھایا کرتے تھے۔ یہ نظارہ کسی احتجاجی مارچ کا نہیں ایک نئے وزیراعظم کے سیاسی اننگ کے شروعات کا ہے۔ مولانا صاحب کی وزارت عظمیٰ کی خواہش کا اظہار سابقہ امریکی سفیر، متعینہ پاکستان، این پیٹرسن کی وکی لیکس میں ظاہر شدہ ایک کیبل میں بھی چند سال پہلے ہوا تھا۔



مولانا صاحب کا متشرع حلیہ، مقفیٰ اور مسجع یقینی لہجہ، ملکی اور بین الاقوامی امور و مسائل پر ان کا یکساں عبور، مسکت دلائل پر مبنی اور حاضر جوابی سے بھرپور انکا کاٹ دار مکالمہ، عوامی مسائل اور مصیبتوں کو اپنی تقریروں میں سمونے کا ان کا فن، پھر موجودہ حکومت کے سامنے ڈٹ جانے اور چیلنج کرنے میں ان کی دلیری، ان کو بقایا مدت کے لئے وزیراعظم کے عہدے کیلئے سب سے زیادہ موزوں امیدوار بناتا ہے۔ سنا ہے مولانا صاحب مدت سے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے میں بھی مصروف ہیں۔

مذاکرات کاروں نے مولانا کو آزادی مارچ نومبر تک ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا تو مولانا نے اپنا مارچ پشاور سے شروع کرنے کی بجائے کراچی سے شروع کیا، تاکہ مذاکرات کاروں کو نومبر تک مذاکرات کا وقت ملے اور شیخ رشیدوں کے طعنے بھی نہ سننے پڑے۔ جب وہ ٹی وی ٹاک شوز میں شرط رکھ کر مولانا کے مارچ نہ کرنے کی خوشخبری دیتے تھے۔

خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات نئے انتخابات یا وزیراعظم کی تبدیلی پر جاری ہیں۔ جس میں زیادہ توقع وزیراعظم کی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ نئے الیکشن کی صورت میں نون لیگ واضح اکثریت سے الیکشن جیت جانے کی پوزیشن میں ہے۔ کیونکہ عوام کا تبدیلی کا بخار اتر چکا ہے۔ لیکن نون لیگ کی جیت کی صورت میں شاید کچھ بہت مقتدر حلقوں کو تحفظات ہوں اس لئے وزیراعظم کی تبدیلی اور نظام کے تسلسل پر اتفاق ہوجائے گا۔ جبکہ نون لیگ کی خواہش نئے انتخابات کی ہے۔ موجودہ حکومت سے ٹکرانے اور اکھاڑنے کے بعد بلاشبہ مولانا صاحب سب سے بڑے سٹیک ہولڈر بن کر سامنے آتے ہیں۔ جبکہ مقتدرہ قوتوں کی آشیرباد بھی ان کو حاصل ہو تو آنے والا وزیراعظم مولانا فضل الرحمان خود یا ان کا نامزدکردہ ہو سکتا ہے۔ آخر کیوں مولانا صاحب ایک صوبے کی حکومت پر اکتفا کریں گے جبکہ شیرپاؤ، مسلم لیگ، اے این پی کے ساتھ مل کر پختونخوا کی حکومت گرانا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔

نوازشریف اور زرداری صاحب کو بڑھاپے اور بیماری کا سامنا ہے۔ کرپشن کے الزامات اور جیل کی کوٹھری سے کھلی ہوا میں آ جائیں گے۔ مولانا صاحب کی دلیری اور سیاسی حکمت عملی کی بدولت ان کو اسلام آباد میں اونچی کرسی مل جائے گی۔ تو پاکستان کے کرتا دھرتا ایم ایم اے والی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کا رونا کھلے دل کے ساتھ رو سکیں گے۔ زیادہ پریشر کی صورت میں مولانا کے آزادی مارچ کی جھلکیاں دکھا کر صورتحال کی وضاحت کرنے پر بھی قادر ہو جائیں گے۔ افغانستان میں امریکہ کی مدد عمران خان کی “بےبنیاد” حکومت سے بہتر انداز میں مولانا صاحب کی طالبان تک رسائی رکھنے والی حکومت اچھی طرح کرسکتی ہے۔ مولانا ہی واحد سیاستدان ہیں۔ جن کے دائیں طرف دوپٹہ اوڑھے مریم، بائیں طرف شرارتی بلاول اور اردگرد جنوب کے اچکزئی، شمال کے اسفندیار، سرائیکی وسیب کے جاوید ہاشمی آسانی کے ساتھ بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔ مولانا مغربی بارڈر کے دونوں طرف فیصلہ کن اثر رسوخ اور مشرقی بارڈر کے اندر تاریخی رشتوں کے مالک ہیں۔ مولانا صاحب پی ٹی ایم کے منظور پشتین کے تلخ لہجے میں مٹھاس لا سکتے ہیں اور بلوچوں کے زخموں پر اندمال کی مرہم بھی لگا سکتے ہیں۔ یہ کمال مولانا صاحب میں بدرجہ اتم موجود ہے کیونکہ وہ شکاری اور خرگوش دونوں کے ساتھ دوڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ‘وہ’ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
وزیراعظم مولانا فضل الرحمان اور مقتدر قوتوں کا پلان بی
30/10/2019 شازار جیلانی


مسلم لیگ کے تاسیسی مقاصد میں، سر فہرست مقصد، برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں انگریز آقا کیلئے محبت اور وفاداری کے جذبات کا فروغ تھا۔ بابائے قوم وکیل تھے۔ اس لئے مختصر اور نپے تلے الفاظ ادا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ مسلم لیگی سیاستدانوں کے بارے میں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ جب تک انگریز نے چاہا یہ یونینسٹ تھے اور جب اس نے اشارہ کیا یہ راتوں رات انگریز کے خلاف جلوس نکال کر مسلم لیگی بنے۔

انگریزی حکومت فوجی قوت کی رہین منت تھی۔ اس لئے اپنی ذہنی ساخت اور سیاسی پرداخت کی بنا پر آج تک مسلم لیگ کا تعلق قوت کے سرچشموں کے ساتھ ہے۔ پتہ نہیں نوازشریف کہاں سے آکر رنگ میں بھنگ ڈال گیا، ورنہ شہباز تو آج بھی قابلِ پرواز ہے۔ ابھی کل کی بات ہے چوہدری پرویز الٰہی کی معیت میں مسلم لیگ ق نے جنرل مشرف کو وردی سمیت دس دفعہ صدر منتخب کرانے کا عندیہ بار بار دیا تھا۔ پنجاب سے ہونے کی وجہ سے پرویز الٰہی کو پریس اور اخبارات نے زیادہ توجہ دی ورنہ مشرف کے دوسرے لیکن پرویز الٰہی سے زیادہ اہم حکومتی ساجھے دار اور”مخالف،” ایم ایم اے کے روح رواں، مولانا فضل الرحمان صاحب تھے، جنہوں نے پرویز الٰہی کی طرح بھڑکیں نہیں ماریں لیکن وقت پڑنے پر، ایم ایم اے اور اپنے اتحادیوں کے دل توڑے لیکن پرویز مشرف کو دوبارہ باوردی صدر منتخب کرانے کی خاطر پختونخوا اسمبلی نہیں توڑی، اگرچہ ‘مسلم لیگ’ کا سلیس اردو میں ترجمہ جماعت اسلامی بنتا ہے۔ چونکہ تاریخی طور پر چرچ نے ہمیشہ کراؤن کو حمایت مہیا کی ہے اس لئے نام میں کیا رکھا۔ عمران خان کو “مشرف کی ٹیم” کے ساتھ کھیلنے کا طعنہ اکثر ملتا ہے جو مکمل طور پر صحیح نہیں، کیونکہ مولانا صاحب بھی مشرف کے ٹیم میں تھے اور عمران خان کے ساتھ نہیں تھے۔

میرے گزشتہ کالم “مولانا اور وزیراعظم حلیف تھے، حریف نہیں” میں، میں نے لکھا تھا کہ دونوں حلیف تھے۔ دونوں میں بے حد مماثلتیں اور مشترکات تھیں۔ لیکن حریف بنے رہے، آخر کیوں؟ اس سوال کی ایک توجیہہ یہ ممکن ہے کہ مولانا کو عمران خان کے حلیف ہونے کے باوجود حریف بنا کر پیش کیا گیا۔ جس میں ایک وجہ، عمران خان کی سیاسی ناسمجھی اور ‘حمایتیوں’ کی غلط ہدایات اور مشورے تھے، جو جان بوجھ کر عمران خان کو دیئے گئے تاکہ عمران خان کی ناکامی کی صورت میں، جس کا صحیح اندازہ لگایا گیا تھا، مولانا کو متبادل کے طور پر میدان میں اتارا جائے۔ تاکہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور قوم پرست سیاسی پارٹیاں، عمران خان کی ناکامی سے پیدا شدہ خلا میں کوئی فیصلہ کن سیاسی پوزیشن حاصل نہ کرسکیں۔ نیز عمران خان کے مایوس سیاسی کارکن (خصوصاً پختونخوا کے) تتر بتر ہوکر واپس اپنی سابقہ پارٹیوں میں جانے کی بجائے متبادل قیادت پر بھروسہ کریں اور منصوبے کے مطابق نظام بھی برقرار رہے، صرف چہرے بدلے جائیں۔ یعنی مدینے کی ریاست بنانے کے دعویدار کی بجائے، مدینے کی وراثت کے دعویدار کو لایا جائے۔ یوں اصل حکمرانوں کی حکمرانی قائم رہے گی۔ مہنگائی کے مارے عوام ایک اور سراب کو نخلستان سمجھ کر سانس لینے بیٹھ جائیں گے۔

حکومتی نااہلی، نئے ٹیکسوں اور نیب کے چھاپوں سے بدحال تاجروں اور سرمایہ کاروں کو تحفظ کا احساس ہوجائے گا اور عالمی گاؤں کے سب سے بڑے چوہدری کے ہوش بھی ٹھکانے آ جائیں گے۔ جب وہ کراچی سے اسلام آباد تک ٹھاٹھیں مارتا ہوا پگڑیوں اور داڑھیوں پر مشتمل یہ جم غفیر اپنے ظاہری اور خفیہ ذرائع سے دیکھے گا تو پاکستان کو ڈومور کی تڑی دیتے ہوئے سو دفعہ سوچے گا، کہ ایران کی طرح کہیں پاکستان بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ جو افغانستان میں ایک فیصلہ کن شرمندگی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ ایران کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک بڑی عالمی مصیبت بن سکتا ہے۔ چینی کیمپ کی حمایت اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان اگر تنگ آ کر مذہبی قوتوں کے قبضے میں چلا گیا تو امریکہ اور اس کے حواریوں کے اوسان خطا ہو جائیں گےجو پہلے سے ایران کے بارے میں پریشان ہیں۔ اس لئے مولانا کا موجودہ سیاسی قوت کا اظہار نہ صرف یہ کہ اندرون ملک بہت ساری تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے بلکہ بیرونی طاقتوں کو بھی پاکستان کے بارے میں اپنے منصوبوں اور رویوں پر نظر ثانی کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کراچی کے سمندری شہر سے شہر اقتدار کی طرف بڑھتا ہوا حقیقی سونامی، جس کے خواب عمران خان دکھایا کرتے تھے۔ یہ نظارہ کسی احتجاجی مارچ کا نہیں ایک نئے وزیراعظم کے سیاسی اننگ کے شروعات کا ہے۔ مولانا صاحب کی وزارت عظمیٰ کی خواہش کا اظہار سابقہ امریکی سفیر، متعینہ پاکستان، این پیٹرسن کی وکی لیکس میں ظاہر شدہ ایک کیبل میں بھی چند سال پہلے ہوا تھا۔



مولانا صاحب کا متشرع حلیہ، مقفیٰ اور مسجع یقینی لہجہ، ملکی اور بین الاقوامی امور و مسائل پر ان کا یکساں عبور، مسکت دلائل پر مبنی اور حاضر جوابی سے بھرپور انکا کاٹ دار مکالمہ، عوامی مسائل اور مصیبتوں کو اپنی تقریروں میں سمونے کا ان کا فن، پھر موجودہ حکومت کے سامنے ڈٹ جانے اور چیلنج کرنے میں ان کی دلیری، ان کو بقایا مدت کے لئے وزیراعظم کے عہدے کیلئے سب سے زیادہ موزوں امیدوار بناتا ہے۔ سنا ہے مولانا صاحب مدت سے انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے میں بھی مصروف ہیں۔

مذاکرات کاروں نے مولانا کو آزادی مارچ نومبر تک ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا تو مولانا نے اپنا مارچ پشاور سے شروع کرنے کی بجائے کراچی سے شروع کیا، تاکہ مذاکرات کاروں کو نومبر تک مذاکرات کا وقت ملے اور شیخ رشیدوں کے طعنے بھی نہ سننے پڑے۔ جب وہ ٹی وی ٹاک شوز میں شرط رکھ کر مولانا کے مارچ نہ کرنے کی خوشخبری دیتے تھے۔

خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ مذاکرات نئے انتخابات یا وزیراعظم کی تبدیلی پر جاری ہیں۔ جس میں زیادہ توقع وزیراعظم کی تبدیلی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ نئے الیکشن کی صورت میں نون لیگ واضح اکثریت سے الیکشن جیت جانے کی پوزیشن میں ہے۔ کیونکہ عوام کا تبدیلی کا بخار اتر چکا ہے۔ لیکن نون لیگ کی جیت کی صورت میں شاید کچھ بہت مقتدر حلقوں کو تحفظات ہوں اس لئے وزیراعظم کی تبدیلی اور نظام کے تسلسل پر اتفاق ہوجائے گا۔ جبکہ نون لیگ کی خواہش نئے انتخابات کی ہے۔ موجودہ حکومت سے ٹکرانے اور اکھاڑنے کے بعد بلاشبہ مولانا صاحب سب سے بڑے سٹیک ہولڈر بن کر سامنے آتے ہیں۔ جبکہ مقتدرہ قوتوں کی آشیرباد بھی ان کو حاصل ہو تو آنے والا وزیراعظم مولانا فضل الرحمان خود یا ان کا نامزدکردہ ہو سکتا ہے۔ آخر کیوں مولانا صاحب ایک صوبے کی حکومت پر اکتفا کریں گے جبکہ شیرپاؤ، مسلم لیگ، اے این پی کے ساتھ مل کر پختونخوا کی حکومت گرانا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔

نوازشریف اور زرداری صاحب کو بڑھاپے اور بیماری کا سامنا ہے۔ کرپشن کے الزامات اور جیل کی کوٹھری سے کھلی ہوا میں آ جائیں گے۔ مولانا صاحب کی دلیری اور سیاسی حکمت عملی کی بدولت ان کو اسلام آباد میں اونچی کرسی مل جائے گی۔ تو پاکستان کے کرتا دھرتا ایم ایم اے والی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں اپنے بندھے ہوئے ہاتھوں کا رونا کھلے دل کے ساتھ رو سکیں گے۔ زیادہ پریشر کی صورت میں مولانا کے آزادی مارچ کی جھلکیاں دکھا کر صورتحال کی وضاحت کرنے پر بھی قادر ہو جائیں گے۔ افغانستان میں امریکہ کی مدد عمران خان کی “بےبنیاد” حکومت سے بہتر انداز میں مولانا صاحب کی طالبان تک رسائی رکھنے والی حکومت اچھی طرح کرسکتی ہے۔ مولانا ہی واحد سیاستدان ہیں۔ جن کے دائیں طرف دوپٹہ اوڑھے مریم، بائیں طرف شرارتی بلاول اور اردگرد جنوب کے اچکزئی، شمال کے اسفندیار، سرائیکی وسیب کے جاوید ہاشمی آسانی کے ساتھ بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔ مولانا مغربی بارڈر کے دونوں طرف فیصلہ کن اثر رسوخ اور مشرقی بارڈر کے اندر تاریخی رشتوں کے مالک ہیں۔ مولانا صاحب پی ٹی ایم کے منظور پشتین کے تلخ لہجے میں مٹھاس لا سکتے ہیں اور بلوچوں کے زخموں پر اندمال کی مرہم بھی لگا سکتے ہیں۔ یہ کمال مولانا صاحب میں بدرجہ اتم موجود ہے کیونکہ وہ شکاری اور خرگوش دونوں کے ساتھ دوڑنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ‘وہ’ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
یہ الگ بات کہ دیو بند مکتبہء فکر کے ممتاز عالم علامہ اشرف علی تھانوی مذہبی شخصیات کے سیاسی میدان میں کودنے اور اقتدار کا طلب گار بننے کے سخت مخالف تھے۔ ہمارا اپنا موقف بھی یہی ہے کہ مذہبی شخصیات کو سیاست میں دلچسپی رکھنی چاہیے تاہم سیاسی میدان، بالخصوص انتخابی سیاست کے میدان میں گھوڑے دوڑانا اُن کے لیے نہایت نامُناسب ہے۔
 
Top