فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور بریگیڈئیر اعجاز شاہ کی چھانگا مانگا مہارت
20/10/2019 اعزاز سید
جنرل پرویزمشرف کے عروج کے دنوں کی بات ہے۔ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد ، جمعیت العلمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل یا ایم ایم اے نے اس وقت خیبرپختونخواہ میں حکومت بنارکھی تھی۔ ظاہر ہے یہ حکومت پرویزمشرف کی مرضی سے ہی بنی تھی۔ مگر پرویز مشرف اور ایم ایم اے میں نوک جھونک اور فرینڈلی فائرنگ بھی ہوتی رہتی تھی۔ مشرف روشن خیال اعتدال پسندی کے حامی تھے تو ایم ایم اے کے زعما اسلام کے داعی۔
سال 2005ء تک ایک وقت ایسا آیا کہ متحدہ مجلس عمل پرویز مشرف کے خلاف ایسے کھل کرمیدان میں آئی کہ فوجی ڈکٹیٹرخود تلملا اٹھا۔ اس وقت آئی بی کے سربراہ بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) اعجاز شاہ کو طلب کرکے ایم ایم اے کا “بندوبست” کرنے کا حکم دیا گیا۔ شاہ جی نے آئی بی کے صوبہ سرحد سے ہی تعلق رکھنے والے ایک افسر کی ڈیوٹی لگائی ، ہوم ورک کیا گیا اوراسی کی روشنی میں پارلیمینٹ لاجزمیں ایک خاص قسم کی ایمبولینس کھڑی کروائی گِئی۔
بظاہر ایمبولینس دکھنے والی اس گاڑی میں دراصل خفیہ فلمبندی کرنے کا خصوصی نظام موجود تھا۔ ایک آپریشن کے ذریعے ایم ایم اے کے ایک سرکردہ رکن پارلیمینٹ کی پارلیمینٹ لاجز میں موجود سرکاری رہائشگاہ میں پہلے ہی خفیہ کیمرے نصب کیے جاچکے تھے۔ جونہی ایم ایم اے کے مذکورہ رہنما و رکن پارلیمینٹ نے مبینہ طور پراپنے تنہائی کے لمحات کو رنگین بنایا تو ساری رنگینی خفیہ کیمروں کے زریعے ریکارڈ کرلی گئی۔
مذکورہ رہنما کو اس کے مبینہ رنگین لمحات کی ریکارڈنگ کے بارے میں ایسے آگاہ کیا گیا کہ اس نے ایم ایم اے سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ کرتے بھی کیوں ناں ؟ شاہ جی نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ مذکورہ رہنما ان کی ہدایات پرعملدرآمد نہ کرتا تو اسکی فلم اسکے عوامی تاثر اورمستقبل دونوں کا تیا پانچا کرڈالتی۔ ان دنوں راج نیتی کے تمام بھگوان پرویزمشرف کو سلام کرتے تھے وقت بدلا توبھگوان بھی بدل گئے اور مشرف کو گھر جانا پڑا۔
جس طرح پاکستان دنیا بھرسے مختلف ہے بالکل اسی طرح یہاں راج نیتی اور اس کے اصول بھی دنیا بھر سے مختلف ہیں۔ دنیا میں اہم فیصلے مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے احاطوں میں ہوتے ، بنتے اور بگڑتے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج ایک جمہوری حق کے طورپرتسلیم ہوتا ہے مگر پاکستان میں ان سب سے اوپر راج نیتی کے کچھ بھگوان بھی ہیں جو پلک جھپکتے میں پورا منظر نامہ تبدیل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ کسی زمانے میں پرویز مشرف کے لیے ایم ایم اے کے غبارے سے ایک فلم کے زریعے ہوا نکالنے والے آئی بی کے سربراہ بریگیڈئیررئٹائرڈ اعجازشاہ آج موجودہ حکومت کے وزیرداخلہ ہیں اور خاموشی سے اپنے پرانے گر آزما رہے ہیں۔
ایک زمانے میں عمران خان نوازشریف کو چھانگا مانگا کی سیاست پرطنزودشنام کرتے نہیں تھکتے تھے مگر حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ عمران خان کی حکومت میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے خلاف اسلام آباد کے چند مہنگے ہوٹلوں کو چھانگامانگا بنانا پڑ گیا ہے۔ ہوٹلوں میں ملک بھر کے کم و بیش پچیس ہزار مدارس کے نمائندے پانچ وفاق کے رہنماوں کو خصوصی دعوت دے کر بلایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو رام کیا جائے اور اگر وہ رام نہ ہوں تو انہیں انہی کے مسلک کے رہنماوں کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ان میں کچھ کراچی کے نامور عالم مفتی زرولی ایسے بھی ہیں جو سرکاری آلہ کاربننے کی بجائے اپنے ضمیرکا فیصلہ خود کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے خلاف اسلام آباد میں بنائے جانے والے چھانگا مانگا میں سرکاری اشاروں پر ناچنے والے کچھ نام نہاد علما بڑی تعداد میں تشریف لارہے ہیں ان کی گراں ہوٹلوں میں خوب آوبھگت بھی کی جارہی ہے اور وزیراعظم سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کرائی جارہی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ وزیرداخلہ نے خاموشی سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام ف کی زیلی تنظیم انصار الاسلام جسے ڈنڈا بردار فورس کہا جارہا ہے پر بھی پابندی عائد کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے اور چپکے سے ایک سمری وزارت قانون کے زریعے الیکشن کمشن آف پاکستان کو بھی بھیج دی گئی ہے۔
شاہ جی اندرخانے اپنا کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایسے کاموں کے ماہر ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کو مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے تو پھر اتنا خوف کیوں؟ اور اسلام آباد کو چھانگا مانگا بنانے کی کیا ضرورت ؟
سال 2014ء میں عمران خان اور طاہرالقادری کی طرف سے اس وقت کی نوازشریف حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو اسے ناکام بنانے میں اس وقت کے زیرک وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت آفتاب سلطان کی سربراہی میں آئی بی نے حکومت کو مطلح کیا تھا کہ دھرنے میں لاشیں گرا کراسکا الزام حکومت پردھرا جائے گا۔ اس کے جواب میں چوہدری نثارعلی خان نے فیصلہ کیا تھاکہ پولیس اسلحے کی بجائے صرف ڈنڈوں کے ہمراہ بلوئیوں کا مقابلہ کرئے گی۔ سچ یہ ہے کہ اس ایک فیصلے نے حکومت کی عزت بھی بچائی تھی اوردھرنا ناکام کرنے میں ایک کلیدی کرداربھی ادا کیا تھا۔
اس وقت کی نوازشریف حکومت کو راج نیتی کے بھگوانوں کی حمایت حاصل نہ تھی مگر اس سب کے باوجود اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی شاندار حکمت عملی اور آفتاب سلطان کی سربراہی میں آئی بی کی موثرکارکردگی نے دھرنا ناکام بنادیا تھا۔ آج دھرنا ناکام بنانے کی ذمہ داری حکومت اور وزیرداخلہ بریگیڈئیر اعجازشاہ کے زمے ہے جنہیں ہرطرح کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غیر ذمہ داری یا غفلت کا مظاہرہ کرنے پر پیدا ہونے والے بحران میں بھگوان ناراض بھی ہو سکتے ہیں اور بھگوانوں کی ناراضگی راج نیتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔