فرقان احمد

محفلین
web-whatsapp-com-ce6f67a7-54db-48c5-a6c5-307a1d831962.jpg

EH-b-Rl-SXk-AAjo-Ey.jpg

سر! برا نہ مانیے گا۔ یہ کبھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ اور خان صاحب بھی کبھی ان کے پُرزور حامی رہے ہیں۔ سیاست میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی شاید تین برس ہی ہو گزرے ہیں جب خان صاحب اور زرداری صاحب حکومت گرانے کے لیے لاہور میں مشترکہ جلسہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اسی طرح، وہ وقت یاد کریں جب خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مولانا فضل کو ووٹ دیا تھا۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
سر! برا نہ مانیے گا۔ یہ کبھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ اور خان صاحب بھی کبھی ان کے پُرزور حامی رہے ہیں۔ سیاست میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی شاید تین برس ہی ہو گزرے ہیں جب خان صاحب اور زرداری صاحب حکومت گرانے کے لیے لاہور میں مشترکہ جلسہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اسی طرح، وہ وقت یاد کریں جب خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مولانا فضل کو ووٹ دیا تھا۔ :)
تو گویا آپ مولانا کو چھوڑ کر باقیوں کو وضع دار اور سیاسی ڈائنیمکس سے بے بہرہ سمجھتے ہیں :) :) :)
یا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائنیمکس کے مطابق موومنٹ کرنا صرف غیر مولانا سیاست دانوں کا حق ہے اور مولانا صرف وضع دار ہی رہیں :) :) :)
 
آخری تدوین:

آورکزئی

محفلین
سر! برا نہ مانیے گا۔ یہ کبھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ اور خان صاحب بھی کبھی ان کے پُرزور حامی رہے ہیں۔ سیاست میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی شاید تین برس ہی ہو گزرے ہیں جب خان صاحب اور زرداری صاحب حکومت گرانے کے لیے لاہور میں مشترکہ جلسہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اسی طرح، وہ وقت یاد کریں جب خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مولانا فضل کو ووٹ دیا تھا۔ :)

جی بھائی ۔۔۔۔ نیازی نے مولانا کو ووٹ دیا تھا۔۔ ان کے مخالف تھے شاہ محمود قریشی ۔۔۔ جس کو کرپٹ وغیرہ وغیرہ کہا تھا۔۔۔ اور وہی اجکل وزیر خارجہ ہیں۔۔۔۔
 

آورکزئی

محفلین
تحریک انصاف حکومت نےآئین میں موجود اسلامی شقوں کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی ہے پہلے اس کو ثابت کریں۔ ایویں ہوا میں تیر نہ چلائیں۔
خالی الزام لگا دینا کہ یہ حکومت یہودیوں، قادیانیوں کی ایجنٹ ہے کافی نہیں۔

یعنی اس کو ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔۔۔ ڈونٹ وری۔۔۔۔ اور ہاں جاسم صاحب۔۔۔۔ مولانا آرہاہے
 

فاخر

محفلین
سب کچھ تو ٹھیک ہے ؛لیکن اس میں خواتین نہیں ہیں ؟ یہ استفسار میرا نہیں بی بی سی اردو کا ہے ۔ دیکھیں !!!

آزادی مارچ، مگر خواتین کے بغیر!
_109452759_jui.jpg

جمیعت علماء اسلام کا آزادی مارچ صوبہِ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے شروع ہو کر، پنجاب پہنچا ہے اور اس کی منزل ملک کا دارالحکومت اسلام آباد ہے، جہاں 31 اکتوبر کو اس کی آمد متوقع ہے۔مولانا فصل الرحمان کی قیادت میں منعقد ہونے والے اس آزادی مارچ میں جہاں ایک طرف دسیوں ہزار لوگ شرکت کر ر ہے ہیں وہیں اس میں خواتین کی تقریباً مکمل غیر موجودگی بھی ایک حقیقت ہے۔
مولانا فضل الرحمان پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ شریک مرد اپنے گھر کی عورتوں کی نمائندگی کرنے کے پوری طرح اہل ہیں اور عورتوں کو گھر میں رہ کر روزہ رکھنا اور دعا کرنی چاہیے۔

_109452761_gettyimages-1178435366.jpg

خواتین کہاں ہیں؟
تو اس سارے آزدی مارچ میں، جس کو ایک طرح کی عوامی تحریک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اس میں خواتین کہاں ہیں؟تجزیہ کار بینظیر شاہ کہتی ہیں کہ پاکستان کی خواتین کو ویسے تو کسی بھی عوامی ریلی میں حصہ لینے کے لیے کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں، لیکن میرے خیال میں اس مارچ میں ان کی غیر موجودگی بہتر ہے۔ اس ملک کی خواتین کو دو مردوں کی انا کی اس جنگ میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مارچ معاشرتی تبدیلی کے لیے کوئی عوامی عوامی تحریک نہیں، جیسے کہ مثال کے طور پر لبنان میں ہو رہا ہے۔ جمیعت علماء اسلام اس کے ذریعے ایک منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ خواتین اس میں حصہ کیوں لیں؟
صحافی اور تجزیہ کار قطرینہ حسین کہتی ہیں، 'جمیعت علماء اسلام ویسے بھی خواتین کے حقوق کی کوئی علم بردار تو ہے نہیں۔ جہاں تک مجھے پتا ہے ان کا کوئی ومنز وِنگ بھی نہیں ہے۔ تو یہ بات تو صحیح ہے کہ آبادی کے 50 فیصد کو اس عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔'

_109452763_gettyimages-619445560.jpg

تو اگر خواتین کو جان بوجھ کر ایک سیاسی عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے، تو انہیں اس کا جواب کیسے دینا چاہیے؟بینظیر شاہ کہتی ہیں 'دائیں بازو کی ایک جماعت کے صرف اس ایک مارچ میں شامل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین کو عوامی مقامات یا سیاست سے الگ کیا جا رہا ہے۔ اس جماعت سے زیادہ ہمیں دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ وہ خواتین کو سیاسی عمل میں شامل کرنے کے لیے کیا کر رہی ہیں۔ خاص طور پر حکومت کی جماعت۔ وفاقی کابینہ میں مشکل سے چند ایک خواتین ہیں اور پنجاب کی صوبائی کابینہ میں صرف دو۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جمیعت علماء اسلام کا خواتین کے بارے میں نظریہ ملک گیر سطح پر خواتین کے مقام کی عکاسی نہیں کرتا، تب بھی، اس مارچ میں کئی دیگر جماعتیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ مسلم لیگ نون سے لے کر عوامی نیشنل پارٹی، سب نے کسی نہ کسی حد تک اس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کیا ان جماعتوں کے لیے یہ باعث فکر نہیں ہونا چاہیے کہ خواتین کے لیے اس مارچ میں کوئی جگہ نہیں؟قطرینہ حسین کہتی ہیں، 'سچ پوچھیں تو اب تک کسی نے اس مارچ کو اس زاویے سے دیکھا ہی نہیں۔ اس بارے میں بات تک نہیں ہو رہی۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات اس طرح کے مارچ سے خواتین خود ہی دور رہتی ہیں کیوں وہ خود کو وہاں محفوظ تصور نہیں کرتیں۔'اس مارچ کا موازنہ بار بار عمران خان کے دھرنے سے بھی کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس دھرنے میں خواتین نہ صرف موجود تھیں، بلکہ بڑھ چڑھ کر اس میں شریک تھیں۔

مکمل لنک پیش ہے:
آزادی مارچ، مگر خواتین کے بغیر!
 

جاسم محمد

محفلین
سر! برا نہ مانیے گا۔ یہ کبھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ اور خان صاحب بھی کبھی ان کے پُرزور حامی رہے ہیں۔ سیاست میں ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ ابھی شاید تین برس ہی ہو گزرے ہیں جب خان صاحب اور زرداری صاحب حکومت گرانے کے لیے لاہور میں مشترکہ جلسہ کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اسی طرح، وہ وقت یاد کریں جب خان صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے کے لیے مولانا فضل کو ووٹ دیا تھا۔ :)
سیاست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوٹرن لینے کے مواقع کم ہوتے جاتے ہیں۔ اب عمران خان چاہتے ہوئے بھی ن لیگ، پی پی پی اور جمعیت علما اسلام کے ساتھ کوئی حکومت نہیں بنا سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جی بھائی ۔۔۔۔ نیازی نے مولانا کو ووٹ دیا تھا۔۔ ان کے مخالف تھے شاہ محمود قریشی ۔۔۔ جس کو کرپٹ وغیرہ وغیرہ کہا تھا۔۔۔ اور وہی اجکل وزیر خارجہ ہیں۔۔۔۔
ڈکٹیٹر مشرف کی مخالفت میں مولانا جیسے آدمی کو وقتی طور پر سپورٹ کیا تھا۔ کیا گناہ کر دیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی اس کو ثابت کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
کبھی کہا حکومت یہودیوں کا جھنڈا گاڑ رہی ہے۔ پھر کہا حکومت قادیانی نواز ہو گئی ہے۔ پھر کہا حکومت نے مہنگائی کر دی۔ آپ کو تو خود معلوم نہیں ہے کس بنیاد پر عمران خان سے استعفیٰ لینا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
سب کچھ تو ٹھیک ہے ؛لیکن اس میں خواتین نہیں ہیں ؟
بھائی آپ کمال کرتے ہیں۔مدرسے والے خواتین کو سیاست میں کب سے برداشت کرنے لگے؟ ملک کی آدھی آبادی دھرنے میں آ نہیں سکتی اور یہ لوگ انقلاب لانے کا سوچ رہے ہیں :)
’بی بی آپ آزادی مارچ میں کیا کر رہی ہیں؟‘
 

جاسم محمد

محفلین
یہ الگ بات کہ دیو بند مکتبہء فکر کے ممتاز عالم علامہ اشرف علی تھانوی مذہبی شخصیات کے سیاسی میدان میں کودنے اور اقتدار کا طلب گار بننے کے سخت مخالف تھے۔ ہمارا اپنا موقف بھی یہی ہے کہ مذہبی شخصیات کو سیاست میں دلچسپی رکھنی چاہیے تاہم سیاسی میدان، بالخصوص انتخابی سیاست کے میدان میں گھوڑے دوڑانا اُن کے لیے نہایت نامُناسب ہے۔
میرے خیال میں ایسی کوئی پابندی لگانا بے منطقی سی بات ہے۔ کیا مذہبی لوگ ریاست کے شہری نہیں ؟ ان کو کس آئین و قانون کے تحت انتخابی سیاست سے دور رکھا جائے؟ اگر آپ نے ایک بہتر جمہوریت دیکھنی ہے جہاں پاکستان جیسے حالات ہوں تو وہ اسرائیل ہے۔ وہاں مذہبی جماعتیں دائیں بازوں کی سیکولر جماعتوں کے ساتھ پچھلے دس سال سے حکومتیں بنا رہی ہیں۔ البتہ امسال تین سابق جرنیلوں نے اپنی پارٹی بنا کر ان کو پچھاڑ دیا ہے۔ یعنی وہاں مذہبی لوگ بھی سیاست میں ہیں اور سابق جرنیل بھی۔ یہی چیز پاکستان میں حرام سمجھی جاتی ہے۔
 
Top