مولانا دریا بادی کی تحقیق

خرم زکی

محفلین
میرے پاس یہ ساری خط و کتابت جو کہ مولانا عبد الماجد دریا آبادی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے درمیان ہوئی بصورت کتاب موجود ہے اور سچ تو یہ ہے کہ میں مولانا عبد الماجد کی آزادانہ اور غیر متعصبانہ سوچ سے بڑا متاثر ہوں۔
 

خرم زکی

محفلین
دراصل بات یہ ہے کہ علماے اہل دیوبند کے کسی اکابر نے شیعہ مسلک کی تکفیر نہیں کی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے لیکر مولانا رشید احمد گنگوہی تک، اور مولانا قاسم نانتوی سے لیکر مولانا اشرف علی تھانوی تک۔ پہلی دفعہ اس حوالے سے مولانا عبد الشکور لکھنوی نے قلم اٹھایا۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اس رویہ تکفیری کے حوالے سے اپنے خیالات بصورت خط مولانا اشرف علی تھانوی کو بھیجے، جنہوں نے اس کے جوابات دیے۔ باوجود یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی اس رویہ کی وجوہات کو واضح کرتے نظر آتے ہیں جس کی بنا پر عبد الشکور لکھنوی نے تکفیر کی، پھر بھی خود فتویٰ تکفیر سے گریزاں رہے اور مولانا عبد الماجد نے تو خیر واضح اختلاف کیا۔
 

انتہا

محفلین
قبلہ /محترمہ مناسب خیال کیجے تو متن شامل کردیا کیجے ۔ ربط تو یوں بھی آپ ایک مراسلے میں ارسال کرچکی / کرچکے ہیں ۔
میں نے تو یہ ربط ’’سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال‘‘ والی پوسٹ میں لگایا تھا، یہاں کیسے پہنچ گیا میری سمجھ سے باہر ہے۔
 

انتہا

محفلین
دراصل بات یہ ہے کہ علماے اہل دیوبند کے کسی اکابر نے شیعہ مسلک کی تکفیر نہیں کی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے لیکر مولانا رشید احمد گنگوہی تک، اور مولانا قاسم نانتوی سے لیکر مولانا اشرف علی تھانوی تک۔ پہلی دفعہ اس حوالے سے مولانا عبد الشکور لکھنوی نے قلم اٹھایا۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اس رویہ تکفیری کے حوالے سے اپنے خیالات بصورت خط مولانا اشرف علی تھانوی کو بھیجے، جنہوں نے اس کے جوابات دیے۔ باوجود یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی اس رویہ کی وجوہات کو واضح کرتے نظر آتے ہیں جس کی بنا پر عبد الشکور لکھنوی نے تکفیر کی، پھر بھی خود فتویٰ تکفیر سے گریزاں رہے اور مولانا عبد الماجد نے تو خیر واضح اختلاف کیا۔
میرے خیال سے رویوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ گزشتہ زمانے کے ہر دو مسالک کے اکابر میں وسعت قلبی اور مروت رعایت کا وافر حصہ موجود تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں محفل میں ان اکابر کی ایسی تحریریں جن سے یہ مسالک ایک دوسرے کو قریب آئیں پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی تحریریں یا خبریں کہ جو صرف غصہ، جھنجھلاہٹ، انتقام و دیگر سفلی جذبات بھڑکانے کا ذریعہ بنیں۔ ظلم تو بہرحال ظلم ہے لیکن اس کے بلاوجہ چرچے کرنے اور ان پر تبصروں کی صورت میں اپنی بھڑاس نکالنے سے کئی محفلین(شرکاءومہمان) ایسے لوگوں بھی خلاف ہو جاتے ہیں جن کا اس سارے فساد سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
 

خرم زکی

محفلین
صحیح فرمایا آپ نے.۔۔لیکن ایسے لوگ جو علمی ذہن بھی رکھتے ہوں، برداشت بھی اور آزاد ذہن بھی، مشکل سے ملتے ہیں :?
 

مغزل

محفلین
میں نے تو یہ ربط ’’سانحہ چلاس کا آنکھوں دیکھا حال‘‘ والی پوسٹ میں لگایا تھا، یہاں کیسے پہنچ گیا میری سمجھ سے باہر ہے۔
پیارے صاحب یہی تو مجھے ’’ یاحیرت‘‘ کہنے پر مجبور کرگیا تھا۔ بہر کیف اب تو لڑی چل نکلی ہے ۔۔۔ :)
 
میرے خیال سے رویوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ گزشتہ زمانے کے ہر دو مسالک کے اکابر میں وسعت قلبی اور مروت رعایت کا وافر حصہ موجود تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں محفل میں ان اکابر کی ایسی تحریریں جن سے یہ مسالک ایک دوسرے کو قریب آئیں پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسی تحریریں یا خبریں کہ جو صرف غصہ، جھنجھلاہٹ، انتقام و دیگر سفلی جذبات بھڑکانے کا ذریعہ بنیں۔ ظلم تو بہرحال ظلم ہے لیکن اس کے بلاوجہ چرچے کرنے اور ان پر تبصروں کی صورت میں اپنی بھڑاس نکالنے سے کئی محفلین(شرکاءومہمان) ایسے لوگوں بھی خلاف ہو جاتے ہیں جن کا اس سارے فساد سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کو ایک دوسرے کے قریب صرف اس صورت میں لایا جاسکتا ہے کہ فریقین کے نزدیک جو غیر متنازعہ اکابر ہیں اور جن کے علم و فضل اور بزرگی پر دونوں متفق ہیں انکی تعلیمات کو عام کیا جائے۔۔۔اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی، حضرت ثنائ اللہ پانی پتی مظہری، شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ہر دو فریق یکساں طور پر عزت کرتے ہیں۔۔۔
 

انتہا

محفلین
میں نے احمد رضا بریلوی مرحوم کے اہل دیوبند کے حوالے سے فتویٰ تکفیر کے جواب میں دیو بند کے عقائد پر ایک کتاب دیکھی تھی، پڑھ کر سمجھ نہیں آتا تھا کہ پھر آخر دونوں میں وجہ تنازعہ کیا باقی رہ جاتی ہے ! ابھی سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حسام الحرمین سامنے آئ اس زمانے میں حجاز مقدس و سرزمین عرب پر خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کی حکومت بصورت خلافت عثمانیہ قائم تھی اور حرمین شریفین میں اسی مسلک کے مفتیان برسر منبر و مسند تھے۔ ایسے میں حرمین شریفین کے اکابر علماء کا مسلک دیوبند کے پیروکاروں کو کافر قرار دے دینا دیوبندی مسلک و حضرات کے لئے قابل قبول نہ تھا کیوں کہ سر زمین حجاز سے ایسے فتوی کی آمد ہند سے مسلک دیوبند کے مکمل انخلا و تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی. لیکن جلد ہی واقعات نے پلٹا کھایا اور انگریزوں کی سازشوں اور عربوں کی غداری اور بیغیرتی کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا تختہ الٹ گیا۔ اب حجاز مقدس میں انگریزی استعمار کے سایہ میں وہابی مسلک کی حکومت تھی جن کے لئے وہ عقائد و جملے جن پر احمد رضا بریلوی نے فتویٰ کفر حاصل کیا تھا زیادہ پریشانی کا سبب نہ تھے۔ گویا وہ خلیج پاٹنے کا جو سبب تھا ، حجاز میں حکومت کی تبدیلی سے ختم ہو گیا اور بعد میں جیسا کہ ہم نے دیکھا کروڑوں ڈالر کی سالانہ امداد سعودی حکومت کی جانب سے پاکستان میں موجود دیوبندی اور اہل حدیث مدارس کو فراہم ہونے لگی گویا مذہبی اختلافات کا وہ سلسلسہ جو دیوبند، بریلوی اور وہابی کے نام سے انگریز سرکار کے دور میں پیدا کیا گیا تھا اب اس میں مالی مفادات بھی شامل ہو چکے ہیں۔

پوسٹ سے متفق یا غیر متفق ہونے سے قطع نظر، بات پھر تفریق کی طرف چل نکلی۔ اگر اس دھاگے میں صرف ایسے ہی موضاعات پر بات کی جائے جو ایک دوسرے کو قریب لانے میں مدد دے سکیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
 

ساجد

محفلین
دوستانِ گرامی قدر ، اس دھاگے میں اراکین کے غیر ضروری و غیر محتاط مراسلات کی فراوانی کی وجہ سے منتظمین کرام نے اسے مخفی کر دیا تھا ،جو کہ ایک درست فیصلہ تھا ۔ لیکن انتہا نے جس خلوص نیت سے یہ دھاگہ شروع کیا گیا تھا اس کی بنیاد پہ ہم نے منتظمین سے گزارش کر کے اس کی واپسی کی راہ ہموار کروائی ہے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ سب احتیاط سے کام لیں گے اور جس طرح سے منتظمین نے اس کی بحالی کے لئے میری درخواست کو عزت بخشی ہے آپ بھی میرے الفاظ کو تکریم دیں گے۔
 

ساجد

محفلین
فاضل ممبران سے گزارش ہے کہ موضوع پر رہیں۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی کی تحقیق اور ان کی کاوشوں پر بات کی جائے۔ دیگر نکات کے لئے کوئی دوسرا دھاگہ شروع کیا جا سکتا ہے۔
خرم زکی صاحب نے فرمایا تھا کہ ان کے پاس مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی کے مکالمات کتابی صورت میں موجود ہیں اگر وہ انہیں یہاں شریک کریں تو ایک بڑی علمی خدمت ہو گی۔اور اس دھاگے کی واگزاری کے لئے منتظمین سے گزارش بھی اسی پہلو کو مد نظر رکھ کر کی گئی تھی ورنہ اس دھاگے کی بقاء کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
 

ساجد

محفلین
معزز اراکین ، ایک بار پھر یاد دلا دوں کہ اب ان دھاگوں میں مناظرہ بازی اور فرقہ بازی کی آبیاری قطعی برداشت نہیں کی جائے گی۔ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہم سب کا ایمان غیر متنازعہ ہے اور اس کی روشنی میں مذہب پر مثبت انداز میں بات کرنے کی کافی سے زیادہ گنجائش موجود ہے۔ اپنے فروعی نظریات کی تبلیغ اور دوسروں کے عقائد پر تنقیص محفل کے قوانین کے خلاف ہے۔
تاریخ کے حوالے سے اگر کچھ مذہبی فرقوں کا حوالہ دینا بھی پڑے تو اس کا انداز تمسخر اور الزام تراشی پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے کاموں کے لئے انٹر نیٹ کی دنیا میں بے شمار فرقہ وارانہ ویب سائٹس موجود ہیں وہاں جا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالئے۔
میں نے اس دھاگے کی کانٹ چھانٹ کر دی ہے اب ادارت میں اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا کہ مراسلہ موضوع کے مطابق ہو تو رہے ورنہ اسے حذف کر دیا جائے۔ لہذا اپنا وقت غیر متعلقہ مراسلات لکھنے میں ضائع نہ کریں۔
 
كل ميرا ايك مراسلہ منظورى كے بعد دوبارہ غائب كر ديا گيا حالاں كہ اس ميں كوئى نئى بحث چھيڑی نہيں گئی تھی بلكہ پہلے سے موجود اعتراضات پر دوسرى جانب كا موقف پيش کيا گيا تھا ۔
اس مراسلے كو ارسال كرنے كے بعد ديكھا تو دھاگے ميں تنبيہ آ چکی تھی جب كہ ميرا مراسلہ تنبيہ سے قبل كا تھا ۔
 

ساجد

محفلین
كل ميرا ايك مراسلہ منظورى كے بعد دوبارہ غائب كر ديا گيا حالاں كہ اس ميں كوئى نئى بحث چھيڑی نہيں گئی تھی بلكہ پہلے سے موجود اعتراضات پر دوسرى جانب كا موقف پيش کيا گيا تھا ۔
اس مراسلے كو ارسال كرنے كے بعد ديكھا تو دھاگے ميں تنبيہ آ چکی تھی جب كہ ميرا مراسلہ تنبيہ سے قبل كا تھا ۔
بہن ، آپ نے جس اعتراض کا جواب ارسال کیا تھا وہ مراسلہ بہ نفسہُ حذف کر دیا گیا ہے اس لئے آپ کے ارسال کردہ جواب کی گنجائش نہیں بنتی تھی۔یہ درست کہ اس کی منظوری میں نے دی تھی لیکن آج اس دھاگے کی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے اور غیر ضروری مواد ختم کر دیا گیا ہے۔
امید ہے آپ میری وضاحت سے مطمئن ہوں گی اور محفل کا ماحول تعمیری رکھنے میں ہماری مدد کرتی رہیں گی۔
 
Top