سیما علی

لائبریرین
پتھر کی طرح سرد ہے کیوں آنکھ کسی کی!
امجد جو بچھڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے

(امجد اسلام امجد)
 

سیما علی

لائبریرین
بارہ مہینوں کی چٹپٹی نظم

کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوری تھی
جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی

پھر مجھ سےيوں ملے تھےتم ماہِ فروری ميں
جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی ميں

کتنا حسين زمانہ آيا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھے تم جلتے چراغ لے کر

اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا
دنيا بدل رہي تھی موسم بدل رہا تھا

ليکن مئی جو آئی جلنے لگا زمانہ
ہر شخص کی زباں پہ تھا بس يہی فسانہ

دنيا کے ڈر سے تم نے بدلی تھيں جب نگاہيں
تھا جون کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں

ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہو رہی تھی

اس ميں نہيں کوئی شک وہ ماہ تھا ستمبر
بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر

تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا
دنيا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا

جب آگيا نومبر ايسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئی

بے کيف تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے

ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا، يہ سال دوسرا ہے

شاعر نامعلوم
 

سیما علی

لائبریرین
وہی گلیاں وہی کوچہ وہی سردی کا موسم ہے
اسی انداز سے اپنا نظامِ زیست برہم ہے

یہ حسنِ اتفاق ایسا کہ پھیلی چاندنی بھی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے

وہی ہے بھیڑ سوچوں کی، وہی تنہائیاں پھر سے
مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے

مجھے سب یاد ہے کچھ سال پہلے کا یہ قصہ ہے
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصہ ہے

مری آنکھوں میں وہ اک لمحہء موجود اب بھی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے

کسی نے رات کی تنہائی میں سرگوشیاں کی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں

کسی نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا

چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشاتھا راتوں کو
دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو

مرے شعروں میں وہ الہام کی صورت میں نکلا تھا
معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا

وہ جس کے بعد گویا زندگی نوحہ سرائی ہے
"اُسے کہنا" کہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے

اعزاز احمد آذر​

 

سیما علی

لائبریرین

یکم جنوری ہے نیا سال ہے​

یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے

بچائے خدا شر کی زد سے اسے
بیچارہ بہت نیک اعمال ہے

بتانے لگا رات بوڑھا فقیر
یہ دنیا ہمیشہ سے کنگال ہے

ہے دریا میں کچا گھڑا سوہنی
کنارے پہ گم صم مہیوال ہے

میں رہتا ہوں ہر شام شکوہ بہ لب
مرے پاس دیوان اقبالؔ ہے
 

سیما علی

لائبریرین
جنوری کی ٹھٹھرتی رات ہے اور تم نہیں ہو
ہلکی ہلکی مدھر برسات ہے اور تم نہیں ہو

کس کے دامن سے لپٹ کر بھلاؤں غم اپنا
بے رحم گردش حالات ہے اور تم نہیں ہو

پھول ہے رنگ ہے دل کی اداس دھڑکن ہے
روپ ہے اوج خیالات ہے اور تم نہیں ہو

کونسا ہم نے تیرے حسن سے مانگی صدیاں
زندگی دو گھڑی کی بات ہے اور تم نہیں ہو

ذہن میں گھومتی ہیں وہ تمنائیں اب بھی
سوچ میں وحشت جذبات ہے اور تم نہیں ہو

وہ تیرا مسکرانا ۔ روٹھنا ۔ پھر مان جانا
وہ ہر انداز میرے ساتھ ہے اور تم نہیں ہو

خواب تو خواب ، ہے تعبیر بھی اپنے بس میں
ہر گھڑی عکس طلسمات ہے اور تم نہیں ہو
 

سیما علی

لائبریرین
یہ موسم فروری کا پھر سے کتنے رنگ لایا ہے
چمکتی دھوپ میں ٹھنڈی ہوائیں رقص کرتی ہیں
فلک پر روئی کے گالوں سے بادل اڑتے پھرتے ہیں
ستاروں سے بھری راتیں،
اجالوں سے بھری صبحیں،
کڑکتی ٹھنڈ سے گھبرا کے جو پودے تھے مرجھائے
وہ پھر سے پلنے لگتے ہیں،
خوشی سے کھلنے لگتے ہیں،
چمن کے رنگ سارے ہی، کہ جو ٹھٹھرے تھے سردی سے
سکڑ کر سب فقط کچھ سیاہ، سفید اور بھورے باقی تھے
وہ واپس مڑنے لگتے ہیں...
ہر اک دن، ہر گھڑی، ہر سو، نیا اک رنگ کھلتا ہے
دہکتا سرخ-- خوشیوں کا، بہاروں کا
معطر سبز--چمن کے خوبصورت سے نظاروں کا
گلابی اور عنابی-- شادمانی کے اشاروں کا
بسنتی رنگ-- پیلا رنگ-- جگنو اور ستاروں کا
مہکتی ڈالیوں پر چار سو چہکیں پرندے سب
خوشی کے گیت گاتے ہیں،
سب اپنے گھر بناتے ہیں،
چمن میں تتلیاں رنگیں سُروں میں گنگناتی ہیں
ہوا کے دوش پہ اُڑتی پتنگیں من کو بھاتی ہیں
حرارت زندگی ہے، زندگی کو پھر سے لایا ہے
چمکتے ، خوشنما سورج نے ہر دن کو سجایا ہے
بھلی لگتی ہے اس موسم میں بارش بھی اگر کچھ ہو...
سماں جب شام کا آئے، تو کیا کیا رنگ پھیلائے
دل اپنے آپ ہی میں گم،
بہت سی ان کہی باتیں، بہت سے ان سنے قصے،
خود اپنے آپ دہرائے..
بہت سی بسری یادیں سنگ اپنے لے کے آیا ہے
یہ موسم فروری کا، پھر سے کتنے رنگ لایا ہے!!!
-
- عنبرین خان -
 

سیما علی

لائبریرین
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﺐ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﻤﺎ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺩﮬﻨﮏ ﺍﺗﺮﯼ ﺗﮭﯽ
ﺟﺐ ﯾﮧ ﺍﺩﺭﺍﮎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﺎ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﻋﮑﺲ ﺗﯿﺮﺍ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﻮ ﮨﯽ ﻣﺤﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻣﯿﺮﯼ
ﺟﺰﻭ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺠﮭﮯ
ﺑﺠﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺛﺎﺛﮧ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺭﻧﮓ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﯽ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ

ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﮯ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ
ﺗﯿﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺰ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ، ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﯿﺪ، ﺁﺱ، ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﻝ ﯾﮧ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﮯ ﺷﺪﺕِ ﻏﻢ ﺳﮯ
ﺁﺝ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﯾﮧ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﮯ ﺷﺪﺕِ ﻏﻢ ﺳﮯ
ﺁﺝ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
 

سیما علی

لائبریرین
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔ
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
وہ درجن بھر مہینوں سے
سدا ممتاز لگتا ہے
” نومبر “ کس لئے آخر
ہمیشہ خاص لگتا ہے

بہت سہمی ھوئی صبحیں
اداسی سے بھری شامیں
دوپہریں روئی روئی سی
وہ راتیں کھوئی کھوئی سی

گرم دبیز ہواؤں کا
وہ کم روشن اجالوں کا
کبھی گذرے حوالوں کا
کبھی مشکل سوالوں کا

بچھڑ جانے کی مایوسی
ملن کی آس لگتا ہے
” نومبر “ اس لیے شاید
ہمیشہ خاص لگتا ہے .....
 

سیما علی

لائبریرین
نہ کوئی غم خزاں کا ہے نہ ہے خواہش بہاروں کی
ہمارے ساتھ ہے امجد کسی کی یاد کا موسم
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
باغ تھا پھول تھے محبت تھی
یاد ہے چودہ فروری کے دن

اپنے دن تو گزار بیٹھا ہوں
چاہئے اب مجھے کسی کے دن
فیاض اسود
 

سیما علی

لائبریرین
وفا کے برف پروردہ زمانے یاد ہیں لیکن
یقیں منصور جذبوں کی دہکتی جنوری پر ہے
منصور آفاق
 
Top