موت آئی جِسم و جان میں کچھ بھی نہیں بچا۔غزل۔193 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
موت آئی جِسم و جان میں کچھ بھی نہیں بچا
اِس کھوکھلے مکان میں کچھ بھی نہیں بچا

پِیتے ہیں رِند مے ،ترے ُخطبے کے بعد بھی
واعظ ترے بیان میں کچھ بھی نہیں بچا

خاموش کیوں ہیں آپ سِتم گر کے رُوبرو
کہنے کو کیا زبان میں کچھ بھی نہیں بچا

وہ پیار، وہ خُلوص، وہ اِخلاص، اب کہاں
جِینے کو اِس جہان میں کچھ بھی نہیں بچا

مشرق سے آفتاب کے آنے کی دیر تھی
تاروں کا آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا

بِجلی گِری تو ہر طرف تِنکے بکھر گئے
چِڑیوں کے آشیان میں کچھ بھی نہیں بچا

اِک آگ سی خِزاں نے لگا دی بہار میں
بُلبل کا گُلستان میں کچھ بھی نہیں بچا

چہرے وہی، مگر وہ تبسم نہیں رہا
اُس بزمِ مہربان میں کچھ بھی نہیں بچا

جب سے سُنی ہیں عِشق پہ گُزری قیامتیں
شارق مرے گُمان میں کچھ بھی نہیں بچا​
 

الف عین

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
موت آئی جِسم و جان میں کچھ بھی نہیں بچا
اِس کھوکھلے مکان میں کچھ بھی نہیں بچا​
مطلع درست ہے، لیکن کچھ اشعار میں ردیف بے معنی لگتی ہے

پِیتے ہیں رِند مے ،ترے ُخطبے کے بعد بھی
واعظ ترے بیان میں کچھ بھی نہیں بچا​
بیان میں اثر نہیں، یہ مراد "نہیں بچا" سے ادا نہیں ہوتی

خاموش کیوں ہیں آپ سِتم گر کے رُوبرو
کہنے کو کیا زبان میں کچھ بھی نہیں بچا​
کہنے کو بچنا تو درست ہے، زبان میں بچنا غلط

وہ پیار، وہ خُلوص، وہ اِخلاص، اب کہاں
جِینے کو اِس جہان میں کچھ بھی نہیں بچا​
درست

مشرق سے آفتاب کے آنے کی دیر تھی
تاروں کا آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا​
ردیف کا مطلب

بِجلی گِری تو ہر طرف تِنکے بکھر گئے
چِڑیوں کے آشیان میں کچھ بھی نہیں بچا​
پہلا مصرع بحر سے خارج، بجلی گری تو چار سو تنکے بکھر گئے، درست ہو سکتا ہے
آشیان برائے آشیانہ فارسی میں تو مستعمل ہے، اردو میں نہیں، اردو میں آشیاں ہے

اِک آگ سی خِزاں نے لگا دی بہار میں
بُلبل کا گُلستان میں کچھ بھی نہیں بچا​
ٹھیک

چہرے وہی، مگر وہ تبسم نہیں رہا
اُس بزمِ مہربان میں کچھ بھی نہیں بچا​
اس کا بھی خیال عجیب ہے، تکنیکی کوئی سقم نہیں

جب سے سُنی ہیں عِشق پہ گُزری قیامتیں
شارق مرے گُمان میں کچھ بھی نہیں بچا​
کیا سنی ہیں؟ خبریں؟ واضح کرو، ورنہ "سنا ہے" کہو
گزری نہیں "گزریں" کا محل ہے
 

امین شارق

محفلین
مطلع درست ہے، لیکن کچھ اشعار میں ردیف بے معنی لگتی ہے

بیان میں اثر نہیں، یہ مراد "نہیں بچا" سے ادا نہیں ہوتی

کہنے کو بچنا تو درست ہے، زبان میں بچنا غلط

درست

ردیف کا مطلب

پہلا مصرع بحر سے خارج، بجلی گری تو چار سو تنکے بکھر گئے، درست ہو سکتا ہے
آشیان برائے آشیانہ فارسی میں تو مستعمل ہے، اردو میں نہیں، اردو میں آشیاں ہے

ٹھیک

اس کا بھی خیال عجیب ہے، تکنیکی کوئی سقم نہیں

کیا سنی ہیں؟ خبریں؟ واضح کرو، ورنہ "سنا ہے" کہو
گزری نہیں "گزریں" کا محل ہے
شکریہ الف عین سر رہنمائی کے لئے، میں کوشش کرتا ہوں درست کرنے کی۔
 

امین شارق

محفلین
الف عین سر
اب درست ہے؟
پِیتے ہیں رِند مے ،ترے ُخطبے کے بعد بھی
واعظ اثر بیان میں کچھ بھی نہیں بچا

جیسے ہی سورج طلوع ہوا، تمام تارے آسمان سے غائب ہوگئے، ان کی چمک ماند پڑ گئی، وہ نظر آنا بند ہو گئے۔ یعنی سورج کی موجودگی کے سامنے تاروں کی کوئی حیثیت نہ رہی۔یہ مطلب تھا یہاں ردیف کا
مشرق سے آفتاب کے آنے کی دیر تھی
تاروں کا آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا

ایسی محفل کا ذکر ہے جہاں پہلے بہت خوشگوار اور محبت بھرا ماحول ہوتا تھا، مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے۔
لوگ وہی ہیں، لیکن ان کے دل، جذبے، اور رویے بدل گئے ہیں۔
رشتے وہی رہیں، لیکن احساس ختم ہو گیا۔
محفل باقی ہے، لیکن محبت اور خلوص نہیں رہا۔
چہرے وہی، مگر وہ تبسم نہیں رہا
اُس بزمِ مہربان میں کچھ بھی نہیں بچا

پہلا مصرع تبدیل کردیا ہے۔
جب سے سُنی ہیں عِاشقوں کی دل شکستگی
شارق مرے گُمان میں کچھ بھی نہیں بچا
 

الف عین

لائبریرین
جیسے ہی سورج طلوع ہوا، تمام تارے آسمان سے غائب ہوگئے، ان کی چمک ماند پڑ گئی، وہ نظر آنا بند ہو گئے۔ یعنی سورج کی موجودگی کے سامنے تاروں کی کوئی حیثیت نہ رہی۔یہ مطلب تھا یہاں ردیف کا
وہی تو میرا مطلب تھا کہ" کوئی تارہ نہیں بچا " کے بیانیہ کو یہ کہنا کہ کسی تارے کا کچھ بھی نہیں بچا کچھ عجیب نہیں؟ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سورج کے علاوہ آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا
بزم مہربان والا شعر بھی پسند نہیں آیا، یوں کہنا چاہیے تھا کہ یوں لگ رہا ہے کہ کچھ بھی نہیں بچا، ورنہ چہرے تو تم ہی بیان کر رہے ہو!
مقطع میں اب بھی وہی بات ہے، دل شکستگی سنی نہیں جا سکتی
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پِیتے ہیں رِند مے ،ترے ُخطبے کے بعد بھی
واعظ اثر بیان میں کچھ بھی نہیں بچا
مشورہ:
ہر بات بے اثر ہوئی لفاظیوں سے یوں
یا
لفاظیوں سے ہو گئی ہر بات بے اثر
واعظ ترے بیان میں کچھ بھی نہیں بچا
 
آخری تدوین:

امین شارق

محفلین
الف عین سر
وقتِ سحر سِتارے سبھی ماند پڑ گئے
جُز مہر آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا

دیکھی ہے جب سے عِاشقوں کی دِل شکستگی
شارق مرے گُمان میں کچھ بھی نہیں بچا
 
آخری تدوین:
Top