امین شارق
محفلین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
موت آئی جِسم و جان میں کچھ بھی نہیں بچا
اِس کھوکھلے مکان میں کچھ بھی نہیں بچا
پِیتے ہیں رِند مے ،ترے ُخطبے کے بعد بھی
واعظ ترے بیان میں کچھ بھی نہیں بچا
خاموش کیوں ہیں آپ سِتم گر کے رُوبرو
کہنے کو کیا زبان میں کچھ بھی نہیں بچا
وہ پیار، وہ خُلوص، وہ اِخلاص، اب کہاں
جِینے کو اِس جہان میں کچھ بھی نہیں بچا
مشرق سے آفتاب کے آنے کی دیر تھی
تاروں کا آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا
بِجلی گِری تو ہر طرف تِنکے بکھر گئے
چِڑیوں کے آشیان میں کچھ بھی نہیں بچا
اِک آگ سی خِزاں نے لگا دی بہار میں
بُلبل کا گُلستان میں کچھ بھی نہیں بچا
چہرے وہی، مگر وہ تبسم نہیں رہا
اُس بزمِ مہربان میں کچھ بھی نہیں بچا
جب سے سُنی ہیں عِشق پہ گُزری قیامتیں
شارق مرے گُمان میں کچھ بھی نہیں بچا
اِس کھوکھلے مکان میں کچھ بھی نہیں بچا
پِیتے ہیں رِند مے ،ترے ُخطبے کے بعد بھی
واعظ ترے بیان میں کچھ بھی نہیں بچا
خاموش کیوں ہیں آپ سِتم گر کے رُوبرو
کہنے کو کیا زبان میں کچھ بھی نہیں بچا
وہ پیار، وہ خُلوص، وہ اِخلاص، اب کہاں
جِینے کو اِس جہان میں کچھ بھی نہیں بچا
مشرق سے آفتاب کے آنے کی دیر تھی
تاروں کا آسمان میں کچھ بھی نہیں بچا
بِجلی گِری تو ہر طرف تِنکے بکھر گئے
چِڑیوں کے آشیان میں کچھ بھی نہیں بچا
اِک آگ سی خِزاں نے لگا دی بہار میں
بُلبل کا گُلستان میں کچھ بھی نہیں بچا
چہرے وہی، مگر وہ تبسم نہیں رہا
اُس بزمِ مہربان میں کچھ بھی نہیں بچا
جب سے سُنی ہیں عِشق پہ گُزری قیامتیں
شارق مرے گُمان میں کچھ بھی نہیں بچا