منی بجٹ: بینک ٹرانزیکشنز پر ٹیکس ختم، سستے گھروں کیلئے قرض حسنہ اسکیم کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
ٓ
یار، ٹیکس کی وصولی کا انتظام تو شیر شاہ سوری کے زمانے میں بھی چل رہا تھا۔ ان عقل بندوں کو یہ تجویز بھی ہم کو دینی ہوگی کہ بھائی ٹیکس وصول کرنے کے لئے ادائیگی کرنے والوں کے لئے ٓادائیگی کے گوشوارے ایف بی آر کو جمع کراؤ؟ تاکہ ٹیکس دہندگان کی آمدنی کا تخمینہ لگایا جاسکے ؟؟؟؟
عمران خان نے الیکشن سے قبل اپنی مختلف تقاریر میں کہا تھا کہ میں اتنا ٹیکس اکٹھا کر لوں گا کہ ملک چلانے کیلئے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ابھی تو حکومت کی شروعات ہیں۔ ایک دو سال تک صحیح تصویر سامنے آئے گی کہ حکومت اس میں کتنا کامیاب ہوئی۔ ویسے دسمبر کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس فائلرز میں اضافہ تو ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ٓاگر پاکسان ملّی ٹّری پارٹی (انتخابی نشان بندوق) کو حکوٓمت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو ریٹائیرڈ جنرلوں کی ایک واضح پارٹی بنائے اور انتخابات میں حصہ لے تاکہ یہ لوگ بھی آئین کے تحت رہٓیں۔
یہ کافی معقول تجویز ہے۔ لیکن آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ؛ یہ ملک تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میں :)
 

جاسم محمد

محفلین
Now the option is that before dissolving the present government, some measurements be taken up to finish certain constitutional amendments, bring up some new points and then bring a government of military leadership coupled with civil assistance that can take Pakistan to a strong future.
پتا نہیں یہ کس قسم کے پلاسٹک انصافین ہیں جو ایسے میسج کرتے رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت عدلیہ، فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہے۔ ایسے میں فوج کو براہ راست سامنے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج کو جو کام سول حکومت سے لینا ہے وہ مارشل لا لگائے بغیر لیا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لوٹا پیسہ باہر سے واپس لاوے گا، خود کو مار ڈالے گا پر آئی ایم ایف کے پاس نہ جاوے گا وغیرہ بھی۔
آئی ایم ایف کے پاس کون گیا ہے؟ جو ہمسایہ ممالک سے قرضے لئے ہیں وہ سابقہ حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کی قسطیں اتارنے کیلئے ناگزیر تھا۔ وگرنہ ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ اگر عمران خان ملک کو دیوالیہ ڈکلیر کر دے تو برا۔ قرضہ واپس کرنے کیلئے امدادی قرضے لے تو برا۔ آخر وہ ایسا کیا کرے کہ عوام تھوڑا سا خوش ہو جائے؟ استعفیٰ دے کر حکومت زرداری و نواز شریف کے حوالہ کر دے؟
 

جاسم محمد

محفلین
ضرورت ہے کہ پاکستان ملٹری جو کام بہتر کرتی ہے وہی کرتی رہے یعنی دفاع پاکستان۔ اور ملک کے مالی معاملات میں دخل نا دے، لوٹ مار (جیسی 1973 کے قومیانے کے نام پر کی ) سے گریز ٓکرے، اور حکومت پاکستان کے ماتحت ہو۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جوڈیشیل مارشل لاء اور سیلیکٹڈ وزراء بٹھانے سے گریز کرے۔
یہ ملک فوج نے نہیں بنایا۔ سیاست دانوں اور عام عوام کی کوششوں سے بنا ہے۔ لیکن افسوس فوج کو اس حال تک بھی انہی سیاست دانوں اور عوام نے پہنچایا ہے۔
قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں اعلی سول قیادت کا فقدان رہا۔ جس عرصہ میں بھارت کی پارلیمان نے آئین پاس کر کے الیکشن تک کروا دئے۔ اس دور میں پاکستانی ایوان یہی سوچتی رہی کہ آگے کیا کرنا ہے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لگانے سے پہلے دو سال میں ۶ بار ملک کا وزیر اعظم تبدیل ہوا۔ یہ سیاسی بحران کسی فوجی آمر کا نہیں بلکہ عوام کے ان منتخب نمائندہ کا تخلیق کردہ جو آج بانیان پاکستان کہلاتے ہیں۔ اگر یہ بانیان پاکستان اپنی ذمہ داری صحیح معنوں میں نبھاتے۔ ایک دو سال کے اندر اندر آئین بنا کر الیکشن کروا دیتے تو ملک کی صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ اگر ملک میں آج فوج قابض ہے تو اس میں عوام اور سیاست دان برابر کے شریک ہیں
 
ٓٓٓٓٓٓ
پتا نہیں یہ کس قسم کے پلاسٹک انصافین ہیں جو ایسے میسج کرتے رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت عدلیہ، فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہے۔ ایسے میں فوج کو براہ راست سامنے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج کو جو کام سول حکومت سے لینا ہے وہ مارشل لا لگائے بغیر لیا جا سکتا ہے۔

سابقہ حکومت کو اور اس سے سابقہ حکومت کو اور اس سے سابقہ حکومت کو طعنہ دینے کی مسلکی روایت اور رواج کو اب ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے نمائندوں سے ڈیمانڈ کی جائے کہ بھوتنی والو، ٹیکس کس نے کتنا ادا کرنا ہے ، اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھو ورنہ تم کو انتخاب میں کوئی ووٹ نہیں ملے گا۔

یہ ملک فوج نے نہیں بنایا۔

برادر محترم، جن لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ پاکستان ملی ٹری پارٹی مع بندوق ، اس ملک کے ہر معاملے پر اپنا انگوٹھا رکھے ہے تو وہ بہت ہی معصوم ہیں۔ ان معصوموں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان پچھلے سترہ سال سے افغانستان میں ایران کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اور اس بہانے سے امارات، قطر، سعودی عرب سے مال وصول کررہا ہے۔ عوام اور عوام کے نمائندے پاکستان میں ایک کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ یہ بات کوئی کھینچی تانی نہیں ہے ۔


دہراتا ہوں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر رقم ادا کرنے والا ایف بی آر کے پاس یہ ریکارڈ جمع کروائے کہ اس نے پیسہ کس کو ادا کیا، تاکہ یہ جانا جاسکے کہ کتنا ٹیکس کس پر واجب الادا ہے۔ کرسکتے ہیں یہ آپ ؟
 

جاسم محمد

محفلین
کمال ہے کہ تیلیفون کا بل تو ہم الیکترانک دیکھ کر ادا کرسکتے ہیں لیکن ٹیکس کا بل نہیں؟؟؟؟
اس سلسلہ میں ایف بی آر اور دیگر اداروں کو ریفارمز کیا جا رہا ہے۔ ۳۵ مختلف ٹیکسوں کو کم کرکے ۱۵ کر دیا گیا۔ سابق حکمرانوں نے جان بوجھ کر ٹیکس کا نظام پیچیدہ بنایا تاکہ امیروں کو ٹیکس چھوٹ دے کر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جائے۔
 
اس سلسلہ میں ایف بی آر اور دیگر اداروں کو ریفارمز کیا جا رہا ہے۔ ۳۵ مختلف ٹیکسوں کو کم کرکے ۱۵ کر دیا گیا۔ سابق حکمرانوں نے جان بوجھ کر ٹیکس کا نظام پیچیدہ بنایا تاکہ امیروں کو ٹیکس چھوٹ دے کر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جائے۔
برادر محترم، ایف بی آر ، کیا کرے گی جب پارلیمینٹ نے ایسا کوئی قانون ہی نہیں پاس کیا جو ایف بی آر کو لازمی مینڈیٹ دیتا ہو کہ تمام کی تمام ادائیگیوں کا حساب رکھنے کا نظام تشکیل دیا جائے۔ یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔

ایک عرض ہے آپ سے پاکستان کی سابقہ حکومتوں کو الزام نا دیجئے۔ وہ اس لئے کہ ہم کسی طور بھی سابقہ حکومتوں کی کاروائیوں سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے۔ ہم ورلڈ بنک، ایشین ڈیویلپمنٹ بنک یا کسی اور کے پاس یہ عذر لے کر نہیں جاسکتے کہ صاحب یہ تو سابقہ حکومت کا قرضہ ہے ، جاؤ ہم نہیں دیتے ۔۔

اگر وفاقی ادارہ برائے آمدنی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، آمدنی کا حساب نہیں رکھ سکتا تو پھر اس کا کام کیا ہے؟؟؟ تمام آمدنیوں کا حساب ہر شخص کا لازماً موجود ہونا چاہئے تاکہ پھر ہم یہ الزام دے سکیں کہ فلاں نے ٹیکس ادا نہیں کیا ۔

ایسے نظام کی غیرم وجودگی میں نواز کیا اور گیلانی کیا اور زرداری کیا، ہم تو آنے والی نسلوں کے بارے میں بھی یہ کہہ سکیں گے کہ جو بچہ آج سے 50 سال بعد پیدا ہوگا، بڑا ہو کر وہ بد عنوانی کرے گا۔ مناسب قانون کے بغیر کسی بھی قسم کے ریفارم کی توقع کرنا فضول ہے۔

والسلام
 

جاسم محمد

محفلین
۔ مناسب قانون کے بغیر کسی بھی قسم کے ریفارم کی توقع کرنا فضول ہے۔
بھائی پاکستان میں مسئلہ صرف بہتر قانون سازی کا نہیں ہے۔ بلکہ جو قوانین پہلے سے موجود ہیں ان پر کمزور عمل در آمد زیادہ سنگین پرابلم ہے۔
مثال کے طور آصف زرداری کے حال ہی میں نیویارک اپارٹمنٹ نکلے ہیں۔ حکومت کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ موصوف نے اپنے انتخابی گوشواروں میں یہ ظاہر نہیں کئے جو کہ قانونا جرم ہے۔ اور جسکی سزا نااہلی ہے۔
اب جب تحریک انصاف کے نمائندے یہ معاملہ متعلقہ فورم الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تو سندھ ہائی کورٹ نے یہ آرڈر جاری کر کے کاروائی روک دی کہ الیکشن کمیشن کو اس پر فیصلہ کرنے کا اختیارنہیں ہے۔ مجبورا تحریکی معاملہ سپریم کورٹ لے گئے تو وہاں موجود فاضل ججوں نے یہ فیصلہ دے کر درخواست مسترد کر دی کہ نچلی عدالتوں سے رجوع کریں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تو آج وہاں بیٹھے فاضل جج اطہر من اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سیاسی کیس عدالتوں میں کیوں لائے ہیں۔ الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا چاہئے تھا:
وکیل عثمان ڈار نے مؤقف اختیار کیا یہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ڈس کوالیفیکیشن کا کیس ہے جو تصدیق شدہ دستاویزات کی بنیاد پر دائر کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر کہا آپ تفتیشی اداروں سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں، آپ کا متعلقہ فورم الیکشن کمیشن بنتا ہے، آپ سیاسی مقدمات عدالت میں کیوں لے آتے ہیں، سیاسی لڑائی سیاسی فورم اور پارلیمنٹ میں لڑنی چاہیے۔


جس ملک میں قانون و انصاف اداروں کے مابین فٹبال بنا ہوا ہو، وہاں تحریک انصاف کی حکومت بہترین قانون سازی کر کے کیا اکھاڑ لے گی؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا بینک ٹرانزایکشن والا ٹیکس جو صفر اعشاریہ چھے (0ء6)تھا ۔ ختم ہوگیا؟
اگر نہیں تو کب سے ختم ہوگا ؟
یہ ٹیکس ختم نہیں ہو رہا۔ جو بینک کھاتے دار انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے یعنی 'فائلر' نہیں ہیں، ان پر یہ ٹیکس صفر اعشاریہ چھ فیصد کے حساب سے لاگو ہے اور لاگو رہے گا۔ جو کھاتے دار فائلر ہیں ان پر اس ٹیکس کی شرح آدھی یعنی صفر اعشاریہ تین فیصد ہے اور اس کو ختم کرنے کی تجویز ہے یعنی فائلرز پر ٹیکس ختم ہو رہا ہے، نان فائلر پر پہلی شرح سے موجود رہے گا۔
 
یہ ٹیکس ختم نہیں ہو رہا۔ جو بینک کھاتے دار انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے یعنی 'فائلر' نہیں ہیں، ان پر یہ ٹیکس صفر اعشاریہ چھ فیصد کے حساب سے لاگو ہے اور لاگو رہے گا۔ جو کھاتے دار فائلر ہیں ان پر اس ٹیکس کی شرح آدھی یعنی صفر اعشاریہ تین فیصد ہے اور اس کو ختم کرنے کی تجویز ہے یعنی فائلرز پر ٹیکس ختم ہو رہا ہے، نان فائلر پر پہلی شرح سے موجود رہے گا۔

جب ایف بی آر کے پاس یہ ریکارڈ ہی نہیں کہ کس پر کتنا ٹیکس واجب الادا ہے تو ایسا ٹیکس کس مد میں ؟؟؟
 
جس ٹیکس کی بات ہو رہی ہے وہ بینکوں سے پیسے نکالنے پر ہے سو ہر کوئی دیتا ہے۔
وضاحت کا شکریہ،
سخت ظالمانہ ٹیکس ہے۔ ایف بی آر کے پاس کسی بھی ادائیگی کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ ان پر کون مقدمہ دائر کرے گا؟ مجھے پتہ ہی نہیں کہ مجھ پر کتنا ٹیکس بنتا ہے :) تو ایف بی آر کو کس طرح پتہ چلے گا کہ مجھے کتنا ادا کرنا ہے یا مجھے کتنا واپس ہونا ہے؟ بیچارے تنخواہ گزاروں کو رگڑا تو یہ دے سکتے ہیں ۔ ٹھیک۔ لیکن بنک میں جو پیسہ میرے پاس آیا ، اس میں آمدنی کتنی ہے؟ اس کا پتہ کیسے چلے گا ایف بی آر کو؟ میری آمدن صرف تنخواہ سے نہیں ہو ، یہ کارو بار سے ہو یا فصلوں سے ہو تو پھر کس طرح ایف بی آر حساب کرے گا؟
 
میرے ایک دوست نے سات لاکھ کا ایک پلاٹ خریدا، اس کے پاس دو سال بعد ایک خط آیا ایف بی آر سے کہ تم نے یہ پیسے کہاں سے کمائے اور کیا اس آمدنی پر ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟ ہائیں بھائی ، کیا کہہ رہے ہو؟ ان کو پتہ ہی نہیں کہ کس نے کس کو ادائیگی کی؟ کس نے کیا کمایا؟
یہ شخص سارے پیسے سعودی عرب سے کما کر لایا تھا اور اس کے پاس ریکارڈ تھا کہ وہ اپنی رقم باہر سے بھیجتا رہا ہے۔ لیکن اس نے یہ پلاٹ فوراً بیچ دیا ۔ اس کے پاس پھر کوئی خط نہیں آیا۔

ایک اور دوست کی بیوی نے کراچی میں کار خریدی، ان کے پاس بل آگیا کہ آپ نے ایک کار خریدی ہے، جس کی قیمت اتنی ہے، آپ کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ ہائیں ؟ دولت کمانا جرم ہے؟ ٹیکس نا دینا جرم ہے ، لیکن یہ ٹیکس کتنا بنتا ہے ۔ اس کا کوئی حساب ہی نہیں ایف بی آر کے پاس۔ بجلی کا بل دیکھ سکتے ہیں، فون کا بل دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن ٹیکس کا نہیں ؟ کیوں؟ اس کا ذمہ دار کون؟ چور کون؟ کون اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا؟ اور کس کی ایماء پر گنے چنے لوگوں سے حساب مانگا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر ادائیگی کا حساب ایف بی آر کے پاس جمع کرایا جائے۔ خرابی کہیں اور ہے اور دیکھا کہیں اور جارہا ہے۔ اگر اسی طرح یہ نظام جاری رہا تو میری پیشین گوئی ہے کہ آج بھی جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ کل ٹیکس چوری کرے گا ۔۔۔۔ ام، چوری ، نہیں ، جبا کوئی حساب ہی نہیں تو چوری کیسی ؟ یہ ہے بنیادی نکتہ ۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرے ایک دوست نے سات لاکھ کا ایک پلاٹ خریدا، اس کے پاس دو سال بعد ایک خط آیا ایف بی آر سے کہ تم نے یہ پیسے کہاں سے کمائے اور کیا اس آمدنی پر ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟ ہائیں بھائی ، کیا کہہ رہے ہو؟ ان کو پتہ ہی نہیں کہ کس نے کس کو ادائیگی کی؟ کس نے کیا کمایا؟
یہ شخص سارے پیسے سعودی عرب سے کما کر لایا تھا اور اس کے پاس ریکارڈ تھا کہ وہ اپنی رقم باہر سے بھیجتا رہا ہے۔ لیکن اس نے یہ پلاٹ فوراً بیچ دیا ۔ اس کے پاس پھر کوئی خط نہیں آیا۔

ایک اور دوست کی بیوی نے کراچی میں کار خریدی، ان کے پاس بل آگیا کہ آپ نے ایک کار خریدی ہے، جس کی قیمت اتنی ہے، آپ کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ ہائیں ؟ دولت کمانا جرم ہے؟ ٹیکس نا دینا جرم ہے ، لیکن یہ ٹیکس کتنا بنتا ہے ۔ اس کا کوئی حساب ہی نہیں ایف بی آر کے پاس۔ بجلی کا بل دیکھ سکتے ہیں، فون کا بل دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن ٹیکس کا نہیں ؟ کیوں؟ اس کا ذمہ دار کون؟ چور کون؟ کون اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا؟ اور کس کی ایماء پر گنے چنے لوگوں سے حساب مانگا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر ادائیگی کا حساب ایف بی آر کے پاس جمع کرایا جائے۔ خرابی کہیں اور ہے اور دیکھا کہیں اور جارہا ہے۔ اگر اسی طرح یہ نظام جاری رہا تو میری پیشین گوئی ہے کہ آج بھی جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ کل ٹیکس چوری کرے گا ۔۔۔۔ ام، چوری ، نہیں ، جبا کوئی حساب ہی نہیں تو چوری کیسی ؟ یہ ہے بنیادی نکتہ ۔۔۔
ایف بی آر ایک فرسودہ اور تباہ حال ادارہ ہے جس میں جلد سے جلد ریفارم ناگزیر ہے۔ خالی بے تلے نوٹس بھیج دینے سے عوام ٹیکس دہندگان نہیں بنتی۔
اس کا درست طریقہ وہی ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں عرصہ دراز سےرائج ہے۔ یعنی ۱۸ سال سے اوپر ہر شخص کیلیے ذرائع آمدن جمع کروانا لازم قرار دیا جائے۔ اور ایسا نہ کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
جب ایف بی آر کے پاس ہر پاکستانی کے آمدن کا ڈیٹا جمع ہو جائے تو اس بنیاد پر اگلے سال ٹیکس وصولی کے نوٹس بھیجے جائیں۔ جو بروقت ٹیکس جمع کر وا دے اس کو ریلیف اور اس میں دیر کرنے والوں کو جرمانہ کیا جائے۔
یوں جائز ٹیکس دہندگان حکومتی سرپرستی میں آجائیں گے اور ٹیکس چوروں کے خلاف ایف بی آر سخت ایکشن لے گا۔ پھر دیکھتے ہیں یہ ملک کیسے نہیں ٹھیک ہوتا۔
 
ایف بی آر ایک فرسودہ اور تباہ حال ادارہ ہے جس میں جلد سے جلد ریفارم ناگزیر ہے۔ خالی بے تلے نوٹس بھیج دینے سے عوام ٹیکس دہندگان نہیں بنتی۔
اس کا درست طریقہ وہی ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں عرصہ دراز سےرائج ہے۔ یعنی ۱۸ سال سے اوپر ہر شخص کیلیے ذرائع آمدن جمع کروانا لازم قرار دیا جائے۔ اور ایسا نہ کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
جب ایف بی آر کے پاس ہر پاکستانی کے آمدن کا ڈیٹا جمع ہو جائے تو اس بنیاد پر اگلے سال ٹیکس وصولی کے نوٹس بھیجے جائیں۔ جو بروقت ٹیکس جمع کر وا دے اس کو ریلیف اور اس میں دیر کرنے والوں کو جرمانہ کیا جائے۔
یوں جائز ٹیکس دہندگان حکومتی سرپرستی میں آجائیں گے اور ٹیکس چوروں کے خلاف ایف بی آر سخت ایکشن لے گا۔ پھر دیکھتے ہیں یہ ملک کیسے نہیں ٹھیک ہوتا۔

آپ کا مشورہ بہٓت اچھا ہے لیکن اس میں ایک سقم ہے۔
دنیا بھر میں اور خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں ادائیگی کرنے والا ادارہ، ایمپلائر، بنک، پارٹنر شپ کمپنی وغیرہ ، ایف بی آر کو لازماً ادائیگی کے گوشوارے جمع کرواتی ہے۔ یہی گوشوارے، بنیاد بنتے ہیں ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ٹیکس جمع کروانا یا واپس وصول کرنا ہوتا ہے۔ ٓسوال یہ ہے کہ ایف بی آر کب ایسا کام شروع کرے گی؟ ہماری پارلیمنٹ کب ایسا قانون بنائے گی کہ ایف بی آر کا مینڈیٹ ہو کہ تمام ادا کرنے والوں سے ڈیٹا جمع کرے ؟
 
کافی پٹائی کرلی اس ٹاپک کی ۔۔۔ اب ہاتھ ہٹاتا ہوں ۔۔۔ توئٹر کرنے جارہا ہوں عمران خان کو کہ وہ چور ہے ، ایک ایسے ادٓارے کے سربراہ کا باس ہے جو ٹیکس وصولنے پر یقین نہیں رکھتا :)
 
Top