منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوارودر،ا ور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر،میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتّھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
کسی سوچے ہوئے کو ملنا نیند میں
`
نیند میں چلتے ہوئے
شہروں مکانوں اور پہاڑوں اور زمانوں سے گزرکر
وسعت حیراں میں رک کر
اس کو دیکھیں
کیاہے وہ
دیکھنا، ملنا اسے اور دیر تک ملتے ہی رہنا
نیند میں رک کر اسے
جاگنے سے خوب ہے ملنا اسے
اور ساتھ رہنا نیند میں​
 

عرفان سرور

محفلین
وہ جو اپنا یار تھا دیر کا کسی اور شہر میں جا بسا
کوئی شخص اس کے مکان میں کسی اور شہر کا آ بسا
یہی آنا جانا ہے زندگی, کہیں دوستی کہیں اجنبی
یہی رشتہ کارِ حیات ہے کبھی قرب کا کبھی دور کا
ملے اس میں لوگ رواں دواں کوئی بے وفا کوئی با وفا
کٹی عمر یہاں وہاں, کہیں دل لگا کہ نہیں لگا
کوئی خواب ایسا بھی ہے یہاں جسے دیکھ سکتے ہوں دیر تک
کسی دائمی شب وصل کا کسی مستقل غم یار کا
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھرا ہوا
یونہی ہم منیر پڑے رہے کسی اک مکاں کی پناہ میں
کہ نکل کے ایک پناہ سے کہیں اور جانے کا دم نہ تھا​
 

عرفان سرور

محفلین
چلو اپنی محفل سجائیں ذرا
زمانے کے غم کو بھلائیں ذرا
اکیلے بہت ہیں جو اس زیست میں
انہیں پاس اپنے بلائیں ذرا
کسی خواب میں ہے حقیقت کوئی
اس اک خواب کو دیکھ آئیں ذرا
کوئی کام ہم کو بھی در پیش ہے
جھلک اس کی پھر دیکھ آئیں ذرا​
 

عرفان سرور

محفلین
سندری ایک درخت ہے جس پر کوئی طائر نہیں بیٹھتا
`
سندریاں ہی سندریاں تھیں
سندر بن میں دور تک
ایک بڑے دریاسے لے کر
اک سمت مستور تک
ایک ادا جو میں نے دیکھی
سندریوں کی خاموشی کے
بہت ہرے اسرار میں
جس پر شام اتری تھی جیسے
سیاہی سرخ غبار میں
اک طائر بھی وہاں نہیں تھا
انبوہ اشجار میں
بوندا باندی میں کسی گھنے شجر تلے
زمانے کو بھول کر‘
بیٹھ کر سوچنے کی گھڑی ہے
اور دروازے پر ہورہی دستک کا جواب دینا ہے مجھے​
 

عرفان سرور

محفلین
شور عکس انگیز ہے
`
بغاوت دل میں ہے اور سامنے برہم خموشی ہے
بہت رنگینیاں پردے میں ہیں پر سامنے پہم خموشی ہے
بہت بے چینیاں دنیا میں ہیں اور سامنے مہم خموشی ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک پکی رات
`
گھر کی دیواروں پر دیکھوں چھینٹیں لال پھوار کی ہیں
آدھی رات کو در بجتے ہیں ڈائینیں چیخیں مارتی ہیں
سانپ کی شوکر گونجے جیسے باتیں گہرے پیار کی ہیں
ادھر ادھر چھپ چھپ کر ہنستیں شکلیں شہر سے پار کی ہیں
روحیں جیسے پاس سے گزریں، مہکیں باسی ہار کی ہیں
گورستان کی راہ دکھاتی، کوکیں پہرے دار کی ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
خدا سے زیادہ خدا کی مخلوق کا ڈر
`
ایک بات ہے دل کے اندر
جو باہر نہیں آتی
یاد نہ رکھنا چاہوں اس کو
پر بھولی نہیں جاتی
کافر کہیں نہ سمجھیں مجھ کو, دنیا سے ہوں ڈرتا
اسی خوف سے دل کی بات نہیں دنیا سے کرتا​
 

عرفان سرور

محفلین
فجر کے وقت کی اداسی
`
چاند میرے گھر کی دیوار پر
اس کے آگے جامن کے پتے
اس کے پیچھے اذانوں کی صدائیں
اور وہ کوئٹےجانے والی گاڑی میں
اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی​
 

عرفان سرور

محفلین
مجھے پہنچنا ہے منزلوں پر لگن ہے اتنی
قدم اٹھانا مجھ کو مشکل تھکن ہے اتنی
ہرے شجر تھے یہاں پہ، میں نے جو خواب دیکھا
چمن، یہ جس کے اجاڑ پن کی چبھن ہے اتنی
ہزاروں میلوں پہ رہ گئے ہیں وہ شہر سارے
وہ جن کی یادوں کی دل کے اندر جلن ہے اتنی
منیر توبہ کی شام ہے پر بہت بے چین دل ہمارا
گھٹا کی رنگت فلک پہ توبہ شکن ہے اتنی​
 

عرفان سرور

محفلین
متجسس آنکھیں ہیں
`
خموشی، چپ کسی آباد سو رہے محلے میں
اور متجسس دل میں
کتنی تعمیروں کے خواب ہیں
اور پر شوق آنکھوں میں
کتنے چہروں کے خواب ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
ملتے جلتے زمانے
`
شام تھی اور شام کے دوران یہ سب کچھ ہوا
دائیں جانب بیٹھے میرے دوست نے مجھ سے کہا
"بائیں جانب دیکھنا ‘ منظر ہے کیسا دلربا "
گہری ہوتی جارہی اس شام میں اس شہر کے آغاز کا
جا بجا روشن نشانوں سے مزین اک سیہ کہسار سا
میں نے یہ پہلے بھی دیکھا تھا یہی منظر
کہیں پہلے پرانے خواب میں
منزلوں پر منزلیں آبادیوں کی
اور ان میں
جا بجا روشن دیے
میں نے اپنے دوست سے ‘
اس سلسلے میں اور کچھ باتیں نہ کہیں
بس یونہی خاموش بیٹھا
اس پرانے خواب کو تکتا رہا
کتنا چلتے اور
کتنا تھکتے اور
منزل آخر مل ہی جاتی
آس اک رکھتے اور
اس بستی میں جو کچھ دیکھا
دیکھ نہ سکتے اور
ایک بھی خواب جو پورا ہوتا
خواب نہ تکتے اور​
 

عرفان سرور

محفلین
کتاب کو بھی خبر ہوتی ہے
`
کتاب کو بھی خبر ہوتی ہے
اسے کون پڑھ رہا ہے
خراب نظروں سے وہ اپنا اصل باب چھپا جاتی ہے
عورت کو بھی خبر ہوتی ہے
اسے کون دیکھ رہا ہے
خراب نظروں سے وہ اپنا اصل آپ چھپا رہی ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
جب میں اُٹھا تو ساتھ اٹھا لاجواب دن
جب میں چلا تو ساتھ چلا مرےخواب دن
آج اس کے ساتھ کیسے یہ پل میں گزر گیا
گاٹے سے کل جو کٹتا نہ تھا بے حساب دن
وہ جس کو میں سمجھتا رہا کامیاب دن
وہ دن تھا میری عمر کا سب سے خراب دن
دنیا کو چھوڑ دینا کسی خواب کے لیے
جس خواب سے پرے تھا کوئی اور خواب دن
روشن تھی رات اس رخ روشن سے اے منیر
پھر اس کی روشنی سے ہوا آفتاب دن​
 

عرفان سرور

محفلین
یہ ہمارا گھر
`
یہ ہمارا گھر ہے ساتھی یا خوشی کا باغ ہے
یہ کئی رشتوں کی باہم دوستی کا باغ ہے
شام جب آتی ہے اپنے گھر کے صحن و بام پر
جگمگا اٹھتا ہے دل قدرت کے اس انعام پر
جیسے یہ آنگن ہمارا روشنی کا باغ ہے
اک جزیرہ سا ہے یہ بحر جہاں کے درمیاں
مسکراہٹ روح کی آہ و فغاں کے درمیاں
وقت کی بے چینیوں میں پر سکوں احساس ہے
اجنبی بستی میں کوئی اپنا جیسے پاس ہے
عمر کے باغ ہر دور میں اک تازگی کا باغ ہے
رات کے آخر پہ صبح زندگی کا باغ ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں
ہنستی باتیں کرتی آنکھیں
شاید مجھ کو ڈھونڈ رہی ہیں
چاروں جانب تکتی آنکھیں
اصل میں یہ بے خوف بہت ہیں
ظاہر میں یہ ڈرتی آنکھیں
پل میں خوشی سے بھر جاتی ہیں
پل میں آہیں بھرتی آنکھیں
یار منیر چلو پھر دیکھیں
روز اک وعدہ کرتی آنکھیں​
 

عرفان سرور

محفلین
بھیروں
`
ایک ہی سُر کی دو شکلیں ہیں
جینے کی بھی مرنے کی بھی
دکھ بھی ہو اس سُر کو سن کر
خوشی سی جی کو مرنے کی بھی
ملنے کی بھی گھڑی
بین فراق میں کرنے کی بھی​
 

عرفان سرور

محفلین
کار اصل زیست
`
کوئی آئے باغ میں اس طرح
کوئی دید جیسے بہار میں
کوئی رنگ دار سحر اڑے
کسی گوشئہ شب تار میں
کوئی یاد اس میں ہو اس طرح
کوئی رنج جیسے خمار میں
کوئی زندگی کسی خواب میں
کوئی کام کوچئہ یار میں​
 
Top