منڈا بریج

منصور مکرم

محفلین
عرصہ قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے شبقدر کے اس پار منڈا بریج تک جانے کا پروگرام بنا۔چونکہ دریائے سوات یہاں سے ہو کر گذرتا ہے۔اور ساتھ میں یہ بندوبستی علاقے اور قبائلی علاقے کی سرحد بھی ہے۔ کہ دریا کے اِس طرف تو بندوبستی علاقہ اور دوسری طرف قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی ہے۔

لھذا احباب نے اسی پوائینٹ کو سیر کیلئے پسند کیا۔مصیبت وہی پرانی کہ،گاڑی ہمارے حوالے تھی۔اسی لئے مجبورا کیمرہ کو ایک طرف رکھنا پڑا۔لیکن شب قدر پہنچ کرہم نے اپنا کام شروع کردیا،یعنی فوٹو گرافی۔

شبقدر بازار جب پہنچے تو بازار میں ایک جگہ رُک گئے۔ بازار کے دوسری طرف دیکھا تو بالکل اخر میں ایف سی کا ایک قلعہ نظر آیا۔

چنانچہ ہم نے بھی فورا کیمرہ نکالا اور تصویر کھینچی۔
SAM_2380.JPG


شب قدر بازار سے نکل کر جب ہم نے گاڑی روک کر جب دیکھا تو دور سے آم کے باغ نظر آگئے۔
SAM_2383.JPG


SAM_2382.JPG


SAM_2381.JPG


اور اس وقت تو ایک خوش گوار حیرت ہوئی جب سامنے کی طرف دیکھا کہ یوسف بابا (ایک زیارت) کے پہاڑ سامنے نظر آگئے۔یوسف بابا کی زیارت گاہ اگرچہ پہاڑوں کے درمیان ہے۔لیکن شوقین حضرات سیر و تفریح یا قدرتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کیلئے وہاں جاتے ہیں۔لیکن راستہ خراب و پرپیچ ہے۔اسلئے یا تو صبح سویرے جانا ہوگا،تو شام تک واپسی ممکن ہوگی۔ اور یا پھر رات کا پروگرام بنا کر وہاں جانا ہوگا۔

کہتے ہیں کہ یوسف بابا کے قریب پرندوں کا شکار بھی کیا جاتا ہے،اسلئے شکاری حضرات وہاں جاتے تھے۔لیکن اب تو حالات کی خرابی کے بعد شائد ہی کوئی رات گذارنے کیلئے اس طرف کا رُخ کرے۔

دور سے یوسف بابا کی پہاڑوں کی ایک جھلک
SAM_2384.JPG


منڈا بریج تک جانے والی سڑک کے ایک طرف تو افغانیوں کے کچے گھر تھے۔
SAM_2386.JPG


اور دوسری طرف آم کے باغ ،ہمارا دل للچایا کہ زندگی میں پہلی بار آم کا باغ دیکھا تھا، اسلئے باغ کی سیر تو لازمی ٹہری۔

لیکن یہ کیا، جب باغ کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ ایک نہر ہمارے اور باغ کے درمیان حائل ہے۔

SAM_2388.JPG


اب مسئلہ یہ تھا کہ نہر پار جائیں تو کس طرح۔اب تو کوئی پُل وغیرہ تلاشنا تھا ،تاکہ اس پار جایا جاسکے،چنانچہ جلد ہی ایک پُل نظر اگیا۔
باپ رہے ،اس پُل کو پار کرنے کیلئے بھی تو کمانڈو ہونا ضروری ہے۔ورنہ تو ہمارے جیسے آدمی کے تو ہوش اُڑ جائیں۔

اب ہمیں ڈرپوکی کے طعنے دینے سے پہلے پُل پر خود ہی ایک نظر ڈالیں اور پھر فیصلہ کریں

SAM_2387.JPG


پُل خوب زبردست ہِل رہا تھا ،وہ سامنے جو بندہ نظر ارہا ہے ،سفید ٹوپی والا ۔اس بے چارے نے تو بیٹھ کر ہی پل پار کرلیا۔لیکن اب ہم اتنے بھی ڈرپوک نہیں ،اسلئے ہم نے کھڑے ہوکر پل پر سے گذرنا پسند کیا۔

لیکن ایک دوسری مصیبت سامنے کھڑی تھی۔
اور وہ یہ کہ نہر کے کنارے سڑک سے کافی گہرائی پر تھے،غالب 20 ،25 فٹ۔اسلئے اول تو نہر کنارے اترنا تھا ،اسکے بعد پل صراط پر گذرنے کی کوشش۔

بڑی مشکل سے نہر کے کنارے اترا،سارے ہاتھ بھی گندے ہوگئے تھے۔لیکن دل میں ایک عزم تھا ،کہ جیسے بھی ہو ،بس باغ میں ضرور پہنچنا ہے۔

کہتے ہیں کہ کبھی کبھی بندہ کوئی کام کرے بھی،تو اسکے جاننے والے اسکی حوصلہ افزائی کے بجائے اسکو ڈراتے ہیں،جس کے سبب اس بندے کے حوصلے کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوجاتی ہے۔

یہی صورت حال میرے ساتھ پیش آئی۔ساتھی آوازیں دینے لگے ،کہ پل کو بیٹھ کر پار کرو،نہر میں گر جاؤ گے۔

لیکن میں نے ان کی باتوں کی طرف توجہ تک نہیں دی،بس اپنی نظروں میں پل کو دیکھا،تو دماغ نے مشورہ دیا کہ پل کو کھڑے ہوکر پار کرنا آسان ہے۔

تو جناب وہ دیکھتے رہے گئے اور ہم نے کھڑے ہو کر پل پار کرلیا۔
 
آخری تدوین:

منصور مکرم

محفلین
باغ میں پہنچے تو پہلے تو ہاتھ دھو لئے جو گندے ہوگئے تھے۔اور اسکے بعد کیمرہ نکالا۔

باغ میں جیسے ہی داخل ہوا تو ایک طرف دیکھا کہ ایک مزدور اپنے ساتھیوں کیلئے کھانا پکا رہا تھا۔

SAM_2389.JPG


دوسری طرف دیکھا تو بندے لگے ہوئے تھے اور آموں کو کریٹوں میں بند کرکے بازار سپلائی کیلئے تیار کر رہے تھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ باغ مالک کی نگرانی میں ہے یا اسکو سیزن کے ختم ہونے تک فروخت کیا گیا ہے،تو انہوں نے کہا کہ باغ کو اس ایک سیزن کیلئے دوسرے بندے نے خریدا ہے،اور وہی ہمیں یہاں کام پر لایا ہے۔

SAM_2396.JPG


SAM_2394.JPG


SAM_2393.JPG


ان لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑتے ہوئے ہم آگے بڑھے

SAM_2398.JPG


SAM_2391.JPG


SAM_2401.JPG


SAM_2392.JPG


SAM_2403.JPG


SAM_2404.JPG


SAM_2405.JPG


SAM_2416.JPG


SAM_2417.JPG


باغ کے اندر پانی پہنچانے کا بھی خوبصورت نظام تھا۔
SAM_2400.JPG


باغ کے آخری سرے کی طرف پہنچے تو دیکھا کہ سامنے دریائے سوات بہہ رہا ہے۔
SAM_2411.JPG


ایک طرف تو افغان مہاجرین کی کچی آبادیاں

SAM_2410.JPG


دریا کی طرف دوبارہ انکھ اٹھائی تو دیکھا کہ ایک بابا شائد گھر کا چولہ جلانے کیلئے کہیں سے ایندھن اکھٹا کرکے کمر پر لاد کر دریا کو پار کر رہا تھا۔
،اور بابا کے قریب ہی ایک خشک جگہ پر کوا بیٹھا تھا۔

SAM_2408.JPG
 

منصور مکرم

محفلین
منڈا بریج کے قریب پہنچے تو قریب ہی افغان مہاجرین کیلئے قائم منڈا کیمپ میں کچی آبادیاں ایک بار پھر ہمارے آس پاس
SAM_2423.JPG


SAM_2424.JPG


سامنے سینہ تھانے یوسف بابا کے پہاڑ،جو کبھی بادلوں میں چھپ جاتے اورکبھی رُخ زیبا دکھلا جاتے۔

SAM_2413.JPG


SAM_2412.JPG


دور ایک پہاڑی چوٹی پر قائم ایف سی کی چوکی۔

SAM_2418.JPG


قریب دوسری چوٹی پر بنے ایف سی کا لوگو،جس کو کیمرے کی انکھ شائد صحیح محفوظ نہ کرسکی۔

SAM_2422.JPG


لو جی ہم تو دریا کنارے پہنچ گئے

SAM_2421.JPG


ہیں یہ کیا ،تو گویا بابا جی اس دوران دریا کو پار کرکے اِس کنارے پہنچ گئے

SAM_2414.JPG


اور یہ رہا منڈا بریج،جس کے دوسرے سرے پر سڑک دائیں مڑ کر چارسدہ کی طرف جاتی ہے۔

SAM_2419.JPG


SAM_2420.JPG


کہا جاتا ہے کہ یہ علاقہ سمگلروں کیلئے جنت نظیر،کیونکہ اسی دریا سوات پر لوگ کشتیوں میں سمگلنگ کا سامان ڈال کر اِس پار بندوبستی علاقے کی طرف لاتے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ بعض اوقات نان کسٹم پید گاڑیاں بھی اسی پوائینٹ سے کشتیوں پر لاد کر بندوبستی علاقے پہنچائی جاتی ہیں۔

لیکن یار ایک بات تو بتاؤ ،

جی کیا بات !

پوچھنا یہ ہے کہ جب یہ پُل موجود ہے ،تو سمگلر اسکو کیوں استعمال نہیں کرتے؟

ارے بھولے بادشاہ ،

یہاں پر ایف سی نظر نہیں آرہی کیا؟
وہ کہاں سمگلروں کو چھوڑنے والے ہیں ۔اسی لئے ایف سی والوں سے انکھ بچا کر ڈائیرکٹ دریا پر سے سامان گزارا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
جزاک اللہ جزاک اللہ
شاندار تصاویر:)
کبھی سیر و سیاحت اور شکار کا بہت شوق ہوتا تھا
مگر مصروفیت نے سب شوق ختم کر دئے
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
شاد و آباد رہیں
 

ساقی۔

محفلین
بہت خوب ۔


گرمیوں میں محفلین حضرات کو شمالی علاقہ جات کی سیرو تفریخ کا پروگرام بنانا چاہیے۔اگر ایسا پروگرام بنے تو ہمیں بھی اطلاع دیجیے گا
 
Top