مناجاتِ بیوہ - حالی

رضوان

محفلین
(مولانا الطاف حسین حالی کی نظم “مناجاتِ بیوہ“ مکمل تو نہیں مل سکی مگر ٹکڑوں میں دستیاب ہوئی ہے اگر کوئی اور ساتھی اسے مکمل کرسکیں تو احسان مند رہوں گا: رضوان)
مناجاتِ بیوہ
یادگارِحالی از صالحہ عابد حسین سے اقتباس
مجھے ‘‘مناجاتِ بیوہ‘‘ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حالی باوجود مرد ہونے کے ایسا درد آشنا، حساس، اتنا نازک دل کہاں سے لائے جس نے کم سِن بدنصیب بیوہ عورتوں کے صحیح جزبات و احساسات کو اسطرح محسوس کیا جیسے یہ سب کچھ خود ان پر بیت چکا ہو۔ لیکن یہی تو اصل شاعر کا کمال ہے کہ ہر ایک کی بیتی خود اس پر گزرتی ہے اور تب ہی وہ ایسی زندہ جاوید چیز لکھ سکتا ہے جیسی ‘‘مناجاتِ بیوہ‘‘۔
اس نظم کا ہندوستان کی دس بارہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور سنسکرت میں بھی تجمہ کی جاچکی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ نظم ہر ایک زبان میں اتنی ہی مقبول ہوئی ہوگی جتنی اردو میں ہوئی۔ اس لیے کہ بیوہ عورت کی جو حالت اس میں دکھائی گئی ہے وہ ہندوستان کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور یہ درد ناک تصویر ہر جگہ کی بیوہ عورت کی حالت کا آئینہ ہے۔
اس نظم کی زبان اور بیان کی سادگی ایک معجزہ ہے اس کو پڑھ کر بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ آج سے ساٹھ برس پہلے حالی ہی نے ‘‘ ہندوستانی‘‘ زبان کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کی سادہ، سہل، دلنشین اور رواں زبان میں ہندی کے سینکڑوں شیریں لفظ بے تکلف لیکن نہایت برمحل استعمال ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ مہاتما گاندھی نے مولوی عبدالحق سے پوچھا تھا کہ اردو سیکھنے کے لیے میں کون سی کتاب پڑھوں تو مولوی عبدالحق نے ان سے کہا کہ حالی کی ‘مناجاتِ بیوہ ‘ کیوں کہ اگر بد قسمت ہندوستان کی کبھی کوئی مشترک زبان ہوئی تو وہی ہوگی جو اس نظم کی ہے۔ بے تعصّبی کے ساتھ نظم کو پڑھیں تو اس دعوے میں مبالغہ نہیں معلوم ہوگا۔
حالی نے اس نظم کے لیے انداز۔ بیان بھی وہ اختیار کیا ہے جس سے زیادہ موزوں اور موثر طرزِ بیان اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک سماج کی ٹھکرائی، مصیبت کی ماری، ستم زدہ بیوہ جس کی دنیا میں نہ کہیں داد ہے نہ فریاد سوا اپنے پالن ہار کے اور کس سے شکوہ کرسکتی ہے؟ کس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ سکتی ہے؟ وہ اسی سے اپنی درد ناک حالت بیان کرتی ہے، شکایت کرتی ہے اور دعا کرتی ہے۔ ایک ایک شعر معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا دل چیر کر نکلا ہے اور قاری کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے:
ای مرے زور اور قدرت والے
حِکمت اور حکومت والے
میں لونڈی تری دُکھیاری
دروازے کے تیرے بھکاری
موت کی خواہاں جان کی دشمن
جان پہ اپنی آپ اجیرن
سہہ کے بہت آزار چلی ہوں
دنیا سے بیزار چلی ہوں
دل پر میرے داغ ہیں جتنے
منھ میں بول نہیں ہیں اتنے
تجھ پر ہے روشن سب دکھ دل کا
تجھ سے حقیقت اپنی کہوں کیا؟
بیاہ کے دم پائی تھی نہ لینے
لینے کے یاں پڑ گئے دینے
خوشی میں بھی سکھ پاس نہ آیا
غم کے سوا کچھ راس نہ آیا
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہستی نے گل یہ کِھلائے
چین سے رہنے دیا نہ جی کو
کر دیا ملیا میٹ خوشی کو
رُو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور رُوؤں تو رُوؤں کہاں تک
ایک کا کچھ جینا نہیں ہوتا
ایک نہ ہنستا، بھلا، نہ روتا
دن ہیں بھیانک رات ڈراؤنی
یوں گزری یہ ساری جوانی
کوئی نہیں دل کا بہلاوہ
آ نہیں چکتا میرا بلاوہ
آٹھ پہر کا ہے یہ جَلاپا
کاٹوں گی کس طرح رنڈاپا
ان چند شعروں کو پڑھ کر پتھر دل بھی پگھل سکتا ہے:
سیلانی جب باغ میں آئے
پھول نہ تھے کھلنے ابھی پائے
پھول کھِلے جس وقت چمن میں
جا سوئے سیلانی بَن میں
پیت نہ تھی جب پایا پیتم
پیت ہوئی تو گنوایا پیتم
---------------------------
گھر برکھا اور پیا بدیسی
آئیو برکھا کہیں نہ ایسی
شرط سے پہلے بازی ہاری
بیاہ ہوا اور رہی کنواری
خیر سے ہے بچپن کا رنڈاپا
دور پڑا ہے ابھی بڑھاپا
عمر ہے منزل تک پہنچانی
کاٹنی ہے بھرپور جوانی
شکایت میں بھی عقیدت و احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے پاتا:
دین سے ترے اے مرے مولا
سب ہیں نہال ادنٰی و اعلٰے
سب کو ترے انعام تھے شامل
میں ہی نہ تھی انعام کے قابل
گر کچھ آتا بانٹ میں میری
سب کچھ تھا سرکار میں تیری
پہروں میں سوچتی ہوں یہ جی میں
آئی تھی کیوں میں اس نگری میں
آن کے آخر میں نے کیا کیا
مجھکو مِری قسمت نے کیا دیا
رہی اکیلی بھری سبھا میں
پیاسی رہی بہتی گنگا میں
آکے خوشی سی چیز نہ پائی
جیسی آئی ویسی نہ آئی
چین گر اپنی بانٹ میں آتا
کیوں تو عورت ذات بناتا
کیوں پڑتے ہم غیر کے پالے
کیوں ہوتے اوروں کے حوالے
دُکھ میں نہیں یاں کوئی کسی کا
باپ نہ ماں، بھائی نہ بھتیجا
سچ یہ کسی سائیں کی صدا تھی
سُکھ سمپت کا ہر کوئی ساتھی
ایک نوجوان عفیفہ بیوگی میں کس طرح اپنے فطری جزبات کو دباتی، نفس کو کچلتی اور جنسی خواہشات کو سُلاتی اور کس طرح پاک صاف زندگی گزارتی ہے؟ یہ ایک ایسا سخت مرحلہ ہے جس کو سمجھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔ جس پر بیتے وہ ہی جانے۔ مگر حالی اس مقام سے بھی بڑے کمال کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے ہیں:
میں نہیں آخر پاک بدی سے
بنی ہوں پانی اور مٹی سے
کان اور آنکھیں، ہاتھ اور بازو
جن جن پر تھا، یاں مجھے قابو
سب کو بدی سے میں نے بچایا
سب کو خودی سے میں نے ہٹایا
اُٹھتے بیٹھتے روکا سب کو
سوتے جاگتے ٹوکا سب کو
ہاتھ کو ہلنے دیا نہ بے جا
پاؤں کو چلنے دیا نہ ٹیڑھا
روک کے یوں اور تھام کے آپا
میں نے کاٹا اپنا رنڈاپا
لیکن دل کو کیا کرے جو بیوہ کا بھی اسی طرح محبت اور رفاقت کی طلب رکھتا ہے جس طرح کسی اور انسان کا:
ایک نہ سنبھلا میرا سنبھالا
تھا بےتاب جو اندر والا
حال کروں میں دل کا بیاں کیا؟
حال ہے دل کا تجھ سے نہاں کیا؟
دھوپ تھی تیز اور ریت تھی تپتی
مچھلی تھی ایک اس میں تڑپتی
جان نہ مچھلی کی تھی نکلتی
اور نہ سر سے دھوپ تھی ٹلتی
کتنی مکمل تشبیہ ہے، کس لطافت اور اشاریت کے ساتھ نوجوان بیوہ کی تڑپ طلب اور بے بسی کا مرقع کھینچ دیا ہے:
گو دم بھر اس دل کی لگی نے
ٹھنڈا پانی دیا نہ پینے
تو ہے مگر اس بات کا دانا
میں نے کہا دل کا نہیں مانا
اور پھر اپنے دردِ دل کا بیاں کرتے کرتے اپنی جیسی دوسری بہنوں کے خیال سے اس کا دل تڑپ اُٹھتا ہے:
اپنے لیے کچھ کہہ نہیں سکتی
پر یہ کہے بِن رہ نہیں سکتی
میں ہی اکیلی نہیں ہوں دُکھیا
پڑی ہے لاکھوں پر یہی بپتا
بالیاں اک اک ذات کی لاکھوں
بیاہیاں اک اک رات کی لاکھوں
ہوگئیں آخر اسی الم میں
کاٹ گئیں عمریں اسی غم میں
سینکڑوں بے چاری مظلومیں
بھولی، نادانیں، معصومیں
بیاہ سے انجان اور منگنی سے
بنے سے واقف اور نہ بنی سے
دو دو دن رہ رہ کے سہاگن
جنم جنم کو ہوئی بروگن
شرط سے پہلے بازی ہاری
بیاہ ہوا اور رہی کنواری
آئیں بِلکتی، گئیں سِسکتی
رہیں ترستی اور پھڑکتی
کوئی نہیں جو غور کرے اب
نبض پہ ان کی ہاتھ دھرے اب
چوٹ نہ جن کے جی کو لگی ہو
وہ کیا جانیں دل کی لگی کو
-------------------------------
بیوہ کو اپنی اس حالت سے پناہ صرف اس میں نظر آتی ہے کہ اپنی زندگی اور جوانی خدا کی محبت میں کھپا دے:
ریت کی سی دیوار ہے دنیا
اوچھے کا سا پیار ہے دنیا
ساتھ سہاگ اور سوگ ہے یاں کا
ناؤ کا سا سنجوگ ہے یاں کا
ہار کبھی اور جیت کبھی ہے
اس نگری کی ریت یہی ہے
تیرے سوا یاں اے مرے مولا
کوئی رہا ہے اور نہ رہے گا
چاہتی ہوں اک تیری محبت
اور نہیں رکھتی کوئی حاجت
گھونٹ اک ایسا مجھ کو پِلا دے
تیرے سِوا جو سب کو بھُلا دے
کوئی جگہ اس دل میں نہ پائے
یاد کوئی بھولے سے نہ آئے
دل میں لگن بس اپنی لگادے
سارے غم اپنے غم میں کھپادے
 
Top