ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

فاروقی

معطل
ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
رہے نہ اپنی خبر تو سمجھوں غزل ہوئی

ملا کے نظروں کو والہانہ حیا سے پھر
جھکالے کوئی نظر تو سمجھو غزل ہوئی

اِدھر مچل کر انہیں پکارے جنوں میرا
دھڑک اٹھے دل اُدھر تو سمجھو غزل ہوئی

اداس بستر کی سلوٹیں جب تمہیں چبھیں
نہ سو سکو رات بھر تو سمجھو غزل ہوئی

وہ بدگماں ہوں تو شعر سُوجھے نہ شاعری
وہ مہرباں ہوں ظفر تو سمجھو غزل ہوئی​
 
Top