ملالہ کا ملال اور قوم کی دھمال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

Muhammad Qader Ali

محفلین
بالکل میں اس کو اور ڈارون کو بہت ساری باتوں کی وجہ سے اپنا آئیڈیل مانتا ہوں کسی کو کوئی تکلیف ہے اس سے ؟
ہمیں کیسے تکلیف ہوسکتی ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کام اچھی طرح نبھایا
اور ابلس بھی اپنے یاروں کو قیامت تک اس کے قوانین کی دعوت دیگا۔
ہر فرد آزاد ہے اللہ پاک نے موت اور ذندگی اسی لیے پیدا کی ہے کہ کون شخص کیسے جیتا ہے اور کیسے مرتا ہے
بہت شکریہ
آپ نے سب کے سامنے کلئیر کیا۔ کم از کم ان جیسے تو نہیں ہیں جو کرتے کچھ ہیں کہتے کچھ ہیں۔
اس سچ کی وجہ سے میں آپکی عزت کرنے لگا ہوں۔ اور اللہ پاک آپ کو اور عزت دے اور اپنے ھدایت میں واپس پھیرے۔
آمین۔
 
یہ تصویر پاکستانی نے اسٹالن ڈکٹیٹر کی لگائی ہے جو سوویت یونین کا تھا ڈارون اور اسٹالن دونوں تقریبا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں
ان دونوں نے وائٹ پیوپل کو گریٹ ہومن قرار دیا تھا۔
ہا ہا ہا
اسٹالن سے یاد آیا ابھی تھوڑے دن پہلے ایک فلم دیکھی جسکا نام تھا Enemy at the Gates اس میں روس کے شہر اسٹالن گراڈ کے جرمن محاصرے کے دوران ایک رشئین اور ایک جرمن سنائپر کی کہانی ہے۔ بڑی زبردست فلم ہے اور اسکا ہمارے اس دھاگے اور اس موضوع سے بھی بڑا قریب کا تعلق بنتا ہے۔ :)
 

عسکری

معطل
اسٹالن سے یاد آیا ابھی تھوڑے دن پہلے ایک فلم دیکھی جسکا نام تھا Enemy at the Gates اس میں روس کے شہر اسٹالن گراڈ کے جرمن محاصرے کے دوران ایک رشئین اور ایک جرمن سنائپر کی کہانی ہے۔ بڑی زبردست فلم ہے اور اسکا ہمارے اس دھاگے اور اس موضوع سے بھی بڑا قریب کا تعلق بنتا ہے۔ :)
میں فلمیں نہیں دیکھتا بھائی جی ورنہ دیکھتا بیٹھ کر ۔ ہماری اپنی لائف ایک فلم ہے باہر کی فلموں کی ضرورت نہیں
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
اسٹالن سے یاد آیا ابھی تھوڑے دن پہلے ایک فلم دیکھی جسکا نام تھا Enemy at the Gates اس میں روس کے شہر اسٹالن گراڈ کے جرمن محاصرے کے دوران ایک رشئین اور ایک جرمن سنائپر کی کہانی ہے۔ بڑی زبردست فلم ہے اور اسکا ہمارے اس دھاگے اور اس موضوع سے بھی بڑا قریب کا تعلق بنتا ہے۔ :)
یہ فلمیں بھی انکی مرضی کی ہوتی ہونگی،
جیسے آج کل کی میڈیا،
جیسے شادی سیف علی خان کررہا ہے اور پاکستانی میڈیا کے کیڑے اچھل رہے ہیں۔
اللہ جانے کب تک سیف علی کی شادی کو بار بار گھماپھرا کر دکھائنگے۔
 
ماضی شکی۔۔۔
وہ ماضی جس سے گزشتہ زمانے میں کسی فعل کے صادر ہونے کا احتمال یا شک پایا جائے، جیسے: وہ آیا ہو گا۔

ماضی تمنائی۔۔۔۔
وہ ماضی جس کے اظہار میں تمنا کا کلمہ ہو، جیسے کاش وہ آتا۔

ماضی استمراری۔۔۔۔
وہ ماضی جس سے زمانہ گزشتہ میں فعل کا تواتر پایا جائے؛ جیسے: وہ آتا تھا۔

ماضی احتمالی۔۔۔۔
وہ ماضی جس سے گزشتہ زمانے میں کسی فعل کے صادر ہونے کا احتمال یا شک پایا جائے، جیسے: وہ آیا ہو گا۔
 

سعود الحسن

محفلین
ایک ملالہ ہی کیوں ؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

  • ملالہ ہمت اور جذبے کی علامت بن چکی ہیں
یہ بات درست ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں کو ڈرون حملوں میں اپاہج اور ہلاک ہونے والے سینکڑوں بچے یاد نہیں اور میڈیا کو صرف ملالہ سے مطلب ہے۔ اس کے ساتھ زخمی ہونے والی شازیہ اور کائنات کے بارے میں کوئی فکر اور ذکر نہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے مغرب نے گذشتہ پانچ سو برس سے ایک انیس سالہ ان پڑھ فرانسیسی دہقانی لڑکی جون آف آرک کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ حالانکہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ میں لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے مرے۔ ہزاروں عورتوں کو جون کی طرح مشرک ہونے کے جرم میں پادریوں نے چوکوں میں نصب چوبی کھمبوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا۔

لیکن پاپائے روم نے ان میں سے کسی کو جون کی طرح ولی کا درجہ نہیں دیا اور شیکسپئیر، والٹیئر، بریخت، برنارڈ شا نے بھی اپنے ڈراموں کا کردار بنایا تو صرف جون کو۔

کیسا ظلم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کی مزاحمت کرنے والے فرانسیسی حریت پسندوں کو اپنا مزاحمتی سمبل بھی پانچ سو سال پرانی جون آف آرک میں ہی دکھائی دیا۔حالانکہ جون آف آرک کے ساڑھے تین سو برس بعد انقلابِ فرانس کو ممکن بنانے میں لاتعداد لوگوں نے لہو دیا۔ مگر مجال ہے جو کسی نام نہاد فرانسیسی لبرل یا مذہبی قدامت پسند یا بائیں بازو کے دانشور یا دائیں بازو کے کسی نسل پرست نے اس نا انصافی پر کبھی احتجاج کیا ہو۔ سب کے سب آج تک جون آف آرک کی مالا جپ رہے ہیں۔توبہ توبہ توبہ۔۔۔

اور اقبال کو دیکھو۔کم از کم انہیں تو معلوم ہی تھا کہ تیرہ سو سالہ مسلمان تاریخ میں ایسی سینکڑوں بچیاں اور خواتین گزریں جنہوں نے غزوات سے لے کر صلیبی جنگوں تک اور مراکش سے ہندوستان تک مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ دشمنوں سے لڑائی کی، اگلے مورچوں تک اسلحہ اور خوراک پہنچائی، زخمیوں کا خیال رکھا۔ مگر صد افسوس کہ اقبال کو بس انیس سو گیارہ میں طرابلس ( لیبیا) کے محاذ پر اطالویوں اور ترکوں کی جنگ میں زخمی غازیوں کو مشکیزے سے پانی پلانے والی ایک گیارہ سالہ بچی فاطمہ بنتِ عبداللہ ہی یاد رہ گئی ۔
نا ملالہ کا کوئی بھلا ہے نا عافیہ کا۔۔۔

تاریخ ایک مسلسل گیت ہے جسے ایک سے ایک سریلا میسر ہے۔ مگر ایک خاص فضا اور موقع پر ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک کا سر ایسے لگ جاتا ہے کہ چھت پھٹ جاتی ہے، شیشہ تڑخ جاتا ہے یا بارش ہوجاتی ہے۔ یوں وہ سریلا اور سر اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔

ورنہ تو یہ بحث کبھی ختم ہی نہ ہو کہ ملالہ کے ساتھ دیگر سینکڑوں ہزاروں زخمی بچے کیوں یاد نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح کہ جنہیں صرف عافیہ یاد ہے انہیں امریکیوں کے ہاتھوں عقوبت خانوں میں رسوا ہونے والی سینکڑوں عراقی اور افغان عورتیں اور پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر عریاں گھمائی جانے والی لڑکیوں اور قبائلی علاقوں میں سر قلم ہونے والی ادھیڑ اور بوڑھی عورتوں کے نام کیوں یاد نہیں ؟؟؟ ایسی بحث میں نا ملالہ کا کوئی بھلا ہے نا عافیہ کا۔۔۔
فاطمہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے، زرہ زرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے۔

اور یہ تئیس سال کا لونڈا بھگت سنگھ کون ہے ؟ ایک بگڑا ہوا ملحد مارکسی انارکسٹ جس کے ہاتھ ایک انگریز پولیس افسر کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ جس نے لیجسلیٹو اسمبلی میں بم پھینکا پھر بھی ہندوستان اور پاکستان میں کروڑوں گمراہ اسے آزادی کا ہیرو سمجھتے ہیں۔

حیرت ہے کہ جناح صاحب کو اٹھارہ سو ستاون میں پھانسی پانے والے ہزاروں ہندوستانیوں میں سے کوئی یاد نہیں رہا۔ وہ بھی انیس سو اکتیس میں جذبات کی رو میں بہہ گئے اور جیل میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی بھوک ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ بھگت سنگھ کو بھلے آپ کچھ بھی سمجھیں لیکن وہ اپنے مقصد کی سچائی پر یقین رکھتا ہے اور اس جابرانہ نظام سے تنگ لوگوں کی بیزاری کا نمائندہ ہے۔

اور نہرو کو تو دیکھو جسے انگریزوں کے خلاف نہ منگل پانڈے کا کلمہ ِ بغاوت یاد آیا اور نہ رانی جھانسی کی بہادرانہ شہادت۔ اگر یاد رہا تو بھگت سنگھ جسے نہرو نے کھلے میدان میں دشمن کو للکارنے والا جری قرار دیا۔

ٹھیک ہے مان لیا بھگت سنگھ بڑا ہیرو تھا مگر اس کے ساتھ پھانسی چڑھنے والوں میں راج گرو اور سکھ دیو بھی تو تھے۔ ان کا ذکر کوئی بھگت سنگھ کی طرح کیوں نہیں کرتا۔ ان پر کسی نے کیوں ڈرامے نہیں لکھے، گیت نہیں کہے، فلمیں نہیں بنائیں، یادگاری ٹکٹ اور سکے جاری نہیں کیے۔

اور تو اور بھارتی پارلیمنٹ کے صحن میں بھی بھگت سنگھ کا ہی اٹھارہ فٹ اونچا تانبے کا مجسمہ لگایا گیا۔ کوئی پوچھے کہ راج گرو اور سکھ دیو کا کیا قصور ؟ چلیں بھارتیوں کی مرضی جو چاہے کریں مگر غضب خدا کا یہ پنجاب حکومت کو کیا ہوا کہ اس نے بھگت سنگھ کی پھانسی کے اسی برس بعد لاہور کے شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک کردیا۔ کیا اسے تقسیم کے وقت شہید ہونے والے لاکھوں لوگوں میں سے کوئی نام یاد نہیں آیا۔ بے حسی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوگی۔

ملالہ یوسف زئي کی صحت یابی کے لیے دنیا بھر میں دعائیں ہوئی ہیں

اور لو تازہ ترین ظلم دیکھو۔ مشرقِ وسطی میں شاہی، فوجی اور سیاسی استبداد کے خلاف گذشتہ سو برس میں ہزاروں لوگ جدوجہد کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ لیکن آج کروڑوں بے وقوف سمجھتے ہیں کہ وہ عرب سپرنگ جس نے گذشتہ دو برس میں الجزائر سے بحرین تک ہر آمر کو ہلا دیا۔ تیونس، مصر، لیبیا اور یمن میں حکومتیں الٹ دیں اور لاکھوں شامیوں کو موت کے منہ پر تھوکنے کا حوصلہ بخشا اس کی ابتدا تیونس کے ایک چھبیس سالہ سبزی فروش محمد بوعزیزی کی خود سوزی سے اٹھنے والی چنگاری سے ہوئی۔ اس سبزی فروش کے لیے تیونس کی نئی حکومت نے ڈاک ٹکٹ جاری کیا اور برطانوی اخبار ٹائمز نے اسے دو ہزار دس کا مین آف دی ایئر قرار دے ڈالا۔

ایسا کیوں ہے کہ سات ہزار برس کی تاریخ لاکھوں قربانیاں دینے والوں اور ایک سے ایک ذہینوں سے بھری پڑی ہے لیکن ان لاکھوں میں سے صرف سقراط، جون آف آرک، شیکسپئیر، لیونارڈو ڈا ونچی، فاطمہ بنتِ عبداللہ، آئن سٹائن، بھگت سنگھ، چی گویرا، مارٹن لوتھر کنگ، محمد بو عزیزی جیسے پانچ چھ سو لوگ ہی ہمیں یاد آتے رہتے ہیں؟

بات شاید یہ ہے کہ تاریخ ایک مسلسل گیت ہے جسے ایک سے ایک سریلا میسر ہے۔ مگر ایک خاص فضا اور موقع پر ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک کا سر ایسے لگ جاتا ہے کہ چھت پھٹ جاتی ہے، شیشہ تڑخ جاتا ہے یا بارش ہوجاتی ہے۔ یوں وہ سریلا اور سر اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔

ورنہ تو یہ بحث کبھی ختم ہی نہ ہو کہ ملالہ کے ساتھ دیگر سینکڑوں ہزاروں زخمی بچے کیوں یاد نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح کہ جنہیں صرف عافیہ یاد ہے انہیں امریکیوں کے ہاتھوں عقوبت خانوں میں رسوا ہونے والی سینکڑوں عراقی اور افغان عورتیں اور پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر عریاں گھمائی جانے والی لڑکیوں اور قبائلی علاقوں میں سر قلم ہونے والی ادھیڑ اور بوڑھی عورتوں کے نام کیوں یاد نہیں ؟؟؟ ایسی بحث میں نا ملالہ کا کوئی بھلا ہے نا عافیہ کا۔۔۔

اکثر ہماری آنکھیں تعصب کے موتیے سے دھندلا جاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ منظر دھندلا ہے۔ اگر موتیا صاف کروا کے چشمے کا نمبر بدل لیا جائے تو مسئلہ با آسانی حل ہو سکتا ہے۔
 

نگار ف

محفلین
بہت سارے کام بے مقصد بھی کیے جاتے ہیں:D
ہر کوئی آذادی رائے کا جب قائل ہے تو میرا اقتباس کیوں آخر کیوں حزف کیا گیا؟؟؟؟؟؟؟ میں نے تو صرف کل کی وہ خبر پیش کی تھی جس میں پاراچنار سے تعلق رکھنے والی دو لڈکیوں کا ذکر تھا جو ایم -اے کے پیپر دینے پیشاور جارہی تھی جن پر درندوں نے تیزاب پھینکا-------
یہ خبر اک آدھ چینل کے جنہوں نے انٹرٹینمنٹ نیوز کے بعد نشر کی، کے علاوہ کہیں نشر نہ ہوئی، اسلیے کہ ان کو امریکی حمایت حاصل نہ تھی؟؟
یا اسلیئے کہ کسی مغربی نشریاتی ادارے کو ڈائری نہیں لکھی؟؟؟؟
یا شاید اسلیے کہ یہ لڑکیاں ملک توڑنے کی سازش کر رہی تھیں؟؟؟
مدیر اعلیٰ صاحب برائے مہربانی وضاحت کریں۔۔۔۔۔۔۔
آخر کیوں حزف ہوا میرا پیغام؟؟؟؟ کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

سعود الحسن

محفلین
story1.gif


امت اخبار کی ویب سائیٹ پر اس سٹوری کا لنک مندرجہ زیل ہے۔ ذرا اس میں دی گئی تینوں تصاویر کا موازنہ کریں۔

http://ummatpublication.com/2012/10/15/page-3.php

لونگ شاٹ میں والدہ بیٹھی نظر نہیں آتیں، نہ ہی دایئں طرف کو دروازہ یا گارڈ کھڑے ہیں جو کلوزاپ میں نظر آتے ہیں ۔
 
امت اخبار کی ویب سائیٹ پر اس سٹوری کا لنک مندرجہ زیل ہے۔ ذرا اس میں دی گئی تینوں تصاویر کا موازنہ کریں۔

http://ummatpublication.com/2012/10/15/page-3.php

لونگ شاٹ میں والدہ بیٹھی نظر نہیں آتیں، نہ ہی دایئں طرف کو دروازہ یا گارڈ کھڑے ہیں جو کلوزاپ میں نظر آتے ہیں ۔
ویسے اس ے کہیں زیادہ نیچرل تصاویر میں بنا سکتا ہوں۔
امت کو میری خدمات لینی چاہیے تھیں۔۔۔:D
 

سید ذیشان

محفلین
امت اخبار کی ویب سائیٹ پر اس سٹوری کا لنک مندرجہ زیل ہے۔ ذرا اس میں دی گئی تینوں تصاویر کا موازنہ کریں۔

http://ummatpublication.com/2012/10/15/page-3.php

لونگ شاٹ میں والدہ بیٹھی نظر نہیں آتیں، نہ ہی دایئں طرف کو دروازہ یا گارڈ کھڑے ہیں جو کلوزاپ میں نظر آتے ہیں ۔
ملالہ کی والدہ پردہ دار خاتون ہیں۔ پوری ڈاکیومینٹری میں ان کو نہیں دکھایا گیا۔ وہ ہالبروک کیساتھ کیسے بیٹھی ہوں گی۔ یہ کوئی اور خاتون ہے۔
 
اسٹالن سے یاد آیا ابھی تھوڑے دن پہلے ایک فلم دیکھی جسکا نام تھا Enemy at the Gates اس میں روس کے شہر اسٹالن گراڈ کے جرمن محاصرے کے دوران ایک رشئین اور ایک جرمن سنائپر کی کہانی ہے۔ بڑی زبردست فلم ہے اور اسکا ہمارے اس دھاگے اور اس موضوع سے بھی بڑا قریب کا تعلق بنتا ہے۔ :)
میں نے بھی دیکھی ہے بہت عمدہ ہے۔
 

ساجد

محفلین
ہر کوئی آذادی رائے کا جب قائل ہے تو میرا اقتباس کیوں آخر کیوں حزف کیا گیا؟؟؟؟؟؟؟ میں نے تو صرف کل کی وہ خبر پیش کی تھی جس میں پاراچنار سے تعلق رکھنے والی دو لڈکیوں کا ذکر تھا جو ایم -اے کے پیپر دینے پیشاور جارہی تھی جن پر درندوں نے تیزاب پھینکا-------
یہ خبر اک آدھ چینل کے جنہوں نے انٹرٹینمنٹ نیوز کے بعد نشر کی، کے علاوہ کہیں نشر نہ ہوئی، اسلیے کہ ان کو امریکی حمایت حاصل نہ تھی؟؟
یا اسلیئے کہ کسی مغربی نشریاتی ادارے کو ڈائری نہیں لکھی؟؟؟؟
یا شاید اسلیے کہ یہ لڑکیاں ملک توڑنے کی سازش کر رہی تھیں؟؟؟
مدیر اعلیٰ صاحب برائے مہربانی وضاحت کریں۔۔۔ ۔۔۔ ۔
آخر کیوں حزف ہوا میرا پیغام؟؟؟؟ کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جی بالکل آزادی رائے کے اظہار کی بابت میں آپ سے متفق ہوں اور آپ کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اپنے اقتباس کو ایک الگ دھاگے کی شکل میں شروع کیجئے یہ دھاگہ اس کے لئے مناسب نہیں۔
جو سوالات آپ نے آخر میں اٹھائے ہیں بہت سے اراکین انہی سوالوں کے جوابات کے منتظر ہیں۔
 

ساجد

محفلین
کوئی بتائے گا کہ میرے پیغام کو حزف کرنے کا مقصد کیا ہے؟؟؟؟
کیا یہیں سے معلوم نہیں ہوتا کہ دوھرا معیار ہر جگہ موجود ہے؟؟؟؟
استدعا ہے کہ شکایت کے بعد تھوڑا صبر و تحمل سے کام لیا کیجیئے تا وقتیکہ اس کا جواب نہ آ جائے ”دہرے معیار“ کی فوری فتوی بازی مناسب نہیں ہوتی۔
 

ساجد

محفلین
مولویوں اور علماء کی بات نہیں ہورہی۔ پرملال ملا اور ملاٹوں کے بڑے بڑے ملال کیا ہیں کہ ملالہ منہہ نہیں ڈھکتی۔ ملالہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ملالہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے۔یہ ہیں ملاٹوں کے نزدیک ملالہ کے بڑے بڑے جرائم۔ یہاں میرا ایک 2007 کا آرٹیکل ہے جس میں ، میں نے یہ بتایا تھا کہ "ملاٹے ، لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف " ہیں۔ سب شور مچانے لگے تھے کہ کیا کہہ رہے ہو بھئی ۔۔ عجب کہہ رہے ہو بھئی۔۔۔ آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھائی لوگ اپنے گھروں میں سو رہے ہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ ملا کیا چال چل گیا۔

کیا آج بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ "غلاموں کی سرزمین، بزدلوں کا ملک" ۔۔۔ ۔ کونسا ہے؟

وہ بزدل جو ایک 14 سالہ لڑکی سے عالمی و آفاقی شکست کھا گئے؟؟؟؟ کون ہیں؟؟؟

کل محمد بن قاسم 2000 میل سے ایک عورت کی دہائی سن کر آیا تھا۔
آج "بزدلوں کے ملک، غلاموں کی سرزمین " سے کوئی بھی نہیں اٹھا اس معصوم لڑکی ، ایک معصوم بچے پر کی دہائی پر ۔۔۔

اٹھنا تو درکنا ر ۔ ملاٹے ، زبان سے بھی ظالموں کو برا نہیں کہہ رہے کہ کہیں طالبان ظالمان کا رخ ان "بزدلوں اور غلاموں " کی طرف نا ہوجائے۔
فاروق سرور خاں صاحب ، آپ محفل کے پرانے رُکن ہیں اور آپ سے اس قسم کے بچگانہ و جذباتی مراسلے کی ہرگز توقع نہ تھی۔ تنقید کرنے کے کچھ اخلاقی آداب ہوتے ہیں اور آپ نے ان کا قطعی خیال نہیں رکھا۔ کسی اختلافی معاملے پر پوری قوم یا ملک پر تنقید آپ نہیں کر سکتے اور یہ اردو محفل کے قواعد کے بھی خلاف ہے کہ آپ گروہی منافرت کو ہوا دیں۔
آپ غلط بیانی سے کام نہ لیں۔ جبکہ آپ کو امریکہ میں رہتے پتہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے تو خوامخواہ کی ڈس انفارمیشن کیوں پھیلا رہے ہیں؟۔ کراچی سے خیبر تک ملک کے کونے کونے میں ملالہ کے لئے دعائیں جاری ہیں۔ کوئی سڑک اس کی تصویروں کے پوسٹرز سے خالی نہیں۔ اس کے لئے شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔ تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔ اور آپ کمال تجاہلِ عارفانہ سے فرما رہے ہیں کہ اس کے حق میں کوئی نہیں اٹھا۔ اور اسی بنیاد پر پوری پاکستانی قوم کو مطعون کر رہے ہیں۔
آپ کے محبوب امریکہ پر بھی یہاں تنقید ہوتی ہے لیکن کوئی رکن جب امریکی حکومت کی پالیسیوں کے ضمن میں امریکی قوم کو غلط کہنے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً سے پہلے میری یا انتظامیہ کی طرف سے اس رکن کی تصحیح کر دی جاتی ہے کہ چند لوگوں کی غلطی پر پوری امریکی قوم کو برا نہیں کہا جا سکتا۔ آئندہ سے کسی بھی قوم کے بارے میں اس قسم کے الفاظ و القاب سے آپ کی تخاطبت بغیر اطلاع کے حذف کی جا سکتی ہے ۔ اس مراسلے کو تنبیہ سمجھیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


سابق سفير رچرڈ ہالبروک کی ملالہ کے ساتھ ملاقات کی جس تصوير کو لے کر انھيں امريکی ايجنٹ ثابت کرنے کا تاثر ديا جا رہا ہے اس کے بارے ميں تو صرف يہی کہا جا سکتا ہے کہ "جھوٹ کے پاؤں نہيں ہوتے"۔

سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ رچرڈ ہالبروک امريکی فوج کے کوئ عہديدار نہيں تھے۔ وہ امريکہ اور افغانستان کے خصوصی سياسی ايلچی کی حيثيت سے اپنی سفارتی ذمہ دارياں ادا کر رہے تھے۔ دوسری بات يہ ہے کہ اس ملاقات سے قبل ہی ملالہ دنيا بھر ميں اپنی بے مثال جرات، اپنے حقوق اور حصول تعليم کے ليے مصمم ارادے کے سبب توجہ کا مرکز بن چکی تھيں۔ جنوری 2010 ميں امريکہ کے خصوصی ايلچی رچرڈ ہالبروک نے سوات کے دورے کے دوران ملالہ سے ملاقات کی تھی۔ اس تشہير شدہ ملاقات کا انعقاد پاکستان ميں ہی ہوا تھا۔ اور يہ امريکی حکومت کا ملالہ کے ساتھ پہلا رابطہ تھا۔ ہالبروک نے اس ملاقات کے دوران ملالہ کو اس امر کی يقين دہانی کروائ تھی کہ امريکہ سوات ميں پائيدار امن کا متمنی ہے اور اس ضمن ميں ان کی حکومت سوات ميں تعمير نو کی مد ميں 175 ملين ڈالرز کی خطير رقم بھی فراہم کرے گی۔

يہ انتہائ افسوس کا مقام ہے کہ بعض را‎ئے دہندگان اس ملاقات کو بہانہ بنا کر ايک ايسے موقع پر اس بچی کی کردار کشی کر رہے ہيں جب وہ ايک دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بننے کے بعد زندگی اور موت کی کشمکش ميں مبتلا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فاروق سرور خاں صاحب ، آپ محفل کے پرانے رُکن ہیں اور آپ سے اس قسم کے بچگانہ و جذباتی مراسلے کی ہرگز توقع نہ تھی۔ تنقید کرنے کے کچھ اخلاقی آداب ہوتے ہیں اور آپ نے ان کا قطعی خیال نہیں رکھا۔ کسی اختلافی معاملے پر پوری قوم یا ملک پر تنقید آپ نہیں کر سکتے اور یہ اردو محفل کے قواعد کے بھی خلاف ہے کہ آپ گروہی منافرت کو ہوا دیں۔
آپ غلط بیانی سے کام نہ لیں۔ جبکہ آپ کو امریکہ میں رہتے پتہ ہی نہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے تو خوامخواہ کی ڈس انفارمیشن کیوں پھیلا رہے ہیں؟۔ کراچی سے خیبر تک ملک کے کونے کونے میں ملالہ کے لئے دعائیں جاری ہیں۔ کوئی سڑک اس کی تصویروں کے پوسٹرز سے خالی نہیں۔ اس کے لئے شمعیں روشن کی جا رہی ہیں۔ تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔ اور آپ کمال تجاہلِ عارفانہ سے فرما رہے ہیں کہ اس کے حق میں کوئی نہیں اٹھا۔ اور اسی بنیاد پر پوری پاکستانی قوم کو مطعون کر رہے ہیں۔
آپ کے محبوب امریکہ پر بھی یہاں تنقید ہوتی ہے لیکن کوئی رکن جب امریکی حکومت کی پالیسیوں کے ضمن میں امریکی قوم کو غلط کہنے کی کوشش کرتا ہے تو فوراً سے پہلے میری یا انتظامیہ کی طرف سے اس رکن کی تصحیح کر دی جاتی ہے کہ چند لوگوں کی غلطی پر پوری امریکی قوم کو برا نہیں کہا جا سکتا۔ آئندہ سے کسی بھی قوم کے بارے میں اس قسم کے الفاظ و القاب سے آپ کی تخاطبت بغیر اطلاع کے حذف کی جا سکتی ہے ۔ اس مراسلے کو تنبیہ سمجھیں۔

ساجد میرے مراسلات ، سب کے لئے ہوتے ہیں ۔ لیکن آپ نے مجھے خاص طور سے مخاطب کیا ہے۔ جبکہ میرے کسی مراسلے میں بھی آپ کے لئے کوئی ذاتی بات نہیں ہے۔ ساجد جب آپ اپنے خیالات کا اظہار یہاں کرتے ہیں تو ایک عام محفلین کی شکل میں کرتے ہیں۔ لیکن جب بات آپ س کے ذاتی مؤقف کے خلاف ہوتی ہے تو آپ فوراً ناظم بن جاتے ہیں ، مجھے ایک عام بحث کے دھاگے میں اپنے ذاتی مؤقف کی حمایت میں مجھے سنگل آؤٹ کرنے پر، آپ کی نا شائستہ حرکت پر سخت اعتراض اور احتجاج ہے۔

آپ کو مشورہ ہے کہ آپ پہلے نظامت چھورئے پھر بحث میں حصہ لیجئے۔ تاکہ آپ کا پلڑا اور باقیوں کا پلڑا برابر رہے۔ یہ کوئی بات نہیں کہ آپ ناظم بن کر اپنا مؤقف پھیلانے کے لئے دہلانے کاراستہ استعمال کریں؟

طالبان ظالمان کا " اختلاف کی سزا موت" کا راستہ

جھوٹے پراپیگنڈے کی راہ آپ نے چنی اور ملالہ کے خلاف آپ نے بہت کچھ لکھا۔ آپ کو کون تنبیہہ کرے گا؟ اگر تنبیہ جاری کرنی ہے تو بھائی اپنے آپ کو جاری کیجئے جو ایک معصوم لڑکی کے سر میں گولی مارنے والوں کے حق میں ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top