ملالہ تم کہاں ہو؟کشمیریوں پر بھارتی مظالم پہ خاموش کیوں؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسمن

لائبریرین
ملالہ تم کہاں ہو؟کشمیر یوں پر بھارتی مظالم پہ خاموش کیوں!
16 اگست, 2019
کاشف مرزا-کنکریاں
کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جسکی وجہ سے دوایٹمی طاقتیں ہمہ وقت آمنے سامنے رہتی ہیں اوردنیا کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کا سامنا کرسکتی ہے ۔ایک چھوٹی سی غلطی لاکھوں ، کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کی سانس روک سکتی ہے۔انڈیا کی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو دی جانے والی نیم خودمختاری کی حیثیت اور خصوصی درجے کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے وادی مسلسل پوری دنیا سے کٹی ہوئی ہے۔ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کی اور بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے جموں و کشمیر میں تمام اسکول ، کالج ، یونیورسٹیاں،ہیلتھ سروسز،خوراک کی فراہمی، موبائل خدمات اور انٹرنیٹ بند کرنے کے پندرہ دن کے بعد ،یہ مجھنا مشکل بن گیا ہے کہ کشمیری ریاست کی اپنی خصوصی آئینی حیثیت کھونے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔وادی کا بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں،کشمیریوں کو اشیائے خورنوش کی قلت کا سامنا ہے اور بیماروں کو ادویات کی فراہمی منقطع ہو چکی ہے،اور پوری وادی انڈین سکیورٹی فورسز کے زبردست حفاظتی حصار میں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر مقبوضہ عراق یا مقبوضہ فلسطین کی طرح نظر آرہا تھا ، صورتحال بالکل سنگین ہے۔ کشمیر فوجی محاصرے میں ہے ، ہر گلی ، گھرو محلوں کے باہر نیم فوجی دستے موجود ہیں۔ کسی کے بولنے کی کوئی گنجائش نہیں ، نہ ہی پر امن احتجاج کی گنجائش ہے۔ عید والے دن ویران تھا،کوئی بھی یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی تہوار کے لباس میں نہیں تھے۔انہیں دیہی علاقوں میں اپنی نماز ادا کرنے مسجد جانے کی اجازت نہیں تھی۔اذان کی اجازت نہیں تھی لہذا انہیں صرف گھر میں ہی نماز پڑھنا پڑا۔ ظالم بھارتی فورسز گزشتہ چند روز کے دوران22کشمیری نوجوان شہید کر چکے ہیں، ہزاروں گرفتار کیے گئے ہیں ۔ وادی کشمیر میں ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو فیصلے سے خوش ہو۔ بھارتی فورسز نے کشمیریوں کو انسانی حقوق کی پامالی ، ماورے عدالتی قتل اور لاک ڈاؤن کا نشانہ بنایاہوا ہے۔

نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت نے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کے دو دن بعد ، نوبل امن انعام یافتہ اور انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار ملالہ نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے ٹویٹر پر ایک بے جان سی اپیل کی ، لیکن اسکے بعدانڈین عوام کے شدید ردعمل اور انڈین آرمی کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر معنی خیز خاموشی برقرار رکھی گئی ۔اور یوں کشمیر پر ملالہ کی سرگرمی محض ایک ٹوئٹ کے ساتھ ختم ہوگئی ہے ،22 سالہ ملالہ جو لڑکیوں کی تعلیم کے حقوق کی سرگرم کارکن ہونے کی دعویدار بھی ہے ، نے جموں وکشمیر میں خوف اور شکوک میں بذریعہ ٹوئٹ جو بے جان سی التجا کی اسکے الفاظ یہ ہیں۔ "جنوبی ایشیا میرا گھر ہے ، ایک ایسا گھر جس میں میں 1.8 بلین افراد کی نمائندہ ہوں۔”اور کہاکہ کشمیری عوام میرے بچپن سے تنازعات کا شکار رہا ہے ، جب میرا دادا جوان تھا۔” یقیناً ملالہ اپنے آقا انڈیا سے ملنے والی شٹ اپ کال کے بعدابوہ کشمیری لڑکیوں کی تعلیم کیلیےاقوام عالم اور مودی حکومت سے جدوجہد کرنے پر زور دینے کی جرأت نہیں کر سکے گی۔

ملالہ نے ایک بار دوبارہ ثابت کر دیا ہے کہ اسکا نام نہاد نعرہ تعلیم صرف دنیا کو دیکھنے کے لیے ہے، نہ کہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے لئے! چند ماہ قبل بھی ملالہ اور اسکے باپ کاسوات میں ذاتی نجی اسکول، خوشحال پبلک اسکول فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا۔جبکہ آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن نے ملالہ کے خاندان کے زیرنگر ملالہ کا سوات اسکول اپنانے کی پیش کش کی۔ ملالہ اور اسکے اہل خانہ نےدنیا بھر سے تعلیم کے نام پر ملالہ فنڈ قائم کرکے سےبھاری رقوم جمع کررہے ہیں لیکن سوات میں قائم اپنے پرائیویٹ اسکول کومحض عدم منافع اورفنڈز کی کمی کی بنیاد پر بند کیا گیا ہے۔ 80 سے زائد طلبا کو فوری طور پر اسکول چھوڑنے کو کہا گیا۔ اساتذہ اور انتظامی عملے کو بھی بغیر کسی پیشگی اطلاع یا مالی معاوضے کے برطرف کردیا گیا ہے۔در حقیقت برانڈ-ملالہ کے لئے ، ملالہ کی تشہیر ، مارکیٹنگ اور حتمی نوبل امن انعام مغربی ایجنڈے کی تکمیل اور آگے بڑھانے کے لئے ہے۔

پاکستانیوں کی اکثریت ملالہ سےکشمیر پر قومی موقف اختیار کرنے اور مودی سرکار کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے وحشیانہ واقعے کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ پاکستانی قوم نے ملالہ کی خاموشی پر سوال اٹھائے جو امن کا سفیر ہونے کی دعویدار ہے ، لیکن ملالہ کی خاموشی نےناصرف پوری دنیا کے لوگوں کے ضمیر کو دھچکا پہنچایاہے بلکہ دہشت گرد ریاست ہندوستان اور اسرائیل کے معاشروں میں موجود تعصب کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی جو دنیا بھر میں اکثر نسوانی مہم جوئی کے بارے میں دنیا کو تبلیغ کرتی رہتی ہے اور خاص طور پر پوری دنیا میں خواتین کےانسانی حقوق کے معاملات پر اپنی دانش ظاہر کرنے کے لئے چھلانگ لگاتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہیں ہندوستان کی سفاکیوں کی مذمت کرنے کے لئے اپنی آواز نہیں مل پا رہی ہے کیونکہ انہیں اپنے حقیقی مالکوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پاکستانی قوم کو ویسے بھی ملالہ اور اسکے باپ ضیا الدین سے کسی قسم کی کوئی توقع اس لیے بھی میں رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان بارے ملالہ اور ملالہ کا باپ جو نظریات رکھتے ہیں اسکا اظہار اپنی کتاب “آئی ایم ملالہ” میں ملالہ فخر کے ساتھ یوں لکھتی ہے ، "14 اگست 1997 کو پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ، میرے والد نے کہا کہ پاکستان کی آزادی کاجشن منانے کے لئے کچھ نہیں ہے کیونکہ سوات کو پاکستان میں ضم ہونے سے کچھ نہیں ملا۔اور اس نے پاکستان کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ساتھیوں سمیت بازو پرکالے رنگ کی احتجاجی پٹیاں والے ارم بینڈ پہنے،گرفتار کر لیا گیااوراسےبھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا جسکی وہ استطاعت نہیں رکھتاتھا”۔ ملالہ کیمزید پاکستانیت کوپرکھنے کے لیے ملالہ کے اپنے فرمودات کے مطابق وہ ایک جگہ خودارشاد فرماتی ہیں کہ “میں پہلے سواتی ہوں،پھر پختون اور اسکے بعد پاکستانی ہوں”مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کرنے کے صلے میں ملالہ ہندوستان کےجنونیوں کی لاڈلی بن گئ ہے ۔شیوسینا ، بی جے پی اور سب ہندو مذہبی جنونی ملالہ کی تعریف کرتے نہیں تھکتےہیں۔

ملالہ ، امریکہ ، برطانیہ ، یورپ ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی نام نہادتنظیموں سمیت دیگر سول سوسائٹی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر اور غزہ کی پٹی کے اندر ہندوستان اور اسرائیل کے مظالم اور حملوں کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ تاہم پاکستان کے نوجوان ملالہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ قومی مؤقف اختیار کر کےکشمیر پر ہونے والے انڈین گھناؤنے مظالم ، ظلم و بربریت پر انڈیا کی بھرپور مذمت کرے۔پاکستانی نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں نے ملالہ کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایاہے جنہوں نے خود امن کے سفیر ہونے کا دعوی کیا تھا۔ ملالہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم نے کبھی بھی کشمیر کی حالت زار اور بےگناہ کشمیریوں کا دکھ نہیں دیکھا اور نہ ہی اسکے بارے کبھی محسوس کیا۔انڈیا میں دیگر اقلیتوں سکھ ، عیسائی کی طرح کشمیری عوام کوبھی ہندوستان میں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن ملالہ ہندوستان کے مسلم ، عیسائی اور سکھ اقلیتوں کے انسانی حقوق کے لئےبالکل بات نہیں کرتی ، ملالہ کشمیریوں کے حقوق کے لئے بھارتی فوج کے ظلم وقتل عام پر بات نہیں کرتی ، یہاں تک کہ انسانی حقوق ، بچے ،اور لڑکیوں کے حقوق پر بھی بات نہیں کرتی۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں برپا ریاستی دہشت گردی کے خلاف بھی ایک مذمتی لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی اسکی جرات نہیں کرتی ہے۔

7دہائیوں سے جاری تحریک آزادی کی کامیابی کے آثار جس قدر اس وقت روشن ہیں اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھے۔ ہندوستان ہر طرح کے ظلم و تشدد کو کشمیریوں پر آزما چکا ہے لیکن کشمیری اپنی آزادی سے کسی بھی طرح پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔آئے روز اٹھتے جنازے دنیا بھر کو پیغام دے رہے ہیں کہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔ ہند ایک بڑے ملک کے طور پر دنیا بھر میں سفارتی و سیاسی مراسم رکھتا ہے اور اپنی سفارت کاری میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کا نام دے کر پیش کرتا رہا ہے ۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر خود جانے کے باوجود تجارتی مراسم بڑھا کر کئی ایک ممالک کو ہندوستان نے کشمیر کے معاملے پر خاموش کردیا تھا اور امریکہ کے افغانستان میں آنے کی وجہ سے بھی پاکستان کی نسبت ہند کی طرف امریکہ کا جھکائو ہونا ایک منصوبے سے کم نہ تھا ۔ ہند نے ایک لمبے عرصے تک پروپیگنڈہ وار کے ذریعے جھوٹ کو سچ بنا کر دنیابھر کو باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان دہشت گردوں کی سربراہی کرنے والا ملک ہے اور اس کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے اڈے ہیں ۔یہ الزام بھی بار بار دہرائے جاتے رہے کہ افغانی طالبان کشمیر میں پہنچ رہے اور یہ کہ افغانی طالبان کے ساتھ کشمیری مسلح جدوجہد کرنے والے افراد کے تعلقات ہیں ۔

ہند کا مقصد اپنی پوزیشن کو ایک ایسی جگہ پر لانا تھا یہاں وہ آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کا لیبل لگاسکے اور مختلف علاقوں میں اٹھی ہوئی آزادی کی تحریکوں کو دبانے میں عالمی رائے عامہ ہموار کرسکے ۔اقوام متحدہ میں چونکہ تنازع کشمیر کی مکمل تاریخ موجود ہے اس لیےاس میں اسے خاطر خواہ کامیابی تو نہ ہوسکی۔پاکستان میں ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں میں اکثریت میں ہندوستانی ہاتھ پایا جاتا رہا ہےاور کلبھوشن یادیو کی شکل میں ایک زندہ وجاوید ثبوت بھی پاکستان کے قبضے میں ہے ۔افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں ایک عرصے تک دہشت گردانہ واقعات کرواتا رہا ہے جسکے ثبوت پاکستان نے کئی بار اقوام متحدہ اور دیگر مقتدر ممالک کے ساتھ بانٹے۔اس وقت امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہندسے کہیں زیادہ ہے کیونکہ وہ افغانستان میں سے باعزت طور پر واپسی کا خواہاں ہے اور یہ واپسی پاکستان کے بغیر ہونا ممکن نہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں سے ہند کا نکلنا ہی پاکستان کے لیے ایک پلس پوائنٹ ہے جسکو اس وقت پاکستان بہترین طریقے سے استعمال کررہا ہے ۔

کشمیریوں نے اپنی 60-70سالہ جدوجہد میں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہادتوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔اس وقت بھی 10ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں گاہیں بگاہے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کےظلم و ستم کی بھیانک داستانیں منظر عام پر لاتی رہتی ہیں۔ عالمی اداروں کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 14ہزار عورتوں کی جبراً آبرو ریزی کی جا چکی۔ ایک عالمی تنظیم نے حال ہی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جو رپورٹ مرتب کی ہے اسکے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارمولا میں 88فیصد، سری نگر میں 87فیصد اور اننت ناگ میں 73فیصد اور بٹ گرام میں 55فیصد خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں بچوں پر بیلٹ گنوں کی فائرنگ، گھروں میں گھس کر عورتوں کی آبروریزی ، گھروں کو آگ لگانا،اور دوسرے انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب شامل ہے۔جبکہ ہندوئوں اور بدھ مت کے اکثریتی علاقوں میں یہ شرح صرف 3فیصد ہے۔مقبوضہ کشمیر میں خواتین کو یہ کہہ کر کہ انہوں نے کپڑوں کے پیپچے اسلحہ چھپایا ہے انہیں سب کے سامنے برہنہ ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سمری عدالتیں لگا کر انہیں سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیٹی نے چند سال قبل ایک مشترکہ قبر کی نشاندہی کی تھی جس میں 2730لاشیں تھیں۔جبری حراست میں لئے گئے عام شہریوں کو اعتراف جرم کروا کر عدالتی قتل کرتا ہے۔اس جبر و تشدد کو ریاستی سرپرتی حاصل ہے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کے مطابق ہندوستانی قانون کسی شخص کو دو سال تک بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھنے کی اختیار دیتا ہے۔اس کالے قانون کے تحت کوئی فوجی کسی مشکوک فرد پر گولی چلاسکتا ہے، مشتبہ مکان کو نذر آتش کر سکتا ہے۔ بغیر وارنٹ کس مکان میں داخل ہو سکتا ہے اور گرفتار کر سکتا ہے اور اس سب کے لئے وہ قابل گرفت نہیں۔یہ دنیا کا سب سے زیادہ ملٹرائزڈ خطہ ہے ۔فوج کے لا محدود اختیارات کے باعث کسی کی جان و مال اور عزت محفوظ نہیں اور لوگ خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ریاستی دہشت گردی کی اس سے بد ترین مثال کہیں نہیں ملتی۔ مزاحمت دبانے کے لئے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ انڈیا میانماراور اسرائیل کی طرز پر ہندو انتقال آبادی کے ذریعہ کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں کررہا ہے۔یہ بی جے پی حکومت کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بھی ہے۔ آرٹیکل 370 اور 35Aکے خاتمے کے زریعے بھی بھارت یہ مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ریاست کشمیر اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے ۔ بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر علاقہ رکھتے ہیں ۔مگر چینی اور پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے برعکس ہندوستان کی مقبوضہ وادی میں بے چینی اور مظاہرے اس بات کے غماز ہیں کہ کشمیری اکثریت ہندوستانی تسلط کو نا پسند کرتی ہے۔ جسکو دبانے کے لئے ہندوستان کی پر تشدد انسانیت سوز کاروائیاں جاری ہیں۔انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے مطابق 1989 سے لے کر اب تک تقریبا 1،00000 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ جموں کشمیر کی سماجی تنظیموں کے اتحاد کے مطابق جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے افراد کی تعداد 8000 سے زائد ہو چکی ہے۔جبکہ 143،185 افراد حراست میں لے کر ہراساں کئے گئے جن میں سے تقریبا 8000 زیر حراست ہلاک کر دئے گئے۔خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کے 110،042 واقعات سامنے آئے اور 103،043 سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ 10،000 سے زیادہ افراد لا پتہ ہیں۔عالمی برادری کے اکثر حلقے ہندوستان کی جانب سے کشمیریوں کی منظم نسل کشی سے آگاہ ہیں ، مگر چشم پوشی کا م لے رہے ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ برائے انسانی حقوق 2010 میں ہندوستانی فوج کی جانب سے عام کشمیریوں اور مبینہ حریت پسند نوجوانوں کے حراستی قتل کا حوالہ ملتا ہے۔

کشمیر کا نام سنتے ہی جنگ ، کلسڑبم،لاشیں، حراستیں ، جبری گمشدگیاں ، حراستی قتل ، املاک کی تباہی و بربادی ، پیلٹ گن سے چھلنی ، بے بینائی لوگ، ظلم وجبر کے سائے میں پلتی ہوئی زندگیاں، لاپتہ شوہروں کی منتظر "نصف بیوہ خواتین”، انتظار میں بیٹھی وہ ماں جس کا بیٹا قابض فوج کے تاریک عقوبت خانوں میں مار دیا گیا، اجتماعی قبریں اور عصمت دری کا شکار زندہ لاشیں ذھن میں آتیں ہیں۔کشمیر جو کبھی ایشیا کا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا تھا آج دنیا کے خطرناک ترین تنازعے کا مرکز بن چکا ہے۔ اسکی وجہ سے اسلامی دنیا کی بڑی قوت پاکستان اور خطے کے اہم ترین ملک ہندوستان کے مابین چارجنگیں ہو چکی ہیں۔ اور دونوں ممالک کے عوام کے سروں پر ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ،جبر اور انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی سے خائف بھارتی فوج نے آج جمعہ پر بھی پابندی عائد کردی ہے کسی کشمیری کو جمعہ کی نماز نہیں اداکرنے دی گئی۔کیا یہ تمام سفاکیاں و بربریت اقوام عالم، مسلم اُمّہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تعلیم کی نام نہاد علمبردار ملالہ کا ضمیر جنجھوڑنے کے لئےکافی نہیں؟

عالمی دباؤ کے باوجود ، پاکستان نے ایٹمی طاقت حاصل کرلی ہے ، لہذا یہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست میں شامل کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔ لیکن ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ، پاکستان نے جنگ میں 70000 سے زائد پاکستانیوں ، فوجی افسران اور جوانوں کی شہادت پاکستانی قوم کی قربانیوں کا واضح ثبوت ہے! اب تک پاکستان کو 400 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پہلے صرف ایک خودکش بم تھا لیکن اس کے بعد اب تک پاکستان میں 546 خودکش حملے ہوچکے ہیں جس میں چھ ہزار سے زیادہ بے گناہ شہری شہید ہوئے۔ دہشت گردی میں پوری دنیا میں 4500٪ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ دنیا اربوں ڈالر خرچ کرکے دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی زندگی کی تلاش کررہی ہے ، جبکہ کھربوں ڈالر خرچ کرماجودہ زندگیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔ان بد ترین حالات میں ایک عام کشمیری نوجوان کیا سوچ سکتا ہے ! کیا وہ ہمیشہ بیرونی ہاتھ کا منتظر رہے گا۔اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اب عالمی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لئے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنا چاہئے۔ اسکے لئے آزاد کشمیر کے عوام کو مجموعی طورپرمتحرک کریں، برطانیہ میں مقیم کشمیری عوام کی جانب سے جاری "بلیڈنگ پیراڈائز” مہم یورپی برادری کو باور کرانے کے لئے اچھا اقدام ہے۔ معاشی بائیکاٹ بھی اہم حربہ ہے۔ اقوام عالم اور خصوصا او آئی سی میں شامل تمام مسلمان ممالک کو بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات ختم کرنے پر آمادہ کرنا چاہئے۔فوری طور پرUN, OIC،یورپین یونین اور عالمی عدالت انصافکے ساتھ مل کر معاملہ اٹھانا ہوگا۔

آخر میں ملالہ کے لئے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ملالہ کشمیر اور غزہ میں ہندوستان اور اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف اور بند تعلیمی اداروں کی بحالی کے لئے پاکستان اور کشمیر کے موقف کے مطابق آواز اٹھائے گی؟ ایک موقعہ ہے ملالہ تمہارے لے پاکستان سے وفا نبھانے کا،ایک موقعہ ہے ملالہ تمہارے لے کشمیر سے وفا نبھانے کا ،آؤ ملالہ کشمیر تمیں پکار رہا ہے،کشمیر کی بچیاں تمیں پکار رہی ہیں، اپنےتعلیمی حق کے لیے ، اپنے انسانی حق کے لے، امن کے لے،تکشمیر کی مائیں،بہنیں،بیٹیاں تمیں پکار رہی ہیں،کیا تم پاکستان اور کشمیر سے وفا نبھاؤ گی؟یقینا نہیں! کیونکہ کینیڈین ملالہ اپنے آقاؤں کو کبھی ناراض نہیں کر سکتی!
مصنف آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کے صدر اور‘میں ملالہ نہیں ہوں’کتاب اورڈاکومینڑی فلم کے مصنف وفلم میکرہیں۔
ملالہ تم کہاں ہو؟کشمیر یوں پر بھارتی مظالم پہ خاموش کیوں! - Qalam Club
 

آصف اثر

معطل
ملالہ یہاں ہے:


کاش اتنی لمبی تحریر لکھنے سے پہلے صاحب تحریر ملالہ کے ٹویٹر کو ہی دیکھ لیتے۔
جو تحریر آپ نے نہیں پڑھی، اس کے مصنف کو ملالہ کے اُس ٹویٹ کو پڑھنے کا طعنہ دے رہے ہیں جس کا ذکر کالم میں کیا گیا ہے۔ آپ جیسے سُپر ریڈرز کو سلام ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
جو تحریر آپ نے نہیں پڑھی، اس کے مصنف کو ملالہ کے اُس ٹویٹ کو پڑھنے کا طعنہ دے رہے ہیں جس کا ذکر کالم میں کیا گیا ہے۔ آپ جیسے سُپر ریڈرز کی بدولت ہی یہ دنیا قائم ہے۔
نہ جانے مصنف نے ملالہ کو کس حیثیت سے پکارا۔۔۔
اس کی حیثیت ہی کیا ہے!!!
 

فاخر رضا

محفلین
22 سالہ ملالہ جو لڑکیوں کی تعلیم کے حقوق کی سرگرم کارکن ہونے کی دعویدار بھی ہے ، نے جموں وکشمیر میں خوف اور شکوک میں بذریعہ ٹوئٹ جو بے جان سی التجا کی اسکے الفاظ یہ ہیں۔ "جنوبی ایشیا میرا گھر ہے ، ایک ایسا گھر جس میں میں 1.8 بلین افراد کی نمائندہ ہوں۔”اور کہاکہ کشمیری عوام میرے بچپن سے تنازعات کا شکار رہا ہے ، جب میرا دادا جوان تھا۔”

کیا یہ نہیں دیکھا بھائی سید ذیشان
 
ملالہ مغربی سرمایہ داروں کا mouthpieceہے کیونکہ اسے تمام نفع انھی سے حاصل ہوا ہے۔ویسے ہی جیسے مولیوں کی روزی روٹی مذہب کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں گھسیڑنے پر موقوف ہے ۔ یہ کوئی حیران کن لائحۂ عمل تو نہیں۔ ان دونوں طبقات کو نہ تو انسانیت کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض ہے نہ ہی مظلومین سے کوئی ہمدردی۔
 
نہ جانے مصنف نے ملالہ کو کس حیثیت سے پکارا۔۔۔
اس کی حیثیت ہی کیا ہے!!!
بالکل درست کہا آپ نے۔ لڑی کا عنوان دیکھتے ہی یہ جواب ذہن میں آیا تھا جو آپ نے تحریر کر دیا۔
ملالہ کے نام پر ہونے والے ڈرامے کو افشاں کرنے والی بے شمار تحریریں منظرِ عام پر آنے کے بعد بھی ملالہ کو قابلِ ذکر شخصیت سمجھنا یا تو تعارفِ جاہلانہ ہے، یا تجاہل عارفانہ۔
 

سید ذیشان

محفلین
بالکل درست کہا آپ نے۔ لڑی کا عنوان دیکھتے ہی یہ جواب ذہن میں آیا تھا جو آپ نے تحریر کر دیا۔
ملالہ کے نام پر ہونے والے ڈرامے کو افشاں کرنے والی بے شمار تحریریں منظرِ عام پر آنے کے بعد بھی ملالہ کو قابلِ ذکر شخصیت سمجھنا یا تو تعارفِ جاہلانہ ہے، یا تجاہل عارفانہ۔
ملالہ ایک چمکتا ستارہ ہے، اور پوری دنیا اسے جانتی اور مانتی ہے۔ چند ایک شتر مرغوں کے ریت میں سر ڈالنے سے حقیقت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 
ویسے ہی جیسے مولیوں کی روزی روٹی مذہب کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں گھسیڑنے پر موقوف ہے ۔
جو احسان خود اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر فرمایا کہ اپنے کلام کے ذریعے انسان کو زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی عطا فرما دی، اور جس فریضے کو نبی اکرم ﷺ نے تاحیات سرانجام دے کر اپنی حیات کو انسانیت کے لئے اسوۂ حسنہ بنا دیا کہ اس کے اندر زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہدایت و اطاعت کا سامان بہم پہنچا دیا، اس عظیم الشان خدمت کا سہرا مولویوں (علماءِ کرام) کے سر سجانے پر علمِ دین کے حاملین یقینا آپ کے انتہائی متشکر و ممنون ہوں گے۔ :)
 

بندہ پرور

محفلین
ملالہ یہاں ہے:


کاش اتنی لمبی تحریر لکھنے سے پہلے صاحب تحریر ملالہ کے ٹویٹر کو ہی دیکھ لیتے۔
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملالہ کے دل کے جذبات اور آواز نہیں ہے بلکہ
ملالہ نے محض رسم پوری کی ہے اور لوگوں نے بھی اس کو ویسے ہی لیا ہے
 

بندہ پرور

محفلین
ملالہ ایک چمکتا ستارہ ہے، اور پوری دنیا اسے جانتی اور مانتی ہے۔ چند ایک شتر مرغوں کے ریت میں سر ڈالنے سے حقیقت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ذرا اس تیر کا دیدار کرایئے جسے ملالہ نے چلایا ہو
کیوں لکیر کے فقیر بن رہے ہیں
 

بندہ پرور

محفلین
بالکل درست کہا آپ نے۔ لڑی کا عنوان دیکھتے ہی یہ جواب ذہن میں آیا تھا جو آپ نے تحریر کر دیا۔
ملالہ کے نام پر ہونے والے ڈرامے کو افشاں کرنے والی بے شمار تحریریں منظرِ عام پر آنے کے بعد بھی ملالہ کو قابلِ ذکر شخصیت سمجھنا یا تو تعارفِ جاہلانہ ہے، یا تجاہل عارفانہ۔
بجا فرمای صاحب
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top