ملائیشیا میں وہ نظریہ جسے مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے اپنا رکھا ہے

سیما علی

لائبریرین
ملائیشیا میں وہ نظریہ جسے مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں نے اپنا رکھا ہے

22 مار چ 2021، 07:41 PKT
_117623239_7bc09c32-d68a-4f17-94e6-79ae6ee706b7.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
’محبہ‘ ملائشیا کا وہ قومی ورثہ ہے جسے پوری قوم نے اپنے آپ کو متحد رکھنے اور ایک دوسرے کے لیے رواداری کے لیے اپنایا ہوا ہے

کوالالمپور میں نئی رہائشی کی حیثیت سے میں نے ملائیشین زبان کا جو پہلا لفظ سیکھا وہ 'لاء' تھا۔ جب میں نے گفتگو میں اس کا بار بار استعمال کیا تو مقامی افراد خوشی کے مارے کہے لگے 'آپ اتنی جلدی ملائیشین بن گئی ہیں!'

اس مختصر اور سیدھے سے لفظ کی آواز کو روز مرّہ کی گفتگو میں ایک جامع تکلم کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اس آسانی اور گرم جوشی کو پورا کرتا ہے جس کے ساتھ ملائیشیا کا معاشرہ ہر ایک نسلی گروہ کو اپنے میں سموئے ہوئے ہے۔

درحقیقت اگرچہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کینٹونیز یا ہوکین کی نسل کی زبان کا لفظ ہے، تاہم لاء کو عام طور پر 'منگلیش' یعنی ملائیشین اور انگریزی کے لفظ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ زبان قومی زبان کی رسمی انگریزی کا خوشگوار اور عام فہم اظہار ہے۔

'لاء' کو جملے کے آخر میں لہجے کو نرم ظاہر کرنے، بات کو تقویت دینے کے لیے، غیر واضح رائے بیان کرنے، معذرت پیش کرنے یا اس بات کا اشارہ دینے کے لیے شامل کیا گیا ہے کہ یہ بات مذاق میں کہی گئی ہے۔

لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ یہ لفظ ایک برابری کا سا ماحول پیدا کر دیتا ہے، جسے عملی طور پر ہر شخص استعمال کرتا ہے اور ملائیشیا میں زبان، نسل اور مذہب کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کردیتا ہے۔

میں نے اسے ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مالز میں اور تازہ کھانے کے بازار میں، نوجوانوں اور بوڑھوں، دونوں ہی کو ایک ہی انداز میں بات چیت کرتے سنا ہے۔

اور جب میں کسی بھی جملے کے اختتام پر لاء کو سنتی ہوں، یہاں تک کہ وہ بھی جو غصے، ناراضی یا ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں، میں جانتی ہوں کہ بولنے والے کا مطلب ٹھیک ہے، یعنی وہ ایک مہذب اور اچھی بات کرنا چا رہا ہے۔

یہ سب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ملائیشیا کی مہمان نوازی اور اس کے منگلیش لفظ کی طرح ہی خوشگوار لگی ہے۔

اگرچہ ملک میں اکثریتی نسلی گروہ ملئی ہے، جسے بومی پترا (یعنی 'مقامی زمین کا بیٹا') بھی کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ آبادی کا تقریباً 25 فیصد چینی نسل کا ہے، جبکہ باقی انڈین ملائیشین، زیادہ تر ساؤتھ انڈین ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ آبادی آٹھ فیصد بنتے ہیں۔

اپنے ہمسایہ ممالک تجارت کے لیے مشہور سنگاپور اور سیاحوں کی جنت تھائی لینڈ کی چکاچوند ملائشیا پر غالب رہتی ہے لیکن ملائشیا اس خطے کا سب سے دوستانہ اور روادار ملک ہے جہاں اس کی تین بڑی نسلی برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زیاد تر ایک ہم آہنگ ماحول تشکیل دیتی ہیں۔

ابھی حال ہی میں اس ملک میں نو واردوں کے لیے نسل پرستی کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا ہے، لیکن اس طرح کے معاملات اب بھی نسبتاً بہت کم ہیں۔

_117620163_mediaitem117620162.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
ملائیشیا اس خطے کا سب سے زیادہ دوستانہ اور روادار ملک ہے۔

جو چیز اُنھیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے وہ صرف اپنے ملک سے مشترکہ پیار ہی نہیں ہے بلکہ ایک معاشرتی طور پر 'محبہ' کا ایک جذبہ ہے۔

محبہ کے معنی ہیں محبت یا خیر خواہی۔ ملائیشیا میں اس کی اور بھی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ عالم دین اور دینی علوم کی پروفیسر ڈاکٹر قمر اونیاہ قمرالزمان کے مطابق، ملائشیا میں محبہ یکجہتی، مفاہمت، نگہداشت، ہمدردی اور برادرانہ جذبات کا نام ہے۔

جب ملائیشیا نے 1957 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو اس کے رہنماؤں نے محبہ کو اس نئے ملک کی یکجہتی کی روح کے طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان کوئی تناؤ پیدا نہ ہو۔

مثال کے طور پر یہ ملک سرکاری طور پر ایک اسلامی ریاست ہے، لیکن ہر کسی کو اپنے مذہبی عقائد کی پیروی کرنے اور اپنی زبانیں بولنے کا آزادانہ حق ہے۔ اب بھی میں مقامی اخبارات کے مضامین دیکھتی ہوں جس میں سیاست دان اس لفظ کو پر امن بقائے باہمی کے ساتھ جاری رکھنے کی یاد دہانی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

کوالالمپور کی رہائشی سلویٰ شکور نے بتایا کہ 'ہمارے مامک (اوپن ایئر) سٹالز محبہ کی عمدہ مثال ہیں۔' یہ بیان کرتے ہوئے کہ ساؤتھ انڈیا کے مسلمانوں کے تازہ کھانوں والے ریستورانوں میں ہر شخص کس طرح ایسے کھانے کھاتا ہے جو ہر قسم کے ذائقہ رکھنے والوں کے مزے کی تسکین کے لیے سستا حلال کھانا پیش کرتے ہیں۔

مامک صارفین کے لیے ایک دوستانہ قسم کا ماحول پیش کرتا ہے، چاہے ان کا کھانا مقامی ملئی ڈش ہو جو چینی چٹنیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہو، یا ایک تیز گرم جنوبی ڈوسہ (جسے یہاں تھوسائی کہا جاتا ہے) ناریل کی چٹنی کے ساتھ ہو۔

سکول میں انڈین خاندانی دوستوں اور چینی ہم جماعتوں کے ساتھ بڑی ہونے کی وجہ سے شکور کا اصرار ہے کہ ملائیشیا میں اپنی برادری میں محدود رہنا ناممکن ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ 'تینوں برادریوں کی اپنی اپنی اچھی باتیں بھی ہیں اور ان کی کمزوریاں بھی ہیں، ہم نے اُنھیں اپنے اجتماعی فائدے کے لیے استعمال کرنا سیکھا ہے اور ہم ان سب کے مجموعے کے طور زیادہ بہتر ہو جاتے ہیں۔'

در حقیقت قمرالزماں کا اصرار ہے کہ محبہ کا مطلب رواداری نہیں ہے: 'صرف برداشت کرنا واقعی اچھا احساس نہیں ہے، یہ تعلق ہے۔ محبہ برداشت کے برعکس ہے، اس کا مطلب ہے ایک دوسرے کو قبول کرنا۔'

اُنھوں نے مامک کی کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ نسی لیمک دیکھ سکتے ہیں (تلے ہوئے چاول کا ملئی کھانا) کے ساتھ ساتھ تندوری روٹی (انڈین نژاد ایک روٹی اور سالن کا پکوان) اور 'سنڈول' (ایک جنوب مشرقی ایشیائی میٹھے ناریل کا دودھ، جیلی نوڈلز اور گولا گنڈا)، کوئی بھی سوال نہیں کرتا کہ یہ کھانا یا وہ کھانا کہاں سے آیا ہے، انڈیا سے یا چین سے؟ اب یہ سب ملئی پکوان ہیں۔'

_117623235_30f44d5c-6c12-46a7-8a06-f348645d0cbd.jpg

،تصویر کا ذریعہALAMY

،تصویر کا کیپشن
ملائیشیا میں آپ کو کئی ایک روایتی انڈین کھانے چینی پکوانوں کے ساتھ کھانے کے لیے ایک ہی ریستوران سے دستیاب ہوں گے

مصنف اور اکیڈمک دپیکا مکھرجی جو ملائیشیا میں پلی بڑھیں اور فی الحال امریکہ میں رہتی ہیں، نے تصدیق کی ہے کہ ان کا تجربہ ان کی مختلف شناختوں کو قبول کرنے کے بارے میں اچھا رہا ہے۔

'میں شارٹس پہن سکتی تھی اور ناشتے کے لیے مامک جا سکتی تھی اور پھر اپنے انڈین خاندان سے ملنے کے لیے ساڑھی پہن کر بس میں سفر کرتی تھی، کبھی بھی کوئی بھی میری طرف عجیب و غریب نظروں سے نہیں دیکھتا تھا کہ میں کس لباس می ملبوسں ہوں۔ یہاں امریکہ میں ہر ایک کو ایک ہی سفید فام والی شناخت اپنانی پڑتی ہے، اسے وہی پہننا اور کھانا پڑتا ہے جو سب کھاتے ہیں۔ لیکن ملائیشیا میں ایسا نہیں ہے۔'

ملائیشیا کے محبہ کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس ملک کے تہواروں کا کیلنڈر سال بھر پر محیط ہوتا ہے، جس کا آغاز چینی قمری سال کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

درمیان میں 'ہری رایا یا عید الفطر بھی اسی کیلینڈر میں کچھ دیر بعد آتی ہے، اور دیپاولی (دیوالی کا دوسرا نام، روشنی کا تہوار) بعد کے مہینوں میں آتا ہے۔ اور مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ کرسمس کے لیے بھی اس کیلنڈر میں گنجائش موجود ہے جس میں مرکزی گلیوں اور شاپنگ مالز میں یکساں طور پر جعلی برف سے سجاوٹ کی جاتی ہے۔

اس ملک کی کثیر ثقافتی جس ایک اور چیز سے ظاہر ہوتی ہے، وہ 'کھلا گھر' ہے جسے ملائیشین تہواروں کے موقع پر دوستوں، رشتے داروں اور یہاں تک کہ اجنبیوں کے استقبال کے لیے ہر شام کھانے پینے (مسلمان گھروں کی صورت میں حلال مشروبات) رکھے جاتے ہیں۔

شکور نے کہا کہ 'پہلے صرف ملئی لوگ ہی کھلے گھر کے ساتھ 'ہری رایا' (عیدالفطر) مناتے تھے لیکن اب بہت سے انڈین یہ دیوالی میں اور بعض اوقات چینی اپنے نئے سال کے موقع پر بھی مناتے ہیں۔'

اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ بازاروں میں سرکاری زبان ملئی کے ساتھ ساتھ مینڈرن، ہوکین، کینٹونیز، ہینانیز اور دیگر انڈین زبانیں بشمول تامل، ہندی، گجراتی اور پنجابی بھی بولی جاتی ہیں۔

درحقیقت، میرے ملائیشیا کے دوست 'بہاسا روجک' کے نام سے ایک انوکھے تصور پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں جس کا مطلب ہے زبانوں کا مرکب (روجک مقامی ترکاریوں کی سلاد ہے، جو مختلف متضاد اور متناسب بناوٹ اور ذائقوں کی حامل ہوتی ہے)، جس میں انگلش بولتے بولتے اچانک یا کوئی ملئی فقرہ یا پھر تامل کا 'ایّو' منھ سے نکل جاتا ہے۔

بہاسا روجک 15 ویں صدی کے اوائل میں محبہ کے تصور کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔ مکھرجی نے وضاحت کی کہ ملاکا (اور دوسری بندرگاہ والے شہر جیسے کیڈا) مصالحوں کی تجارت کے راستے پر ایک اہم تجارتی مرکز تھا، اور تجارت کی خاطر، مقامی حکومتیں ہمیشہ نئی زبانیں اور ثقافتوں کو قبول کرتی رہتی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ 'روایتی طور پر سفر کے راستوں کو کبھی بھی مرکزی دھارے کے شہروں کی طرح محفوظ نہیں کیا جاتا تھا، مثال کے طور پر ملاکا میں بھی کاروباری لین دین اور یہاں تک کہ شادیوں کے ذریعے برادریوں کا آپس میں میل ملاپ آسان تھا۔'

تاجروں نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لیے گفتگو کی زبان بنائی ہوئی تھی جو ملائیشیئنز کے مابین تبادلہِ خیال کا ایک ذریعہ تھی۔ کمیونٹیز کے مابین شادیوں کا بھی اضافہ کریں، جس نے آج کے دور کے کثیر الثقافتی ملائیشیا کا ڈی این اے تشکیل دیا تھا۔

_117623237_1c7e4323-8996-4093-9002-9cb37751a0f3.jpg

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشن
اگرچہ ملائیشیا ایک اسلامی ملک ہے لیکن وہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے

ایک دوسرے کے لیے قبولیت کے رویے کے ساتھ ملائیشیا سستی رہائش اور صحت کی دیکھ بھال جیسی معاشی کشش بھی رکھتا ہے، جو اسے دنیا بھر میں سب سے بڑی ریٹائرمنٹ کی منزل بناتا ہے، جس سے اس ملک کی کثیر الثقافتی معاشرتی زندگی کو مزید گہرا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

تاہم کہیں بھی ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔ سنہ 1980 کی دہائی میں 'بومی پُتراس' کے لیے ترجیحی مواقع کی پالیسی شروع کی گئی جس سے اب ملائیشیا کے کچھ علاقے ایک خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہیں، جہاں دائیں بازو کے نظریے ملئی بالادستی کا مطالبہ کرنے والا گروہ (جو کیتوآنان میلیو کے نام سے جانا جاتا ہے) کبھی کبھار اپنا سر اٹھاتا ہے۔

مگر یہ پھر بھی کافی حد تک صرف ملئی اکثریتی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایک سیاسی مؤقف ہی ہے۔

میں نے یہاں منتقل ہونے کے بعد جو کچھ دیکھا ہے وہ دوسروں کی کمزوریوں میں ان کی مدد اور اُنھیں ان کی مسکراہٹں لوٹانے کا جذبہ ہے۔

شکور نے مجھ سے تھوڑی سی شرارت آمیز انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'میرے چینی ہم جماعتوں نے مجھے مقابلہ کرنے والا بننے پر مجبور کیا، کیونکہ وہ ہمیشہ ہی سب سے اوپر رہنا چاہتے ہیں۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے تامل دوستوں سے آرام کرنا اور چیزوں کو آسان لینا سیکھ لیا۔'

اور ملائیشینز کے سہل اندازِ زندگی گزارنے کے رویے کو پیش کرنے کے لیے بہاسا انگریزی الفاظ کو اپنی بنیادی صوتی شکل میں آسان بنا دیتی ہے۔

کیونکہ جب آسان راستہ دستیاب ہو تو چیزوں کو کیوں پیچیدہ بنائیں؟ ملائیشیا میں محبہ ایک جزو ہے جو انفرادی اجزاء کو ایک پرکشش اور خوش آئند مجموعے کا حصہ بناتا ہے۔۔۔۔۔۔

ملائیشیا میں محبت کا نظریہ، جسے پوری قوم نے اتحاد کے لیے اپنا رکھا ہے - BBC News اردو
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس سوال کا جواب تو شاید یہ صاحبہ بہتر دے سکیں ۔
مصنف اور اکیڈمک دپیکا مکھرجی جو ملائیشیا میں پلی بڑھیں اور فی الحال امریکہ میں رہتی ہیں، نے تصدیق کی ہے کہ ان کا تجربہ ان کی مختلف شناختوں کو قبول کرنے کے بارے میں اچھا رہا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ملائشیا کا آئین ملائشیا کو ایک سیکولر ملک بناتا ہے اور مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔۔۔
مختلف مذہبی گروہوں کے مابین تعلقات عام طور پر کافی روادار ہوتے ہیں۔۔۔۔ہمیں تو وہاں جا کہ بھی یہی احساس ہوا!!!!!آگے تو وہاں رہنے والے باشندے بتا سکتے ہیں نہ صرف ملائشیا بلکہ انڈونیشیا بھی ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
اس سوال کا جواب تو شاید یہ صاحبہ بہتر دے سکیں ۔

ملائشیا کا آئین ملائشیا کو ایک سیکولر ملک بناتا ہے اور مذہب کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔۔۔
مختلف مذہبی گروہوں کے مابین تعلقات عام طور پر کافی روادار ہوتے ہیں۔۔۔۔ہمیں تو وہاں جا کہ بھی یہی احساس آگے تو وہاں رہنے والے باشندے بتا سکتے ہیں نہ صرف ملائشیا بلکہ انڈونیشیا بھی ایسا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔
ملائشیا میں مذہبی آزادی آپ کی نسل کی بنیاد پر ہے شخصی بنیاد پر نہیں۔
 
Top