مقدّس ریپ کیس

ہم ایم اے میں تحقیق کر رہے تھے۔ موضوع تھا"مدرسوں میں بچوں کے ساتھ مظالم"(انگریزی میں بڑا سا موضوع تھا)۔لاہور میں بڑے،چھوٹے بہت مدرسوں میں گئے۔ سوائے چند بڑے مدرسوں کے بہت سے مدرسوں میں کسی نہ کسی طرح کی abuseہوتی تھی۔ کسی بھی طرح کی تفریح بالکل نہیں تھی بچے کھانا لینے باہر جاتے تھے۔مار تو عام تھی۔۔۔ ۔لمبی تفصیل ہے ۔۔۔ ۔ چند مدرسوں میں اساتذہ بہت کم البتہ بچے آپس میں نسبتاََ زیادہ۔۔۔ ۔۔تھے۔ دو زنجیربندھےدیکھے۔یہ ہیں ہمارے مولوی بنانے کے کارخانے(یقیناََ سب مدرسے ایسے نہیں ہیں۔ بہت اچھے ماحول والے بھی دیکھے ہیں)
ایسے ماحول میں نشونما لینے والوں کا ذہن کیسا ہو گا؟؟؟
ان کارخانوں سے نکلنے والے جنت،جہنم،گناہ،قبر کا عذاب،بیوی کے فرائض، وغیرہ وغیرہ پڑھ کر آتے ہیں۔انھوں نے قرآن رٹا ہوتا ہے،سیکھا نہیں ہوتا۔ کسی نے انھیں مارتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا تھا
کہ اللہ بار بار رحم کرنے والا ہے۔ کسی نے ان کو زنجیروں سے باندھتے ہوئے یہ کبھی نہیں بتایا تھا کہ اللہ نے اس کتاب کو صرف رٹنے(نعوذ بااللہ) کے لئے نہیں بھیجا۔ یہ تو راہِ ہدایت ہے پیارے بچو۔ بچوں کے لئے کوئی عذاب نہیں ہے۔ اللہ بچوں سے پیار کرتا ہے۔ آؤ میرے ننھے فرشتو تمہارے سر پہ ہاتھ رکھوں۔ سبق یاد نہیں ،پھر کیا ہؤا، چلو ہم کھیلیں ،تھوڑی دیر بعد پھر سے دیکھتے ہیں ہمارا اللہ ہم سے کیا کہتا ہے۔
یہ تو خواب ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ ان کارخانوں سے جو روایتی مولوی نکلتے ہیں وہ گھٹے ہوئے ماحول کے عادی خود بھی ایسا ماحول وضع کرتے ہیں۔غربت،بھیک،معاشرے کا تحقیر وترحم والا رویہ،تفریح کے نام پہ صرف بیوی اور وہ بھی بچوں کی پیدائش،پرورش،گھر کے دھندوں میں الجھی ایک تھکی ہوئی عورت،جس میں چند سالوں بعد کوئی کشش نہیں رہتی۔ باہر ون سونی عورتیں سرِ عام گھومتی نظر آتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ گندی کتابیں لوگ اِس خوف سے نہیں رکھتے تھے کہ کوئی دیکھ نہ لے،اب موبائل اور نیٹ نے یہ ڈر ختم کر دیا ہے۔ایک دیکھتا ہے تو اپنے جیسوں کو شیئر کراتا ہے۔
ناامیدی گناہ نہ ہوتی تو پھر تو موجودہ صورتحال کو دیکھ کر نا امید ہونا تو بنتا ہے بہرحال بظاہر لگتا ہے کچھ باقی نہیں رہا ، نئی نسل کدہر جا رہی ہے، ایک سیلاب ہے لگتا ہے سب اس میں بہہ جائے گا،جن کو احساس وہ کچھ کر نہیں سکتے اور جو کر سکتے ہیں اور وہ غلط سمت میں اقدامات کر رہے ہیں ، جس کے بس میں جو ہے کرے اور پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے تو ۔۔۔۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے سے ایک دنیا خلاف ہو سکتی ہے، ہو جائے ، ہمیں پروا نہیں ،پروا ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی سنت اور اسلامی اصولوں اور شریعت کے احکام کی -

ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔
1- اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
2- اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
3- اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
4- اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟
 

جاسمن

لائبریرین
کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟
لبیک!
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اس طرح واقعات پڑھ کر یا سن کر بہت ہی افسوس ہوتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے جو ماحول سے اثر لیتا ہے کل ہی ہم مسجد میں قرآن پاک کا ترجمہ (جوکہ ہم صبح نماز کے بعد کرتےہیں ) ہابیل اور قابیل کا ذکر آیا جوکہ چھٹی پارہ سورہ مائڈہ میں ہے میرے ذہن میں بھی ایک سوال آیا کہ مولانا صاحب ان دونوں کا تو ماحول بھی ایک جیسا تھا اور پھر بھی ایک قاتل اور ایک مقتول نکلا تو اس میں بھی فطرت کا ہی اثر ہوگا۔۔۔۔۔۔
لیکن آج کل جس طرح پولیوکی وائرس کو روکنے کی کوشش کی جارہی تو ساتھ ہی فاحشی بے حیائی کی وائرس کی پرورش کی جارہی ہے
اور اس میں سب شامل ہیں چاہے اس کا تعلق معاشرے کی کسی بھی طبقے سے ہوں جس طرح پیٹ میں نہ مولوی ہوتا ہے نہ وکیل نہ ڈاکٹر سب کو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نفسانی حواہشتا میں بھی سب برابر ہوتےہیں لیکن کوئی اپنے خواہشات اور نفس کو قابو کر لیتے ہیں اور کوئی ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔۔۔۔
لیکن مجھے ان بھائیوں پر بڑا افسوس ہوتا ہے جو کہ ایک مائیکروں انڈیکیشن اگر ان کو مل جائے کہ اس سے دین اسلام کی بدنامی ہوگی تو وہ اس کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ بھائیوں جو لوگ دین اسلام سے محبت رکھتے ہیں وہ بھی انسان ہیں فرشتے نہیں ان سے بھی علطیاں ہو جاتی ہیں اب میں یہ نہیں کہتا کہ کو معاف کردیا جائے بالکل کھڑی سزا دی جائے کہ نشانہ عبرت بنا دیا جائے کہ کل کوئی عالم کا لبادہ اڑھ کر ہی علم کا مذاق نہ آڑائے۔۔۔
phpThumb.php

phpThumb.php

phpThumb.php


phpThumb.php

۔۔۔۔۔۔

phpThumb.php



phpThumb.php


phpThumb.php


phpThumb.php

phpThumb.php



اللہ اکبر کبرا
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
واجد حسین بھائی! چونکہ ذکر صرف مولوی حضرات کا ہو رہا تھا ،اس لئے صرف ان کی بات کی ہے ورنہ جو بھی حدود توڑے،سزا کے قابل ہے۔ آپ کی باتیں ہم سب کے لئے غور طلب ہیں۔ جزاک اللہ۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا کرے۔آمین!
خواتین کی طرح مردوں کو بھی اپنی عزت و حرمت کی حفاظت کرنی چاہیے۔
 

محمد امین

لائبریرین
ایک مقامِ شرم ہے کہ لفظ "مولوی" کہ جو جنوبی ایشیاء اور گرد و نواح میں بہت زیادہ علم رکھنے والوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، وہ اب ہر ایرے غیرے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے فقط داڑھی یا مذہبی طبقے کی نمائندگی کے سبب۔ اور پھر یہ فقط ان نام نہاد ملاؤں کا ہی کام نہیں ہے۔ ہمارے شہروں گاؤں دیہاتوں میں ہر طرح کے لوگ حتیٰ المقدور ایسے غیر انسانی وحشیانہ اعمال میں مصروف ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم ایک زندہ و تابندہ و پائندہ قوم ہیں۔ زید حامد جیسے مسخروں کو اس طرح کے واقعات پر بات کرنی چاہیے، نہ کہ یہ کہ ہم لال قلعے پر قبضہ کر لیں گے، اسرائیل کو تباہ کر دیں گے، ہم ایک عظیم قوم ہیں، امریکہ ہم سے ڈرتا ہے، وائٹ ہاؤس پر سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے۔

او بھائی قوم کس طرف جا رہی ہے؟ ادھر دو بھائی قبروں سے مردوں کا گوشت نکال کر کھاتے تھے، بند ہوئے، چھوٹے، پھر وہی کام شروع۔۔ یہ سالے جعلی عامل جادوگر، کیا کیا کچھ نہیں کرتے یہ بے عقل عورتوں کے ساتھ؟ ایک طرف دیکھو تو گندگی، درندگی، وحشی پن،۔۔دوسری طرف دیکھو تو ملاوٹ، گٹر کے پانی سے بچوں کے کھانے کی آئسکریم بنائی جا رہی ہے۔۔۔ مردار جانوروں کی ہڈیوں سے کھانے کا تیل نکالا جا رہا ہے۔۔۔ گٹر میں سے نکلنے والی چکنائی سے منہ دھونے کا صابن بنایا جا رہا ہے۔۔۔ پھر کہتے ہیں یہ ہم رسول اللہ کے غلام ہیں۔۔۔ ان جملوں کے درمیان رسول اللہ کا نام لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم آرہی ہے۔

مغرب کی بے راہ روی پر بین کرنے والوں کو اپنوں ہی کی بغل میں چھری کیوں نظر نہیں آتی؟ معاشرہ گراوٹ کی آخری حدوں پر ہے اور اس قوم کی عظمت کے گن گائے جا رہے ہیں، شاد باد کے ترانے گونج رہے ہیں۔ منزلِ مراد کا ذکر ہے لیکن شانِ حال کہاں ہے؟ ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق سے کہو کہ جھوٹ بولنا بند کرے۔۔۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
pedophilia عام جنسی خواہش نہیں بلکہ انتہائی ذلالت ہے۔ مسلمانوں کے نو سال کی بچی سے شادی کے فتووں سے یہ دونوں چیزیں ایک نہیں ہو جائیں گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک مقامِ شرم ہے کہ لفظ "مولوی" کہ جو جنوبی ایشیاء اور گرد و نواح میں بہت زیادہ علم رکھنے والوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، وہ اب ہر ایرے غیرے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے فقط داڑھی یا مذہبی طبقے کی نمائندگی کے سبب۔ اور پھر یہ فقط ان نام نہاد ملاؤں کا ہی کام نہیں ہے۔ ہمارے شہروں گاؤں دیہاتوں میں ہر طرح کے لوگ حتیٰ المقدور ایسے غیر انسانی وحشیانہ اعمال میں مصروف ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم ایک زندہ و تابندہ و پائندہ قوم ہیں۔ زید حامد جیسے مسخروں کو اس طرح کے واقعات پر بات کرنی چاہیے، نہ کہ یہ کہ ہم لال قلعے پر قبضہ کر لیں گے، اسرائیل کو تباہ کر دیں گے، ہم ایک عظیم قوم ہیں، امریکہ ہم سے ڈرتا ہے، وائٹ ہاؤس پر سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے۔

او بھائی قوم کس طرف جا رہی ہے؟ ادھر دو بھائی قبروں سے مردوں کا گوشت نکال کر کھاتے تھے، بند ہوئے، چھوٹے، پھر وہی کام شروع۔۔ یہ سالے جعلی عامل جادوگر، کیا کیا کچھ نہیں کرتے یہ بے عقل عورتوں کے ساتھ؟ ایک طرف دیکھو تو گندگی، درندگی، وحشی پن،۔۔دوسری طرف دیکھو تو ملاوٹ، گٹر کے پانی سے بچوں کے کھانے کی آئسکریم بنائی جا رہی ہے۔۔۔ مردار جانوروں کی ہڈیوں سے کھانے کا تیل نکالا جا رہا ہے۔۔۔ گٹر میں سے نکلنے والی چکنائی سے منہ دھونے کا صابن بنایا جا رہا ہے۔۔۔ پھر کہتے ہیں یہ ہم رسول اللہ کے غلام ہیں۔۔۔ ان جملوں کے درمیان رسول اللہ کا نام لکھتے ہوئے بھی مجھے شرم آرہی ہے۔

مغرب کی بے راہ روی پر بین کرنے والوں کو اپنوں ہی کی بغل میں چھری کیوں نظر نہیں آتی؟ معاشرہ گراوٹ کی آخری حدوں پر ہے اور اس قوم کی عظمت کے گن گائے جا رہے ہیں، شاد باد کے ترانے گونج رہے ہیں۔ منزلِ مراد کا ذکر ہے لیکن شانِ حال کہاں ہے؟ ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق سے کہو کہ جھوٹ بولنا بند کرے۔۔۔
یہ جو آپ نے لکھا ہے ناں، یہ موجودہ معاشرے کا 50 فیصد بھی نہیں۔ ہم اس سے کہیں زیادہ گراوٹ کا شکار ہیں۔
 

arifkarim

معطل
کیا خیال ہے آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
تو پھر کیا خیال ہے شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا؟
لبیک!

ان مسائل کا حل ہے اور وہ ہے حقیقی تعلیم و تربیت۔ مدرسے اور اسکول کی نصابی تعلیم نہیں بلکہ معاشرتی تعلیم و تربیت جو والدین اپنے بچوں کو بچپن سے دیتے ہیں۔ جیسے سیدھے ہاتھ سے کھانا، منہ بند کر کے کھانا، اپنے سامنے سے کھانا، بھوک رکھ کر کھانا وغیرہ۔ معاشرتی گراوٹ اور ذلالت کی ابتداء گھر سے ہی شروع ہوتی ہے جہاں کوئی بھی بچہ اپنے زندگی کے اولین سال گزارتا ہے۔ جیسے کسی پودے کے اولین دنوں میں خیال نہ رکھا جائے تو وہ کچھ سال بعد مرجھا کر ختم ہو جاتا ہے۔ یہی حال انسانوں کا بھی ہے۔ تناور اور قابل انسان بننے کیلئے بچپن سے ہی تربیتی اور اخلاقی نشونما کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب والدین کی تلقین اور اپنی ذاتی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے بعد ہی بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خود والدین حرام کھاتے ہوں، شرابی ہوں، سود ی و جواری ہوں اور اپنے بچوں سے توقع ہو کہ وہ بڑے ہوکر ولی اللہ انسان بنیں گے۔ یہ وہ متضادات ہیں جنکا اجتماعی خاتمہ کئے بغیر یہ معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔
جیسے اگروالدین اپنے بچوں کو فحاشی اور دیگر جنسی لغویات سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو انکے رجحانات کا بغور جائزہ لیں۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سمت میں اپنے دوستوں، کزنوں کے ذریعہ جائیں، آپ خود پہل کریں اور انہیں بتائیں کہ میاں بیوی کے تعلقات کیا ہوتے ہیں۔ ان میں برائی اور اچھا ئی کیا ہے۔ جو جائز ہے وہ کیوں جائز ہے اور جو ناجائز ہے اسکو دلیل کیساتھ ثابت کریں کہ کیوں ناجائز ہے۔ یاد رکھیں کہ بچوں کے معصوم ذہن ڈنڈے اور مذہب کی دلیلوں کو نہیں مانتے۔ آجکل کے بچے منطقی اور پریکٹل ذہن کے مالک ہوتے ہیں اسلئے انہیں صرف معقول دلائل ہی سے قائل کیا جا سکتا ہے وگرنہ ہمارے بچوں کا حشر بھی اس یہودی لڑکی کی طرح ہوگا جو خدا کی ذات کو نہیں مانتی تھی اور اسکو سبق سکھانے کیلئے اسکے ماں باپ نے ایک یہودی پادری یا رابی کے پاس بھیج دیا۔ وہاں جاکر اسکو خدا کی ذات پر یقین تو حاصل نہ ہوا البتہ شیطان کے وجود کا سبق مل گیا جب اسی یہودی رابی نے اسکا جنسی استحصال کر ڈالا!
 

arifkarim

معطل
یہ جو آپ نے لکھا ہے ناں، یہ موجودہ معاشرے کا 50 فیصد بھی نہیں۔ ہم اس سے کہیں زیادہ گراوٹ کا شکار ہیں۔
محمد امین نے وہی بتایا ہے جو اے آر وائی کے پروگرام سر عام میں اقرار الحسن منظر عام پر اثبوتوں کیساتھ لے کر آنے میں کامیاب ہواہے۔ اسکے علاوہ جو کچھ اس گھناؤنے معاشرے میں ہو رہا ہے اسپر تو قلم چلتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
پیارے بچو! آپ کو پتہ ہے کہ چھُونا تین طرح کا ہوتا ہوتا ہے۔
1۔ ایک طرح کا چھونا آپ سب کو بہت اچھا لگتا ہے۔ جیسا مما اور بابا ،دادو،دادا جان چھوتے ہیں۔ آپ کو گلے لگاتے ہیں۔ بوسہ دیتے ہیں، گود میں بٹھاتے ہیں۔گال چھوتے ہیں۔ ہے ناں ! آپ سب کو اچھا لگتا ہے ناں!
2۔ دوسری طرح کا چھونا آپ سب کو رُلاتا ہے۔ جب مار پڑتی ہے، کوئی آپ کو جھنجھوڑتا ہے۔تھپڑ مارتا ہے،بال کھینچتا ہے۔ آپ سب کو ایسے چھونے پر رونا آتا ہے۔
3۔ پیارے بچو! ایک تیسری طرح کا چھُونا بھی ہوتا ہے۔ جس پر آپ کو غُصہ آتا ہے، جھُنجھُلاہٹ ہوتی ہے، نفرت سی محسوس ہوتی ہے۔ خطرے کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ یہ کچھ عجیب سا ،کچھ غلط سا ہے۔۔۔۔۔۔۔ایسا چھونے والا آپ کا کوئی نزدیکی شخص بھی ہو سکتا ہے،کوئی اجنبی بھی،استاد،کوئی رشتہ دار،کوئی قاری، کوئی کلاس فیلو۔ محلہ دار۔کوئی بھی۔
بچو! اگر خدانخواستہ کبھی کوئی یہ تیسری طرح سے آپ کو چھونے کی کوشش کرے تو آپ کو مندرجہ ذیل کام کرنے ہیں۔
1۔ اگر پہلے بھی کسی نے آپ کو اس طرح سے چھونے کی کوشش کی ہو لیکن کوئی آ گیا تھا،یا کسی طرح بھی آپ کی جان چھوٹ گئی تھی تو ابھی اپنے ابو یا امی
کو بتائیں۔اور اچھی طرح بتائیں کہ اب آپ اُس شخص کے پاس بالکل نہیں جانا چاہتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو گندی طرح چھوتا ہے۔
2۔اگر اب کبھی خدانخوستہ ایسا ہوتا ہے تو خوب شور مچائیں۔۔۔یہ آپ کی آواز کا امتحان ہے۔
3۔ آپ اُس کو دانتوں سے خوب کاٹنے کی کوشش کریں۔
4۔اُس جگہ سے بھاگنے کی کوشش کریں۔
 
پیارے بچو! آپ کو پتہ ہے کہ چھُونا تین طرح کا ہوتا ہوتا ہے۔
1۔ ایک طرح کا چھونا آپ سب کو بہت اچھا لگتا ہے۔ جیسا مما اور بابا ،دادو،دادا جان چھوتے ہیں۔ آپ کو گلے لگاتے ہیں۔ بوسہ دیتے ہیں، گود میں بٹھاتے ہیں۔گال چھوتے ہیں۔ ہے ناں ! آپ سب کو اچھا لگتا ہے ناں!
2۔ دوسری طرح کا چھونا آپ سب کو رُلاتا ہے۔ جب مار پڑتی ہے، کوئی آپ کو جھنجھوڑتا ہے۔تھپڑ مارتا ہے،بال کھینچتا ہے۔ آپ سب کو ایسے چھونے پر رونا آتا ہے۔
3۔ پیارے بچو! ایک تیسری طرح کا چھُونا بھی ہوتا ہے۔ جس پر آپ کو غُصہ آتا ہے، جھُنجھُلاہٹ ہوتی ہے، نفرت سی محسوس ہوتی ہے۔ خطرے کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ یہ کچھ عجیب سا ،کچھ غلط سا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔ایسا چھونے والا آپ کا کوئی نزدیکی شخص بھی ہو سکتا ہے،کوئی اجنبی بھی،استاد،کوئی رشتہ دار،کوئی قاری، کوئی کلاس فیلو۔ محلہ دار۔کوئی بھی۔
بچو! اگر خدانخواستہ کبھی کوئی یہ تیسری طرح سے آپ کو چھونے کی کوشش کرے تو آپ کو مندرجہ ذیل کام کرنے ہیں۔
1۔ اگر پہلے بھی کسی نے آپ کو اس طرح سے چھونے کی کوشش کی ہو لیکن کوئی آ گیا تھا،یا کسی طرح بھی آپ کی جان چھوٹ گئی تھی تو ابھی اپنے ابو یا امی
کو بتائیں۔اور اچھی طرح بتائیں کہ اب آپ اُس شخص کے پاس بالکل نہیں جانا چاہتے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ کو گندی طرح چھوتا ہے۔
2۔اگر اب کبھی خدانخوستہ ایسا ہوتا ہے تو خوب شور مچائیں۔۔۔ یہ آپ کی آواز کا امتحان ہے۔
3۔ آپ اُس کو دانتوں سے خوب کاٹنے کی کوشش کریں۔
4۔اُس جگہ سے بھاگنے کی کوشش کریں۔
محترم بہن جزاک اللہ ، تھوڑی سے بات آگے بڑھانے کی جسارت کر رہا ہوں - کہ والدین کی بچوں سے دوستی نہایت ضروری ہے ، کہ بچے بلا جھجک ہر بات والدین سے کر سکیں - اس پر بہت سی باتیں ہیں تفصیل میں، کیا ہونا چاہیے ، اور پھر کیسے ہونا چاہیے-
 

جاسمن

لائبریرین
محترم بہن جزاک اللہ ، تھوڑی سے بات آگے بڑھانے کی جسارت کر رہا ہوں - کہ والدین کی بچوں سے دوستی نہایت ضروری ہے ، کہ بچے بلا جھجک ہر بات والدین سے کر سکیں - اس پر بہت سی باتیں ہیں تفصیل میں، کیا ہونا چاہیے ، اور پھر کیسے ہونا چاہیے-
والدین کی بچوں سے دوستی کم از کم آج کے وقت کا تو تقاضہ ہے۔ وہ وقت گئے جب فاصلہ رکھا جاتا تھا ۔ ایک بات کہنے کے لئے دنوں سوچنا پڑتا تھا۔
اگر دوستی نہ ہوئی تو بچے کبھی بھی کوئی "ایسی ویسی بات" ( خدانخوستہ) نہیں کہ پائیں گے۔
میرے بچپن میں میری عادت تھی کہ کسی راستے میں کسی نے کچھ کہا ہے تو بھی امّی کو بتانا ہے۔ میں اپنی طالبات کی ماؤں سے کہتی ہوں کہ ازراہِ کرم اپنی بیٹیوں سے دوستی رکھیں اور اُن کی حفاظت کریں۔
اِس پر بھی کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ اگلی پوسٹ میں بتاتی ہوں۔
 
ابن سعید بھائی! میری درخوست ہے کہ اِس پوسٹ کو کچھ مزید بہتر بنا کر گوشہء اطفال میں منتقل کر دیا جائے۔
ابھی جو گوشہ اطفال ہے وہ لائبریری کا حصہ ہے نا کہ ڈسکشن بورڈ، اگر کسی وقت بچوں کا گوشہ ترتیب پایا تو ایسی تحریریں آپ وہاں ارسال کر سکیں گی۔ :) :) :)
 
ہمیں برائیوں اور غلطیوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی وجوہات اور ان کے تدارک کے لیے لائحہ عمل پر بھی بات کرنی چاہیے - معاشرے میں ا ، ب ،ت سے ے تک بہت برائیاں ہیں،( اپنی ذات میں بھی جھانکنا چاہیے- ویسے دانامخالف ہمیں سدھارنے میں بہت کوشش کرتا ہے ) - لیکن ان کی وجوہات پر بھی بات ہونی چاہیے ، پھر کن تدابیر ، کن مہارتوں سے صورتحال کو بہتری کی طرف لایا جا سکتا ہے،- گھریلو مکھی کی طرح ، گندگی ہی نہ تلاش کی جائے، شہد کی مکھی کا رویہ بھی اپنایا جا سکتا ہے، کہ جدوجہد کر کے خوبصورتی سے عمدہ رس کشید کر تی ہے اور ایک لازوال شے تشکیل دیتی ہے
 

جاسمن

لائبریرین
میرا تجربہ ہے کہ جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا ہے،چوکیدار ہی چور بنتے جا رہے ہیں۔ جب کسی لڑکی سے موبائل ملتا ہے اور ہم اُس کی ماں سے بات کرتے ہیں تو بجائے بیٹی کے لئے پریشان ہونے کے وہ جُرمانے اور موبائل کے لئے پریشان ہوتی ہی رہتی ہیں۔
ہم بتاتے ہیں کہ آپ کی بیٹی کے موبائل میں یہ messageتھا۔ اسے سنبھالیں۔۔۔لیکن وہ پریشان ہیں کہ موبائل مل جائے اور جرمانہ کم ہو جائے۔
اور یہ تقریباََ اکشر ماؤں کی کیفیت ہے۔ لڑکیوں کے بس کے ڈرائیوروں،کنڈیکٹروں۔ حتیٰ کہ جمعداروں سے چکر۔۔۔شادی شدہ مردوں سے۔۔ایک کی بجائے کئی ۔۔ایک مرتبہ ایک موبائل ایک FAکی ایک لڑکی سے پکڑا۔ میں students 'affairsکی incharge تھی۔ مجھے تو in box or sent itemsدیکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ ایک ساتھی نے کہیںsent items دیکھ لئے۔۔۔اوہ میرے اللہ! اِس قدر غلاظت! کہ ہم شادی شدہ خواتین شرمندہ شرمندہ۔۔۔ماں کو بلایا۔ ایک کزن ساتھ تھی۔ اسے کہا کہ یہ messageپڑھ کے ماں کو سُناؤ۔۔۔ماں کو سمجھایا کہ اس کی شادی کر دو۔ ہم نے ابھی موبائل یا جرمانے کا نام بھی نہیں لیا تھا۔۔۔۔لیکن ماں کی سوئی اِن ہی دو چیزوں پر اٹکی ہوئی تھی۔ اور مائیں باپوں کو بتاتی ہی نہیں ہیں اور ہمیں بھی منع کرتی ہیں باپ کو بتانے سے۔ وہ لڑکی ایک ماہ بعد پھر ادارہ میں موجود تھی۔
 
میرا تجربہ ہے کہ جوں جوں وقت آگے بڑھ رہا ہے،چوکیدار ہی چور بنتے جا رہے ہیں۔ جب کسی لڑکی سے موبائل ملتا ہے اور ہم اُس کی ماں سے بات کرتے ہیں تو بجائے بیٹی کے لئے پریشان ہونے کے وہ جُرمانے اور موبائل کے لئے پریشان ہوتی ہی رہتی ہیں۔
ہم بتاتے ہیں کہ آپ کی بیٹی کے موبائل میں یہ messageتھا۔ اسے سنبھالیں۔۔۔ لیکن وہ پریشان ہیں کہ موبائل مل جائے اور جرمانہ کم ہو جائے۔
اور یہ تقریباََ اکشر ماؤں کی کیفیت ہے۔ لڑکیوں کے بس کے ڈرائیوروں،کنڈیکٹروں۔ حتیٰ کہ جمعداروں سے چکر۔۔۔ شادی شدہ مردوں سے۔۔ایک کی بجائے کئی ۔۔ایک مرتبہ ایک موبائل ایک FAکی ایک لڑکی سے پکڑا۔ میں students 'affairsکی incharge تھی۔ مجھے تو in box or sent itemsدیکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ ایک ساتھی نے کہیںsent items دیکھ لئے۔۔۔ اوہ میرے اللہ! اِس قدر غلاظت! کہ ہم شادی شدہ خواتین شرمندہ شرمندہ۔۔۔ ماں کو بلایا۔ ایک کزن ساتھ تھی۔ اسے کہا کہ یہ messageپڑھ کے ماں کو سُناؤ۔۔۔ ماں کو سمجھایا کہ اس کی شادی کر دو۔ ہم نے ابھی موبائل یا جرمانے کا نام بھی نہیں لیا تھا۔۔۔ ۔لیکن ماں کی سوئی اِن ہی دو چیزوں پر اٹکی ہوئی تھی۔ اور مائیں باپوں کو بتاتی ہی نہیں ہیں اور ہمیں بھی منع کرتی ہیں باپ کو بتانے سے۔ وہ لڑکی ایک ماہ بعد پھر ادارہ میں موجود تھی۔
آپ کی بات نے بہت پریشان کیا ہے ، جو کچھ بویا گیا ہے یا جا رہا ہے، وہی فصل اگے گی، ' اب تو حالات یہاں تک آ گئے ہیں کہ پتھروں کے بھی آنسوں جاری ہیں
انفرادی طور پر نجات کا ایک ہی راستہ ہے ، اپنا آپ سدھار کیا جائے اور دوسروں کو بھی سیدھے راستہ کی تلقین کی جائے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کیا جائے - اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیا اور صرف ،خود غرضی کرتے ہوئے صرف اپنی نجات کی فکر کی ، تو اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے
 
Top