مقدمہ شعر و شاعری - الطاف حسین حالی

فاتح

لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری


الطاف حسین حالی



فہرست


1. تمہید
2. شعر کی مدح و ذم
3. شاعری کا ملکہ بیکار نہیں ہے
4. شعر کی تاثیر مسلّم ہے
5. ناٹک
6. باجا

7. شعرا کا حسن قبول
8. پولیٹیکل معاملات میں شعر سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں
9. اعشیٰ کے کلام کی تاثیر
10. زمانہ جاہلیت کے اشعار کی تاثیر
11. رودکی کے کلام کی تاثیر
12. عمر خیام کی رباعی کی تاثیر
13. شاعری ناشائستگی کے زمانہ میں ترقی پاتی ہے
14. فردوسی کی مثال
15. شاعری شائستگی میں قائم رہ سکتی ہے
16. شاعری کا تعلق اخلاق کے ساتھ
17. شعر کی عظمت
18. شاعری سوسائٹی کے تابع
19. چوتھی صدی ہجری میں شعر کی نسبت کیا خیال تھا
20. مسلمان شعرا کی کثرت
21. اس کثرت کا سبب
22. عرب میں شعرا کی قدر
23. قومی سلطنتوں میں شعرا کی قدر مفید ہوتی ہے مگر شخصی حکومت میں مضر ہوتی ہے
24. شخصی حکومت میں شاعر کی آزادی سے اس کو نقصان پہنچتا ہے
25. صدر اسلام کی شاعری کا کیا حال تھا
26. متوسط اور اخیر زمانہ میں اسلامی شاعری کا کیا حال ہو گیا
27. شاعری میں تقلید
28. بری سوسائٹی سے شاعری کو کیا کیا نقصان پہنچے ہیں
29. بری شاعری سے لٹریچر اور زبان کو کیا صدمہ پہنچتا ہے
30. شاعر کی اصلاح
31. گولڈ سمتھ کی شاعری
32. شاعری کی اصلاح کیونکر ہو سکتی ہے
33. اردو میں شاعر بننے کے لیے فی زمانہ کس شرط کی ضرورت سمجھی جاتی ہے
34. شعر کے لیے وزن ضروری ہے یا نہیں
35. عرب شعر کے کیا معنی سمجھتے ہیں
36. وزن کی شعر میں کس قدر ضرورت ہے
37. قافیہ شعر کے لیے ضروری ہے یا نہیں
38. شعر کی ماہیت
39. شاعری کے لیے کیا کیا شرطیں ضروری ہیں
40. تخیّل
41. تخیّل کی تعریف
42. دوسری شرط کائنات کا مطالعہ
43. سر والٹر سکوٹ کی شاعری
44. تیسری شرط تفحّص الفاظ
45. آمد اور آورد میں فرق
46. انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر
47. شعر میں کس قسم کی باتیں بیان کرنی چاہییں
48. اعلیٰ طبقہ کے شعرا کا کلام یاد ہونا چاہیے
49. تخیّل کو قوت ممیّزہ کا محکوم رکھنا چاہیے
50. شعر میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہییں
51. اصلیت سے کیا مراد ہے
52. جوش سے کیا مراد ہے
53. عبرانی اور عربی شاعری میں سب سے زیادہ جوش تھا
54. ابن رشیق اور ملٹن کے بیان میں فرق
55. زمانہ کی رفتار کے موافق اردو شاعری میں ترقی کیونکر ہو سکتی ہے
56. شاعری کے لیے سبق استعداد ضرور ہے
57. جھوٹ اور مبالغہ سے بچنا چاہیے
58. ینچرل شاعری
59. زبان کو درستی کے ساتھ استعمال کرنا
60. فکر شعر کی طرف کس حالت میں متوجہ ہونا چاہیے
61. غزل، قصیدہ اور مثنوی
62. غزل
63. سعدی (اقوال عربی)
64. از دیوان خواجہ حافظ
65. از دیوان خواجہ میر درد
66. از دیوان سودا
67. ذوق
68. غالب
69. شیفتہ
70. حسن مطلع
71. قصیدہ
72. مثنوی
 

فاتح

لائبریرین
تمہید

تمہید​
حکیم علی الاطلاق نے اس ویرانۂ آباد نما یعنی کارخانۂ دنیا کی رونق اور انتظام کے لیے انسان کے مختلف گروہوں میں مختلف قابلیتیں پیدا کی ہیں تا کہ سب گروہ اپنے اپنے مذاق اور استعداد کے موافق جدا جدا کاموں میں مصروف رہیں۔ اور ایک دوسرے کی کوشش سے سب کی ضرورتیں رفع ہوں اور کسی کا کام اٹکا نہ رہے۔ اگرچہ ان میں بعض جماعتوں کے کام ایسے بھی ہیں جو سوسائٹی کے حق میں چنداں سودمند معلوم نہیں ہوتے۔ مگر چونکہ قسامِ ازل سے ان کو یہی حصہ پہنچا ہے اس لیے وہ اپنی قسمت پر قانع اور اپنی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ جو کام ان کی کوششوں سے سرانجام ہوتا ہے گو تمام عالم کی نظر میں اس کی کچھ وقعت نہ ہو۔ مگر ان کی نظر میں وہ ویسا ہی ضروری اور ناگزیر ہے جیسے گروہوں کے مفید اور عظیم الشّان کام تمام عالم کی نظر میں ضروری اور ناگزیر ہیں۔ کسان اپنی کوشش سے عالم کی پرورش کرتا ہے۔ اور معمار کی کوشش سے لوگ سردی گرمی، مینہ اور آندھی کی گزند سے بچتے ہیں اس لیے دونوں کے کام سب کے نزدیک عزت اور قدر کے قابل ہیں۔ لیکن ایک بانسری بجانے والاجو کسی سنسان ٹیکرے پر تن تنہا بیٹھا بانسری کی لے سے اپنا دل بہلاتا اور شاید کبھی کبھی سننے والوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچتا ہے گو اس کی ذات سے بنی نوع کے فائدہ کی چنداں توقع نہیں۔ مگر وہ اپنے دلچسپ مشغلہ کو کسان اور معمار کے کام سے کچھ کم ضروری نہیں سمجھتا۔ اور اس خیال سے اپنے دل میں خوش ہے کہ اگر اس کام کو سلسلۂ تمدّن میں کچھ دخل نہ ہوتا تو صانعِ حکیم انسان کی طبیعت میں اس کا مذاق ہر گز پیدا نہ کرتا۔
ہزار رنگ دریں کارخانہ درکارست
مکیر نکتہ نظیری ہمہ نکو بستند​

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شعر کی مدح و ذم

شعر کی مدح و ذم
شعر کی مدح و ذم میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور جس قدر اس کی مذمّت کی گئی ہے وہ بہ نسبت مدح کے زیادہ قرین قیاس ہے۔ خود ایک شاعر کا قول ہے کہ دنیا میں شاعر کے سوا کوئی ذلیل سے ذلیل پیشہ والا ایسا نہیں ہے جس کی سوسائٹی کو ضرورت نہ ہو۔ افلاطون نے جو یونان کے لیے جمہوری سلطنت کا ایک خیالی ڈھانچہ بنایا تھا۔ اس میں شاعروں کے سوا ہر پیشہ اور ہر فن کو لوگوں کی ضرورت تسلیم تھی۔ زمانۂ حال میں بعضوں نے شعر کو 'میجک لینٹرن' سے تشبیہ دی ہے یعنی میجک لینٹرن جس قدر تاریک کمرے میں روشن کی جاتی ہے اسی قدر زیادہ جلوے دکھاتی ہے۔ اسی طرح شعر جس قدر جہل و تاریکی کے زمانہ میں ظہور کرتا ہے اسی قدر زیادہ رونق پاتا ہے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شاعری کا ملکہ بے کار نہیں

شاعری کا ملکہ بے کار نہیں
یہ اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں جو شعر کے برخلاف کہی گئی ہیں۔ ایسی ہیں جو لامحالہ تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ مگر اس بات کا بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی ایسے پیدا ہوئے ہیں جن کو قدرت نے اسی کام کے لیے بنایا تھا اور یہ بلکہ ان کی طبیعت میں ودیعت کیا تھا اگرچہ اکثر نے اس ملکہ کو مقتضائے فطرت کے خلاف استعمال کیا۔ پس ایک ایسے عطیّہ کو جو قدرت نے عنایت کیا ہو صرف اس وجہ سے کہ اکثر لوگ اس کو فطرت کے خلاف استعمال کرتے ہیں کسی طرح عبث اور بیکار نہیں کہا جا سکتا۔ عقل خدا کی ایک گراں بہا نعمت ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو مکر و فریب اور شر و فساد میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح شجاعت ایک عطیّۂ الٰہی ہے مگر بعض اوقات وہ قتل و غارت و رہزنی میں صرف کی جاتی ہے۔ کیا اس سے عقل کی شرافت اور شجاعت کی فضیلت میں کچھ فرق آ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح ملکہ شعر کسی کے برے استعمال سے برا نہیں ٹھیر سکتا۔
یہ بات تسلیم کی گئی ہے کی شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا وہی شاعر بنتا ہے۔ شاعری کی سب سے پہلی علامت موزونیِ طبع سمجھی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو اشعار بعضے فاضلوں سے موزوں نہیں پڑھے جاتے ان کو بعض ان پڑھ اور صغیر سن بچے بلا تکلف موزوں پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ شاعری کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے بلکہ بعضی طبیعتوں میں اس کی استعداد خدا داد ہوتی ہے۔ پس جو شخص اس عطیّۂ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا۔ ممکن نہیں کہ اس سے سوسائٹی کو کچھ نفع نہ پہنچے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شعر کی تاثیر مسلّم ہے

شعر کی تاثیر مسلّم ہے
شعر کی تاثیر کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ سامعین کا اکثر اس سے حزن یا نشاط یا جوش یا افسردگی کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے کچھ کام لیا جائے تو وہ کہاں تک فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بھاپ سے جو حیرت انگیز کرشمے اب ظاہر ہوئے ہیں ان کا سراغ اوّل اس خفیف حرکت میں لگا تھا جو اکثر پکتی ہانڈی پر چپنی کو بھاپ کے زور سے ہُوا کرتی ہے۔ اُس وقت کون جانتا تھا کہ اس ناچیز گیس میں جرّار لشکروں اور زخّار دریاؤں کی طاقت چھُپی ہوئی ہے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
ناٹک - باجا

ناٹک
ہمارے ملک میں بھانڈ اور نقالوں کا کام بہت ذلیل سمجھا جاتا ہے اور ہولی میں جو سوانگ بھرے جاتے ہیں وہ سوسائٹی کے لیے مضر خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن یورپ میں اسی سوانگ اور نقالی نے اصلاح پا کر قوموں کو بے انتہا اخلاقی اور تمدّنی فائدے پہنچائے ہیں۔


باجا
باجے کے آلات جو ہمارے ہاں ہمیشہ لہو و لعب کے مجمعوں میں مستعمل ہوتے ہیں اور جن کو یہاں کے ملّا محض فضول جانتے ہیں۔ شایستہ قوموں نے ان کے مناسب استعمال سے نہایت گرانبہا فائدے اٹھائے ہیں۔ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ میدان جنگ میں جب اصول مقررہ کے موافق باجا بجتا ہے تو سپاہ کے دل حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اور افسر کے حکم پر ہر سپاہی جان فدا کرنے کو موجود ہو جاتا ہے۔ اور جب کسی وجہ سے جنگ کے موقع پر باجا بجنے سے رک جاتا ہے تو ان کے دل سرد ہو جاتے ہیں اور افسر کا حکم بہت کم مانا جاتا ہے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شعرا کا حسن قبول

شعرا کا حسن قبول
تاریخ میں ایسی مثالیں بے شمار ملتی ہیں کہ شعرا نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کے دلوں پر فتح نمایاں حاصل کی ہے۔ بعض اوقات شاعر کا کلام جمہور کے دل پر ایسا تسلط کرتا ہے کہ شاعر کی ہر ایک چیز یہاں تک کہ اس کے عیب بھی خلقت کی نظر میں مستحسن معلوم ہونے لگتے ہیں اور لوگ اس بات میں کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ان عیبوں سے متصّف ہو کر دکھائیں۔ بائرن کی نسبت مشہور ہے کہ "لوگ اس کی تصویر نہایت شوق سے خریدتے تھے اور اس کی نشانیاں اور یادگاریں سینت سینت کر رکھتے تھے۔ اس کے اشعار حفظ یاد کرتے تھے اور ویسے ہی اشعار کہنے میں کوشش کرتے تھے۔ بلکہ یہ چاہتے تھے کہ خود بھی ویسے ہی دکھائی دینے لگیں۔ اکثر لوگ آئینہ سامنے رکھ کر مشق کیا کرتے تھے کہ اوپر کے ہونٹ اور پیشانی پر ویسی ہی شکن ڈال لیں جیسی کہ لارڈ بائرن کی بعض تصویروں میں پائی جاتی ہے۔ بعضوں نے اس کی ریس سے گلوبند (1) باندھنا چھوڑ دیا تھا"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ
(1) ۔ لکھنؤ میں میر انیس اور مرزا دبیر نے بھی تقریباً ایسی ہی قبولیت حاصل کی تھی۔ جو لوگ میر انیس کو پسند کرتے تھے، وہ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی میں جہاں تک ہو سکتا تھا، میر انیس کی تقلید کرتے تھے اور جو فریق مرزا دبیر کا طرفدار تھا، وہ ہر ایک بات میں ان کی پیروی کرتا تھا مگر لارڈ بائرن اور ان دونو صاحبوں کی مقبولیت میں اتنا فرق ہے کہ لارڈ بائرن کی عظمت اہل انگلستان کے دل میں صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ اس کو اپنا قومی شاعر سمجھتے تھے اور اسی لیے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونو فرقے اس کو یکساں عزیز رکھتے تھے۔ بخلاف انیس و دبیر کے، ان کی عظمت محض ایک مذہبی شاعر ہونے کی وجہ سے تھی اور اسی لیے ان کی بڑائی اور بزرگی جیسی کہ عموماً ایک فرقہ کے دل میں تھی، ویسی عام طور پر دوسرے فرقہ کے دل میں نہ تھی۔ یہ امتیاز یعنی قومی اور مذہبی حیثیت کا ہمارے اور اہل یورپ کے تمام کاموں میں پایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
پولیٹکل معاملات میں شعر سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں

پولیٹکل معاملات میں شعر سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں
یورپ میں پولیٹکل مشکلات کو وقت قدیم پوئٹری کو قوم کی ترغیب و تحریص کا ایک زبردست آلہ سمجھتے رہے ہیں۔ ایک زمانہ میں ایتھنز اور مگارا والوں میں جزیرۂ سیلمس کی بابت مدّت دراز تک جنگ رہی۔ جس میں ایتھنز والوں کو برابر شکستیں ہوتی رہیں۔ اور رفتہ رفتہ اُن کا حوصلہ ایسا پست ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے لڑائی سے دست بردار ہو گئے۔ اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ جو شخص اس لڑائی کا ذکر کرے یا دوبارہ لڑنے کی تحریک دے وہ قتل کیا جائے۔ اس وقت ایتھنز کا مشہور مقنن سولن زندہ تھا۔ اس کو نہایت غیرت آئی۔ اس نے اہل وطن کو پھر لڑائی پر آمادہ کرنا چاہا۔ وہ دانستہ مجنون بن گیا۔ جب ایتھنز میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ سولن دیوانہ ہو گیا ہے اس نے کچھ اشعار نہایت درد انگیز لکھے اور پرانے زدہ کپڑے پہن کر اور اپنے گلے میں ایک رسی اور سر پر پرانی چادر ڈال کر گھر سے نکلا۔ لوگ یہ حال دیکھ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ ایک بلندی پر جہاں اکثر فصحا منادی کیا کرتے تھے جا کھڑا ہوا۔ اور اپنی عادت کے خلاف اشعار پڑھنے شروع کیے، جن کا مضمون یہ تھا "کاش میں ایتھنز میں پیدا نہ ہوتا۔ بلکہ عجم یا بَربَر یا کسی اور ملک میں پیدا ہوتا جہاں اس کے باشندے میرے ہموطنوں سے زیادہ جفاکش، سنگدل اور یونان کے علم و حکمت سے بے خبر ہوتے۔ وہ حالت میرے لیے اس سے بہت بہتر تھی کہ لوگ مجھے دیکھ کر ایک دوسرے سے کہیں کہ یہ شخص اسی ایتھنز کا رہنے والا ہے جو سیلمس کی لڑائی سے بھاگ گیا۔ اے عزیزو! جلد دشمنوں سے انتقام لو۔ اور یہ ننگ و عار ہم سے دور کرو۔ اور چین سے نہ بیٹھو۔ جب تک کہ اپنا چھِنا ہوا ملک ظالم دشمنوں کے پنجہ سے نہ چھُڑا لو" ان غیرت انگیز اشعار سے ایتھنز والوں کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اسی وقت سب نے ہتھیار ہتھیار سنبھال کر سولن کو سپاہ کا سردار اور حاکم مقرر کیا اور سب کے سب ماہی گیروں کی کشتیوں میں سوار ہو کر سیلمس پر چڑھ گئے۔ آخر جیسا کہ تاریخ میں بتفصیل مذکور ہے جزیرۂ سیلمس پر قابض ہو گئے۔ اور دشمنوں میں سے بہت قید ہوئے اور باقی تمام مال و اسباب چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ایک بار پھر غنیم نے بیڑے ساز و سامان کے ساتھ سیلمس پر چڑھائی کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔

مثال2
انگلستان کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایڈورڈ نے جب ویلز پر چڑھائی کی تو ویلز کے شاعروں نے قومی ہمدردی کے جوش میں نہایت ولولہ انگیز اشعار کہنے شروع کیے۔ تا کہ اہل ویلز کی ہمت اور غیرت زیادہ ہو۔ اگرچہ انگلستان کی سپاہ کے آگے ان کی کچھ حقیقت نہ تھی لیکن شاعروں کے پر جوش کلام نے ان میں حب وطن کا جوش اس قدر پھیلا دیا تھا کہ جب وہ فوج شاہی کے مقابلہ میں کامیابی سے بالکل مایوس ہو گئے تو بھی اطاعت خوشی سے قبول نہ کی۔ شاعروں کے کلام سے ایڈورڈ کی اس قدر مزاحمت ہوئی اور اس کو ایسی دقّتیں اٹھانی پڑیں کہ فتح کے بعد اس نے ویلز کے تمام شاعروں اور نسابوں کے قتل کروا ڈالا۔ اگرچہ شاعری کا نتیجہ ویلز کے شاعروں کے حق میں بہت برا ہوا اور ملک کے لیے بھی مفید نہ ہوا۔ لیکن اس واقعہ سے شعر کا تاثر اور کرامت بخوبی ثابت ہوتی ہے۔

مثال3
لارڈ بائرن کی نظم موسوم بہ "چائلڈ ہیرلڈز پلگریمیج" ایک مشہور نظم ہے۔ جس کے ایک حصہ میں فرانس، انگلستان اور روس کو غیرت دلائی ہے اور یونان کو ترکوں کی اطاعت سے آزاد کرانے پر بر انگیختہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ جو فائدے یونان کے علم و حکمت سے یوروپ نے اور خاص کر فرانس اور انگلستان نے حاصل کیے ہیں اس کا بدلہ آج تک یونان کو کچھ نہیں دیا گیا۔ اور روس نے بھی جو کہ گریک چرچ کی پیروی کا دم بھرتا ہے یونان کی کسی قسم کو مدد نہیں دی۔ پھر تینوں سلطنتوں کو غیرت دلانے کے لیے یونانیوں کو ترغیب دی ہے کہ غیروں سے کچھ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ بلکہ خود اپنے دست و بازو پر بھروسا کر کے ترکوں کی غلامی سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ 1812ء میں اس نظم کی اشاعت ہوئی جس کے سبب بائرن کی شاعری تمام یوروپ میں دھوم ہو گئی اور انگریز اس کی نظم پر مفتون ہو گئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ فرانس، انگلستان، اٹلی، آسٹریا اور روس میں اس نظم نے وہ کام کیا جو آگ بارود پر کرتی ہے۔ جس وقت یونان نے ترکی سے بغاوت اختیار کی یوروپ کا متفقّہ بیڑا فوراً اس کی کمک کو پہنچا۔ 1827ء میں متفقّہ بیڑے نے ترکوں کے بیڑے کو شکست دی اور ترکی کو یونان کے آزاد کرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کی آزادی کو تمام یوروپ نے تسلیم کر لیا۔ اوتھو ایک ڈنمارک کا شہزادہ یونان کا بادشاہ بنایا گیا اور یونان میں پارلیمنٹ قائم کی گئی۔

مثال4
1830ء میں جب کہ چارلس دہم بادشاہ فرانس نے قانون آزادی کے برخلاف کاروائی کرنی شروع کی اور رعایا سے فرانس میں سخت اضطراب اور سراسیمگی پیدا ہوئی۔ اس وقت فرانس میں بھی دو قصیدے ایک منسوب بہ پیرس اور دوسرا منسوب بہ مارسلیز لکھے گئے تھے۔ جو گزر گاہوں اور شاہ راہوں میں طبل جنگ پر گائے جاتے تھے اور جن میں لوگوں کو بادشاہ سے بغاوت اور آزادی کی حمایت کرنے پر اُکسایا گیا تھا۔

الغرض یورپ میں لوگوں نے شعر سے بہت بڑے بڑے کام لیے ہیں۔ خصوصاً ڈریمٹک پوئیٹری نے یوروپ کو جس قدر فائدہ ہے اس کا اندازہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ اسی واسطے شکسپیئر کے ڈراموں سے پولیٹکل، سوشل اور مورل ہر طرح کے بیشمار فائدے اہل یوروپ کو پہنچے ہیں۔ یہ بائبل کے ہم پلّہ سمجھے جاتے ہیں۔ بلکہ جو لوگ مذہب کی قید سے آزاد ہیں وہ ان کو بائبل سے بھی زیادہ سودمند اور فائدہ رساں خیال کرتے ہیں۔
ایشیا کی شاعری میں اگرچہ ایسی مثالیں جیسی کہ اوپر ذکر کی گئی ہیں شاید مشکل سے مل سکیں لیکن ایسے واقعات بہ کثرت بیان کیے جا سکتے ہیں جن سے شعر کی غیر معمولی تاثیر اور اس کے جادو کا کافی ثبوت ملتا ہے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
اعشیٰ کے کلام کی تاثیر
عرب کا مشہور شاعر میمون بن قیس (1) جس کو نابینا ہونے کے سبب اعشیٰ کہتے تھے اس کے کلام میں یہ تاثیر ضرب المثل تھی کہ جس کی مدح کرتا ہے وہ عزیز و نیک نام اور جس کی ہجو کرتا ہے وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے۔ ایک بار ایک عورت اس کے پاس آئی اور یہ کہا کہ میری لڑکیاں بہت ہیں اور کہیں سے ان کو بَر نہیں ملتا۔ اگر تو چاہے تو لوگوں کو شعر کے ذریعہ سے ہمارے خاندان کی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ اعشیٰ نے اس کی لڑکیوں کے حسن و جمال اور خصائل پسندیدہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا۔ جس کی بدولت ان لڑکیوں کی صورت اور سیرت کا چرچا تمام ملک میں پھیل گیا اور چاروں طرف سے ان کے پیغام آنے لگے۔ یہاں تک کہ امرا نے بھاری بھاری مہر مقرر کر کے ان سے شادیاں کر لیں۔ لڑکیوں کی ماں جب کوئی لڑکی بیاہی جاتی تھی ایک اونٹ بطور شکریہ کے اعشیٰ کے واسطے ہدیہ بھیج دیتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ
(1) ۔ ایک مخضرمی شاعر یعنی اس نے جاہلیت اور اسلام دونو زمانے دیکھے ہیں، اس نے ایک قصیدہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت میں بھی لکھا تھا اور یہی عرب کا پہلا شاعر ہے جس نے مدح گوئی کا مدار صلہ جائزہ پر رکھا تھا اور محض مداحی کی بدولت دولت مند ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
زمانۂ جاہلیت کے اشعار کی تاثیر
اس کے سوا زمانۂ جاہلیت کی شاعری میں ایسی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ مثلاً شاعر اپنے قبیلہ کو جب کہ تمام قبیلہ کے لوگ اپنے مقتول کا خوں بہا لینے پر راضی ہیں ملامت کرتا ہے اور قاتل سے انتقام لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ یا کسی رنجش کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو دوسرے قبیلہ سے لڑنے یا بدلہ لینے کے لیے بر انگیختہ کرتا ہے۔ یا اپنے پانی کے چشمے یا چراگاہ کے چھن جانے پر قوم سے مدد لینی اور ان میں جوش پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور اکثر اپنی تحریصوں میں کامیاب ہوتا ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن معدیکرب جو کہ بنی زبید کا سردار تھا۔ ایک روز بنی مازن کی مجلس میں بیٹھا تھا اور شراب پی رکھی تھی کہ مخزوم مازنی کے ایک حبشی غلام نے کچھ اشعار ایک عورت کی تشبیب کے جو کہ بنی زبید میں سے تھی گائے۔ عبد اللہ نے اٹھ کر زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ غلام چلایا۔ بنی مازن نے غیظ و غضب میں آ کر عبد اللہ کو مار ڈالا۔ پھر عمرو بن معدیکرب کے پاس جو کہ عبد اللہ کا بھائی تھا جا کر عذر کیا کہ تمہارے بھائی کو ہم میں سے ایک نادان آدمی نے جو نشہ میں مدہوش تھا مار ڈالا ہے۔ سو ہم تم سے عفو کے خواستگار ہیں اور خون بہا جس قدر چاہو دینے کو تیار ہیں۔ عمرو خون بہا لینے پر آمادہ ہو گیا۔ جب بھائی کی آمادگی کا حال کبثہ بنت معدیکرب کو معلوم ہوا تو اس نے نہایت ملامت آمیز اشعار کہے جن میں عمرو کو انتقام نہ لینے پر سخت غیرت دلائی ہے۔ آخر عمرو بہن کی ملامت سے متاثر ہو کر انتقام لینے کو کھڑا ہو گیا۔ اور مازینوں سے اپنے بھائی کو خون کا بدلہ لے کر چھوڑا۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
رودکی کے کلام کی تاثیر
ایران کے مشہور شاعر رودکی کا قصہ مشہور ہے کہ امیر نصر بن احمد سامانی نے جب خراسان کو فتح کیا اور ہرات کی فرحت بخش آب و ہوا اس کو پسند آئی تو اس نے وہیں مقام کر دیا۔ اور بخارا جو کہ سامانیوں کا اصلی تختگاہ تھا اس کے دل سے فراموش ہو گیا۔ لشکر کے سردار اور اعیانِ امرا جو بخارا میں عالیشان عمارتیں اور عمدہ باغات رکھتے تھے ہرات میں رہتے رہتے اکتا گئے اور اہلِ ہرات بھی سپای کے زیادہ ٹھیرنے سے گھبرا اٹھے۔ سب نے استاد ابو الحسن رودکی سے یہ درخواست کی کہ کسی طرح امیر کو بخارا کی طرف مراجعت کرنے کی ترغیب دے۔ رودکی نے ایک قصیدہ لکھا (1) اور جس وقت بادشاہ شراب اور راگ رنگ میں محو ہو رہا تھا اس کے سامنے پڑھا۔ اس قصیدہ نے امیر کے دل پر ایسا اثر کیا کہ جمی جمائی محفل چھوڑ کر اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بغیر موزہ پہنے گھوڑے پر سوار ہو کر مع لشکر کے بخارا کو روانہ ہو گیا۔ اور دس کوس پر جا کر پہلی منزل کی۔
شاید اس قبیل کے واقعات ایشیائی شاعری میں کم دستیاب ہوں لیکن ایسی حکایتیں بیشمار ہیں کہ شعر کسی مناسب موقع پر پڑھا یا گایا گیا ہو۔ اور سامعین کے دل قابو سے باہر ہو گئے۔ اور صحبت کا رنگ دگر گوں ہو گیا۔ اس موقع پر ایک حکایت نقل کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ
(1) ۔ اس قصیدہ کے اول کے چند شعر یہ ہیں:
بوئے یار مہرباں آید ہمے
یاد جوئے مولیاں آید ہمے

ریگ آموئے دو رشتیہائے او
پائے مارا پرنیاں آید ہمے

آب جیحون و شگرفیہائے او
ننگ مارا تامیاں آید ہمے

اے بخارا شادباش و شاذ دی
شاہ سویت میہماں آید ہمے

شاہ مان است و بخارا آسماں
ماہ سوئے آسماں آید ہمے

شاہ سر دست و بخارا بوستاں
مرد سوئے بوستاں آید ہمے​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
عمر خیام کی رباعی کی تاثیر
نور بائی گائن جس نے اپنے حسن و جمال، خوش آوازی، بذلہ سنجی اور مصاحبت کی عمدہ لیاقت کے سبب محمد شاہ کے تقرب کا درجہ حاصل کیا تھا۔ اور جو تمام امرا دربار کے دلوں پر قابض تھی ایک روز نواب روشن الدولہ کے ہاں بیٹھی تھی اور ہنسی چہل کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں غالباً میراں سید بھیک صاحب کی سواری جن سے نواب کو کمال عقیدت تھی آ پہنچی۔ نواب نے فوراً بائی کو دوسرے کمرے میں بٹھا کر آگے سے چلمن چھڑوا دی۔ میراں صاحب آئے اور اتفاقاً بہت دیر بیٹھے۔ بائی جو ایک نہایت چلبلی اور بے چین طبیعت کی عورت تھی تنہائی میں زیادہ بیٹھنے کی تاب نہ لا کر بیباکانہ باہر نکل آئی۔ اور شیخ کی حضور میں جھک کر آداب بجا لائی۔ اور عرض کی کہ لونڈی کو حکم ہو تو کچھ گائے۔ میراں صاحب سماع کے عاشق تھے خاموش ہو رہے۔ بائی نے ان کی خاموشی کو اجازت سمجھ کر یہ رباعی نہایت سوز و گداز کی لے میں گانی شروع کی:
شیخے بہ زنے فاحشہ گفتا مستی
کز خیر گستی و بہ شر پیوستی
زن گفت چنانکہ مینمایم ہستم
تو نیز چنانکہ مینمائی ہستی؟​
شیخ کی حالت اس بر محل رباعی کے سننے سے ایسی متغیر ہو گئی کہ بائی کو اپنی جسارت سے سخت نادم ہونا پڑا۔ باوجودیکہ نور بائی کو خاموش کر دیا گیا تھا شیخ کی شورش کسی طرح کم نہ ہوتی تھی۔ وہ زمین پر مرغ بسمل کی طرح لوٹتے تھے اور دیواروں میں سر دے دے مارتے تھے۔ دیر تک یہی حال رہا اور بہت مشکل سے ہوش میں آئے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

شمشاد

لائبریرین
شاعری کی اصلاح :

جب فن شعر اس حالت کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی اصلاح قریب ناممکن کے ہو جاتی ہے اول تو شعراء کو قدیم الف و عادت کے سبب اس بات کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ جس راہ پر وہ جا رہے ہیں اس کے سوا کوئی اور بھی رستہ ہے، اور اگر بالفرض کسی نے قوم کا شارع عام چھوڑ کر دوسری راہ اختیار بھی کی تو اس کو دو نہایت سخت مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اول تو طریق غیر مسلوک میں قدم رکھنا اور اس کے تمام مرحلوں سے عبور کر کے منزل مقصود تک پہنچنا ہی نہایت کٹھن اور دشوار کام ہے۔ دوسری مشکل اس سے بھی زیادہ سخت یہ ہے کہ موجودہ سوسائٹی کا مذاق چونکہ اس نئی روش سے بالکل بیگانہ ہوتا ہے اس لیے نہ کوئی اس کی مشکلات کا اندازہ کر سکتا ہے اور نہ کہیں اس کی محنت کی داد مل سکتی ہے۔ پس کوئی شخص جب تک کہ زمانہ کی قدردانی سے بالکل دست بردار ہوکر اس دہقان کی مانند جو اخیر عمر میں کھرنی کی پود اپنی زمین میں لگائے محض ایک امید موہوم پر آئیندہ نسلوں کی ضیافت طبع کا منصوبہ نہ باندھے اس کوچہ میں ہر گز قدم نہیں رکھ سکتا۔

اگرچہ یہ ممکن ہے کہ نئی روش پر چلنے والا شاعر کوئی مضمون زمانہ کی ضرورت اور مقتضائے حال کے موافق شعر کے لباس میں جلوہ گر کر کے ملک کے جدت پسند لوگوں میں کچھ شہرت یا قبولیت حاصل کر لے اور ایک خاص حیثیت سے اس کے کلام کی داد توقع سے زیادہ اس کو مل جائے۔ مگر شاعری کی حیثیت سے نہ تو فی الواقع وہ اس کے کلام کی داد ہوتی ہے اور نہ وہ اس کو داد سمجھتا ہے بلکہ ایسی داد سن کر چپکے ہی چپکے اپنے دل میں یہ شعر پڑھتا ہے۔

بخوں آلودہ دست و تیغ غازی ماندہ بے تحسیں
تو اول زیب اسپ و زینت بر گستواں بینی​

شعرائے ہمعصر کچھ تو قدیم شاعری کے تعصب سے اور زیادہ تر اجنبیت اور بیگانگی مذاق کے سبب اس کی روش کو اس حجت سے کہ وہ شارع عام سے الگ ہے تسلیم نہیں کرتے اور بعضے اپنے نزدیک اس کی ہجو ملیح اس طرح فرماتے ہیں کہ فلاں شخص نے شاعری نہیں کی بلکہ مفید اور اخلاقی مضامین لکھ کر اپنے لیے زاد آخرت جمع کیا ہے لیکن اگر وہ فی الواقع موجودہ نسل کی قدر شناسی سے قطع نظر کر چکا ہے تو اس کی ایسی باتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ امید رکھنی چاہیے کہ اگر قوم کی زمین میں کچھ آل باقی ہے تو تخم اکارت نہ جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
گولڈ اسمتھ کی شاعری :

گولڈ اسمتھ نے جب اول ہی اول اپنے ملک کے قدیم شاعروں کا مسلک جس کی بنیاد جھوٹ اور مبالغہ اور ہواوہوس کے مضامین پر تھی، چھوڑ کر سچی نیچرل شاعری اختیار کی تو اس کی یہی مشکلات پیش آئی تھیں۔ چنانچہ اس نے اس حالت کو ایک نظم میں بیان کیا ہے۔ اس میں اپنی نئی روش کی نظم کی خطاب کر کے کہتا ہے۔ " اے میری پیاری نظم تو ان موقعوں سے پہلی بھاگنے والی نظم ہے۔ جہاں نفسانی خواہشوں کی طغیانی ہوتی ہے اتو اس بے قدری کے زمانہ میں بجائے اس کے کہ دلوں کو اپنی طرف مائل اور پاک شہرت حاصل کرئے، ہر جگہ ملامت کی جاتی ہے۔ تیری بدولت عام جلسوں میں مجھکو شرمندہ ہونا پڑتا ہے لیکن جب تنہا ہوتا ہوں تو تجھ پر فخر کرتا ہوں۔ تو کمال کے طالبوں کی رہنما ہے اور نیکی کی دایہ۔ پس خدا ہی تیرا نگہبان ہو گا۔ دنیا کے کسی حصہ میں خواہ وہ ٹورنو 6 کی چوٹیاں ہوں یا پیکبار کا 7 کی تلیٹی اور خواہ وہ خط استوا کا نہایت گرم خطہ ہو قطب کا منجمد کرنے والا جاڑا۔ جہاں کہیں تجھ پر نکتہ چینی ہو تو وقت کامقابلہ کیجیو اور باد مخالف کے جھکڑوں پر غالب آئیو اور اپنے درد ناک نالوں سے سچ کی مدد کیجیئو۔ جس کو لوگ حقیر جانتے ہیں تو گمراہوں کو دولت کی حقارت کرنی سکھا اور ان کو اس بات کا یقین دلا کہ جولوگ اپنے قدرتی ذریعوں پر بھروسہ کرتے ہیں اگرچہ وہ مفلس ہوں لیکن خوشحال ہو سکتے ہیں۔ مگر جو ترقی تجارت سے ملک میں ہوتی ہے وہ بظاہر ایک زمانہ تک دھوم دھام دکھلاتی ہے مگر بہت جلد آوے کی طرح بیٹھ جاتی ہے جیسے کہ سمندر کی موجیں آخر اس بند کو برباد کر دیتی ہیں جو کمال محنت و مشقت سے باندھا گیا ہو جو ملک اپنے قدرتی ذریعوں پر بھروسہ کرتے ہیں وہ زمانہ کی سختیوں اور بربادیوں کا اس طرح مقابلہ کرتے ہیں جیسے چٹانیں سمندر کی موجوں اور طغیانیوں کا مقابلہ کرتی ہیں اور جہاں تھیں وہیں بدستور جمی رہتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاعر کی اصلاح کیونکر ہو سکتی ہے :

نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کیے جائیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شعر کی حقیقت اور شاعر بننے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اردو میں شاعر بننے کے لیے فی زماننا کسی شرط کی ضرورت سمجھی جاتی ہے :

ہمارے ملک میں فی زماننا شاعری کے لیے صرف ایک شرط یعنی موزوں طبع ہونا درکار ہے۔ جو شخص چند سیدھی سادی متعارف بحروں میں کلام موزوں کر سکتا ہے گویا اس کے شاعر بننے کے لیے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہتی۔ معمولی مضامین، معمولی تشبیہوں اور استعاروں کا کسی قدر ذخیرہ اس کے لیے موجود ہی ہے۔ جس کو متعدد صدیوں سے لوگ دہراتے چلے آتے ہیں۔ اور اتفاق سے وہ موزوں طبع بھی ہے۔ اب اس کے لیے اور کیا چاہیے مگر فی الحقیقت شعر کا پایا اس سے بمراتب بلند تر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شعر کے لیے وزن ضروری ہے یا نہیں :

شعر کے لیے ایک ایسی چیز ہے جیسے راگ کے لیے بول جس طرح راک فی حد ذاتہ الفاظ کا محتاج نہیں، اسی طرح نفس شعر وزن کا محتاج نہیں۔ اس موقع پر جیسے انگریزی میں دو لفظ مستعمل ہیں ایک پوئٹری اور دوسرا ورس۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی دو لفظ استعمال میں آتے ہیں، ایک شعر اور دوسرا نظم، اور جس طرح ان کے ہاں وزن کی شرط پوئٹری کے لیے نہیں بلکہ ورس کے لیے ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بھی یہ شرط شعر میں نہیں بلکہ نظم میں معتبر ہونی چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عرب شعر کے کیا معنی سمجھتے تھے :

قدیم عرب کے لوگ یقینا شعر کے یہی معنی سمجھتے تھے۔ جو شخص معمولی آدمیوں سے بڑھ کر کوئی مؤثر اور دلکش تقریر کرتا تھا اسی کو شاعر جانتے تھے۔ جاہلیت کی قدیم شاعری میں زیادہ تر اسی قسم کے برجستہ اور دلآویز فقرے اور مثالیں پائی جاتی ہیں جو عرب کی عام بول چال سے فوقیت اور امتیاز رکھتی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ جب قریش نے قرآن مجید کی نرالی اور عجیب عبارت سنی تو جنہوں نے اس کوکلام الٰہی نہ مانا وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہنے لگے۔ حالانکہ قرآن شریف میں وزن کا مطلق التزام نہ تھا۔ محقق طوسی اساس الاقتباس میں لکھتے ہیں کہ عبری اور سریانی اور قدیم فارسی میں شعر کے لیے وزن حقیقی ضرور نہ تھا۔ سب سے پہلے وزن کا التزام عرب نے کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
وزن کی شعر میں کس قدر ضرورت ہے :

البتہ اس میں شک نہیں کہ وزن سے شعر کی خوبی اور اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے۔ یورپ کا ایک محقق لکھتا ہے کہ اگرچہ وزن پر شعر کا انحصار نہیں ہے اور ابتدا میں وہ مدتوں اس زیور سے معطل رہا ہے مگر وزن سے بلا شبہ اس کا اثر زیادہ تیز اور اس کا منتر زیادہ کارگر ہو جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قافیہ شعر کے لیے ضروری ہے یا نہیں :

قافیہ بھی ہمارے ہاں شعر کے لیے ایسا ہی ضروری سمجھا گیا ہے جیسے کہ وزن۔ مگر درحقیقت وہ بھی نظم ہی کے لیے ضروری ہے نہ شعر کے لیے، اساس میں لکھا ہے کہ یونانیوں کے ہاں قافیہ بھی (مثل وزن کے) ضروری نہ تھا اور جثونی نام ایک پارسی گو شاعر کا ذکر کیا ہے۔ جس نے ایک کتاب میں اشعار غیر مقطے جمع کیے ہیں، یورپ میں بھی آج کل بلینک ورس یعنی غیر مقطے نظم کا بہ نسبت مقظے کے زیادہ رواج ہے اگرچہ قافیہ بھی وزن کی طرح شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے۔ جس سے اس کا سننا کانوں کو نہایت خوشگوار معلوم ہوتا ہے اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لذت پاتی ہے۔ مگر قافیہ اور خاص کر ایسا جیسا کہ شعرائے عجم نے اس کو نہایت سخت قیدوں سے جکڑ بند کر دیا ہے اور پھر اس پر ردیف اضافہ فرمائی ہے۔ شاعر کو بلاشبہ اس کے فرائض ادا کرنے سے باز رکھتا ہے جس طرح صنائع لفظی کی پابندی معنی کا خون کر دیتی ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بہت زیادہ قافیہ کی قید ادائے مطلب میں دخل انداز ہوتی ہے۔ شاعر کو بجائے اس کے کہ اول اپنے ذہن میں ایک خیال کو تربیت دے کر اس کے الفاظ مہیا کرئے سب سے پہلے قافیہ تجویز کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کے مناسب کوئی خیال ترتیب دے کر اس کے ادا کرنے کے لیے ایسے الفاظ مہیا کیے جاتے ہیں جن کا سب سے اخیر جز و قافیہ مجوزہ قرار پا سکے۔ کیونکہ ایسا نہ کرئے تو ممکن ہے کہ خیال کی ترتیب کے بعد کوئی مناسب قافیہ بہم نہ پہنچے اور اس خیال سے دست بردار ہونا پڑے۔ پس در حقیقت شاعر خود کوئی خیال نہیں باندھتا بلکہ قافیہ جس خیال کے باندھنے کی اسے اجازت دیتا ہے اس کو باندھ دیتا ہے۔ اکثر غزل اور قصیدہ میں اول اخیر مصرع جس میں قافیہ ہوتا ہے اندھا دھند کسی نہ کسی مضمون کا گھڑ لیا جاتا ہے اور پھر اس کے مناسب پہلا مصرع اس پر لگایا جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ شعر کو زیادہ خوشنما بنانے کے لیے اس میں ایسی قید لگائی جس سے شعر کی اصلیت باقی نہ رہے بعینہ ایسی بات ہے کہ لباس کو زیادہ خوشنما بنانے کے لیے ایسی قطع رکھی جائے جس سے لباس کی علت غائی یعنی آسائش اور پردہ دونوں فوت ہو جائیں۔ الغرض وزن اور قافیہ جن پر ہماری موجودہ شاعری کا دارومدار ہے اور جس کے سوا اس میں کوئی خصوصیت ایسی نہیں پائی جاتی جس کے سبب سے شعر پر شعر کا اطلاق کیا جا سکے یہ دونوں شعر کی ماہیت سے خارج ہیں۔ اسی لیے زمانہ حال کے محقق شعر کا مقابل جیسا کہ عموما خیال کیا جاتا ہے نثر کو نہیں ٹھہراتے بلکہ علم و حکمت کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ جس طرح حکمت کا کام براہ راست یہ کہ ہدایت کرئے۔ تحقیقات میں مدد پہنچائے اور حقائق کو روشن کرئے عام اس سے کہ کوئی اس سے محظوط یا متعجب یا متاثر ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح شعر کا کام براہ راست یہ ہے کہ فی الفور لذت یا تعجب یا اثر پیدا کر دے عام اس سے کہ حکمت کا کوئی مقصع اس سے حاصل ہو یا نہ ہو اور عام اس سے کہ نظم میں ہو یا نثر میں۔
 
Top