مقدمہ شعر و شاعری - الطاف حسین حالی

شمشاد

لائبریرین
شعر کی ماہیت :

شعر کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں۔ مگر کوئی تعریف ایسی نہیں جو اس کے تمام افراد کو جامع اور مانع ہو دخول غیر سے۔ البتہ لارڈ مکالے نے جو کچھ شعر کی نسبت لکھا ہے گو اس کو شعر کی تعریف نہیں کہا جا سکتا لیکن جو کچھ شعر سے آج کل مراد لی جاتی ہے اس کے قریب قریب ذہن کو پہنچا دیاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ " شاعری جیسا کہ دو 8 ہزار برس پہلے کہا گیا تھا ایک قسم کی نقالی ہے جو اکثر اعتبارات سے مصوری، بت تراشی اور ناٹک سے مشابہ ہے مگر مصور بت تراش اور ناٹک کرنے والے کی نقل شاعر کی نسبت کسی قدر کامل تر ہوتی ہے شاعر کی کہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہے؟ الفاظ کے پرزوں سے، اور الفاظ ایسی چیز ہیں کہ اگر ہومر اور ڈینٹے جیسے صناع بھی ان کو استعمال کریں تو بھی سامعین کے متخیلہ میں اشیائے خارجی کا ایسا صحیح اور ٹھیک نقشہ اتار سکتے جیسا موقلم اور چھینی کے کام دیکھ کر بارے میں خیال اترتا ہے۔ لیکن شاعر کا میدان وسیع اس قدر ہے کہ بت تراشی، مصوری اور ناٹک یہ تینوں رن اس کی وسعت کو نہین پہنچ سکتے۔ بت تراش فقط صورت کی نقل اتار سکتا ہے۔ مصور صورت کے ساتھ رنگ کو بھی جھلکا دیتا ہے اور ناٹک کرنے والا بشرطیکہ شاعر نے اس کے لیے الفاظ مہیا کر دیے ہوں صورت اور رنگ کے ساتھ حرکت بھی پیدا کر دیتا ہے۔

مگر شاعری باوجودیکہ اشیائے خارجی کی نقل میں تینو فنون کا کام دے سکتی ہے اس کو تینوں سے اس بات کی فوقیت ہے کہ انسان کا بطون صرف شاعری ہی کی قلمرو ہے۔ نہ وہاں مصوری کی رسائی ہے نہ بت تراشی کی اور نہ ناٹک کی مصوری اور ناٹک وغیرہ انسان کے خصائل یا جذبات اس قدر ظاہر کر سکتے ہیں جس قدر کہ چہرہ یا رنگ اور حرکت سے ظاہر ہو سکتے ہیں اور یہ بھی ہمیشہ ادھورے اور نظر فریب نمونے ان کیفیات کے ہوتے ہیں جو فی الواقع انسان کے بطون میں موجود ہیں۔ مگر نفس انسانی کی باریک گہری اور بوقلموں کی کیفیات صرف الفاظ ہی کے ذریعہ سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ شاعری کائنات کی تمام اشیائے خارجی اور ذہنی کا نقشہ اتار سکتی ہے۔ عالم محسوسات، دولت کے انقلابات، سیرت انسانی، معاشرت نوع انسانی تمام چیزیں جن کا تصور مختلف اشیا کے اجزا کو ایک دوسرے سے ملا کر کیا جا سکتا ہے۔ سب شاعری کی سلطنت میں محصور ہیں۔ شاعری ایک سلطنت ہے جس کی قلمرو اسی قدر وسیع ہے جس قدر خیال کی قلمرو۔"

ایک اور محقق نے شعر کی تعریف اس طرح کی ہے کہ " جو خیال ایک معمولی اور نرالے طور پر لفظوں کے ذریعہ سے اس لیے ادا کیا جائے کہ سامع کا دل اس کو سنکر خوش یا متاثر ہو وہ شعر ہے خواہ نظم میں ہو اور خواہ نثر میں۔"

مذکورہ بالا تقریروں کا مطلب زیادہ دل نشین کرنے کے لیے ہم اس مقام پر چند مثالیں ذکر کرنی مناسب سمجھتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
(1) فردوسی کہتا ہے :

بمالید چا چی کمال را بدست
بہ چرم کوزن اندر آورد شست

ستوں کرد چپ را و خم کرد راست
خروش از خم چرخ چا چی بخاست​

ان دونوں شعروں میں رستم کی وہ حالت دکھائی ہے کہ وہ اشکبوس کشانی سے لڑنے کے لیے پیادہ میدان کارزار میں گیا ہے اور اس پر وار کرنے کے لیے کمان میں تیر جوڑا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان شعروں کے مضمون کو اگر ایک غیر شاعر معمولی طور پر بیان کرتا تو صرف اس قدر کہنا کافی تھا کہ رستم نے کمان کے چلہ میں تیر جوڑا لیکن اس بیان میں اس حالت کی جبکہ وہ تیر چلانے کے لیے کمان تانے کھڑا تھا نقل مطلق نہیں پائی جاتی۔ البتہ جو اسلوب فردوسی نے اس کے بیان میں اختیار کیا ہے اس میں جہاں تک کہ الفاظ مساعدت کر سکتے تھے اس حالت کی کافی طور پر نقل اتاری گئی ہے لیکن چونکہ ایک ایسی حالت ہے جو آنکھ سے محسوس ہو سکتی ہے اس لیے اس کو ایک بت تراش یا ایک مصور فردوسی کی نسبت زیادہ واضح اور زیادہ نمودار صورت میں ظاہر کر سکتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
(2) سعدی شیرازی

چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق​

اس شعر میں دمشق کے کسی قحط کا وہ عالم بیان کیا ہے جو وہاں کے باشندوں پر طاری تھا۔ اس مضمون کو ایک غیر شاعر اس سے زیادہ بیان نہیں کر سکتا کہ خلقت بھوکی پیاسی مر رہی تھی یا اناج اور پانی نایاب تھا یا اسی قسم کی معمولی باتیں جو قحط کے زمانہ میں عموما پیش آتی ہیں لیکن منتہائے سختی قحط کی تصویر جن لفظوں میں کہ سعدی نے کھینچی ہے ایسے معمولی بیانات سے ہرگز نہیں کھینچ سکتی۔ اور چونکہ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو محسوس نہیں ہو سکتی اس لیے شاعر کے سوا مصور اور بت تراش دونوں اس کی نقل اتارنے سے عاجز ہیں۔ البتہ ایکٹر ایسا تماشا دکھانے سے کسی قدر عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ شاعر نے اس کے کافی الفاظ مہیا کر دیئے ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
(3) ابن دراج اندلسی ایک قصیدہ میں اپنے شیر خوار بچہ کی وہ حالت جب کہ وہ خود گھر والوں سے رخصت ہو کر کہیں دور جانے والا ہے اور بچہ اس کے منہ کو تک رہا ہے، بیان کرتا ہے :

عیی بمرجوع الخطاب و لخطہ
بموقع اھوا الفوس خبیر​

یعنی وہ بات کا جواب دینے سے تو عاجز ہے مگر اس کی آنکھ ان اداؤں سے واقف ہے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس شعر میں استاد نے ایک محض وجدانی کیفیت کی تصویر کھینچی ہے جس کی محاکات زمانہ حال کے مصور، بت تراش اور ایکٹر بھی بلاشبہ کسی قدر کر سکتے ہیں۔ لیکن نہ ایسی جیسی کہ شاعر نے کی ہے۔ نیز شاعر کے سوا کسی کو یہ اسلوب بیان ہرگز نہیں سوجھ سکتا۔ کیونکہ جس مطلب کو اس نے اس پیرائے میں بیان کیا ہے اس کا ماحصل صرف اس قدر ہے کہ رخصت ہوتے وقت جو وہ میری طرف دیکھتا تھا اس پر بے اختیار پیار آتا تھا۔ اس معمولی بات کو وہ اس طرح ادا کرتا ہے کہ وہ شیر خوار بچہ جس کے منہ میں بول تک نہ تھا اس کی آنکھ ایک ایسے بھید سے واقف تھی جس سے اکثر بڑے بڑے عاقل اور دانش مند واقف نہیں ہوتے۔ یعنی یہ کہ کس طرح اوروں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
(4) نظیر نیشا پوری

بہ زیر شاغ گل افعی گزیدہ بلبل را
نوا گران نخوردہ گزند را چہ خبر​

فصل بہار میں پھولوں کے کھلنے یا ہوا مین اعتدال پیدا ہونے یا بدن میں دوران خون کے تیز ہو جانے سے جا نشاط اور امنگ بلبل کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور جس کو شعرا گل و گلشن کے عشق سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کے جوش اور دلوں میں وہ دن بھر چہکتا رہتا ہے۔ اس حالت اور کیفیت کو شاعر نے افعی کے کاٹے کی لہر سے تعبیر کیا ہے۔ گویہ تمثیل بھی اسی حالت کی اصل حقیقت ظاہر کرنے سے قاصر ہو مگر جس قدر کہ اس حالت کا تصور ان لفظوں کے ذریعہ سے پیدا ہوتا ہے اتنا تھی تصویر یا ناٹک کے ذریعہ سے نہیں ہو سکتا۔ گویا اس کیفیت کا ظاہر کرنا مصوری، بت تراشی اور ناٹک کی دسترس سے باہر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاعری کے لیے کیا کیا شرطیں ضروری ہیں؟

امید ہے کہ ان مثالوں سے شاعر اور غیر شاعر کے کلام میں اور نیز شعر اور مصوری میں جو فرق ہے وہ بخوبی ظاہر ہو گیا ہو گا۔ اب ہم کو یہ بتانا ہے کہ شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لیے کون سی شرطیں ضروری ہیں اور شاعر میں وہ کون سی خاصیت ہے جو اس کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تخیل :

سب سے مقدم اور ضروری چیز جو کہ شاعر کو غیر شاعر سے تمیز دیتی ہے قوتِ متخیلہ یا تخیل ہے جس کو انگریزی میں امیجینیشن کہتے ہیں۔ یہ قوت جس قدر شاعر میں اعلٰی درجہ کی ہو گی، اسی قدر اس کی شاعری اعلٰی درجہ کی ہو گی اور جس قدر یہ ادنٰی درجہ کی ہو گی اسی قدر اس کی شاعری ادنٰی درجہ کی ہو گی۔ یہ وہ ملکہ ہے جس کو شاعر ماں کے پیٹ سے اپنے ساتھ لے کر نکلتا ہے اور جو اکتساب سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر شاعر کی ذات میں یہ ملکہ موجود ہے اور باقی شرطوں میں جو کہ کمال شاعری کے لیے ضروری ہیں کچھ کمی ہے تو اس کمی کا تدارک اس ملکہ سے کر سکتا ہے لیکن اگر یہ ملکہ فطری کسی میں موجود نہیں ہے تو اور ضروری شرطوں کا کتنا ہی بڑا مجموعہ اس کے قبضہ میں ہو وہ ہرگز شاعر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے اور ماضی اور مستقبل اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے وہ (شاعر) آدم اور جنت کی سرگزشت اور حشر و نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں اور ہر شخص اس سے ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر انکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ جو نتیجے وہ نکالتا ہے گو وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد صفحہ 35
 

فاتح

لائبریرین
شاعری ناشایستگی کے زمانہ میں ترقی پاتی ہے

شاعری ناشایستگی کے زمانہ میں ترقی پاتی ہے
بہرحال شعر اگر اصلیت سے بالکل متجاوز اور محض بے بنیاد باتوں پر مبنی نہ ہو تو تاثیر اور دلنشینی اس کی نیچر میں داخل ہے۔ لیکن شاعری نسبت جو رائیں زمانہ حال کے اکثر محققوں نے قائم کی ہیں ان کا جھکاؤ اس طرف پایا جاتا ہے کہ سویلیزیشن کا اثر شعر پر برا ہوتا ہے۔ جس قدر کہ علم زیادہ محقق ہوتا جاتا ہے اسی قدر تخیل جس پر شاعری کی بنیاد ہے گھٹتا جاتا ہے اور کرید کی عادت جو ترقی علم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ شعر کے حق میں سم قاتل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک سوسائٹی نیم شایستہ اور اس کا علم اور واقفیت محدود رہتی ہے اور علل و اسباب پر اطلاع کم ہوتی ہے اس وقت تک زندگی خود ایک کہانی معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کی سرگزشت جو کہ بالکل ایک واقعات کا سلسلہ ہوتا ہے اگر ایک نیم شایستہ سوسائٹی میں سیدھے سادے طور پر بھی بیان کی جائے تو اس سے کہیں خوف اور کہیں تعجب اور کہیں جوش خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ اور انہی چیزوں پر شاعری بنیاد ہے۔ لیکن جب شایستگی زیادہ پھیلتی ہے تو یہ چشمے بند ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کہیں بند نہیں ہوتے تو ان کو نہایت احتیاط کے ساتھ روکا جاتا ہے تا کہ ان کا مضحکہ نہ اڑے۔
اس رائے کا ایک بڑا حامی یہ کہتا ہے کہ "شعر دل پر ویسا ہی پردا ڈالتا ہے جیسا میجک لینٹرن آنکھ پر ڈالتی ہے۔ جس طرح اس لال ٹین کا تماشا بالکل اندھیرے کمرے میں پورے کمال کو پہنچتا ہے اسی طرح شعر محض تاریک زمانہ میں اپنا پورا کرشمہ دکھاتا ہے۔ اور جس طرح روشنی کے آتے ہی میجک لینٹرن کی تمام نمائشیں نابود ہو جاتی ہیں اسی طرح جوں جوں حقیقت کی حدود اربعہ صاف اور روشن اور احتمالات کے پردے مرتفع ہوتے جاتے ہیں اسی قدر شاعری کے سیمیائی جلوے کافور ہوتے جاتے ہیں کیونکہ دو متناقض چیزیں یعنی حقیقت اور دھوکا جمع نہیں ہو سکتیں۔"

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
فردوسی کی مثال

فردوسی کی مثال
اس مطلب کے زیادہ دلنشین ہونے کے لیے ذیل کی مثال پر غور کرنی چاہیے۔ فردوسی نے اپنے ہیرو رستم کی زور مندی اور بہادری کے متعلق جو کچھ شاہنامہ میں لکھا ہے ایک زمانہ وہ تھا کہ اس کو سن کر رستم کی غیر معمولی عظمت اور بڑائی کا یقین دل میں پیدا ہوتا تھا۔ اس کے زور اور شجاعت کا سن کر تعجب کیا جاتا تھا۔ سامعین کے دل میں خود بخود اس کے ساتھ ہمدردی اور اس کے حریفوں سے بر خلافی کا خیال پیدا ہوتا تھا۔ لیکن اب جس قدر کہ علم بڑھتا جاتا ہے روز بروز وہ طلسم ٹوٹتا جاتا ہے اور وہ زمانہ قریب آتا ہے کہ رستم ایک معمولی آدمی سے زیادہ نہ سمجھا جائے گا۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شاعری شایستگی میں قائم رہ سکتی ہے

شاعری شایستگی میں قائم رہ سکتی ہے
اگرچہ رائے جو شاعری کی نسبت اوپر بیان ہوئی کسی قدر صحیح ہے مگر اس کو بھی بے سوچے سمجھے قبول کرنا نہیں چاہیے۔ جو لوگ اس رائے کے بر خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ علم کی ترقی سے الفاظ کے معنی محدود اور بہت سی باتوں کی واقعیت کے خیال محو ہو گئے ہیں۔ مگر زبانیں پہلے کی نسبت زیادہ لچکدار اور اکثر مقاصد کے بیان کرنے کے زیادہ لائق ہوتی جاتی ہیں۔ بہت سی تشبیہیں بلا شبہ اس زمانے میں بیکار ہو گئی ہیں مگر ذہن نئی تشبیہیں اختراع کرنے سے قاصر نہیں ہوا۔ یہ سچ ہے کہ سائنس اور مکینکس جوشیلے خیالات کو مردہ کرنے والے ہیں لیکن انہی کی بدولت شاعر کے لیے نئی نئی تشبیہات اور تمثیلات کا لازوال ذخیرہ جو پہلے موجود نہ تھا مہیا ہو گیا ہے اور ہوتا جاتا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سوسائٹی کے ترقی کرنے سے امیجنیشن یا تخیل کی طاقت ضعیف ہو جاتی ہے بلکہ ان کا اعتقاد ہے کہ ابد کے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوط ہے۔ جب تک بے شمار اسباب اور مواقع جن کا انکار نہیں ہو سکتا چاروں طرف سے ہم کو گھیرے ہوئے ہیں، جب تک عشق انسان کے دل پر حکمران ہے اور ہر فرد بشر کی روداد زندگی کو ایک دلچسپ قصہ بنا سکتا ہے، جب تک قوموں میں حب وطن کا جوش موجود ہے، جب تک بنی نوع انسانی ہمدردی پر متفق ہو کر شامل ہونے کے لیے حاضر ہیں اور جب تک حوادث اور وقائع جو زندگی میں وقتاً بعد وقت حادث ہوتے ہیں خوشی کا یا غم کی سلسلہ جنبانی کرتے ہیں تب تک اس بات کا خوف نہیں ہو سکتا کہ تخیل کی طاقت کم ہو جائے گی۔ اور اس سے بھی کم خوف جب تک کہ نیچر کی کان کھلی ہوئی ہے اس بات کا ہے کہ شاعر کا ذخیرہ نبڑ جائے گا۔ ہاں مگر اس میں شک نہیں کہ نیچر کی جو نمایاں چیزیں تھیں۔ وہ اگلے مزدوروں نے چن لیں اور چونکہ ان کے لیے وہ پہلی تھیں اور اس لیے عجیب تھیں۔ اب ان کے تعجب انگیز بیان پر کوئی سبقت نہیں لے جا سکتا۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شاعری کا تعلق اخلاق کے ساتھ

شاعری کا تعلق اخلاق کے ساتھ​
شعر سے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں۔ اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف اس کو علم اخلاق کا نائب مناسب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ اسی بناء پر صوفیۂ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اور رکن رکین شعر ہے وسیلۂ قربِ الٰہی اور باعثِ تصفیۂ نفس و تزکیۂ باطن مانا گیا ہے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شعر کی عظمت

شعر کی عظمت
یوروپ کا ایک محقق کہتا ہے کہ "مشاغل دنیوی میں انہماک کے سبب جو قومیں سو جاتی ہیں شعر ان کو جگاتا ہے اور ہمارے بچپن کے ان خالص اور پاک جذبات کو جو لوثِ غرض کے داغ سے منزہ اور مبرا تھے پھر تر و تازہ کرتا ہے۔ دنیوی کاموں کی مشق اور مہارت سے بیشک ذہن میں تیزی آ جاتی ہے مگر دل بالکل مر جاتا ہے۔ جب کہ افلاس میں قوت لا یموت کے لیے یا تونگری میں جاہ و منصب کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور دنیا میں چاروں طرف خود غرضی دیکھی جاتی ہے۔ اس وقت انسان کو سخت مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اگر اس کے پاس کوئی ایسا علاج نہ ہوتا جو دل کے بہلانے اور تر و تازہ کرنے میں چپکے ہی چپکے مگر نہایت قوت کے ساتھ افلاس کی صورت میں مرہم اور تونگری کی صورت میں تریاق کا کام دے سکے۔ یہ خاصیت خدا نے شعر میں ودیعت کی ہے۔ وہ ہم کو محسوسات کے دائرہ سے نکال کر گزشتہ اور آئندہ حالتوں کو ہماری موجودہ حالت پر غالب کر دیتا ہے۔ شعر کا اثر محض عقل کے ذریعہ سے نہیں بلکہ زیادہ تر ذہن اور ادراک کے ذریعہ سے اخلاق پر ہوتا ہے پس ہر قوم اپنے ذہن کی جودت اور ادراک کی بلندی کے موافق شعر سے اخلاق فاضلہ اکتساب کر سکتی ہے۔ قومی افتخار، قومی عزت، عہد و پیمان کی پابندی، بے دھڑک اپنے تمام عزم پورے کرنے، استقلال کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرنا اور ایسے فائدوں پر نگاہ نہ کرنی جو پاک ذریعوں سے حاصل نہ ہو سکیں اور اسی قسم کی وہ تمام خصلتیں جن کے ہونے سے ساری قوم تمام عالم کی نگاہ میں چمک اٹھتی ہے۔ جن کے نہ ہونے سے بڑی سے بڑی سلطنت دنیا کی نظروں میں ذلیل رہتی ہے۔ اگر کسی قوم میں بالکل شعر ہی کی بدولت پیدا نہیں ہو جاتیں تو بلا شبہ ان کی بنیاد تو اس میں شعر ہی کی بدولت پڑتی ہے۔ اگر افلاطون اپنے خیالی کانسٹی ٹیوشن سے شاعروں کو جلا وطن کر دینے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ ہر گز اخلاق پر احسان نہ کرتا بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سرد مہر، خود غرض اور مروّت سے دور ایسی سوسائٹی قائم ہو جاتی جس کا کوئی کام اور کوئی کوشش بدون موقع اور مصلحت کے محض دل کے ولولہ اور جوش سے نہ ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ تمام دنیا شعرا کا ادب اور تعظیم کرتی ہے۔ جنہوں نے اس خاتم سلیمانی کی بدولت جو قوت متخیلہ نے ان کے قبضہ میں دی ہے انسان میں ایسی تحریک اور بر انگیختگی پیدا کی ہے جو کہ خود نیکی ہے یا نیکی کی طرف لے جانے والی۔"

فہرست / صفحۂ اوّل
 

فاتح

لائبریرین
شاعری سوسائٹی کی تابع ہے

شاعری سوسائٹی کی تابع ہے
مگر باوجود ان تمام باتوں کے جو کہ شعر کی تائید میں کہی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ سوسائٹی کے دباؤ یا زمانہ کے اقتضا سے شعر پر ایسی حالت طاری ہو جائے کہ وہ بجائے اس کے کہ قومی اخلاق کی اصلاح کرے اس کے بگاڑنے اور برباد کرنے کا ایک زبردست آلہ بن جائے۔ قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات، اس کی رائیں، اس کی عادتیں، اس کی رغبتیں، اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارادہ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے۔ شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور شاعری کو ہجو گوئی نے برباد کیا۔ اس کا منشا وہی سوسائٹی کا دباؤ تھا۔ اور عبید زاکانی (1) نے جو علم و فضل سے دست بردار ہو کر ہزل گوئی اختیار کی۔ یہ وہی زمانہ کا اقتضا تھا۔ جس طرح خوشامد اور نذر بھینٹ کا چٹخارا رفتہ رفتہ ایک متدین اور راست باز جج کی نیت میں خلل ڈال دیتا ہے اسی طرح دربار کی واہ واہ اور صلہ کی چاٹ ایک آزاد خیال اور جذبیلے شاعر کو چپکے چپکے ہی بھٹئی، جھوٹ اور خوشامد یا ہزل و تمسخر پر اس طرح لا ڈالتی ہے کہ وہ اسی کو کمال شاعری سمجھنے لگتا ہے۔

فہرست / صفحۂ اوّل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 36 تا 45

لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً فیضی کہتا ہے :

سخت ست سیاہی شب من
لختے ز شب ست کوکب من

اس منطق قاعدہ سے یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ رات کی تاریکی سب کے لئے یکساں ہوتی ہے پھر ایک خاص شخص کی رات سب سے زیادہ تاریک کیونکر ہو سکتی ہے اور تمام کواکب ایسے اجرام ہیں جن کا وجود بغیر روشنی کے تصور میں نہیں آ سکتا پھر ایک خاص کوکب ایسا مظلم اور سیاہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اس کو کالی رات کا ایک ٹکڑا کہا جا سکے مگر جس عالم میں شاعر اپنے تئیں دکھانا چاہتا ہے وہاں یہ سب ناممکن باتیں ممکن بلکہ موجود نظر آتی ہیں۔ یہی وہ ملکہ ہے جس سے بعض اوقات شاعر کا ایک لفظ جادو کی فوج سامنے کھڑی کر دیتا ہے اور کبھی وہ ایک ایسے خیال کو جو کئی جلدوں میں بیان ہو سکے ایک لفظ میں ادا کر دیتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تخیل کی تعریف​

تخیل یا امیجینیشن کی تعریف کرنی بھی ایسی ہی مشکل ہے جیسی کہ شعر کی تعریف، مگر من وجہ اس کی ماہیت کا خیال ان لفظوں سے دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔ یعنی وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجربہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے اور پھر اس کو الفاظ کے ایسے دلکش پیرایہ میں جلوہ گر کرنی ہے جو معمولی پیرایوں سے بالکل یا کسی قدر الگ ہوتا ہے۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح خیالات میں ہوتا ہے اسی طرح الفاظ میں بھی ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات شاعر کا طریقہ بیان ایسا نرالا اور عجیب ہوتا ہے کہ غیر شاعر کا ذہن کبھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہی ایک چیز ہے جو کبھی تصورات اور خیالات میں تصرف کرتی ہے اور کبھی الفاظ و عبارات میں، اگرچہ اس قوت کا ہر ایک شاعر کی ذات میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کا عمل شاعر کے ہر ایک کلام یکساں نہیں ہوتا بلکہ کہیں زیادہ ہوتا ہے کہیں کم ہوتا ہے اور کہیں محض خیالات میں ہوتا ہے کہیں محض الفاظ میں۔ یہاں چند مثالیں بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
(1) غالب دہلوی

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے​

شاعر کے ذہن میں پہلے سے اپنی اپنی جگہ یہ باتیں ترتیب وار موجود تھیں کہ مٹی کا کوزہ ایک نہایت کم قیمت اور ارزاں چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتی ہے اور جامِ جمشید ایک ایسی چیز تھی جس کا بدل دنیا میں موجود نہ تھا۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ تمام عالم کے نزدیک جامِ سفال میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ جامِ جم جیسی چیز سے فائق اور افضل سمجھا جائے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ جامِ جم میں شراب پی جاتی تھی اور مٹی کے کوزہ میں بھی شراب پی جا سکتی ہے۔ اب قوت متخیلہ نے اس تمام معلومات کو ایک نئے ڈھنگ سے ترتیب دے کر ایسی صورت میں جلوہ گر کر دیا کہ جامِ سفال کے آگے جامِ جم کی کچھ حقیقت نہ رہی اور پھر اس صورت موجودہ فی الذہن کو بیان کا ایک دلفریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر متلذذ اور کان اس کو سن کر محظوط اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہو سکے۔ اس مثال میں وہ قوت جس نے شاعر کی معلومات سابقہ کو دوبارہ ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشی ہے وہ تخیل یا امیجینیشن ہے اور اس نئی صورت موجودہ فی الذہن نے جب الفاظ کا لباس پہن کر عالمِ محسوسات میں قدم رکھا ہے اس کا نام شعر ہے۔ نیز اس مثال میں امیجینیشن کا عمل خیالات اور الفاظ دونوں کے لحاظ سے بمرتبہ غایت اعلٰی درجہ میں واقعہ ہوا ہے۔ کہ باوجود کمال سادگی اور بے ساختگی کے نہایت بلند اور نہایت تعجب انگیز ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
(2) غالب کا اسی زمیں میں دوسرا شعر یہ ہے :

ان کے آنے سے جو آ جاتی ہے رونق منہ پر
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

شاعر کہ یہ بات معلوم تھی کہ دوست کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے اور بگڑی ہوئی طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم تھا کہ دوست کو جب تک عاشق اپنی حالتِ زار اور اس کی جدائی کا صدمہ نہ جتائے دوست عاشق کی محبت اور عشق کا پورا پورا یقین نہیں کر سکتا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ بعضی خوشی سے دفعتہ ایسی بشاشت ہو سکتی ہے کہ رنج اور غم اور تکلیف کا مطلق اثر چہرے پر باقی نہ رہے۔ اب امیجینیشن نے اس تمام معلومات میں اپنا تصرف کر کے ایک نئی ترتیب پیدا کر دی یعنی یہ کہ عاشق کسی طرح اپنی جدائی کے زمانہ کی تکلیفیں معشوق پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جب تکلیف کا وقت ہوتا ہے، اس وقت معشوق نہیں ہوتا اور جب معشوق ہوتا ہے اس وقت تکلیف نہیں رہتی۔ اس مثال میں بھی امیجینیشن کا عمل معنی اور لفظاً دونوں طرح بدرجہ غایت لطیف اور حیرت انگیز واقع ہوا ہے۔ جیسا کہ ہر صاحبِ ذوق سلیم پر ظاہر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
(3) خواجہ حافظ کہتے ہیں ۔

صبا بلطف بگو آں غزالِ رعنا را
کہ سر بکوہ و بیاباں تو دادہ ما را

اس شعر کا خلاصہ مطلب اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ہم صرف معشوق کی بدولت پہاڑوں اور جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں امیجینیشن کا عمل خیالات میں اگر ہو تو نہایت خفیف اور مختصر ہو گا مگر الفاظ میں اس نے وہ کرشمہ دکھایا ہے جس نے شعر کو بلاغت کے اعلٰی درجہ پر پہنچا دیا ہے۔ اسی قسم کے کلام کی نسبت کہا گہا ہے۔ "عبارتے کہ بمعنی برابری دارد۔" اول تو صبا کی طرف خطاب کرنا جس میں یہ اشارہ ہے کہ کوئی ذریعہ دوست تک پیغام پہنچانے کا نظر نہیں آتا۔ ناچار صبا کو یہ سمجھکر پیغامبر بنایا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے شاید دوست تک بھی اس کا گزر ہو جائے۔ گویا شوق نے ایسا از خود رفتہ کر دیا ہے کہ جو چیز پیغامبر ہونے کی قابلیت نہیں رکھتی اس کے ہاتھ پیغام بھیجتا ہے اور جواب کا امیدوار ہے۔ پھر معشوق حقیقی کو جس کی ذات بے نشان ہے بطور استعارہ کے غزال رعنا کی مناسبت سے کوہ و بیابان میں پھرنے سے تعبیر کرنا اور پھر باوجود ضمیر متصل کے جو کہ واوہ میں موجود تھی۔ ضمیر مخاطب منفصل یعنی لفظ تو اضافہ کرنا جس سے پایا جائے کہ تیرے سوا کوئی شے ہماری اس سرگشتگی کا باعث نہیں ہے اور چونکہ پیغام شکایت آمیز تھا اس لیے صبا سے یہ درخواست کرنی کہ بلطف بگو یعنی نرمی اور ادب سے یہ پیغام دینا تا کہ شکایت ناگوار نہ گزرے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں۔ جنہوں نے ایک معمولی بات کو اس قدر بلند کر دیا ہے کہ اعلٰی درجہ کے باریک خیالات بھی اس سے زیادہ بلندی پر نہیں دکھائے جا سکتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
دوسری شرط کائنات کا مطالعہ کرنا :

اگرچہ قوتِ متخیلہ اس حالت میں بھی جب کہ شاعر کی معلومات کا دائرہ نہایت تنگ اور محدود ہو اسی معمولی ذخیرہ سے کچھ نہ کچھ نتائج نکال سکتی ہے لیکن شاعری میں کمال حاصل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نسخہ کائنات اور اس میں سے خاص کر نسخہ فطرتِ انسانی کا مطالعہ نہایت غور سے کیا جائے۔ انسان کی مختلف حالتیں جو زندگی میں اس کو پیش آتی ہیں ان کو تعمق کی نگاہ سے دیکھنا۔ جو امور مشاہدہ میں آئیں ان کے ترتیب دینے کی عادت ڈالنی، کائنات میں گہری نظر سے وہ خواص اور کیفیات مشاہدہ کرنے جو عام آنکھوں سے مخفی ہوں اور فکت میں مشق مہارت سے یہ طاقت پیدا کرنی کہ وہ مختلف چیزوں سے متحد اور متحد چیزوں سے مختلف خاصیتیں فوراً اخذ کر سکے اور اس سرمایہ کو اپنی یاد کے خزانہ میں محفوظ رکھے۔

مختلف چیزوں سے متحد خاصیت اخذ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے مرزا غالب کہتے ہیں۔

بوئے گل نالہ دل دودِ چراغ محفل
جر تری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا
 

شمشاد

لائبریرین
دوسری مثال

بگذر ز سعادت و نحوست کہ مرا
ناہید بغمزہ کشت و مریخ م۔۔۔۔۔۔۔

ناہید یعنی زہرہ کو سعد اور مریخ کو نحس مانا گیا ہے۔ پس دونوں باعتبار ذات اور صفات کے مختلف ہیں۔ مگر شاعر کہتا ہے کہ ان کی سعادت و نحوست کے اختلاف کو رہنے دو۔ مجھ پر تو ان کا اثر یکساں ہی ہوتا ہے۔ مریخ قہر سے قتل کرتا ہے تو زہرہ غمزہ سے۔

اور متحد اشیاء سے مختلف کاصیتیں استنباط کرنے کی مثال میر ممنون کا یہ شعر ہے۔

تفاوت قامتِ یارو قیامت میں ہے کیا ممنوں
وہی فتنہ ہے لیکن یاں ذرا سانچے میں ڈھلتا ہے۔

یعنی قامتِ معشوق اور قیامتِ فتنہ ہونے میں تو دونوں متحد ہیں۔ مگر فرق ہے کہ فتنہ قیامت سانچہ میں ڈھلا ہوا نہیں ہے اور قامتِ معشوق سانچہ میں ڈھلا ہوا ہے۔

غرضیکہ یہ تمام باتیں جو اوپر ذکر کی گئیں ایسی ضروری ہیں کہ کوئی شاعر ان سے استغنا کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ان کے بغیر قوتِ متخیلہ کو اپنی اصلی غذا جس سے وہ نشو و نما پاتی ہیں نہیں پہنچتی۔ بلکہ اس کی طاقت آدھی سے بھی کم رہ جاتی ہے۔

قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادہ کے پیدا نہیں کر سکتی بلمہ جو مصالح اس کو خارج سے ملتا ہے اس میں وہ اپنا تصرف کر کے ایک نئی شکل تراش لیتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے نامور شاعر دنیا میں گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرتِ انسانی کے مطالعہ میں ضرور مستغرق رہے ہیں۔ جب رفتہ رفتہ اس مطالعہ کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے اور مشاہدوں کے خزانے گنجینہ خیال میں خود بخود جمع ہونے لگتے ہیں۔
 
Top