شمشاد
لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104
انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر :
ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ " انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ۔ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔ پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھر لو اور چاہو چاند کے پیالہ میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں اور چاہو مٹی کے پیالہ میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔ مگر سونے یا چاندی وغیرہ کے پیالہ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہو جاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے۔"
مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلایا بوجھل یا اوھن ہو گا یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے چاندی کے پیالہ میں پلائیے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالہ میں وہ ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا اور ہر گز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔
ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الطاظ میں بیان کئے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں سکتے اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے سے قابل تحسین ہو سکتا ہے۔ لیکن معانی سے یہ سمجھ کر وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں بالکل قطع نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اگر شاعر کے ذہن میں صرف وہی چند محدود خیالات جمع ہیں جو کو اگلے شعرا باندھ گئے ہیں۔ یا صرف وہی معمولی باتیں اس کو بھی معلوم ہیں جیسی کہ عام لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں اور اس نے شاعری کی تکمیل کے لیے اپنی معلومات کو وسعت نہیں دی اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور قوت متخیلہ کے لیے زیادہ مصالح جمع نہیں کیا گیا گو زبان پر اس کو کیسی ہی قدرت اور الفاظ پر کیسا ہی قبضہ حاصل ہو اس کو دو مشکلوں میں ایک مشکل ضرور پیش آئے گی۔ یا تو اس کو وہی خیالات جو اگلے شعرا باندھ چکے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے تغیر کے ساتھ انہیں کے اسلوب پر بار بار باندھنے پریں گے یا ایک متبذل اور پامال مضمون کے لیے نئے نئے اسلوب بیان ڈھونڈھنے پڑیں گے۔ جن کا مقبول ہونا نہایت مشتبہ ہے اور نامقبول ہونا قرین قیاس۔
انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر :
ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ " انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ۔ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔ پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھر لو اور چاہو چاند کے پیالہ میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں اور چاہو مٹی کے پیالہ میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔ مگر سونے یا چاندی وغیرہ کے پیالہ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہو جاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے۔"
مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلایا بوجھل یا اوھن ہو گا یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے چاندی کے پیالہ میں پلائیے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالہ میں وہ ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا اور ہر گز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔
ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الطاظ میں بیان کئے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں سکتے اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے سے قابل تحسین ہو سکتا ہے۔ لیکن معانی سے یہ سمجھ کر وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں بالکل قطع نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اگر شاعر کے ذہن میں صرف وہی چند محدود خیالات جمع ہیں جو کو اگلے شعرا باندھ گئے ہیں۔ یا صرف وہی معمولی باتیں اس کو بھی معلوم ہیں جیسی کہ عام لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں اور اس نے شاعری کی تکمیل کے لیے اپنی معلومات کو وسعت نہیں دی اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور قوت متخیلہ کے لیے زیادہ مصالح جمع نہیں کیا گیا گو زبان پر اس کو کیسی ہی قدرت اور الفاظ پر کیسا ہی قبضہ حاصل ہو اس کو دو مشکلوں میں ایک مشکل ضرور پیش آئے گی۔ یا تو اس کو وہی خیالات جو اگلے شعرا باندھ چکے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے تغیر کے ساتھ انہیں کے اسلوب پر بار بار باندھنے پریں گے یا ایک متبذل اور پامال مضمون کے لیے نئے نئے اسلوب بیان ڈھونڈھنے پڑیں گے۔ جن کا مقبول ہونا نہایت مشتبہ ہے اور نامقبول ہونا قرین قیاس۔