مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104

شمشاد

لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 46 سے 104

انشا پردازی کا مدار زیادہ تر الفاظ پر ہے نہ معانی پر :

ابن خلدون اسی الفاظ کی بحث کے متعلق کہتے ہیں کہ " انشا پردازی کا ہنر نظم میں ہو یا نثر میں، محض الفاظ میں ہے معانی میں ہرگز نہیں۔ معانی صرف الفاظ کے تابع ہیں اور اصل الفاظ ہیں۔ معانی ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں۔ پس ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ ان معانی کو کس طرح الفاظ میں ادا کیا جائے ۔ وہ کہتے ہیں کہ الفاظ کو ایسا سمجھو جیسے پیالہ۔ اور معانی کو ایسا سمجھو جیسے پانی۔ پانی کو چاہو سونے کے پیالہ میں بھر لو اور چاہو چاند کے پیالہ میں اور چاہو کانچ یا بلور یا سیپ کے پیالہ میں اور چاہو مٹی کے پیالہ میں۔ پانی کی ذات میں کچھ فرق نہیں آتا۔ مگر سونے یا چاندی وغیرہ کے پیالہ میں اس کی قدر بڑھ جاتی ہے اور مٹی کے پیالہ میں کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح معانی کی قدر ایک فصیح اور ماہر کے بیان میں زیادہ ہو جاتی ہے اور غیر فصیح کے بیان میں گھٹ جاتی ہے۔"

مگر ہم ان کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ حضرت اگر پانی کھاری یا گدلایا بوجھل یا اوھن ہو گا یا ایسی حالت میں پلایا جائے گا جب کہ اس کی پیاس مطلق نہ ہو تو خواہ سونے چاندی کے پیالہ میں پلائیے خواہ بلور اور پھٹک کے پیالہ میں وہ ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا اور ہر گز اس کی قدر نہیں بڑھ سکتی۔

ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔ معانی کیسے ہی بلند اور لطیف ہوں اگر عمدہ الطاظ میں بیان کئے جائیں گے ہرگز دلوں میں گھر نہیں سکتے اور ایک مبتذل مضمون پاکیزہ الفاظ میں ادا ہونے سے قابل تحسین ہو سکتا ہے۔ لیکن معانی سے یہ سمجھ کر وہ ہر شخص کے ذہن میں موجود ہیں اور ان کے لیے کسی ہنر کے اکتساب کی ضرورت نہیں بالکل قطع نظر کرنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اگر شاعر کے ذہن میں صرف وہی چند محدود خیالات جمع ہیں جو کو اگلے شعرا باندھ گئے ہیں۔ یا صرف وہی معمولی باتیں اس کو بھی معلوم ہیں جیسی کہ عام لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں اور اس نے شاعری کی تکمیل کے لیے اپنی معلومات کو وسعت نہیں دی اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ کی عادت نہیں ڈالی اور قوت متخیلہ کے لیے زیادہ مصالح جمع نہیں کیا گیا گو زبان پر اس کو کیسی ہی قدرت اور الفاظ پر کیسا ہی قبضہ حاصل ہو اس کو دو مشکلوں میں ایک مشکل ضرور پیش آئے گی۔ یا تو اس کو وہی خیالات جو اگلے شعرا باندھ چکے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے تغیر کے ساتھ انہیں کے اسلوب پر بار بار باندھنے پریں گے یا ایک متبذل اور پامال مضمون کے لیے نئے نئے اسلوب بیان ڈھونڈھنے پڑیں گے۔ جن کا مقبول ہونا نہایت مشتبہ ہے اور نامقبول ہونا قرین قیاس۔
 

شمشاد

لائبریرین
شعر میں کس قسم کی باتیں بیان کرنی چاہییں :

اس کے سوا معنی کے متعلق ایک اور کمال حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس کو الفاظ سے کچھ تعلق نہیں۔ صرف نیچر کا مطالعہ اور معلومات کا ذخیرہ جمع کر لینا ہی شاعر کا کام نہیں ہے بلکہ ہر ایک شئے کی روح میں جو خاصیتیں ہیں ان کا انتخاب کرنا اور ان کی تصوری کھینچنا شاعر کا کام ہے۔ شاعر مثلا نباتات اور پھول اور پھل کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے کہ ایک محقق علم نباتات دیکھتا ہے یا وہ ایک واقعہ تاریخی پر اس حیثیت سے نظر نہیں ڈالتا جس حیثیت سے کہ ایک مورخ نظر ڈالتا ہے۔ وہ ہر ایک شے میں صرف وہ خاصیتیں چُن لیتا ہے جن پر قوت متخیلہ کا عمل چل سکے اور جو عام نظروں سے مخفی ہوں۔ جس طرح ایک نیاریا ریت میں سے چاندی کے ذرے نکال لیتا ہے جو کسی کو نہیں سوجھتے اسی طرح شاعر ہر ایک چیز اور ہر ایک واقعہ میں سے صرف ذوقیات لے لیتا ہے۔ جن میں اس کے سوا کسی کا حصہ نہیں اور باقی کو چھوڑ دیتا ہے۔ مثلا سکندر کے مرنے کا حال اور اس کے اخیر وقت کے واقعات مؤرخین نے جو کچھ لکھے ہوں سو لکھے ہوں مگر ایک مورلسٹ شاعر ان سے صرف یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ :

سکندر کہ بر عالمے حکم داشت
درآں دم کہ کہ بگذشت و عالم گذاشت

میسر نبودش کز و عالمے
ستانند و مہلت و ہندش دمے​

یا فصل بہار میں بلبل ہزار داستان کے غیر معمولی چہچہے دیکھ کر ایک خواص حیوانات کا محقق اس کے جو کچھ اسباب قرار دے سو دے مگر ایک متصوف شاعر اس کے یہ مینے بتاتا ہے :

بلبلے برگِ گل خوش رنگ در منقار داشت
وندر آں برگ و نوا خوش نالہ ہائے زار داشت

گفمتش در عین وصل ایں نالہ و فریاد چیست
گفت مارا جلوہ معشوق بر این کار داشت​

پس یہ کہنا کہ شاعری کا کمال محض الفاظ میں ہے معانی میں ہر گز نہیں کسی طرح ٹھیک نہیں سمجھا جا سکتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اعلٰی طبقہ کے شعرا کا کلام یاد ہونا چاہیے :

ابن رشیق کہتے ہیں کہ شاعر کو اعلٰی طبقہ کے شعرا کا کلام یاد ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنے شعر کی بنیاد اسی منوال پر رکھے۔ جو شخص اساتذہ کے کلام سے خالی الذہن ہو گا، اگر وہ محض طبیعت کی اپج سے کچھ لکھ بھی لے گا تو اس کو شعر نہیں بلکہ نظم ساقط از اعتبار یا ٹکسال باہر کہیں گے۔ پس جب اس کا حافظہ بُلغار کے کلام سے پُر ہو جائے اور ان کی روش ذہن کی لوح پر نقش ہو جائے تب فکر شعر کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اب جس قدر مشق زیادہ ہو گی اسی قدر ملکہ شاعری مستحکم ہو گا۔

ابن رشیق نے یہ ہدایت خاص عربی زبان کی نسبت کی ہے۔ شاید عربی زبان کے لیے یہ ہدایت مناسب ہو کیونکہ وہاں ایک مدت دراز سے شاعری کا دور دورہ چلا آتا تھا۔ ہزار برس سے زیادہ گزر چکے تھے کہ ہر عہد اور ہر طبقہ میں ایک سے ایک بہتر و برتر شاعر نظر آتا تھا۔ زبان میں بے انتہا وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ ہر مطلب کے ادا کرنے کے لیے صدہا اسلوب اور پیرائے لٹریچر میں موجود تھے۔ شاید وہاں یہ بات ممکن ہو کہ ہر مطلب کے ادا کرنے کے لیے قدما کا اسلوب اختیار کیا جائے اور نئے اسلوب پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہو لیکن ایک ایسی نامکمل زبان جیسی کہ اردو ہے جس کی شاعری ابھی تک محض طفولیت کی حالت میں ہے۔ جس کے لٹریچر کی عمر اگر انصاف سے دیکھا جائے تو پچاس ساٹھ برس سے زیادہ نہیں۔ جس کا لغت آج تک مدون نہیں ہوا۔ جس کی گرائمر آج تک اطمینان کے قابل نہین بنی۔ جس کے لائق مصنف اور شاعر انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ایسی زبان میں اگر اساتذہ کے تتبع پر ہی تکیہ کر لیا جائے تو جس طرح ابابیل کا گھونسلا ابتدائے آفرینش سے ایک ہی حالت پر چلا آتا ہے اور اسی حالت پر چلا جائے گا۔ اسی طرح اردو شاعری جس گہوارہ میں اس نے آنکھیں کھولی ہیں، اسی گہوارے میں ہمیشہ جھولتی رہے گی۔

اس کے بعد ابن رشیق کہتے ہیں کہ "بعضوں کی رائے یہ ہے کہ ایک بار اساتذہ کے کلام پر تفصیلی نظر ڈال کر اس کو صفحہ خاطر سے محو کر دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کا بعینہ ذہن میں محفوظ رہنا ویسی ترکیبوں اور اسلوبوں کے استعمال کرنے سے ہمیشہ مانع ہو گا۔ لیکن جب وہ کلام صفحہ خاطر سے محو ہو جائے گا تو بسبب اس رنگ کے جو کلام بلغار کی سیر کرنے سے طبیعت پر خود بخود چڑھ گیا ہے۔ اس میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ ویسی ہی ترکیبیں اور اسلوب جیسے کہ اساتذہ کے کلام میں واقع ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خود بخود بغیر اس تصور کے کہ یہ ترکیب فلاں ترکیب پر مبنی ہے اور یہ اسلوب فلاں اسلوب کا چربہ ہے۔ جیسی ضرورت پڑے گی بناتا چلا جائے گا۔

ہمارے نرزیک یہ رائے بہ نسبت پہلی رائے کہ زیادہ وقعت کا قابل ہے۔ اس میں اس فائدہ کے سوا جو صاحب رائے نے بیان کیا ہے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اساتذہ کا کلام جب تک صفحہ خاطر سے محو نہ ہو جائے طبیعت انہی اسلوبوں اور پیرایوں میں مقید اور محصور رہتی ہے جو ان کے کلام کو بار بار پڑھنے اور یاد کرنے سے بمنزلہ طبیعت ثانی کے ہو جاتے ہیں اور جن کے سبب سے سلسلہ بیان میں نئے اسلوب اور نئے پیرائے ابداع کرنے کا ملکہ پیدا نہیں ہوتا اور اس لیے فن شعر کو کچھ ترقی نہیں ہوتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
تخیل کو قوت ممیزہ کا محکوم رکھنا چاہیے :

الغرض شاعر کی ذات میں جیسا کہ اوپر بیان ہوا تین وصف مستحق ہونے ضروری ہیں۔ ایک وہنی یعنی تخیل یا امیجینیشن اور دو کسبی یعنی صحیفہ فطرفت کے مطالعہ کی عادت اور الفاظ پر قدرت۔ اب تخیل کی نسبت اتنا جان لینا اور ضرور ہے کہ اس کو جہاں تک ممکن ہو اعتدال پر رکھنا اور طبیعت پر غالب نہ ہونے دینا چاہیے۔ کیونکہ جب اس کا غلبہ طبیعت پر زیادہ ہو جاتا ہے اور وہ قوت ممیزہ کے قابو سے جو کہ اس کی روک ٹوک کرنے والی ہے باہر ہو جاتا ہے تو اس کی یہ حالت شاعر کے حق میں نہایت خطرناک ہے۔ قوت متخیلہ ہمیشہ خلاقی اور بلند پروازی کی طرف مائل رہتی ہے مگر قوتِ ممیزہ اس کی پرواز کو محدود کرتی ہے۔ اس کی خلاقی کی مزاحم ہوتی ہے اور اس کو ایک قدم بے قاعدہ چلنے نہیں دیتی۔ قوت متخیلہ کیسی ہی دلیر اور بلند پرواز ہو جب تک کہ وہ قوت ممیزہ کی محکوم ہے شاعری کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ جس قدر اس کی پرواز بلند ہو گی اسی قدر شاعری اعلٰی درجہ کو پہنچے گی۔

دنیا میں جتنے بڑے بڑے شاعر ہوئے ہیں ان میں قوت متخیلہ کی بلند پروازی اور قوت ممیزہ کی حکومت دونوں ساتھ ساتھ پائی جاتی ہیں۔ ان کا تخیل نہ خیالات میں بے اعتدالی کرنے پاتا ہے نہ الفاظ میں کجروی مگر دوسری صورت میں جب کہ تخیل قوت ممیزہ پر غالب آ جائے۔ شاعر کے لیے اس کی پرواز ایسی ہی خطرناک ہے جیسے سوار کے لیے نہایت چالاک گھوڑا جس کے منہ میں لگام نہ ہو۔ ہزاروں ہونہار شاعروں کو اس قوت کی آزادی اور مطلق العنانی نے گمراہ کر دیا ہے اور بعضے جو گمراہ ہو کر پھر راہ راست پر آئے ہیں وہ اس وقت تک نہیں آئے جب تک کہ قوت ممیزہ کو اس پر حاکم نہیں بنایا۔ قوت متخیلہ کی دلیری اور بلند پروازی زیادہ تر اس وقت بڑھتی ہے جب کہ شاعر کے ذہن میں اس کو اپنی غذا یعنی حقائق و واقعات کا ذخیرہ جس میں وہ تصرف کر سکے نہیں ملتا۔ جس طرح انسان بھوک کی شدت میں جب معمولی غذا نہیں پاتا تو مجبورا بناس پتی سے اپنا دوزخ بھر کر صحت خراب کر لیتا اور اکثر ہلاک ہو جاتا ہے اسی طرح جب قوت متخیلہ کو اس کی معتاد غذا نہیں ملتی تو وہ غیر معتاد غذا پر ہاتھ ڈالتی ہے۔ خیالات دور ازکار جن میں اصلیت کا نام و نشان نہیں ہوتا تراش کر بہ تکلف ان کو شعر کا لباس پہناتی ہے۔ اور قوت ممیزہ کو اپنے کام میں خلل انداز سمجھ کر اس کی اطاعت سے باہر ہو جاتی ہے اور آخر کار شاعر کو مہمل کو اور کوہ کندن و کاہ بر آوردن کا مصداق بنا دیتی ہے۔

شاعر کے لیے نیچر کا خزانہ ہر وقت کھلا ہوا ہے اور قوت متخیلہ کے لیے اس کی اصلی غذا کی کچھ کمی نہیں ہے۔ پس بجائے اس کے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کاغذ کی پھول پیکھڑیاں بنائے اس کو چاہیے کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں اور خود اپنی ذات میں قدرت حق کا تماشا دیکھے۔ جہاں بھانت بھانت کے اصلی پھول اور پنکھڑیوں کے لازوال خزانے موجود ہیں۔ ورنہ اس کی نسبت کہا جائے گا :

جانتا قدرت کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا​
 

شمشاد

لائبریرین
شعر میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہییں؟

یہاں تک ان خاصیتوں کا بیان ہوا جن کے بغیر شاعر کمال کے درجہ کو نہیں پہنچتا۔اب وہ خصوصیتیں بیان کرنی ہیں جو دنیا کے تمام مقبول شاعروں کے کلام میں عموما پائی جاتی ہیں۔ ملٹن نے ان کو چند مختصر لفظوں میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ "شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ ہو، جوش بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔"

ایک یورپین محقق ان لفظوں کی شرح اس طرح کرتا ہے۔ "سادگی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاہییں۔ جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کے شارے عام پر چلنا۔ بے تکلفی کے سیدھے رستے سے ادھر اُدھر نہ ہونا اور فکر کو جولانیوں سے باز رکھنا اسی کا نام سادگی ہے۔ علم کا رستہ اس کے طالب علموں کے لیے ایسا صاف نہیں ہو سکتا جیسا کہ شعر کا رستہ اس کے سامعین کے لیے صاف ہونا چاہیے۔ ظالب علم کو پستی اور بلندی، غار اور ٹیلے، کنکر اور پتھر، موجیں اور گرداب طے کر کے منزل پر پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن شعر پڑھنے یا سننے والے کو ایسی ہموار اور صاف سڑک ملنی چاہیے جس پر وہ آرام سے چلا جائے۔ ندی، نالے اس کے ادھر اُدھر چل رہے ہوں اور پھل پھول درخت اور مکان اس کی منزل ہلکی کرنے کے لیے ہر جگہ موجود ہوں۔ دنیا میں جو شاعر مقبول ہوئے ہیں ان کا کلام ہمیشہ ایسا ہی دیکھا گیا ہے اور ایسا ہی سنا گیا ہے۔ اس کی ہر ذہن سے مصالحت اور ہر دل میں گنجائش ہوتی ہے۔ ہومر نے اپنے کلام میں ہر جگہ نیچر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ اس کو جوان، بوڑھے اور وہ قومیں جو ایک دوسرے سے قطبوں کے فاصلےپر رہتی ہیں برابر سمجھ سکتی اور یکساں مزا لے سکتی ہیں۔ عالم محسوسات کے چپے چپے پر جہاں جہاں کہ اس کا کلام پہنچا ہے اس کی روشنی سورج کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ وہ آباد اور ویرانہ کو برابر روشن کرتا ہے اور فاضل و جاہل پر یکساں اثر ڈالتا ہے۔ شکسپئیر کا بھی ایسا ہی حال ہے جیسا ہومر کا۔ یہ دونوں برخلاف عام شاعروں کے مستثنیات کو نہیں لیتے بلکہ عام شق اختیار کرتے ہیں۔ یہ خاص خاص صورتیں اور نادر اتفاقات دکھا کر لوگوں کو اپنی خاص لیاقت پر فریفتہ کرنا نہیں چاہتے۔"

دوسری بات جو ملٹن نے کہی ہے وہ یہ ہے کہ " شعر اصلیت پر مبنی ہو۔ اس سے یہ غرض ہے کہ خیال کی بنیاد ایسی چیز پر ہونی چاہیے جو درحقیقت کچھ وجود رکھتی ہو نہ یہ کہ سارا مضمون ایک خواب کا تماشا ہو کہ ابھی تو سب کچھ تھا اور آنکھ کھلی تو کچھ نہ تھا۔ یہ بات جیسی مضمون میں ہونی ضرور ہے ایسی ہی الفاظ میں بھی ہونی چاہیے۔ مثلا ایسی تشبیہات استعمال نہ کی جائیں جن کا وجود عالم بالا پر ہو۔"

تیسری بات یہ تھی کہ "شعر جوش سے بھرا ہوا ہو۔ اس سے صرف یہی مراد نہیں کہ شاعر نے جوش کی حالت میں شعر کہا یا شعر کے بیان سے اس کا جوش ظاہر ہوتا ہو۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ہے کہ ان کے دل ٹٹولے جائیں اور ان کے دلوں کو جذب کرنے کے لیے مقناطیسی کشش بیان میں رکھی جائے۔"

جس مقناطیسی کشش کا ذکر اس محقق نے ملٹن کے الفاظ کی شرح میں کیا ہے۔ لارڈ مکالے کہتے ہیں کہ وہ خود ملٹن ہی کے بیان میں پائی جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں " یہ جو مشہور ہے کہ شعر میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے۔ عموما یہ فقرہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔ مگر جب ملٹن کے کلام پر لگایا جاتا ہے تو بہت ہی ٹھیک بیٹھتا ہے۔ اس کا شعر افسوں کی طرح اثر کرتا ہے حالانکہ بادی النظر میں اس کے الفاظ میں اوورں کے الفاظ سے کچھ زیادہ نظر نہیں آتا۔ مگر وہ منتر کے الفاظ ہیں کو جونہی تلفظ میں آئے فورا ماضی، ھال اور دور و نزدیک ہو گیا۔ معا ھسن کی نئی نئی شکلیں موجود ہو گئیں اور معا حافظہ کے قبرستان نے اپنے سارے مردے اٹھا بٹھائے۔ لیکن جہاں فقرہ کی ترتیب بدلی یا کسی لفظ کی جگہ اس کا مترادف رکھ دیا۔ اسی وقت سارا اثر کافور ہو گیا۔ جو شخص اس کے کلام مین ایسی تبدیلی کے بعد وہی طلسم کھڑا کرنا چاہے وہ اپنے تئیں ایسی ہی غلطی میں پائے گا جیسا الف لیلہ میں قاسم نے اپنے تئیں پایا تھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑا ہوا پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔ "کھل گیہوں" "کھل جو " مگر دروازہ ہر گز نہ کھلتا تھا جب تک یہ نہ کہا جاوے " کھل جا سم سم۔"

ملٹن کی تینوں شرحوں کی شرح اگر چہ کسی قدر اوپر بیان ہو چکی ہے لیکن ہمارے نزدیک ابھی اس میں کسی قدر اور تشریح کی ضرورت ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سادگی سے کیا مراد ہے؟

سادگی ایک اضافی امر ہے۔ وہی شعر جو ایک حکیم کی نظر میں محض سادہ اور سمپل معلوم ہوتا ہے اور جس کے معنی اس کے ذہن میں بمجرد سننے کے متبادر ہو جاتے ہیں اور جو خوبی اس میں شاعر نے رکھ ہے اس کو فورا درک کر لیتا ہے۔ ایک عام آدمی اس کو سمجھنے اور اس کی کوبی دریافت کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک عامیانہ شعر جس کو سن کر ایک پست خیال جاہل اُچھل پڑتا ہے اور وجد کرنے لگتا ہے۔ ایک علی دماغ حکیم اسی کو سن کر ناک چڑھا لیتا ہے۔ اور اس کو محض ایک سخیف اور کیک و سُبک تُک بندی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتا۔ ہمارے نزدیک ایسی سادگی پر جو سخاوت و رکاکت کے ذریعے پہنچ جائے، سادگی کی اطلاق کرنا گویا سادگی کا نام بدنام کرنا ہے۔ ایسے کلام کو سادہ نہیں بلکہ عامیانہ کلام کہا جائے گا۔ لیکن ایسا کلام جو اعلی و اوسط درجہ کے آدمیوں کے نزدیک سادہ اور سمپل ہو اور ادنی درجے کے لوگ اس کی اصل خوبی سمجھنے سے قاصر ہوں ایسے کلام کو سادگی کی حد میں داخل رکھنا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ جو عمدہ کلام ایسا صاف اور عام فہم ہو کہ اس کو اعلٰی سے لے کر ادنٰی تک ہر طبقہ اور ہر درجہ کے لوگ برابر سمجھ سکیں اور اس سے یکساں لذت اور حظ اٹھائیں۔ وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو سادہ اور سمپل کہا جائے۔ مگر کوئی ایسی نظم جس کا ہر شعر عام فہم و خاص پسند ہو خواہ اس کا لکھنے والا ہومر یا شکسپیئر ہو نہ آج تک سر انجام ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو شکسپئیر کے ورکس پر شرحین لکھنے کی کیوں ضرورت ہوتی۔

ہمارے نزدیک کلام کی سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند اور دقیق ہو مگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو تحاور اور روزمرہ کی بول چال کے قریب قریت ہوں۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمولی بول چال سے بعید ہو گی اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔ تُحاور اور روزمرہ کی بول چال سے نہ تو عوام الناس اور سُوقیوں کی بول چال مراد ہے اور نہ علما و فضلا کی بلکہ وہ الفاظ و محاورات مراد ہیں جو خاص و عام دونوں کی بول چال میں عامتہ الورود ہیں لیکن اردو زیان میں سادگی کا ایسا التزام ہر قسم کے کلام میں نبھ نہیں سکتا ہے۔ اگر کچھ نبھ سکتا ہے تو محض عشقیہ اور بعض متاخرین نے خاص ان دو صنفوں میں کیا ہے۔ قصیدہ میں سودا اور ذوق جیسے مشتاق شاعرں سے بھی ایسی سادگی نبھ نہیں سکی۔ میر انیس باوجودیکہ زبان کی شستگی اور صفائی پر نہایت دلدادہ ہیں۔ مگر طرز جدید کے مرثیہ میں ان کو بھی کثرت سے عربی و فارسی الفاظ استعمال کرنے اور ہمیشہ کے لیے اپنے روزمرہ مین داخل کرنے پڑتے ہیں۔ خصوصا اس زمانہ میں کہ روز بروز لوگوں کی معلومات اور اطلاع بڑھتی جاتی ہے اور شاعری میں خیالات جدید اضافہ ہوتے جاتے ہیں۔ جن کے لیے اردو معنی میں الفاظ بہم نہیں پہنچتے۔ ممکن نہیں کہ اردو کے محدود روزمرہ میں ہر قسم کے خیالات ادا کیئے جائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اصلیت سے کیا مراد ہے؟

اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہر شعر کا مضمون حقیقت نفس الامری پر مبنی ہونا چاہیے۔ بلکہ یہ مراد ہے کہ جس بات پر شعر کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ نفس الامر میں یا لوگوں کے عقیدہ میں یا محض شاعر کے عندیہ میں فی الواقع موجود ہو یا ایسا معلوم ہوتا ہو کہ اس کے عندیہ میں فی الواقع موجود ہے، نیز اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ بھی مقصود نہیں ہے کہ بیان میں اصلیت سے سرمو تجاوز نہ ہو۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ زیادہ تر اصلیت ہونی ضروری ہے۔ اس پر اگر شاعر نے اپنی طرف سے فی الجملہ کمی بیشی کر دی تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔

پہلی صورت کی مثال جس میں شعر کی بنا محض حقائق نفس الامریہ پر ہو ایسی ہے جیسے شیخ تیسری صورت کی مثال جس میں شاعر محض اپنے عندیہ پر شعر کی بنیاد رکھتا ہے ایسی ہے جیسے شیخ شیرازی معشوق کی طرف خطاب کر کے کہتے ہیں :

عقل من پروانہ گشت و ہم ندید
چوں تو شمعے در ہزاراں انجمن​
 

شمشاد

لائبریرین
اسی صورت کی دوسری مثال شیراز کی فصل بہار کے بیان میں :

ریح ریحافست یا بُوئے بہشت
خاک شیراز ست یا مشکِ ختن​

چوتھی صورت کی مثال جس میں سامعین کو یہ معلوم ہو کہ گویا شاعر کے عندیہ میں اسی طرح ہے جس طرح وہ بیان کرتا ہے ایسی ہے جیسے نظیری اپنی بڑائی اور زمانہ کی ناقدردانی کے بیان میں کہتا ہے :

تو نظیری ز فلک آمدہ بودی چو مسیح
باز پس رفتی و کس قدر تو شناخت دریغ​

عرفی اپنی بڑائی اس طرح کرتا ہے :

سر بر زدہ ام بامہ کنعاں ز یکے جیب
معشوق تماشا طلب و آئینہ گیرم​

ایسی خود ستائی اور فخر کو اصلیت پر مبنی ٹھہرانے سے شاید ناظرین کو بادی النظر میں استعجاب ہو گا۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ گو ایسے مضامین مبالغہ سے خالی نہیں ہوتے مگر ان میں کم و بیش راستی کی جھلک ضرور ہوتی ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسے مضامین میں راستی مطلق نہیں ہوتی تو بھی اس میں کچھ شک نہیں کہ بعض شعرا کے فخر و مباہات میں ایسا جوش ہوتا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ فی الواقع شعر لکھتے وقت اپنے تئیں ایسا ہی سمجھتے تھے اور صرف ان کا ایسا سمجھنا اس بات کے لیے کافی ہے کہ ان کے فخریہ اشعار کو اصلیت پر مبنی سمجھا جائے۔ کیونکہ اصلیت کے معنی جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ شاعر کے بیان کو کوئی منشا یا محکی عنہ نفس الامر میں یا صرف شاعر کے ذہن میں موجود ہو۔

پانچویں صورت کی مثال جس میں اصلیت پر شاعر نے کسی قدر اضافہ کر دیا ہو جیسے شیخ شیرازی ترکان خاتون کرمانی کی مدح میں کہتے ہیں :

منشور در نواحی و مشہور در جہاں
آوازہ تعبد و خوف و رجائے تو

شکرت مسافراں کہ بہ آفاق می برند
گر بر فلک رسد نہ رسد بر عطائے تو

تیغ مبارزاں نہ کند در دیارِ خصم
چنداں اثر کہ ہمت کشور کشائے تو​

نیز شیخ، ابوکر سعد کی تعریف میں کہتے ہیں :

بہ تیغ و طعن گرفتند جنگ جویاں ملک
تو بر و بحر گرفتی بعدل و ہمت و رائے

دو خصلت اند نگہبان ملک و یاورِ دیں
بگوشِ جانِ تو پندارم ایں دو گفت خدائے

یکے کہ گردن زور آوراں بقبر بزن
دوم کہ از درِ بیچاگاں ہلطف درائے

بچشم عقل مرا یں خلق بادشا ہانند
کہ سایہ بر سر ایشاں فگندہ چو ہمائے​

چونکہ شیخ کے ان دونوں ممدوحوں کا حال معلوم ہے کہ وہ اوصاف مذکور کے ساتھ کسی نہ کسی قدر متصف تھے۔ اس لیے شیخ کے ان مدحیہ اشعار کو اصلیت پر مبنی سمجھا جائے گا لیکن اگر یہ اوصاف کسی ایسے ممدوح کے حق میں بیان کئے جائیں جو بالکل ان سے معرا ہو جیسا کہ ہمارے شعرا کے قصائد میں عموما دیکھا جاتا ہے تو کہا جائے گا کہ شعر اصلیت پر مبنی نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ان پانچ صورتون کے سوا اور کوئی صورت ایسی نہیں نکل سکتی جن میں شعر کو کھینچ تان کر کسی طرح اصلیت پر مبنی قرار دیا جائے اور ایسے کلام کی ہماری شاعری میں کچھ کمی نہیں ہے، نہ متاخرین کے بلکی متقدمین کے کلام میں بھی ایسی مثالیں دفتر دفتر موجود ہیں۔ یہاں صرف نمونے کے طور پر ایک دو مثالیں لکھی جاتی ہیں :

( 1 ) نظیری نیشا پوری باوجودیکہ ایک نہایت معقول و سنجیدہ شاعر ہے۔ شاہزادہ مراد کی مدح میں کہتا ہے :

توئی کہ بودہ و نابودہ جہاں از تست
سخن درست بگفتیم ہر چہ بادہ باد​

( 2 ) عرفی حکیم ابو الفتح کے گھوڑے کی تعریف میں کہتا ہے :

آن سبک سیر کہ چوں گرم عنانش سازی
از ازل سوئے ابد و ز ابد آید بہ ازل

قطرہ کش دم رفتن چکد از پیشانی
شبنم آساش شیند گہ رجعت بہ گفل​
 

شمشاد

لائبریرین
جوش سے کیا مراد ہے :

جوش سے یہ مراد ہے کہ مضمون ایسے بے ساختہ الفاظ اور مؤثر پیرائے میں بیان کیا جائے جس سے معلوم ہو کہ شاعر نے اپنے ارادہ سے یہ مضمون نہیں باندھا بلکہ خود مضمون نے شاعر کو مجبور کر کے اپنے تئیں اسے سے بندھوایا ہے۔

ایسا جوش شاعر کے ہر قسم کے بیان میں عام اس سے کہ وہ خود اپنی حالت بیان کرئے یا دوسرے کی اور خوشی کا بیان کرئے یا غم کا، اور تعریف کرئے یا مذمت یا نہ تعریف کرئے نہ مذمت، غرضیکہ اصناف مضامین میں جو کہ شعر کے پیرایہ میں بیان کئے جا سکتے ہیں پایا جانا ممکن ہے۔ شاعر کی ذات میں ہر چیز سے متاثر ہونے ہر شخص کی خوشی یا غم میں شریک ہونے اور ہر ایک کے جذبات سے متکئیف ہو جانے کا ایک خداداد ملکہ ہوتا ہے۔ وہ بے زبان بلکہ بے جان چیزوں کو حالت ان کی زبانِ حال سے ایسی بیان کر سکتا ہے کہ اگر ان میں گویائی ہوتی تو وہ بھی اپنی حالت اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتیں۔ خاقانی نوشیرواں کی بارگاہ کے ان کھنڈروں کی زبان حال سے جو مدائن میں اس نے اپنی آنکھ سے دیکھے ان کی تباہی و بربادی کو اس طرح بیان کرتا ہے :

ما بارگہ دادیم، ایں رفت ستم بر ما
بر قصر ستمگاراں آیا چہ رودخذ لاں​
 

شمشاد

لائبریرین
شیرازی بہار کی تعریف میں کہتے ہیں :

آدمی زادہ اگر در طرب آید چہ رجب
سرو در باغ برقص آمدہ و بید و چنار

باش تا غنچہ سیراب دہن باز کند
بامدا واں چو سرِ نافہ آہوئے تتار

ژالہ بر لالہ فرود آمدہ ہنگامِ سحر
راست چوں عارضِ گل بوئے عرق کردہ یار

باد بوئے سمن آورد و گُل و سُنگل و بید
درِ دُکاں بچہ رونق بکشاید عطار

خیری و خطمی و نیلوفر دبستاں افروز
نقشہائے کہ در و خیرہ بماند ابصار

ارغواں ریختہ بر درگہ خضرائے چمن
ہکچنانست کہ بر تختہ دیبا دینا

ایں ہنوز اول آثار جہاں افروزیست
باش تا خیمہ زند دولتِ نیساں دایار

شاخہا دختر دوشیزہ با غند ہنوز
باش تا حاملہ گردند بہ الوان ثمار​

دوسری صورت کی مثال جس میں شعر کی بنیاد سامعین کے عقیدہ پر رکھی جاتی ہے، ایس ہے جیسے مثلا میر انیس ماتم سید الشہدا میں لکھتے ہیں :

تھراتے ہیں لوح و قلم و عرشِ معظم
کرسی پہ یہ صدمہ ہے کہ ہل جاتی ہے ہر دم

باندھے ہیں ملائک کی صفیں حلقہ ماتم
ڈر ہے نہ الٹ جائے کہیں دفترِ عالم

ہاتھوں سے عطارد کا قلم چھوٹ پڑا ہے
ہر فرد پہ اک غم کا فلک ٹوٹ پڑا ہے

منہ ڈھانپے ہے رونے کے لیے چرخ پہ مہتاب
سر کھولے ہے خورشید فلک چشم ہے پُر آب

تاروں پہ بھی طاری ہے غم ایسا کہ نہیں ناب
سیاروں پہ ثابت ہے کہ راحت ہوئی نایاب

قتل پسر سید لولاک کا دن ہے
یہ خاتمہ پنجتن پاک کا دن ہے​

یعنی ہم جو کبھی نوشیرواں کے عدل و انصاف کی بارگاہ تھے، جب گردش روزگار نے ہمیں اس حال کو پہنچا دیا تو ظالموں کے محلوں پر کیا نوبت گزرتی ہو گی۔

فردوسی اس گفتگو کو جو یزدجرد نے سعد وقاص کے ایلچی سے کی تھی، اس طرح بیان کرتا ہے :

زمشیر شتر خوردن و سوسمار
عرب را بجائے رسیدست کار

کہ ملک عجم را کنند آرزو
تفو بر تو اے چرخِ گردان تفو​

فردوسی نے اس موقع پر جیسا کہ اس کے بیان سے ظاہر ہے بالکل یزدجرد کا جامہ پہن لیا ہے اور اس کے غصہ اور جوش کی نقل کو بالکل اصلی کر دکھایا ہے۔

جوش سے یہ مراد نہیں ہے کہ مضمون خواہ مخواہ نہایت زور دار اور جوشیلے لفظوں میں ادا کیا جائے، ممکن ہے کہ الفاظ نرم ملائم اور دھیمے ہوں۔ مگر ان میں غایت درجہ کا جوش چھپا ہوا۔ خواجہ حافظ کہتے ہیں :

شنیدہ ام سخنے خوش کہ پیر کنعاں گفت
فراق یار نہ آں می کند کہ بتو گفت​

میر تقی کہتے ہیں :

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا​

مگر ایسے دھیمے الفاظ میں وہی لوگ جوش کو قائم رکھ سکتے ہیں جو میٹھی چُھری سے تیز خنجر کا کام لینا جانتے ہیں اور اس جوش کا پورا پورا اندازہ کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو صاحبِ ذوق ہیں اور جن پر بے محل ہزاروں آہیں اور نالے اتنا اثر نہیں کرتے جتنا کہ برمحل کسی کا ایک ٹھنڈا سانس بھرنا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عبرانی اور عربی شاعری میں سب سے زیادہ جوش تھا :

عبرانیوں کی شاعری سب سے زیادہ جوشیلی مانی گئی ہے۔ ایک یورپین محقق کا قول ہے کہ " عبرانی شاعروں کے کلام میں اس قدر جوش ہے کہ ان کا شعر سن کر یہ معلوم ہوتا ہے گویا صحرا میں ایک تناور درخت جل رہا ہے یا ایک شخص پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ " عرب کی شاعری بظاہر عبرانی شاعری پر مبنی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں بھی بے انتہا جوش پایا جاتا ہے۔ اسی لئے جیسا کہ یورپ کے مؤرخ لکھتے ہیں۔ عرب یونانیوں کی شاعری سے نفرت کرتے تھے۔ کیونکہ انکو یونانی شاعری اپنی شاعری کے آگے پھیکی، ٹھنڈی اور آورد سے بھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ یونانیوں کی جتنی کتابیں انہوں نے ترجمہ کیں، ان میں ایک بھی دیوانِ شعر ترجمہ نہیں ہوا۔ وہ ہومر، سغوکلیز اور پنڈار کو اپنے شعرا کے برابر نہیں سمجھتے تھے یہاں ہم نمونہ کے طور پر ایک مختصر عربی نظم کا ماحصل اردو میں لکھ کر ناظرین کو دکھاتے ہیں تا کہ ان کو معلوم ہو کہ عرب شعر میں کس قدر جوش ظاہر کرتے تھے۔ مگر چوں کہ اردو میں عربی زبان کی خوبی باقی رہنی ناممکنہے۔ اس لیے یہ ایک ناقص نمونہ عربی اشعار کا ہو گا۔

بشامہ بن حزن نہشفی جو ایک اسلامی شاعر ہے، فخریہ اشعار میں کہتا ہے۔ ہم نہشل کے پوتے، نہشل کے پوتے ہونے پر فخر کرتے ہیں اور نہشل ہمارا دادا ہونے پر فخر کرتا ہے۔"

"عزت اور برتری کی کسی حد تک گھوڑے دوڑائے جائیں۔ سب سے آگے بڑھنے والے جب پاؤ گے تو بنی نہشل ہی کے گھوڑے پاؤ گے۔"

"ہم میں سے کوئی سردار جب تک کہ کوئی لڑکا اپنا جانشین بننے کے لائق نہیں چھوڑتا دنیا سے نہیں اٹھتا۔"

"لڑائی کے دن ہم اپنی جانیں سستی کر دیتے ہیں مگر امن کے زمانے میں اگر ان کی قیمت پوچھیئے تو انمول ہیں۔"

"ہماری مانگوں کے بال (عطریات کے استعمال سے) سفید ہیں۔ ہماری دیگیں مہمانوں کے لیے گرم ہیں۔ ہمارا مال ہمارے مقتولوں کے خون بہا کے لیے وقت ہے۔"

"میں اس قوم سے ہوں جس کے بزرگوں نے دشمنوں کے اتنا کہنے پر کہ "کہاں ہیں قوم کے حمایتی" اپنے کو نیست و نابود کر دیا۔"

"اگر ہزار میں ہمارا ایک موجود ہو تو بھی جب یہ کہا جائے گا کہ "کون ہے شہسوار، تو اس کی اپنے ہی پر نگاہ پڑے گی۔"

"ہمارے لوگوں پر کیسی ہی سخت مصیبت پڑے ان کو اوروں کی طرح اپنے مقتولوں پر روتا نہ پاؤ گے۔"

"ہم اکثر ہولناک موقعوں میں گُھس جاتے ہیں مگر حمیت اور تلواریں جنھوں نے ہم سے قول ہارا ہے ہماری سب مشکلیں آسان کر دیتی ہیں۔"

عرب کی شاعری میں زیادہ جوش ہونے کا سبب کچھ تو ان کے گرم خون کی جبلی خاصیت تھی اور زیادہ تر یہ بات تھی کہ ان کی شاعری کا مدار محض واقعات اور دل کے سچے حالات اور واردات پر تھا۔ عشقیہ اشعار زیادہ وہی لوگ تھے جو فی الواقع کسی کے ساتھ عاشقانہ دل بستگی رکھتے تھے۔ رزمیہ اشعار وہی لوگ پڑھتے تھے جو فی الواقع حرب و کارزار کے مرد میدان تھے۔ فخریہ اشعار میں وہ وہی واقعات بیان کرتے تھے جو ان سے یا ان کے بزرگوں سے یا ان کے قبیلہ کے لوگوں سے علی الاعلان ظاہر ہوتے تھے اور جن کے سبب سے ان کی بہادری یا فیاضی یا فصاحت ضرب المثل ہو جاتی تھی۔ ان کی مرثیہ گوئی کوئی محض تقلیدی نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ جس شخص کے دل پر کسی دوست یا عزیز یا بزرگ یا نامور آدمی کی موت سے چوٹ لگتی تھی وہ اس کا مرثیہ لکھتا تھا اور صحیح اپنے دل کی واردات کا نقشہ کھینتا تھا۔ محبت، عداوت، ہمدردی، صبر، استقلال، غصہ، انتقال، جوانی، بڑھاپا، دنیا کی بے ثباتی، خدا کی عظمت و جلالات، ظالم کی مذت، مظلوم کی فریاد رسی، صلہ رحم یا قطع رحم، غرضیکہ جس مضمون کا جوش اس کے دل میں اٹھتا تھا۔ اس کو بغیر ساختگی اور تصنع کے بیان کرتے تھے مگر افسوس ہے کہ خلافت عباسیہ کے زمانہ سے یہ سچا جوش کم ہونا شروع ہوا۔ اور آخر کار شعر کے تمام اصناف میں تقلید پھیل گئی۔ شعر بجائے اس کے کو خود شاعر کے جذبات کا آئینہ دار ہو وہ قدما کی طرز و روش بلکہ انہی کے جذبات کا آئینہ اور انہیں کے خیالات کا آرگن بن گیا۔ قدما سچ مچ اپنے اور اپنے بڑون کے کارہائے نمایاں پر فخر کرتے تھے۔ متاخرین جھوٹی خود ستائیاں کر کے ان کا منہ چڑانے لگے اور ان کا نم سنت شعراٗ رکھا۔ قدما سچ مچ کسی نہ کسی اصلی معشوقہ کی محبت میں اپنے دل کے جذبات اور واردات بیان کرتے تھے اور اسی لیے ان کے ہاں صدہا اصلی نام ان کی معاشیق کے موجودو ہیں جیسے لیلٰی، سلمٰی، سعاد، سعدیٰ، عذرا، غرہ، خولہ، ثبیہنہ، ععیزہ، فاطمہ، زینب، وغیرہ وغہرہ۔ مگر متاخرین نے شیرخوار بچوں کی طرح روتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ کیوں روتے ہیں، محض تقلیدا فرضی ناموں سے لو لگا کر ان کی جدائی اور شوق و آرزو کا دکھڑا رونا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ عرب سے یہ رنگ ایران میں اور وہاں سے ہندوستان میں پہونچا۔ اور آخر کار مسلمانوں کی شاعری کا حال اس ویران بستی کا سا ہو گیا جو کبھی آدمیوں سے معمور تھی مگر اب وہاں سُونے مکانوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب ہم چند مثالیں ایسے اشعار کی لکھتے ہیں جن میں ملٹن کی تینوں شرطیں یا ان میں سے ایک یا دو شرط پائی جائے یا بالکل کوئی شرط نہ پائی جائے۔

( 1 ) ابن یحییٰ بن زیادہ مکروہات دینوی کو خوشی سے قبول کرنے کے باب میں کہتے ہیں

و لما رایت الشیب لاح بیاصہ
بمفرق رامی قلت للشیب مرحبا

و لو خفت انی ان کففت تحیتی
تنکب محض مدت ان یتنکبا

و لکن اذا ما ھل کرہ فا محت
بہ النفس یوما ۔ْ کان للکرہ اذھبا​

یعنی جب میں نے دیکھا کہ بڑھاپا میرے سر کے بالوں میں نمودار ہوا تو میں نے اس کو خیر مقدم کہا۔ اگر یہ امید ہوتی کہ وہ ایسا نہ کرنے سے ٹل جائے گا تو میں اس کے ٹالنے کی کوشش کرتا۔ مگر بات یہ ہے کہ مصیبت کے دفع کرنے کی تدبیر سے بہتر نہیں کہ اس کو بہ کشادہ پیشانی قبول کیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 2 ) متحم بن نویرہ اپنے بھائی مالک کے مرثیہ میں لکھتے ہیں :

لقد لامنی عند الصبور علی البکا
رفیقے الذ راف الدموع السوافک

فقال اتبکی کل قبر رایتہ
القبر ثوی بین اللوی والد کادک

فقلت لہ ان الشجا یبعث الشجا
فدعنی فھذا کلہ قبر مالک​

یعنی میں جو قبرستان کو دیکھ کر رونے لگا تو میرے رفیق نے میرے آنسو جاری دیکھ کر مجھ کو ملامت کی کہ جو قبر (یہاں سے بہت دور) مقام لوی اور دکادک کے بیچ میں واقع ہے۔ (یعنی قبر مالک) اس کے لیے تو ہر قبر کو دیکھ کر رو پڑتا ہے۔ میں نے کہا (اے عزیز) مصیبت، مصیبت کو یاد دلاتی ہے۔ پس مجھ کو رونے دے میرے نزدیک یہ سب مالک ہی کی قبریں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
( 3 ) ناصر خسرو دنیا کی حقیقت بیان کرتا ہے :

ناصر خسرو براہے می گذشت
مست و لا معقل نہ چوں میخوارگاں

دید کورے چند مبرز روبرو
باگ بر زد، گفت کا سے نظارگاں​
 

شمشاد

لائبریرین
( 4 ) نظامی مناجات میں کہتے ہیں :

پردہ براندازد بروں آئے فرد
در منم آن پردہ بہم در نورد​
 

شمشاد

لائبریرین
( 6 ) خواجہ حافظ اپنی ایک خاص وجدانی حالت کو جس سے بے درد لوگ نامحرم ہیں۔ اس طرح بیان کرتے ہیں :

شبے نا یک و تیم موج و گر دا بے بے چنین حائل
کجا دانند حال ما سبکسارانِ ساحل ہا​
 

شمشاد

لائبریرین
( 7 ) شیخ ابراہیم ذوق اس بات کو کہ مرنے کے بعد بھی اگر راحت نہ ملی تو دل کو تسلی کی پھر کوئی صورت نہیں یوں بیان کرتے ہیں :

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے​
 

شمشاد

لائبریرین
( 8 ) مرزا غالب انسان کے لاشے اور ہیچ ہونے کو اس طرھ ادا کرتے ہیں :

خوشی جینے کی کیا مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا​
 

شمشاد

لائبریرین
( 9 ) میر تقی فرط محبت و دل بستگی کی اس طرح تصویر کھینچتے ہیں :

جب ترا نام لیجیئے تب چشم بھر آئے
اس طرح کے جینے کو کہا ں سے جگر آئے​
 
Top