مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 171 سے 200

شمشاد

لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی - صفحہ 171 سے 200

مرنے پر اظہار حزن و ملال کے لیے سوچ سوچ کر رنگین اور مسجع فقرے افشا کرے اور بجائے حزن و ملال کے اپنی فصاحت و بلاغت کا اظہار کرے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرثیہ کی ترتیب میں مطلق فکر و غور کرنا اور صنعت شاعری سے بالکل کام لینا نہیں چاہیے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو شاعری کا سارا کمال زبان کی صفائی، مضمون کی سادگی و بے تکلفی، کلام کے موثر بنانے اور آورد کو آمد دکھانے میں صرف کرنا چاہیے۔ تا کہ وہ اشعار جو بے انتہا فکر و غور اور کاٹ چھانٹ کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے معلوم ہوں کہ گویا بے ساختہ شاعر کے قلم سے ٹپک پڑے ہیں۔ تیسرے مرثیہ کو صرف واقعہ کربلا کے ساتھ مخصوص کرنا اور تمام عمر اسی ایک مضمون کو دہراتے رہنا۔ اگر محض بہ نیت حصولِ ثواب ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن شاعری کے فرائض اس سے زیادہ وسیع ہونے چاہیں۔ مرثیہ کے معنی ہیں کسی کی موت پر جی کڑھانا اور اس کے محامد و محاسن بیان کر کے اس کا نام دنیا میں زندہ کرنا۔ پس شاعر جو کہ قوم کی زبان ہوتا ہے۔ اس کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ جب کسی کی موت سے اس کے یا اس کے قوم یا خاندان کے دل کو فی الواقع صدمہ پہنچے۔ اس کی کیفیت یا حالت کو جہاں تک ممکن ہو، درد اور سوز کے ساتھ شعر کے لباس میں جلوہ گر کرے کیونکہ خالص محبت جو ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے اور بے ریا تنظیم جو ایک دوسرے کی نسبت کرتا ہے۔ اس کے اظہار کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ ممدوح خواب عدم میں بے خبر سوتا ہےا ور اس سے کسی نفع کی امید یا ضرر کا خوف باقی نہ رہا ہو۔ اب اگر شاعر کا دل فی الحقیقت علائق دنیوی سے ایسا پاک ہے کہ مقربان درگاہِ الہی کے سوا کسی کی موت سے متاثر اور متغیر نہیں ہوتا تو اس کو آحادناس کے مرثیے لکھنے کی تکلیف دینی بلاشبہ تکلیف ملایطاق ہو گی۔ لیکن اگر اس کے پہلو میں ایسا پاک دل نہیں ہے بلکہ وہ عام انسانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اور دنیاداروں کی موت پر بھی اس کا دل پسیجتا ہے تو اس کو اپنی فطرت کا متقضٰی ضرور پورا کرنا چاہیے۔

یہ سچ ہے کہ جناب سید الشہدا اور ان کے عزیزوں اور ساتھیوں کے آلام و مصائب کا بیان بشرطیکہ اس میں بناوٹ اور تصنع اور صنعت شاعری کا اظہار نہ ہو ایک مسلمان کے ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس خاندان نبوت کے ساتھ رشتہ محبت و اخلاص جو کہ اسلام کی جڑ ہے۔ مضبوط ہوتا ہے اور ان کے بے نظیر صبر و استقلال کی پیروی کرنے کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح ان تمام باتوں کی ضرورت ہے اسی طرح قوم میں قومیت کو روح پھونکنے کی بھی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح پھونکی جاتی ہے کہ قوم کے افراد مثل ایک خاندان کے ممبروں کے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں۔ ان کی مساعی جمیلہ کی قدر کریں۔ ان کے نیک کاموں میں معین و مددگار ہوں۔ زندگی میں ان کی نیکیوں کو چمکائیں۔ ان کے کمالات کو شہرت دیں اور مرنے کے بعد ان کی ایسی یادگار قائم کریں جو صفحہ ہستی سے کبھی مٹنے والی نہ ہوں، مدحیہ قصیدے جو ممدوح کی زندگی میں لکھے جاتے ہیں۔ ان میں اس کی خوبیوں کا ایسا ثبوت نہیں ہوتا جیسا کہ اس کے مرنے کے بعد بے لاگ مرثیوں اور نوحوں میں ہوتا ہے۔ اسی واسطے ہمارے قدیم شعرا جن کا خمیر عرب کی خاک پاک سے تھا۔ جب کوئی برگزیدہ آدمی قوم سے اٹھ جاتا تھا اس کے مرثیے ویسے ہی شوق اور جوش و خروش کے ساتھ لکھتے تھے جیسے کہ اس کی زندگی میں مدحیہ قصیدے انشا کرتے تھے۔ براکہ کے مرثیوں پر شعرا برابر قتل کئے جاتے تھے۔ مگر لوگ ان کے مرثیے لکھنے سے باز نہ آتے تھے۔ معن بن زائدہ کا مرثیہ لکھنے پر خلیفہ وقت نے ایک شاعر کو کمال بے حرمتی کے ساتھ دربار سے نکلوا دیا۔ اس پر بھی اس کے بے شمار مرثیے لکھے گئے۔ ابو اسحاق صابی کا مرثیہ علم الہدیٰ شریف مرتضیٰ نے باوجود اختلاف مذہب کے ایسے سوز و گداز کے ساتھ لکھا ہے جیسے کوئی اپنے عزیز و یگانے کی موت پر افسوس کرتا ہے۔ اور اس کے علم و فضل کی بے انتہا تعریف کی ہے۔ اسی طرح ہزار ہا مرثیہ، اہل علم، اہل کمال، بہادروں، فیاضوں، نیک دل بادشاہوں، لائق وزیروں اور دیگر ممتاز لوگوں کی وفات پر لکھا گیا ہے۔

لیکن جو شخص مرثیہ لکھنے میں کمال حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے اس نئی طرز کے مرثیہ سے بہتر کوئی رہنما اردو شاعری میں نہیں مل سکتا۔ جو باتیں ان بزرگوں کے کلام میں مرثیت کی شان کے برخلاف ہیں۔ اگر ان سے قطع نظر کی جائے تو طالب فن کو اس سے نہایت عمدہ سبق مل سکتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ قصیدہ اول تو اردو میں بمقابلہ فارسی اور عربی کے اس قدر کم لکھا گیا ہے کہ گویا بالکل نہیں لکھا گیا۔ دوسرے اس کا نمونہ اردو میں ایسا نشان نہیں دیا جا سکتا جس کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے۔ اول سودا اور آخر ذوق صرف یہ شخص ہیں۔ جنہوں نے ایران کے قصیدہ گویوں کی روش پر کم و بیش قصیدے لکھے ہیں۔ اور جو چال قدیم سے چلی آتی تھی اس کو بہت خوبی سے نبھایا ہے مگر جیسے قصیدے کی اب ضرورت ہے یا آئندہ ہونے والی ہے یا ہونی چاہیے۔ اس کا نمونہ ہماری زبان محدود ہے۔ شاید بہت تلاش سے عربی میں کسی قدر زیادہ اور فارسی میں خال خال ایسے نمونے ملیں جن کا اتباع کیا جا سکے۔ مگر حق یہ ہے کہ ایشیاٹک بوئٹری میں ایسے نمونے تلاش کرنے جن پر آج کل کے خیالات کے موافق مدح یا ہجا کی بنیاد قائم کی جائے۔ بعینہ ایسی بات ہے جیسے ایک ڈسپاٹک گورنمنٹ کی رعایا میں آزادی رائے کی جستجو کرنی۔ جن ملکوں میں ابتدائے آفرینش سے بادشاہوں اور ان کے ارکان سلطنت کی برابر پرستش ہوتی رہی ہو۔ جہاں رعیت کی سلامتی بلکہ زندگی خوشامد اور فرماں برداری اور رضا و تسلیم پر موقوف ہو، جہاں رعیت اور غلام دو مترادف سمجھے جاتے ہوں اور جہاں آزادی ایک ایسا لفظ ہو جس کے مفہوم سے کوئی واقف تک نہ ہو، ایسے ملکوں میں ممکن نہیں کہ مدح و ذم کے اصول راستی و عقل و انصاف پر مبنی ہوں۔ پس اس کے سوا کچھ چارہ نہیں کہ مدح و ذم کا طریقہ یورپ کی موجودہ شاعری سے اخذ کیا جائے اور آئندہ قصائد کی بنیاد اسی طریقہ پر رکھی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مثنوی :

مثنوی اصناف سخن میں سب سے زیادہ مفید اور بکار آمد صنف ہے۔ کیونکہ غزل یا قصیدہ میں اس وجہ سے کہ اول سے آخر ایک قافیہ کی پابندی ہوتی ہے۔ ہر قسم کے مسلسل مضامین کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ مسدس میں یہ دقت ہے کہ ہر ایک بند میں چار قافیے ایک طرح کے لانے پڑتے ہیں۔ پس اس میں مسلسل مضامین ایسی خوبی سے بیان کرنے کے مطالب برابر بے کم و کاست ادا ہوتے چلے جائیں اور قافیوں کی نشست اور روزمرہ کر سرشتہ ہاتھ سے نہ جائے ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ ترجیع بند بھی مسلسل مضامین کی گوں کا نہیں۔ کیونکہ اس میں ہر بند کے آخر رہی ایک ترجیع کا شعر بار بار آتا ہے جو سلسلہ کلام کا منقطع کر دیتا ہے۔ ترکیب بند کے اگر تمام بندوں میں بیتوں کی تعداد برابر رکھی جائے تو بھی اسی ہی دقت پیش آتی ہے۔ کیونکہ اس کے ایک بند میں صرف ایک پوائنٹ عمدگی سے بیان ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر پوائنٹ کی وسعت یکساں نہیں ہوتی۔ بلکہ کم و بیش ہوتی ہے۔ پش ضروری ہے کہ بند بھی چھوٹے بڑے ہوں۔ ممکن ہے کہ ایک بند دو تین بیت کا ہو اور دوسرا پندرہ بیس بیت کا۔ اور یہ بات اس تناسب کے برخلاف ہے جو شعر کا جزو اعظم ہے۔

الغرض جتنی صنفیں فارسی اور اردو شاعری میں متداول ہیں ان میں کوئی صنف مسلسل مضامین بیان کرنے کے قابل مثنوی سے بہتر نہیں ہے۔ یہی وہ صنف ہے جس کی وجہ سے فارسی شاعری کو عرب کی شاعری پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ عرب کی شاعری میں مثنوی کا رواج نہ ہونے یا نہ ہو سکنے کے سبب تاریخ یا قصہ یا اخلاق یا تصوف میں ظاہرا ایک کتاب بھی ایسی نہیں لکھی جا سکتی۔ جیسی فارسی میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں میں لکھی گئی ہیں۔ اسی لیے عرب شاہنامہ کو قرآن العجم کہتے ہیں اور اسی لیے مثنوی معنوی کی نسبت " ہست قرآں در زبانِ پہلوی " کہا گیا ہے۔

اردو میں چند چھوٹی چھوٹی عشقیہ مثنویوں کے سوا اخلاق یا تاریخ وغیرہ میں ظاہرا آج تک کوئی چھوٹی یا بڑی مثنوی کسی مسلم ثبوت استاد نے نہیں لکھی۔ عشقیہ مثنویوں کا حال بھی جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں، اس زمانہ کے متقضیٰ اور مذاق سے بمراحل دور تر اور بعید تر ہے۔ جو قصے ان مثنویوں میں بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں قطع نظر اس کے کہ ناممکن اور فوق العادت باتیں اور حد سے زیادہ مبالغہ اور غلو بھرا ہوا ہے۔ اکثر مثنویوں میں شاعری کے فرائض بھی پورے پورے ادا نہیں ہوتے۔ مثنوی میں علاوہ ان فرائض کے جو غزل یا قصیدے میں واجب الادا ہیں۔ کچھ اور شرائط بھی ہیں جن کی مراعات نہایت ضروری ہیں۔ ازاں جملہ ایک ربطِ کلام ہے جو کہ مثنوی اور ہر مسلسل نظم کی جان ہے۔ غزل اور قصیدہ میں ایک شعر کو دوسرے شعر سے جیسا کہ ظاہر ہے کچھ ربط نہیں ہوتا۔

تو ماشا اللہ بخلاف مثنوی کے کہ اس میں ہر بیت کو دوسری بیت سے ایسا تعلق ہونا چاہیے جیسے زنجیر کی ایک کڑی کو دوسری کڑی سے ہوتا ہے۔ اسی لیے جن لوگوں کی نسبت پر غزلیت کا رنگ غالب ہے۔ ان سے مثنوی کے فرائض اچھی طرح انجام نہیں ہو سکتے۔ باورچیوں میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ پتیلی پکانے والے سے دیگ اچھی نہیں پک سکتی۔ جو نسبت پتیلی کو دیگ کے ساتھ ہے، وہی نسبت مثنوی کو غزل کے ساتھ ہے۔ جس طرح پتیلی پکانے والے کو دیک کے نمک پانی اور آنچ کا اندازہ معلوم نہیں ہو سکتا اسی طرح جو لوگ غزل میں منہمک ہو جاتے ہیں اور ان پر غزلیت کا رنگ چڑھ جاتا ہے وہ مثنویوں کی ترتیب اور انتظام سے اکثر عہدہ برآ نہیں ہوتے۔

جس نظم میں کوئی تاریخی واقعہ یا کوئی فرضی قصہ بیان کیا جاتا ہے اس میں مضمون آفرینی اور بلند پروازی کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ مطالب ایسی صفائی سے ادا کئے جائیں کہ اگر انہیں مطالب کو نثر میں بیان کیا جائے تو نثر کا بیان نظم سے کچھ زیادہ واضے اور صاف اور مربوط نہ ہو۔ البتہ نظم کا بیان نثر سے صرف اس قدر ممتاز ہونا چاہیے کہ نظم کی طرز بیان نثر سے زیادہ موثر اور دلکش و دلآویز ہو۔

پس مثنوی لکھنے والے کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ بیتوں اور مصرعوں کی ترتیب ایسی سنجیدہ ہو کہ ہر مصرع دوسرے مصرع سے اور ہر بیت دوسری بیت سے چسپاں ہوئی چلی جائے اور دونوں کے بیچ میں کہیں ایسا کھانچا باقی رہ نہ جائے کہ جب تک کچھ عبارت مقدر نہ مانی جائے تب تک کلام جیسا کہ چاہیے مربوط اور منظم نہ ہو۔ مثلا گلزار نسیم میں کہتا ہے :

خوش ہوتے تھے طفل مہ جبیں سے
ثابت یہ ہوا ستارہ بیں سے

پیارا یہ وہ ہے کہ دیکھ اسی کو
پھر دیکھ سکیئے گا کسی کو

جو مطلب کہ صاحب مثنوی ادا کرنا چاہتا ہے کہ "لوگ تو اس طفل مہ جبیں کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ مگر نجومیوں نے بادشاہ سے یہ کہا کہ یہ لڑکا آپ کو پیارا تو ہے مگر یہ ایسا پیارا ہے کہ اس کو دیکھ کر پھر کسی کو نہ دیکھ سکیئے گا۔ کیونکہ اس کے دیکھتے ہی بینائی جاتی رہے گی۔" ظاہر ہے کہ ان دونوں بیتوں میں جب تک کہ کئی لفظ بڑھائے اور کئی لفظ بدلے نہ جائیں، تب تک یہ مطلب جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے، ان بیتوں سے سیدھی طرح نہیں نکل سکتا اور پہلا مصرع دوسرے مصرع سے اور دوسرا مصرع تیسرے مصرع سے چسپاں نہیں ہو سکتا یا مثلا اس مثنوی میں ہے :

نور آنکھ کا کہتے ہیں پسر کو
چشمک تھی نصیب اس پدر کو

مطلب یہ ہے کہ بیٹا باپ کی آنکھ کا نور ہوتا ہے۔ مگر بیٹا باپ کی آنکھوں کےلیے طلمت تھا۔ پس جب تک دوسرے مصرع کے الفاظ بدلے نہ جائیں، کلام مربوط نہیں ہو سکتا یا مثلا :

آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پدر نے ناگاہ

یہ دونوں مصرعے بھی مربوط نہیں، کیونکہ ظاہر الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شاہ اور شخص ہے اور پدر اور شخص ہے، حالانکہ پدر اور شاہ سے ایک شخص مراد ہے۔ پس دوسرا مصرع یوں ہونا چاہیے :

" بیٹے پہ پڑی نگاہ ناگاہ"
 

شمشاد

لائبریرین
1) بہر حال مثنوی میں ربط کلام کا لحاظ رکھنا خاص کر جب کہ اس میں تاریخ یا قصہ بیان کیا جائے نہایت ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
2) دوسری نہایت ضروری بات یہ ہے کہ جو قصہ مثنوی میں بیان کیا جائے اس کی بنیاد ناممکن اور فوق العادت باتوں پر نہ رکھی جائے۔ اگرچہ قصوں اور کہانیوں میں ایسی باتیں بیان کرنے کا دستور نہ صرف ایشیا میں بلکہ کم و بیش تمام دنیا میں قدیم سے چلا آتا ہے اور جب تک کہ انسان کا علم محدود تھا۔ ایسی باتوں کا اثر لوگوں کے دل پر نہایت قوت کے ساتھ ہوتا تھا۔ لیکن اب علم نے اس طلسم کو توڑ دیا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ ان باتوں کا لوگوں کے دل پر کچھ اثر ہو اور ان پر ہنسی آتی ہے اور ان کی حقارت کی جاتی ہے اور بعوض اس کے کہ ان سے کچھ تعجب پیدا ہو، شاعر کی حماقت اور سادہ لوحی معلوم ہوتی ہے۔ اب شاعر یا ناولسٹ کی لیاقت اس سے ثابت ہوتی ہے کہ جو مرحلے پہلے محالات کے ذریعے طے کیے جاتے تھے اور جن کا عادۃ طے ہونا ناممکن معلوم ہوتا تھا۔ ان کو علم اور فلسفہ کے موافق نہایت آسانی کے ساتھ طے کر جائے۔ مثلا شاہنامہ میں جہاں رستم اور سہراب کو لڑایا ہے۔ وہاں فردوسی یا اصل قصہ بنانے والے کو دو متضاد باتیں ثابت کرنی منظور ہیں۔ ایک سہراب کا رستم سے بہت زیادہ قوی اور تنومند ہونا، دوسرے رستم کے ہاتھ سے آخر کار اس کو قتل کرانا۔ پہلی بات تو اس نے اس طرح ثابت کی ہے "کہ پہلے مقابلہ میں سہراب سے رستم کو پچھڑوا دیا۔ مگر اب دوسرے بات بغیر اس کے ثابت نہیں ہو سکتی کہ رستم نے جوانی میں جب کہ وہ اپنی طاقت اور زور سے تنگ آ گیا تھا، خدا سے دعا کی تھی کہ میری طاقت کم ہو جائے۔ چنانچہ اس کی اصلی طاقت کم ہو گئی تھی۔ اب سہراب سے مغلوب ہو کر اس نے پھر دعا کی کہ میری اصلی طاقت مجھ کو مل جائے۔ چنانچہ اس کی اصلی طاقت جو خدا کے ہاں امانت رکھی تھی، اس کو واپس مل گئی اور دوسرے یا تیسرے مقابلہ میں وہ سہراب پر غالب آ گیا۔ لیکن اس زمانہ میں ایسے ڈھکوسلوں سے کچھ کام نہیں چلتا۔ آج کسی کو ایسا مرحلہ پیش آئے تو وہ اس کو اس طرح طے کر سکتا ہے کہ رستم جو کسی سے مغلوب نہ ہوا تھا اور جس کی شہرت تمام ایران اور توران میں ضرب المثل تھی۔ ایک لونڈے کے ہاتھ پچھڑ کر اس کی غیرت سخت جوش میں آئی اور عمر بھر کی ناموری اور عزت قائم رکھنے کا ولولہ اس کے دل میں نہایت زور کے ساتھ متحرک ہوا۔ گو طاقت میں سہراب سے بہت کم تھا۔ مگر سپہ گری کے کرتبوں اور تجربوں میں سہراب کو اس سے کچھ نسبت نہ تھی۔ لہٰذا دوسرے یا تیسرے مقابلہ میں جوشِ غیرت اور پاس عزت اور فن سپہ گری کی مشاقی سے اس نے سہراب کو مار رکھا۔

رہی یہ بات کہ اخلاقی مضامین جو اکثر قدیم زمانے کے نامور شعرا نے سوپر نیچرل باتوں کے پیرائے میں بیان کئے ہیں یا اب شائستہ ملکوں میں بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک دوسرا عالم ہے۔ ان کا مطلب ایسے پیرائے اختیار کرنے سے اخلاقی نتائج نکالنے اور کلام کو تعجب انگیز کر کے اس میں اثر پیدا کرنا ہوتا ہے نہ کہ ناممکن باتوں کا لوگوں کو یقین دلانا اور ان کو واقعات کا لباس پہنانا۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ایک شخص جانوروں کے پیرایہ میں خصائل انسانی ظاہر کرتا ہے۔ اور ان سے اخلاقی نتائج استخراج کرتا ہے اور دوسرا شخص بغیر اس مقصد کے جانوروں کی حکائتیں اس طرح بیان کرتا ہے کہ گویا وہ ان میں فی الواقع تمام خصائل انسانی ثابت کرنا اور لوگوں کو ان کا یقین دلانا چاہتا ہے۔ اس میں اور اُس میں بہت بڑا فرق ہے۔ پس ایسے بے سروپا قصے لکھنے سے خاص کر اس زمانے میں اجتناب کرنا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
3) مبالغہ کو اہلِ بلاغت نے صنایع معنوی اور محسنات کلام میں شمار کیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اس کی لے بڑھتے بڑھتے اب وہ اس درجہ کو پہنچ گیا ہے کہ کلام کو بے قدر و سُبک اور کم وزن کر دیتا ہے۔ انتہا سے درجہ کا مبالغہ کا بھی اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے کہ جو کچھ کسی چیز کی تعریف یا مدح یا ذم میں کہا جائے گو وہ اس چیز کے حق میں صحیح نہ ہو مگر کسی نہ کسی چیز پر صادق آ سکتا ہو۔ نہ یہ کہ دنیا میں کوئی چیز اس کی مصداق نہ ہو اور مبالغہ کی غایت یہ ہونی چاہیے کہ جو مطلب بیان کرنا منظور ہے۔ مبالغہ کے سبب سے اس کا اثر سامع کے دل پر نہایت قوت کے ساتھ ہو، نہ یہ کہ اس کا رہا سہا یقین بھی جاتا ہے۔ مثلا کسی پُر رونق بازار کی نسبت ایک تو یہ کہنا کہ "وہاں شام تک کٹورا بجتا ہے۔" (اگرچہ وہاں کسی وقت بھی کٹورا نہ بجتا ہو) اور ایک طرف اس کی تعریف اس طرح کرنی :

رات دن جمگھٹا ہے میلا ہے
مہر و مہ کا کٹورا بجتا ہے

یا مثلا ایسے بازار کی نسبت ایک تو یہ کہنا کہ "وہاں چھڑکاؤ سے ہر وقت زمن نم رہتی ہے۔" اور یک یہ کہ "وہاں گلاب اور کیوڑے کا نہیں بلکہ آبِ گوہر کا چھڑکاؤ ہونا ہے۔" پس آج کل ایسے مبالغے باعثِ شرم سمجھے جاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ان سے سامع کے دل کر کوئی نقش بیٹھے یا شاعر کی لیاقت ظاہر ہو اس کی لغویت اور بے سلیقگی پائی جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
4) مقتضائے حال کے موافق کلام ایزاد کرنا خاص کر قصہ کے بیان میں ایسا ضروری ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو بلاغت کا بھید صرف اسی بات میں چھپا ہوا ہے یہ ایک نہایت وسیع بحث ہے، مگر ہم یہاں صرف چند مثالیں دے کر اس مطلب کر ناظرین کے ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں۔

مثلا مثنوی " طلسم الفت " میں اس موقعہ پر جب کہ بادشاہِ عشق آباد کی طرف سے شیدا وزیر اپنے شہزادہ کے لیے نسبت کا پیغام لے کر شہر حسن آباد میں شاہانہ جاہ و حشم کے ساتھ پہنچا ہے اور حسن آباد کے بادشاہ نے اس کے آنے کی خبر سن کر اپنے وزیر کو اس سے گفتگو کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ وہاں صاحب مثنوی اس طرح بیان کرتا ہے :

جاتے ہی اس نے قرب شہر پناہ
خیمہ اپنا کیا بہ شوکت و جاہ

بسکہ دانائے روزگار تھا وہ
مردہ میدانِ کار زار تھا وہ

رعب پہلے ہی سے بٹھانے کو
صولت و بدبہ دکھانے کو

کی اسی روز لشکر آرائی
کثرت فوج سب کو دکھلائی

خبر آمد کی اس کی عام ہوئی
خلق دہشت زدہ تمام ہوئی

اتنے میں واں کے شہریار کو بھی
خبر اس کے ورود کی گذری

کہ کسی شہر کا کوئی سردار
لے کے ہمراہ لشکرِ بسیار

آ کے اترا ہےقرب شہر پناہ
مستعد جنگ پر ہے وہ ذیجاہ

سنتے ہی وہ کمال گھبرایا وزرا کو بلا کے فرمایا

دیکھو تو کس کا لشکر اترا ہے
کون ہم پر غنیم آیا ہے

الغرض اک وزیر با تدبیر
اپنے ہمراہ لے کے فوج کثیر

تھا فروکش جہاں وہ ہم پایہ
واں ملاقات کے لیے آیا

سنتے ہی پاس یہ کیا اس نے
بے تکلف بلا لیا اس نے

تا لب فرش لینے کو آیا
مل کے پہلو میں اپنے بٹھلایا

پہلے تو ذکر ادھر ادھر کا رہا
بعد اک طور سے یہ اس نے کہا

کہ جہاں دار جو ہمارا ہے
اس فلک قدر نے یہ پوچھا ہے

آپ نے کی ہے کیوں ادھر تکلیف
کس ارادہ سے لائے ہیں تشریف

سیر کا عزم ہے تو گھر ہے یہ
ہر مسافر کا رہ گزر ہے یہ

دل میں گر اور کچھ ارادہ ہو
تو میں باہر نہیں ابھی آؤ

فقط اتنی ہی دیکھتا تھا میں راہ
دیر پھر کس لیے ہے بسم اللہ

اس بیان میں قطع نظر لفظی کمزوریوں کے بڑی کسر یہی ہے کہ کلام مقتضائے حال کے موافق ایزاد نہیں کیا گیا۔ تاریخ کے بیان میں مورخ خود واقعات کے قبضہ میں ہوتا ہے اور قصہ میں واقعات اس کے قبصہ میں ہوتے ہیں۔ تاریخ میں جس واقعہ کی صحت بخوبی ثابت ہو جائے اس کی جواب دہی مؤرخ کے ذمہ باقی نہیں رہتی۔ البتہ اس کا یہ فرض ہے کہ اس کے اسباب کا تفحص کرے اور بتائے کہ ایسا واقعہ ہوا۔ بخلاف قصہ کے کہ اس کے بیان میں جو بے ربطی پائی جائے گی۔ اس کا ذمہ دار خود قصہ بنانے والا ہے۔ اول تو نسبت کے پیغام کو پہلے خط و کتابت کے ذریعہ سے طے نہ کرنا اور دفعتہ وزیر اور شہززدے کے ساتھ ایک لشکر جرار روانہ کر دینا۔ پھر وزیر کا فوج کثیر لے کر اور مہینوں کا رستہ طے کر کے حسن آباد کی شہر پناہ تک پہنچ جانا اور بادشاہ حسن آباد کو اس کے حال اور اس کے ارادہ کی مطلق خبر نہ ہوئی۔ پھر اس کا حال دریافت کرنے کے لیے بادشاہ کا وزیر کر معہ فوج کثیر کے بھیجنا۔ پھر وزیر کا بادشاہ کی طرف سے مہمان کے ساتھ ایسی گفتگو کرنا جیسی کہ بازاریوں میں ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ "اگر کچھ اور ارادہ ہو تو میں اس سے بھی باہر نہیں ہوں۔ میں بس اتنی ہی راہ دیکھتا تھا۔ اب دیر کیا ہے، بسم اللہ۔" بالکل مقتضائے مقام کے خلاف ہے۔

اس کے بعد شیدا وزیر، بادشاہ عشق آباد کی طرف سے نسبت کا پیغام دینے کے بعد کہتا ہے :

جاہ و حشمت کا کچھ اگر ہو خیال
تو یہ بیجا ہے اے ہمایوں فال

آپ ہیں اپنے شہر کے سلطاں
بندہ ہے تاج بخش باج ستاں

دل میں انصاف کیجیئے تو صریح
ہر طرح سے ہے بندہ کو ترجیح

کہ میں سلطان خسراں ہوں آج
بلکہ شاہنشہ جہاں ہوں آج

میرے قبضے میں ہیں کئی اقلیم
بخشتا ہوں میں افسر و دیہیم

مجھ کو دی ہے خدا نے وہ طاقت
وہ مرا دبدبہ ہے اور صولت

آج چاہوں تو باج دے قاروں
ربع مسکوں پہ سکہ بٹھلاؤں

زور دکھلانے پر میں آؤں اگر
چھین لوں تاجِ خسروِ خاور

میں دلاور وہ ہوں وہ ہوں سفاک
ہفت اقلیم میں ہے جس کی دھاک

سرکش آ آ کے پاؤں پڑتے ہیں
ناک در پر مرے رگڑتے ہیں

اس بیان کی بے ربطی بھی ظاہر ہے کہ وزیر نے جس بادشاہ کی طرف نسبت کا پیغام دیا ہے اور جس کا منصب عجز و انکسار کرنے کا، اس کی طرف سے ایسی نامعقول گیڈر بھبکیاں دینا ہے۔ اس کے بعد جب وزیر حسن آباد شیدا کی تقریر سن کر اپنے بادشاہ کے پاس واپس گیا ہے اور وہاں جا کر اس نے شیدا کی تقریر کا اعادہ کیا ہے تو بادشاہ حسن آباد اس کے جواب میں کہتا ہے :

ہاں کہو جلد فوج ہو تیار
ما بدولت کے لاؤ تو ہتھیار

دیکھیں تو کتنا حوصلہ ہے اسے
ہم سے عزم مقابلہ ہے اسے

لوہا دکھلانے کو یہ آیا ہے
ہم کو کیا موم کا بنایا ہے

بادشہ اس کا کیا ہے یہ کیا ہے
کثرتِ فوج پر یہ پھولا ہے

یہ تمام تقریر ایس سہل اور کم وزن ہے کہ ہرگز کسی بادشاہ کے منہ سے زیب نہیں دیتی بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بادشاہ کی حماقت ظاہر کرنے کے لیے کوئی شخص اس کی نقل اتار رہا ہے۔ پھر جب امیروں نے بادشاہ کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ہے تو وزیر بادشاہ کی طرف سے شیدا کے پاس یہ مصالحت امیز پیغام لے کر چلا ہے :

یہ تعلیٰ جو آپ کرتے ہیں
اتنا جرات کا دم جو بھرتے ہیں

سابقہ ہو تو حال کھل جائے
ادھر آؤ تو حال کھل جائے

گو کہ میں تم سا خود پسند نہیں
سینکڑوں سے بھی پر میں بند نہیں

سر بھی جائے تو یہ قدم نہ ہٹیں
ٹل بھی جائے زمیں تو ہم نہ ہٹیں

یاں تو رستم سے بھی نہیں ڈرتے
شیر سے بھی جری نہیں ڈرتے

کیا کروں پاس ہے شریعت کا
دھیان ہے دوستی و الفت کا

شرم ہے میہماں کے آنے کی
رسم بھی ہے یہی زمانے کی

ورنہ سیر آپ کو دکھا دیتا
سب گھمنڈ آپ کا مٹا دیتا

یہاں تک خود بادشاہ کا پیغام بادشاہ کی طرف ہے۔ ان تمام ابیات میں الفاظ و محاورات کی لغزشوں سے ہم کچھ بحث نہیں کرتے۔ البتہ ہم کو یہ دکھانا منظور ہے کہ کلام بالکل مقتضائے حال کے برخلاف ایراد کیا گیا ہے۔ اسی داستان پر کچھ موقوف نہیں ہے۔ اس مثنوی میں کہیں بھی اس بات کا خیال نہیں کیا گیا کہ جیسا موقع ہو ویسی گفتگو کی جائے۔ اس داستان سے پہلے جہاں بادشاہ حسن آباد اور اس کی بڑھیا ملکہ بیٹیوں کے عقد کے باب میں باہم مشورے کر رہے ہیں۔ شاعر اس طرح بیان کرتا ہے :

ایک دن بادشاہ حسن آباد
اندرونِ محل تھا با دلِ شاد

اپنی بی بی سے گرم خلوت تھا
محوِ راحت تھا مست عشرت تھا

اُس پری رو نے تخلیہ پا کر
عرض کی اختلاط میں آ کر

لڑکیوں کا نہیں کچھ آپ کو دھیان
ہو چکی ہیں سلامتی سے جوان

اور باتوں کا تو نہیں کچھ غم
ہاں مگر یہ خیال ہے ہر دم

کہ میں بیٹھی ہوئی ہوں پابہ رکاب
طاقت جسم دے چکی ہے جواب

سب مہیا ہیں کوچ کے ساماں
اور دو چار دن کی ہوں مہماں

کچھ ہی دن اب سفر میں باقی ہیں
ان کا سہرا تو دیکھ لیتی ہیں

سن کے کہنے لگا وہ عالی جاہ
تیرے کہنے ہی تک ہے کیا اے ماہ

بخدا خود خیال ہے مجھ کو
جستجو بھی کمال ہے مجھ کو

مجھ کو غیروں میں تو قبول نہیں
ان سے جز رنج کچھ وصول نہیں

یہ بھی بالفرض اگر کروں منظور
تو یہ مجھ سے کبھی نہ ہو اے حُور

اس تقریر میں بھی اکثر الفاظ بالکل بے محل اور بے موقع استعمال ہوئے ہیں۔ بادشاہ خود شیخ فانی ہے اور اس کی ملکہ بھی عجوز سال خورد ہے۔ وہ خود جابجا کہتی ہے کہ میں پادر رکاب بیٹھی ہوں اور چناں ہوں اور چنین ہوں۔ باوجود اس کے ایسے الفاظ استعمال کرنے کہ "اپنی بی بی سے گرم خلوت تھا محو راحت اور مستِ عشرت تھا۔ یا اس پری رو یعنی بڑھیا نے اختلاط میں آ کر عرض کی۔ یا بادشاہ کا اپنی بڑھیا ملکہ کو کہیں اے ماہ اور کہیں اے حور کہنا یہ سب باتیں مقتضائے حال کے خلاف ہیں۔

ایک جگہ جب کہ شہزادہ کو غش آ گیا ہے اور یہی بڑھیا ملکہ جو اس کی ماں ہے محل کے اندر گھبرا رہی ہے اور بار بار اس کی خبر باہر سے منگواتی ہے۔ ایک خواص باہر سے کہتی آئی ہے :

لوگو بتلاؤ تو کہاں ہیں حضور
کہہ دو کیا بیٹھی کرتی ہو اے حور

پھر تھوڑی دیر بعد نوکریں آ کر یہ کہتی ہیں :

دوڑ سی دوڑ ہو رہی ہے حضور
باہر اندر یہی ہے ذکر اے حور

دونوں جگہ ایک مصرع میں ملکہ سال خورد کو حضور اور دوسرے مصرع میں اے حور کہنا اور پھر نوکروں کا اور وہ بھی نہایت تشویش کی حالت میں کہنا بلکل مقتضائے حال خلاف ہے۔

نواب مرزا شوق لکھنوی نے جو چار مثنویاں یعنی بہار عشق، زہر عشق، لذت عشق اور فریب عشق لکھی ہیں۔ اگرچہ ان کو روز مرہ اور محاورہ کی صفائی اور قافیوں کی نشست، ترکیبوں کی چستی اور مصرعوں کی برجستگی کے لحاظ سے میں تمام اردو کی موجودہ مثنویوں سے بہتر سمجھتا ہوں۔ لیکن قطع نظر اس کے کہ وہ حد سے زیادہ ام مورال اور خلاف تہذیب ہیں۔ ان میں بھی مقتضائے حال کے موافق ایراد کلام کا بہت کم لحاظ کیا گیا ہے۔ مثلا لذتِ عشق اس موقع پر جہاں بادشاہ زادہ اور وزیر زادہ اپنے ساتھ والوں سے بچھڑ کر کسی باغ میں دم لینے کو ٹھہرے ہیں اور رستے کی تکان سے ایک چبوترہ پر پڑ کے سو رہے ہیں۔ وہاں اس شہر کی شہزادی جو باغ کی مالک ہے اور اس کے ساتھ وزیرزادی دونوں باغ کی سیر کو آئی ہیں۔ اور ان دونوں سوتوں کے سر پر جا کھڑی ہوئی ہیں اور ایسے قہقہے لگائے ہیں کہ وہ جاگ اٹھے ہیں۔ اس وقت شاہزادے نے جو دیکھا کہ شام ہو گئی ہے وہاں سے چلنے کا ارادہ کرتا ہے اور بادشاہ زادی اس سے اس طرح گفتگو کرتی ہے :

کہا ہنس کے ملکہ نے اے مہ جبیں
مجھے تیری فرقت گوارا نہیں

مرا کہنا اس وقت کا مان لے
نہیں جان دے دوں گی یہ جان لے

خدارا نہ ٹالو مری بات کو
یہیں آج رہ جاؤ اب رات کو

اس کے وزیر زادہ ملکہ سے کہتا ہے کہ اگر آپ میری ایک عرض قبول کر لیں تو میں نہ قدموں سے جدا ہوں گا اور نہ شاہزادہ یہاں سے جائے گا۔ اس کے بعد کہاتا ہے :

کھڑی ہے جو یہ پاس دُخت وزیر
حقیقت میں ہے یہ نہایت شریر

انیلا پن اس کا مجھے بھا گیا
کروں کیا دل اس پر مرا آ گیا

مجھے اس کو دے دیجئے گر حضور
تو ساری حرمزدگی ہو جائے دور

یہ سن کر دخت وزیر، وزیر زادہ سے کہتی ہے :

سمجھنا نہ دل میں ذرا مجھ کو نیک
سناؤں گی سو گر کہے گا تو ایک

نہ ملکہ کی باتوں پہ مغرور ہو
ہوا کھا ذرا چل چخے دور ہو

ذرا ہوش کی لے تو اپنے خبر
میں جوتی نہ ماروں تیرے نام پر

اول تو عورت ذات، دوسرے بادشاہ زادی، پھر ملاقات اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ شاہزادہ پر مائل ہو گئی ہے اور اس کو اپنے اوپر مائل کرنا چاہتی ہے۔ اگر فرض کر لیا جاوے کہ وہ بیسوا ہی ہے تو بھی اس کی گفتگو ایک محض اجنبی مرد کے ساتھ ایسی کھلی ڈلی اور بے حجابانہ، یا شوق کا اظہار ایسے تقاضے کے ساتھ کہ جس سے دوسرے کو نفرت ہو جائے کس قدر بے محل اور بے موقع ہے۔ پھر وزیر زادہ کی پہلی ہی گفتگو دختِ وزیر کی نسبت ایسی عامیانہ اور عشق کا اظہار ایسے بھونڈے پن کے ساتھ اور پھر دخت وزیر کا کنچیوں کی طرح جواب دینا یہ تمام باتیں باغت کے خلاف ہیں۔ میر حسن نے بدر منیر میں بعینہ ایسے ہی موقع پر یعنی جب کہ پہلے ہی پہل بے نظیر، بدر منیر کے باغ میں آیا ہے اور بدر منیر اس کو دیکھ کر فریفتہ ہو گئی ہے۔ یوں بیان کیا ہے :

کہ وہ نازنیں کچھ جھجک منہ چھپا
کمر اور چوٹی کا عالم دکھا

چکی اس کے آگے سے منہ موڑ کر
وہیں نیم بسمل اسے چھوڑ کر

ادائیں سب اپنی دکھاتی چلی
چھپا منہ کو اور مسکراتی چلی

یہ ہے کون کمبخت آیا یہاں
میں اب چھوڑ گھر اپنا جاؤں کہاں

یہ کہتی ہوئی آن کی آن میں
چھپی جا کے اپنے وہ دالان میں

دیا ہاتھ سے چھوڑ پردہ شتاب
چھپا ابرِ باریک میں آفتاب

اس بیان میں شوق کے بیان کی نسبت موقع اور محل کا جیسا کہ ظاہر ہے زیادہ خیال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد عین ملاقات کے وقت بھی میر حسن کے بیان میں شرم و حجاب کا بہت لحاظ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس موقع کو اس طرح بیان کرتا ہے :

بزور اس کو لا کر بٹھایا جو واں
نہ پوچھ اس گھڑی کی ادا کا بیاں

وہ بیٹھی عجب ایک انداز سے
بدن کو چرائے ہوئے ناز سے

منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے
لجائے ہوئے شرم کھائے ہوئے

پسینے پسینے ہوا سب بدن
کہ جوں شبنم آلودہ ہو پاسمن

گھڑی دو تلک وہ مہ و آفتاب
رہے شرم سے پائے بندِ حجاب
 

شمشاد

لائبریرین
5) جو حالت کسی شخص یا کسی چیز یا مکان وغیرہ کی بیان کی جائے۔ وہ لفظا اور معنی نیچرل اور عادت کے موافق ایسی ہونی چاہیے جیسی کہ فی الواقع ہوا کرتی ہے۔ اس موقع پر ہم بطور مثال کے شوق اور میر حسن دونوں کی مثنویوں سے کچ کچھ اشعار نقل کرتے ہیں۔ شوق جدائی کے زمانہ میں ملکہ کی حالت اس طرح بیان کرتا ہے :

نہ رونے سے دم بھر تامل کیا
نہ خاصہ بھی دن بھر تناول کیا

یہ نقشہ چمن کا مبدل ہوا
کہ گلزار جو تھا وہ جنگل ہوا

وہ آتش کدہ سب چمن گل کا تھا
صدا سوز کی نالہ بلبل کا تھا

دکھائی دیا یوں وہ نہروں کا آب
کہ ملکہ کو گویا ہے چشم پُر آب

تھے رقاص طاؤس جو باغ کے
نمونہ تھے ملکہ کے ہر داغ کے

لگے خوشے جو حسبِ دستور تھے
وہ سب زخم ملکہ کے انگور تھے

شجر جتنے تھے صورتِ غم تھے سب
جو تھےسرو وہ نخلِ ماتم تھے سب

صبائے چمن میں اڑائی تھی خاک
دل ملکہ تھا مثل گل چاک چاک

ہوا دن تو رونے میں اس کے بسر
قیامت مگر رات آئی نظر

نہ پہلو میں پایا جو اس یار کو
ہوا صدمہ اک جان بیمار کو

ذرا یاد بھولی نہ اس ماہ کی
جو کروٹ بھی لی دل سے اک آہ کی

نظر آ گیا چاندنی میں جو باغ
ہوا تازہ اس غم سے اک دل پہ داغ

ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی جو چلنے لگی
یہ فرقت کی آتش سے جلنے لگی

سحر تک دل اس کا بھٹکتا رہا
کہ پہلو میں کانٹا کھٹکتا رہا

تصور جو تھا اس گل اندام کا
کوئی پہلو نکلا نہ آرام کا

تڑپتی تھی پر رنج جاتا نہ تھا
کس طرح آرام آتا نہ تھا

خدا کھو دے بنیاد اس چاہ کی
جدھر پھرگیا منہ ادھر آہ کی

کبھی ہو گئے دونوں رخسار زرد
کبھی ہو گئے دست و پا دونوں سرد

کبھی رنگ رخ کے بدلنے لگے
کبھی شعلے منہ سے نکلنے لگے

کبھی ضبط وہ چاہ کرنے لگی
کبھی چیخ کر آہ کرنے لگی

کبھی جان جینے سے عاری ہوئی
کبھی غش کی صورت سی طاری ہوئی

نہ نیند آئی ہر گز سحر ہو گئی
یہ شب اس کے غم میں بسر ہو گئی

آڑے آشیانوں سے اپنے پرند
ہوئی بانگ اللہ اکبر بلند

ہوا پھر تو یہ شاہزادی کا حال
کہ گھٹ کر ہو جوں ماہِ کامل بلال

تلاطم میں شب بھر طبیعت رہی
نہ رنگت رہی وہ نہ صورت رہی

بہت ہو گیا فرق اوقات میں
وہ کھسیانا ہو جانا ہر بات میں

وہ گرمی سے رخ تمتمایا ہوا
وہ رونے سے منہ بھربھرایا ہوا

وہ سوجی ہوئی برنیاں اور گال
وہ آنکھوں میں ڈورے پڑے لال لال

غرض کیا بیاں ہو کہ جو حال تھا
جو دیکھے وہ رو دے یہ احوال تھا

اگرچہ اس نظم میں اول کی چند باتوں کے سوا سارا بیان بہت صاف اور نیچرل ہے مگر میر حسن نے شوق سے تقریبا ستر برس پہلے جب کہ زبان اردو کی ابتدائی حالت تھی۔ اسی مقام کا سماں اس سے زیادہ نیچرل طور پر باندھا ہے۔ وہ کہتا ہے :

خفا زندگی سے ہونے لگی
بہانے سے جا جا کے سونے لگی

ٹھہرنے لگا جان میں اضطراب
لگی دیکھنے وحشت آلودہ خواب

نہ اگلا سا ہنسنا نہ وہ بولنا
نہ کھانا نہ پینا نہ لب کھولنا

جہاں بیٹھنا پھر نہ اٹھنا اسے
محبت میں دن رات گھٹنا اسے

کہا گر کسی نے کہ بیوی چلو
تو اٹھنا اسے کہہ کے ہاں جی چلو

جو پوچھا کسی نے کہ کیا حال ہے
تو کہنا یہی ہے جو احوال ہے

کسی نے جو کچھ بات کی، بات کی
پہ دن کی جو پوچھی کہی رات کی

کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے
کہا خیر بہتر ہے منگوایئے

جو پانی پلانا تو پینا اسے
غرض غیر کے ہاتھ جینا اسے

نہ کھانے کی سُدھ اور نہ پینے کا ہوش
بھرا دل میں اس کے محبت کا جوش

کسی نہ کہا سیر کیجیے ذرا
کہا سیر سے دل ہے میرا بھرا

چمن پر نہ مائل نہ گل پر نظر
وہی سامنے صورت آٹھوں پہر

نہفتہ اسی سے سوال و جواب
سدا رو برو اس کے غم کی کتاب

غزل یا رباعی و یا کوئی فرد
اسی ڈھب کی پڑھنا کہ ہو جس میں درد

سو یہ بھی جو مذکور نکلے کہیں
نہیں تو کچھ اس کی بھی پروا نہیں

سبب کیا کہ دل سے تعلق ہے سب
نہ ہو دل تو پھر بات بھی ہے غضب

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل

زباں پر تو باتیں ولے دل اداس
پراگندہ حیرت سے ہوش و حواس

نہ منہ کی خبر اور نہ تن کی خبر
نہ سر کی خبر نے بدن کی خبر

اگر سر کھلا ہے تو کچھ غم نہیں
جو گرتی ہے میلی تو محرم نہیں

جو مستی ہے دو دن کی تو ہے وہی
جو کنگھی نہیں ہے تو یوں ہی سہی

نہ منظور سُرمہ نہ کاجل سے کام
نظر میں وہی تیرہ بختی کی شام

و لیکن یہ خوباں کا دیکھا سو بھاؤ
کہ بگڑے سے دونا ہو ان کا بناؤ

نہیں حسن کی اس طرح بھی کمی
جو بیٹھی ہے بگڑی تو گویا بنی

غرض بے ادائی ہے یاں کی ادا
بھلوں کو سبھی کچھ لگے ہے بھلا

ان دونوں نظموں میں بہ اعتبار سادگی اور نیچرل ہونے کے جو فرق ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ لیکن میر حسن کے بیان میں جہاں جہاں نیچرل حالت کی تصویر بعینہ کھینچی گئی ہے اس کو جتا دیا ضرور ہے۔ بہانہ سے جا جا کے سونا، وحشت آلود خواب دیکھنا، جہاں بیٹھ جاتا پھر وہاں سے نہ اٹھنا۔ اگر کسی نے اٹھنے کو کہا تو اٹھ کھڑا ہونا نہیں بیٹھے رہنا، کسی نے حال پوچھا تو خیر و عافیت کہدی۔ کسی نے بات کی تو جواب دے دیا، مگر ٹھکانے۔ کسی نے کھانے کو کہا تو بہت اچھا نہیں تو کچھ نہیں۔ ہر کام اوروں کے کہنے سر کرنا نہیں تو کچھ نہیں کرنا۔ دل ہی دل میں کسی سے سوال و جواب کرنے۔ دن رات کسی کی صورت آنکھوں کے سامنے رہنی۔ زبان سے باتیں کرنی اور دل میں اداس رہنا، جو سر کھلا ہے تو کھلا ہی ہے۔ جو کُرتی میلی ہے تو میلی ہی ہے۔ جو مستی نہیں ملی تو یوں ہی سہی، جو کنگھی نہیں کی تو بے کنگھی ہی سہی۔ نہ سرمہ سے مطلب نہ کاجل سے غرض، مگر بغیر بناؤ سنگار کے بھلا لگنا اور بگڑنے سے اور زیادہ بننا یہ سب ایسی سچی اور پتے کی باتیں ہیں جو ہمیشہ ایسی حالتوں میں واقع ہوا کرتی ہیں۔ اگرچہ شوق کا بیان اور مثنویوں کی نسبت نہایت عمدہ ہے۔ مگر جیسی جچی تُلی باتیں میر حسن نے بیان کی ہیں ویسی شوق کے یہاں بہت کم ہیں۔

جو لوگ صنعت الفاظ پر فریفتہ ہوتے ہیں اور لفظی مناسبتوں پر جان دیتے ہیں وہ کبھی کسی نیچرل حالت کی تصویر نہیں کھینچ سکتے۔ یہی جدائی اور انتظار کا بیان طلسم الفت میں اس طرح آ گیا ہے :

شرم اس کو حیا سے آنے لگی
بے حجابی کے ناز اٹھانے لگی

کم وقاری کی قدر بڑھنے لگی
چشم تر بھی نظر پہ چڑھنے لگی

ٹھنڈی سانسوں کا دم وہ بھرنے لگی
سوزِ الفت کا پاس کرنے لگی

پان کے بدلے خونِ دل کھانا
دیکھ کر مہندی پاؤں پھیلانا

رات دن ہم کلام خاموشی
یاد ہر دم ز خود فراموشی

گرم صحبت تھی سرد آہوں سے
سُرمہ بھی گر گیا نگاہوں سے

ناتوانی بھی زور کرنے لگی
لاغری فکرِ گور کرنے لگی

آشنا دودِ آہ لب سے ہوا
اوجِ سوز دل اس سبب سے ہوا

شدتیں دردِ دل کی سہنے لگی
یاس پہلو کے پاس رہنے لگی

رنگ خونِ جگر بھی لانے لگا
آنکھ سے جائے اشک آنے لگا

سر گرانی بھی سر اٹھانے لگی
بیقراری سے چین پانے لگی

کاجل اور آئینہ سے آٹھ پہر
چشم پوشی تھی اس کو مدنظر

روز افزوں تھا شوقِ کم سخنی
زرد ہی رنگ – رخ پہ غازہ بنی

چوٹی بھولے سے بھی نہ گندھواتی
پیچ و تاب اور کنگھی سے کھاتی

ذکر سن سن کے لاکھے کا وہ فگار
ہونٹ اپنے چباتی سو سو بار

ہم نشینوں سے ہو گئی نفرت
عزلت سے رہتی تھی خلوت

خشکی لب جو کرتی منہ زور
صاف کر جاتی اس کی غم خوری

بدلے ہنسنے کے روز رونا تھا
خاک مسند کی جا بچھونا تھا

خاصہ جس وقت کوئی لاتی تھی
گھڑیوں اُبکائی اس کو آتی تھی

کوفت کھانے سے بس وہ جیتی تھی
خونِ دل جائے آب پیتی تھی

گو کہ دردِ جگر مصاحب تھا
ضبط آٹھوں پہر مصاحب تھا

گاہ آنکھیں لگی ہوئی چھت سے
مشورے گاہ درد فرقت سے

دل سے کہنا کبھی، نہیں رے دل
دلربا کا یہ زعم ہے باطل

کچھ تو امید میں تھی کچھ یاس
گاہ درجہ یقیں کا گاہ ہراس

یہ مثنوی لکھنو کے ایک مشہور شاعر آفتاب الدولہ مہر الملک خواجہ اسد علی خاں بہادر شمس جنگ متخلص بہ قلق کی ہے۔ سنا ہے کہ اکثر اہل لکھنو اس کو اعلی درجہ کی مثنوی سمجھتے ہیں۔ شاید ایسی ہی ہو۔ مگر افسوس ہے کہ وہ زمانہ حال کے مذاق سے بالکل آشتی نہیں رکھتی۔ جو شعر ہم نے اس مقام پر اس سے نقل کئے ہیں ان کی کچھ خصوصیت نہیں ہے۔ بلکہ اس مثنوی کا تمام بیان اول سے آخرتک اسی قبیل کا ہے۔ لفظی رعایتوں میں معنی کا سر رشتہ اکثر ہاتھ سے جاتا رہنا ہے اور کوئی حالت یا سماں جیسا کہ چاہیے بیان نہیں ہو سکتا۔اول کے چار شعروں میں پہلے مصرعوں کا تو بمشکل کچھ کچھ مطلب سمجھ میں آ جاتا ہے۔ مگر آخر کے چار مصرعوں کا مطلب ہماری سمجھ میں مطلق نہیں آیا۔ ان کے بعد اکثر مصرعے اس طرح کے ہیں۔ باقی جن شعروں یا مصرعوں کا مفہوم کچھ سمجھ میں آتا ہے ان میں کوئی سیدھی طرح نہیں بیان کی۔ مثلا " اس کو کسی کی شرم باقی نہیں رہی تھی" اس کو یوں بیان کیا ہے کہ "اس کو شرم سے شرم آنے لگی۔" یا "وہ خود فراموش رہتی تھی۔" اس کی جگہ "وہ خاموشی سے ہم کلام رہتی تھی۔" یا " وہ خود فراموش رہتی تھی"۔ اس کی جگہ "اس کو خود فراموشی یاد رہتی تھی۔" غرض کل اشعار کا حال جیسا کہ ظاہر ہے ایسا ہی ہے یا اس سے بھی زیادہ ژولیدہ اور ان نیچرل۔

مثنوی گلزار نسیم میں بھی لفظی رعایتوں کو بہت التزام سے کیا گیا ہے۔ اس نے بھی بکاؤل کا تاج الملوک کے فراق میں کچھ مختصر سا حال لکھا ہے۔ وہ اس طرح بیان کرتا ہے :

کرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں
آنسو پیتی تھی کھا کے قسمیں

جامہ سے جو زندگی کے تھی تنگ
کپڑوں کے عوض بدلتی تھی رنگ

یکچند جو گذری بے خور و خواب
زائل ہوئی اس کی طاقت و تاب

صورت میں خیال رہ گئی وہ
ہیت میں مثال رہ گئی وہ

اس بیان میں بھی تیسرے شعر کے سوا باقی تین شعروں کا مطلب کچھ نہیں معلوم ہوتا اور ظاہرا اس نے کوئی مطلب رکھا بھی نہیں۔ اس کو تو فقط یہ لطیفہ بیان کرنا مقصود ہے کہ کھانے کی جگہ قسمیں کھاتی تھی۔ پینے کی جگہ آنسو پیتی تھی۔ کپڑے کے عوض رنگ بدلتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
6) قصہ میں اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضرور ہے کہ ایک بیان دوسرے بیان کی تکذیب نہ کرے۔ کیونکہ اس سے قصہ نگار کا پھوہڑ پن ثابت ہوتا ہے اور سچ مچ اس مثل کا مصداق بنتا ہے کہ "دروغ گو را حافظہ نبا شد۔" آج کل جو شائستہ ملکوں میں نوول لکھے جاتے ہیں ان کا تو کیا ذکر ہے ایشیا کے قدیم زمانہ کے قصہ نویسوں نے بھی اس بات کا ہمیشہ لحاظ رکھا ہے کہ ایک بیان دوسرے بیان کے منافی نہ ہو۔ یہ سچ لے کہ قصہ میں کسی خاص واقعہ کا بیان نہیں ہوتا۔ مگر قصہ نگار اس کو ایک واقعہ ہی کی صورت میں بیان کرتا ہے۔ پس اس کو ایسے طور پر بیان کرنا جس سے جا بجا اس کی غلط بیانی ثابت ہو، اصول قصہ نگاری کے خلاف ہے۔ جو کارگر کسی انسان کی مورت پتھر یا دھات کی بناتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ مورت انسان کی نقل ہوتی ہے نہ اصلی انسان۔ لیکن کاریگر کا فرض ہے کہ اس میں اور اصلی انسان میں ایک جان پڑنے کے سوا کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ اسی طرح قصہ نگار کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ قصہ بالکل واقعات کی شکل میں بیان کیا جائے۔ اس مطلب کے ذہن نشین کرنے کے لیے ہم چند شعر مثنوی طلسم الفت کے نقل کرتے ہیں۔ ایک قصہ گو شاہزادہ عشق آباد یعنی جانِ جہاں سے حسن آباد کی شاہزادی عالم آرا کا حال اپنی آنکھوں دیکھا بیان کر رہا ہے کہ جب میں حسن آباد پہنچا تو ایک شخص نے مجھ سے عالم آرا کے حسن و جمال کا ذکر کرنے کے بعد یہ کہا :

دیکھنا بھی تو اس کا مشکل ہے
کہ وہ لیلیٰ میان محمل ہے

آدمی کیا ملک سے پردہ ہے
بلکہ چشم فلک سے پردہ ہے

اس بیان نے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ پردہ میں رکھا جاتا ہے۔ مگر اسی بیان میں اس کا ذکر ہوتے ہوتے یہ ارشاد ہوتا ہے کہ باغ میں جس دریچہ میں جا کر وہ بیٹھتی ہے وہاں

تہ بام اژدہام رہتا ہے
مجمع خاص و عام رہتا ہے

مشق جور و ستم کسی پر ہے
چشم لطف و کرم کسی پر ہے

ناز سے ایک سے کلامکیا
ایک غمزہ سے تمام کیا

وصل کا ایک سے کیا اقرار
ایک مشتاق سے کیا انکار

دو ہی فقروں میں اک کو ٹال دیا
ٹھٹھے بازی میں اک کو ڈال دیا

کھینچ مارا کسی پہ ہنس کے اُگال
رنج سے منہ کسی کا ہو گیا لال

دور سے ہنس کے اک کو شاد کیا
قربِ پردہ کسی کو یاد کیا

یوں ہی وہ دن تمام ہوتا ہے
کیا کہوں قتل عام ہوتا ہے

دو گھڑی دن رہے وے تا سرِ شام
جلوہ آرا رہی وہ مہر اندام

غرض کہاں تک لکھوں دور تک ایسے ہی اشعار جس سے نہ صرف بے پردگی بلکہ غایت درجہ کا بیسوا پن پایا جاتا ہے، چلے جاتے ہیں۔ اس بیان میں اور اوپر کے دونوں شعروں کے بیان میں جو منافات ہیں وہ ظاہر ہے۔ ایسی مثالیں اس مثنوی میں اور گلزار نسیم میں بہت ہیں۔ مگر اور مثنویاں بھی اس سے بالکل پاک نہیں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
7) اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ قصہ کے ضمن میں کوئی بات ایسی بیان نہ کی جائے جو تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو۔ جس طرح ناممکن اور فوق العادت باتوں پر قصہ کی بنیاد رکھنی آج کل زیبا نہیں ہے۔ اسی طرح کے ضمن میں ایسی جزئیات بیان کرنی جن کی تجربہ اور مشاہدہ تکذیب کرنا ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔ اس سے قصہ نگار کی اتنی بے سلیقگی ثابت نہیں ہوتی جتنی کہ اس کی لاعلمی اور دنیا کے حالات سے ناوا قفیت اور ضروری اطلاع حاصل کرنے سے بے پروائی ثابت ہوتی ہے۔ مثلا بدر منیر میں ایک خاص موقع اور وقت کا سماں اس طرح بیان کیا ہے :

وہ گانے کا عالم وہ حسن بتاں
وہ گلشن کی خوبی وہ دن کا سماں

درختوں کی کچھ چھانو اور کچھ وہ دھوپ
وہ دھانوں کی سبزی وہ سرسوں کا روپ

اخیر مصرع سے صاف یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ایک طرف دھان کھڑے تھےا ور ایک طرف سرسوں ربیع میں گیہوں کے ساتھ بوئی جاتی ہے۔

یا مثلا مثنوی طلسم الفت میں جب کہ شہزادہ جان جہاں کا جہاز غرق ہوا ہے اور جانِ جہاں اور سب اہل جہاز ڈوب چکے ہیں۔ اس طرح بیان کرتا ہے :

دوسرے دن وہ گوہر یکتا
جھیل کر محنت محیط بلا

مثل خورشید ڈوب پر نکلا
زندہ اک تختہ پر مگر نکلا

یعنی جان جہاں ایک رات اور ایک دن ڈوبے رہنے کے بعد زندہ دریا سے نکلا اور نکلا بھی ایک تختہ پر بیٹھا ہوا۔ اول تو اس قدر عرصہ کے زندہ نکلنا اور پھر قعر دریا سے ایک تختہ پر بیٹھے ہوئے نکلنا۔ بالکل تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
8) جس طرح سے ان اہم اور ضروری باتوں کو جن پر قصہ کی بنیاد رکھی گئی ہے نہایت صراحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان ضمنی باتوں کو جو صاف صاف کہنے کی نہیں ہیں، رمز و کنایہ میں بیان کرنا ضروری ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہماری مثنویوں میں دونوں باتوں کا لحاظ بہت کم کیا گیا ہے۔ مثلا گل بکاؤلی کے قصسہ میں سارے قصہ کی بنیاد صرف اس بات پر رکھی گئی ہے کہ زین الملوک کے جب پانچواں بیٹا پیدا ہوا تو نجومیوں نے یہ حکم لگایا کہ اگر بادشاہ اس بیٹے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا تو اس کی بینائی جاتی رہے گی۔ مگر گلزار نسیم میں اس بات کو ایسا ناکافی طور پر بیان کیا ہے کہ اگر گل بکاؤلی کا قصہ پہلے سے کسی کو معلوم نہ ہو تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ سکتا۔ رہی دوسری بات سو اس کا خیال تو ہمارے شعرا نے کبھی بھول کر بھی نہیں کیا۔ بلکہ جو باتیں بے شرمی کی ہوتی ہیں وہاں اور بھی زیادہ پھسل پڑتے ہیں اور نہایت فخر کے ساتھ ناگفتنی باتوں کا کھلم کھلا بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہم ایسے موقعوں کی زیادہ صاف اور کھلی مثالیں نہیں دے سکتے۔ صرف تصریح اور کنایہ کی صورت زیادہ ذہن نشین کرنے کے لیے یہاں ایک سرسری مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ خواجہ میر اثر دہلوی اپنی مثنوی خواب و خیال میں اختلاط کے موقع پر کہتے ہیں :

ہاتھ پائی میں ہانپتے جانا
کھلتے جانے میں ڈھانپتے جانا

دوسرے مصرع میں اس بات کی کچھ تصریح نہیں کی گئی کہ کیا چیز کھلتی جاتی تھی اور کس چیز کو بار بار ڈھانپا جاتا تھا۔ یہ مطلب اس سے بہتر لفظوں میں ادا نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ایسے موقع پر ہمیشہ بولا بھی یونہی جاتا ہے کہ سینے یا چھاتی یا محرم وغیرہ کا صراحتہ نام نہیں لیا جاتا۔ اسی مطلب کو نواب مرزا شوق نے بہار عشق میں اس طرح ادا کیا ہے :

ہاتھ پائی میں ہانپتے جانا
چھوٹے کپڑوں کو ڈھانپتے جانا

شوق نے اتنا پردہ تو رکھا ہے کہ لباس ہی کے نام پر اکتفا کیا ہے، سینے وغیرہ کا نام نہیں لیا۔ مگر پردہ ایسا باریک ہے کہ اس میں بدن چھلکتا نظر آتا ہے۔ تصریح کچھ بےشرمی و بے حیائی کے موقع پر بدنما نہیں ہوتی بلکہ قصہ میں اکثر مقام ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں رمز و کنایا سے کام نہ لیا جائے تو کلام نہایت سُبک اور کم وزن ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بحث فی الواقع چوتھی دفعہ سے علاقہ رکھتی ہے جس میں مقتضائے حال کے موافق ایراد کلام کا ذکر ہو چکا ہے لیکن اس کو زیادہ اہم سمجھ کر خصوصیت کے ساتھ علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس آٹھ باتوں کے سوا قصہ نگاری کے اور بھی فرائض ہیں۔ مگر یہاں صرف انہیں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے ہموطنوں کی شاعری کی اصلاح کا خیال ہو گا تو ان کو کسی کے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خود انکی طبیعت ان کی رہنمائی کرے گی۔

اب ہم خاص ان مثنویوں پر جو ہمارے نزدیک کسی نہ کسی حیثیت سے امتیار رکھتی ہیں ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں۔ اب تک اردو میں جتنی عشقیہ مثنویاں ہماری نظر سے گزری ہیں۔ ان میں سے صرف تین شخصوں کی مثنوی ایسی ہیں جس میں شاعری کے فرائض کم و بیش ادا ہوئے ہیں۔ اول میر تقی جنہوں نے غالبا سب سے اول چند عشقیہ قصے اردو مثنوی میں بیان کیے ہیں۔جس زمانہ میں میر نے یہ مثنویاں لکھی ہیں اس وقت اردو زبان پر فارسیت بہت غالب تھی اور مثنوی کا کوئی نمونہ اردو زبان میں غالبا موجود نہ تھا۔ اور اگر ایک آدھ نمونہ موجود بھی ہو تو اس سے چنداں مدد نہیں مل سکتی۔ اس کے سوا اگرچہ غزل کی زباں بہت منجھ گئی تھی مگر مثنوی کا رستہ صاف ہونے تک ابھی بہت زمانہ درکار تھا۔ اس لیے میر کی مثنویوں میں فارسی ترکیبیں، فارسی محاوروں کے ترجمے اور ایسے فارسی الفاظ جن کی اب اردو زبان متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس اندازہ سے جو آج کل فصیح اردو کا معیار ہے بلا شبہ کسی قدر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نیز اردو زبان کے بہت سے الفاظ و محاورات جو اب متروک ہو گئے ہیں۔میر کی مثنوی میں موجود ہیں۔ اگرچہ یہ تمام باتیں میر کی غزل میں بھی کم و بیش پائی جاتی ہیں۔ مگر غزل میں ان کی کھپت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ غزل میں ایک شعر بھی صاف اور عمدہ نکل آئے تو ساری غزل کو شان لگ جاتی ہے۔ وہ عمدہ شعر لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتا ہے اور باقی پُرکن اشعار سے کچھ سروکار نہیں رہتا۔ لیکن مثنوی میں جستہ جستہ اشعار کے صاف اور عمدہ ہونے سے کام نہیں چلتا۔ زنجیر کی ایک کڑی بھی ناہموار اور بے میل ہوتی ہے تو ساری زنجیر آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ پس ان اسباب سے شاید میر کی مثنوی آج کل کے لوگوں کی نگاہ میں نہ جچے۔ مگر اس سے میر کی شاعری میں کچھ فرق نہیں آتا۔ جس وقت میر نے یہ مثنویاں لکھی ہیں اس وقت اس سے بہتر زبان میں مثنوی لکھنی امکان سے خارج تھی با ایں ہمہ میر کی مثنوی اکثر اعتبارات سے امتیاز رکھتی ہے، باوجودیکہ میر صاحب کی عمر غزل گوئی میں گزری ہے۔ مثنوی میں بھی بیان کے انتظام اور تسلسل کو انہوں نے کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے اور مطالب کو بہت خوبی کے ساتھ ادا کیا۔جیسا کہ ایک مشاق و ماہر استاد کر سکتا ہے۔ اس کے سوا صاف اور عمدہ شعر بھی میر کی مثنوی میں بمقابلہ ان اشعار کے جن میں پرانے محاورے یا فارسیت غالب ہے، کچھ کم نہیں ہیں۔ صدہا اشعار میر کی مثنویوں کے آج تک لوگوں کی زبان زد چلے جاتے ہیں۔

اگرچہ میر کی مثنویوں میں قصہ پن بہت کم پایا جاتا ہے۔ انہوں نے چند صحیح یا صحیح نما واقعات بطور حکایت کے سیدھے سادے طور پر بیان کر دیئے ہیں۔ نہ ان میں کسی شادی یا تقریب یا وقت اور موسم کا سماں بیان کیا گیا ہے نہ کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا یا اور کوئی ٹھاٹھ دکھایا گیا ہے۔ مگر جتنی میر کی عشقیہ مثنویاں ہم نے دیکھی ہیں وہ سب نتیجہ خیز اور عام مثنویوں کے برخلاف بے شرمی و بے حیائی کی باتوں سے مبرا ہیں۔

میر تقی کے بعد میر حسن دہلوی کی مثنوی بدر منیر نے ہندوستان میں جو سچی شہرت حاصل کی ہے وہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد آج تک کسی مثنوی کو نصیب ہوئی۔ یہ خیال کہ میر تقی کے نمونوں سے میر حسن کو کچھ مدد ملی ہو گی یا کچھ رہبری ہوئی ہو گی ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ قصہ کی شان جو میر حسن کی مثنوی میں ہے، میر کی مثنویوں میں اس کا کہیں پتہ بھی نہیں۔

اگر اس بات سے قطع نظر کر لی جائے کہ قدیم قصوں کی طرح اس مثنوی کی بنیاد بھی دیو پری کے افسانوں پر رکھی گئی ہے تو یہ کہنا کچھ بے جا نہیں ہے کہ میر حسن نے قصہ نگاری کے تمام فرائض پورے پورے ادا کر دیئے ہیں۔ سلطنت کی شان و شوکت، تختہ گاہ کی رونق اور چہل پہل، لاولدی کی حالت میں یاس و ناامیدی اور دنیا سے دل برداشتگی، جوتشیوں کی گفتگو، شاہزادہ کی ولادت اور چھٹی کی تقریب، ناچ رنگ اور گانے بجانے کے ٹھاٹھ باغوں اور ہر قسم کی محفلوں کے سمے، سواریوں کے جلوش، حمام میں نہانے کی کیفیت اور حالت، مکانوں کی آرائش، شاہانہ لباس اور جواہرات اور زیورات کا بیان، خواب گاہ کا نقشہ، جوانی کی نیند کا عالم، رنج اور غم کے عالم میں محلوں اور باغوں کی بے رونقی، عاشق و معشوق کی پہلی ملاقات اور اس میں شرم و حجاب کا پاس و لحاظ، عشق و محبت کا بیان، حسن و جمال کا بیان، جدائی کا بیان، مصائب کا بیان، خوشی کا بیان، نسبت کے پیغام و سلام، بیاہ شادی کے سامان، بچھڑے ہوؤں کا ملنا اور اس حالت کا نقشہ، غرض کہ جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے، اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے اور مسلمانوں کے اخیر دور میں سلاطین و امرا کے ہاں جو جو حالتیں ایسے موقعوں پر گزرتی تھیں اور جو جو معاملات پیش آتے تھے ان کا بعینہ چربہ اتار دیا ہے۔ میر حسن کے بعد اور مثنویوں میں بھی بدر منیر کی ریس سے یہ تمام سین دکھانے کا قصد کیا گیا ہے۔ لیکن اکثر راہ راست سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ ایک صاحب بازار کی تعریف میں کہتے ہیں کہ "وہاں ناز و خوشی و انداز کی جنس بکتی ہے۔ (یعنی کوئی جنس دستیاب نہیں ہوتی) ٹھنڈی سانسون کا بازار گرم رہتا ہے (یعنی بازار میں بالکل رونق نہیں) داغ دل کا سکہ ہر طرف بھنایا جاتا ہے (یعنی سکہ رائج کی ریزگاری نہیں ملتی) خارِ مژگاں کے کانٹے میں زرِ جان تلتا ہے (یعنی نہ وہاں سونا ہے نہ سونا تولنے کا کانٹا) میوہ فروش سیب ذقن بیچتے ہیں۔ (یعنی سیب نہیں ملتے) ترکاری کی جگہ جوبن بکتا ہے (یعنی ترکاری نہیں ملتی) حلوائیوں کی دکان پر شیرہٗ جان کی مٹھائی بنتی ہے (یعنی لڈو پیڑے اور بالو شاہی وغیرہ کا قحط ہے) بازار میں آب گوہر کا چھڑکاؤ ہوتا ہے اور مہر و ماہ کا کٹورا بجتا ہے۔ (یعنی بازار میں خاک اڑتی ہے اور ہر وقت سناٹا رہتا ہے) اسی طرح جو سین دکھانا چاہا ہے اس میں محض الفاظ کا طلسم باندھا ہے۔ معنی سی کچھ سروکار نہیں رکھا۔ بہرحال اردو کی عشقیہ مثنویوں میں ہمارے نزدیک اکثر اعتبارات سے بدر منیر کے برابر آج تک کوئی مثنوی نہیں لکھی گئی۔ البتہ اس میں کچھ الفاظ و محاورات ایسے ضرور ہیں جو کہ اب متروک ہو گئے ہیں۔ لیکن آج سے ستر ، اسی برس پہلے کی مثنوی کا حسن اور زیور یہی ہے کہ اس میں ایسے الفاظ و محاورے موجود ہوں۔

میر حسن کے بعد نواب مرزا شوق لکھنوی کی مثنویاں سب سے زیادہ لحاظ کے قابل ہیں۔ شوق نے غالبا واجد علی شاہ کے اخیر زمانہ سلطنت میں یہ مثنویاں لکھی ہیں ۔ ان میں سے تین مثنویوں میں اس نے اپنی ابوالہوسی اور کامجوئ کی سرگزشت بیان کی ہے یا یوں کہو کہ اپنے اوپر افترا باندھا ہے اور ایک مثنوی یعنی لذت عشق میں ایک قصہ بالکل بدر منیر کے قصے سے ملتا جلتا اسی کی بھر میں لکھا ہے۔ ان مثنویوں میں اکثر مقامات اس قدر ام مورل اور خلاف تہذیب ہیں کہ ایک مدت تک ان تمام مثنویوں کا چھپنا حکما بند رہا۔ لیکن شاعری کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو ایک خاص حد تک ان کو بدر منیر پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ وہ قدیم الفاظ اور محاوروں سے جو اب متروک ہو گئے ہیں اور حشو اور بھرتی کے الفاظ سے بالکل پاک ہیں، ان میں ایک قسم کا بیان زبان کی گھلاوٹ، روزمرہ کی صفائی، قافیوں کی نشست اور مصرعوں کی برجستگی کے لحاظ سے بمقابلہ بد منیر کے بہت بڑھا ہوا ہے۔ اس میں مردانے اور زنانے محاوروں کی اس طرح برتا ہے کہ نثر میں بھی ایسی بے تکلفی سے آج تک کسی نے نہیں برتا۔ اگرچہ ان مثنویوں میں بدر منیر کی طرح ہر موقع کی سین نہیں دکھایا گیا جس سے شاعر کی قدرت بیان کا پورا اندازہ ہو سکے، مگر جو کچھ اس نے بیان کیا ہے خواہ وہ مورل ہو خواہ ام مورل، اس میں حسن بیان کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ اس میں بخلاف عام شعرائے لکھنو کے لفظی رعایتوں کا
(ختم شد صفحہ 200)
 
Top