مغفرت کے حقدار (اقتباس یادگار غالب ۔ الطاف حسین حالی)

نبیل

تکنیکی معاون
۔۔۔ایک مدت کے بعد لوگوں نے مرزا کے نام گمنام خط متضمن سب و شتم بھیجنے شروع کیے جن میں شراب نوشی اور بدمذہبی وغیرہ پر سخت نفرین اور طعن و ملامت لکھی ہوتی تھی۔ ان دنوں میں مرزا کی عجیب حالت تھی، نہایت مکدر اور بے لطف رہتے تھے، اور جب چٹھی رساں ڈاک لے کر آتا تھا، تو اس خیال سے کہ مبادا کوئی اس قسم کا خط نہ آیا ہو، ان کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا۔

اتفاق سے انہی دنوں میں نواب مصطفی خان مرحوم کے ہمراہ میرا دل میں آناہوا۔ چونکہ مجھے کو ان نالایق گمنام خطوں کے آنے کا حال معلوم نہیں تھا، ایک روز مجھ سے ایسی غلطی ہو گئی جس کے تصور سے مجھ کو ہمیشہ نہایت شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ہم مذہبی خود پسندی کے نشے میں سرشار تھے۔ خدا کی تمام مخلوق میں صرف مسلمانوں کو، اور مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں اہل سنت کو، اور اہل سنت میں سے صرف حنفیہ کو، اور ان میں سے بھی صرف ان لوگوں کو جو صوم و صلوت اور دیگر احکام ظاہری کے نہایت تقیّد کے ساتھ پابند ہین، نجات اور مغفرت کے لائق جانتے تھے۔ گویا دائرہ رحمت الہی کو کوئین وکٹوریہ کی وسعت سلطنت سے بھی جس میں ہر مذہب و ملت کے آدمی بہ امن و امان زندگی بسر کرتے ہیں، زیادہ تنگ اور محدود خیال کرتے تھے۔ جس قدر کسی کے ساتھ محبت یا لگاؤ زیادہ ہوتا تھا، اسی قدر اس بات کی تمنا ہوتی تھی کہ اس کا خاتمہ ایسی حالت پر ہو، جو ہمارے زعم میں نجات اور مغفرت کے لیے ناگزیر ہے۔ چوں کہ مرزا کی ذات کے ساتھ محبت اور لگاؤ بدرجہ غایت تھا، اس لیے ہمیشہ ان کی حالت پر افسوس ہوتا تھا۔ گویا یہ سمجھتے تھے کہ روضہ رضوان میں ہمارا ان کا ساتھ چھوٹ جائے گا اور مرنے کے بعد ان سے ملاقات نہ ہو سکے گی۔ ایک مرزا کی بزرگی، استادی، اور کبرسنی کے ادب اورتعظیم کو بالائے طاق رکھ کر خشک مغز واعظوں کی طرح ان کو نصیحت کرنی شروع کردی۔ چوں کہ ان کا ثقل سماعت انتہا کے درجے کو پہنچ گیا تھا اور ان سے بات چیت صرف تحریر کے ذریعے کی جاتی تھی، نماز پنج گانہ کی فرضیت اور تاکید پر ایک لمبا چوڑا لیکچر لکھ کر ان کے سامنے پیش کیا، جس میں ان سے اس بات کی درخواست تھی آپ کھڑے ہو کر، یا بیٹھ کر، یا ایما و اشارے سے، غرض جس طرح ہو سکے، نماز پنج گانہ کی پابندی اختیار کریں۔اگر وضو نہ ہو سکے تو تیمم ہی سہی، مگر نماز ترک نہ ہو۔

مرزا کو یہ تحریک سخت ناگوار گزری، اور ناگوار گزرنے کی بات ہی تھی ، خصوصاً اس وجہ سے کہ انہیں دنوں میں لوگ گمنام خطوں میں ان کے اعمال وافعال پر بہت نازیبا طریقے سے نفرین و مالامت کر رہے تھے اور بازاریوں کی طرح کھلم کھلا گالیاں لکھتے تھے۔ مرزا نے میری لغو تحریر کو دیکھ کر جو کچھ فرمایا، وہ سننے کے لائق ہے۔ اہوں نے کہا؛ “ساری عم فسق و فجور میں گزری، نہ کبھی نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا، نہ کوئی نیک کام کیا۔ زندگی کے چند انفاس باقی رہ گئے ہیں۔ اب چند روز بیٹھ کر یا ایما و اشارے سے نماز پڑھی، تو اس سے ساری عمر کے گناہوں کی تلافی کیونں کر ہو سکے گی۔ مین تو اس قابل ہوں کہ جب مروں، میرے عزیز اور دوست میرا منہ کالا کریں اور میرے پانؤں میں رسی باندھ کر شہر کے تمام گلی کوچوں اور بازاروں میں تشہیر کریں، اور پھر شہر سے باہر لے جا کر کتوں اور چیلوں اور کوّں کے کھانے کو (اگر وہ ایسی چیز کھنا گوارا کریں) چھوڑ آئیں۔ اگرچہ میرے گناہ ایسے ہی ہیں کہ میرے سارھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا جائے، لیکن اس میں شک نہیں کہ میں مؤحد ہوں۔ ہمیشہ تنہائی اور سکوت کے عالم میں یہ کلمات میری زبان پر جاری رہتے ہیں؛ لاالہ الااللہ، لا موجود الااللہ، لاموثر فی الوجود الااللہ“۔
 
Top