تاسف معروف ناول نگار الطاف فاطمہ انتقال کرگئیں

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

آرٹ
معروف ناول نگار الطاف فاطمہ انتقال کر گئیں

55CBDAD1-675D-4409-9FCA-9E1EE5ABB1BB_cx0_cy12_cw0_w1080_h608_s.jpg


الطاف فاطمہ (فائل فوٹو)

تبصرے دیکھیں

الطاف فاطمہ نے 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بھی ایک ناول ’چلتا مسافر‘ تحریر کیا تھا۔

دستک نہ دو!

'دستک نہ دو' کی مصنفہ الطاف فاطمہ چل بسیں

اردو کی معروف ناول نگار، ادیبہ اور افسانہ نویس الطاف فاطمہ 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

الطاف فاطمہ لاہور میں مقیم تھیں اور طویل عرصے سے علیل تھیں۔

وہ بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنو میں 1927ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان لاہور آ کر آباد ہو گیا تھا۔ لکھنو کی تہذیبی روایات کا اثر الطاف فاطمہ کی شخصیت پر نمایاں تھا۔

انہوں نے جامعۂ پنجاب سے اردو ادب میں ایم اے کیا تھا جس کے بعد وہ اسلامیہ کالج برائے خواتین لاہور میں اُردو کی استاد مقرر ہوئیں۔

الطاف فاطمہ نے بہت سے ناول اور افسانے لکھے۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں شائع ہوا۔ ان کے مشہور ناولوں میں نشانِ محفل، عنکبوت، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں، دستک نہ دو شامل ہیں۔

الطاف فاطمہ نے 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بھی ایک ناول ’چلتا مسافر‘ تحریر کیا تھا

الطاف فاطمہ کے انتقال کو ملک کے ادبی حلقوں نے ایک بڑا اور ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔

ممتاز شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد نے الطاف فاطمہ کی وفات پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ناولوں نے ناول نگاری میں ایک نئی جہت پیدا کی تھی اور ان کا ناول 'دستک نہ دو' اپنی اشاعت کے وقت اتنا مقبول ہوا تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے اسے ڈرامائی شکل دی تھی۔

معروف قانون دان اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال بھی الطاف فاطمہ کی وفات پر غم زدہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الطاف فاطمہ کی ادبی خدمات لمبے عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔

ناصرہ جاوید کا کہنا تھا کہ انہیں کتابیں اور خاص طور پر ناول پڑھنے کا شوق الطاف فاطمہ کے ناول سے ہی ہوا تھا۔



 
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ


اللہ کریم انکے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے

آمین یا رب العالمین

 
وہ جسے چاہا گیا:: الطاف فاطمہ کا افسانہ ایک نئے انداز میں
از محمد خلیل الرحمٰن​


’’خالص سونے کی ڈلی۔‘‘


’’اُس نے اپنے نام کے یہی تو معنی بتائے تھے۔‘‘


جم نکو لس نے ٹیلی ویژن پر تھرکتی ہوئی صورتوں کی طرف سے منہ پھیر کر سوچا۔


’’پر وہ نام تھا کیا؟‘‘یہ اس کے ذہن سے اُتر گیا تھا، اور ذہن سے تو کیااترا تھا دماغ کے کسی گوشے میں ناچتا پھر رہا تھا۔مگر سامنے نہ آتا تھا۔ یعنی یہ کہ وہ زبان پر نہ آرہا تھا۔ اب وہ نام دماغ کے کس کونے میں گھسا بیٹھا تھا یہ بھی پتا نہ چل رہا تھا۔ ممکن ہے کہ لاشعور کے کسی کونے میں جاکر دہک رہا ہو۔اور یہ بھی ممکن تھا کہ تحت الشعور میں جا چھپا ہو۔غرض کہ جو کچھ بھی ہوا ہو جم نکو لس ایک الجھن مین مبتلا تھا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ دماغ میں تو نام گھوم رہا ہےاور زبان پر اس کا ترجمہ ٹہلتا پھر رہا ہے۔



’’خالص سونے کی ڈلی۔‘‘

’’خالص سونے کی ڈلی۔‘‘

’’خالص سونے کی ڈلی۔‘‘


یا خدا ! مگر وہ ہے کون جسے خالص سونےکی ڈلی کہا جارہا ہے تو بے وجہ بھی نہیں۔


وہ کچھ اتنی بوریت کے عالم میں تھا کہ کیمیا جیسی خشک اور ہونق چیز بھی اس کو بہت مانوس اور خیال آرائی کے قابل معلوم ہورہی تھی جبھی تو وہ اپنے دماغ کو کیمیا گری میں الجھا ، اصل بات کو بھولنے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر خیر یہ بات تو صاف تھی کہ وہ کون تھا جو خالص سونے کی ڈلی جیسا تھا۔ وہ سادہ سادہ سا، چپ چپ سا، ریشمی آنکھوں والاچہرہ تو صاف صاف پیشِ نظر تھا جس کے نام کے معنی ذہن میں گھوم گھوم کر خواہ مخواہ اس کو یعنی سینتالیس سالہ کنوارے ، شعبہٗ صحافت کے سینٗر پروفیسر، ڈاکٹر جم نکولس کو تنگ کر رہے تھے جو بیروت یونیورسٹی میں اپنی پانچ سالہ خدمات پوری کرکے ایک سال ہوا وطن واپس آیا تھا۔


وہ مستقل ٹیلیویژن کی طرف سے پیٹھ موڑے بیٹھا دریچےکے شیشوں کو تک رہا تھا۔ اس کے چہرے کا تاثر یوں بھی روٹھا روٹھا ساتھا اور اب تو واقعی وہ روٹھ بیٹھا تھا۔ کہتے ہیں ہچکیاں نہ رُکتی ہوں تو کسی انسان کو الجھن میں ڈال دوفوراًرک جائیں گی، لیکن شایدبعض وقت یوں بھی ہوتا ہےکہ الجھن حد سے بڑھ جائے تو ہچکی آنے لگتی ہے۔ کم سے کم جم نکولس کے ساتھ تو اس وقت یہی ہوا بے وجہ ہی اس کو ہچکیاں آنے لگیں۔ہچ ہی ہپ توبہ! مگر سبیکا تو کہتی تھی کہ ہچکیاں آنے کا مطلب اس کے یہاں یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی یاد کر رہا ہے۔ ‘‘ ہچ ہچ ۔۔۔ کیا مطلب سبیکا۔۔۔


اوہ! اے! وہ ایکدم کھڑا ہوگیا۔۔۔ ’’بس ہاں سبیکا ہی تو تھا وہ نام! وہ بآوازِ بلند بولا۔ کمرے میں تنہائی تھی! البتہ اس کی پشت کی طرف رکھے ہوئے ٹیلی ویژن پر پرچھائیاں اور تصویریں اب تک تھرک رہی تھیں اور مستقل بولے چلی جارہی تھیں۔


شٹ اپ! وہ مڑا اور اس نے ٹیلی ویژن بند کردیا۔


لو بس یہی تو نام تھا اس کا۔۔۔ سبیکا یعنی خالص سونے کی ڈلی۔ بس فقط اتنا چھوٹا اور مختصر سا تو نام تھا وہ بھی بھول گیا، مگر وہ یاد رکھنے کی کوئی چیز بھی تو ہو۔ اس کے مقابلے میں بیروت یونیورسٹی کی کوئی طالبہ یا کوئی کولیگ ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔ لمبی چوڑی خوش شکل زیتونی اور شہابی رنگتوں اور آنکھوں والی، اسکرٹوں اور فراکوں میں ملبوس ایشیائی لڑکیاں یا لڑکی نما عورتیں۔ ان سب کے نام تو یوں فر فر یاد تھے اور کتنوں کے تو خط بھی آتے رہتےتھے پر یہ سبیکا کا نام یاد رکھنے کا تُک کیا ہوسکتا ہے۔


چھوٹی سی ، مختصر سی، سانولی سی وہ مہمان لڑکی جو مشکل سے سترہ سال کی ہوگی یا پھر بھئی وہ ضرورت سے زیادہ چھوٹی نظر آتی تھی۔ بہرحال تھی تو وہ مہمان لڑکی طالب علموں کے بین الاقوامی تبادلے کے سلسلےمیں آئی ہوئی لڑکی جو جم نکولس کے بھائی کے گھر ٹھہرائی گئی تھی اور جم نکولس ان دنوں تازہ تازہ بیروت سے واپس آکر وہاں چھٹیاں گزارنے پہنچا ہوا تھا۔


’’ ارے یہ بچے بچیوں کے بین الاقوامی تبادلے۔۔۔۔‘‘


جم نکولس دل کھول کر ہنسا تھا۔’’ایک لطیفہ ہی ہیں۔‘‘سنا ہے کہ جب امرکی طالبِ علم بطور مہمان دوسرے ملکوں کو جاتے ہیں ، تو کچھ اس قسم کی ہدایتیں بھی جاتی ہیں کہ اگر آپ کا مہمان غسل خانے وغیرہ میں زور زور سے الاپنا شروع کردے ، تو آپ کو اعتراض نہ ہونا چاہیے۔ یہ ان کی عادت میں داخل ہے اور اگر وہ بے قاعدگی پھیلائیں ، تو اس کو ان کے فطری انداز پر محمول کریں۔ مزید یہ کہ چیزوں اور دولت کی بہتات نے ان کو غیر محتاط کر دیا ہے۔ اگر ان کے ہاتھ سے برتن ورتن ٹوٹیں ، تو ملال نہ کیجیے گا وغیرہ وغیرہ۔مگر یہ پاکستانی لڑکیاں ۔ ان کے ساتھ کس قسم کی ہدایتیں آئی ہوں گی۔ مثلاً یہ کہ جدھر جدھر یہ چلا کریں ، لوگ پردے تانتے چلا کریں۔ اور یہ کہ اکیلے دکیلے نہ جانے دیا جائےگھر کی کوئی بڑی بوڑھی یا کوئی دوسرا معتبر شخص ساتھ چلا کرے۔ اور نامحرم مرد گھر میں آواز دئیے بغیر داخل نہ ہو۔ جم ایک بار پھر ہنسی سے بے حال ہوگیا۔


بیروت جیسے مغرب زدہ ایشیائی شہر میں رہنے کے باوجود وہ مشرقی مسلمان گھرانوں کی بعض پابندیوں سے واقف ہوگیا تھاجن کو حد سے زیادہ مبالغے کے ساتھ بیان کرنا زیادہ پسند کرتا تھا۔


مسز نکولس یعنی اس کی بھاوج سنجیدگی سے برا مان گئی تھی۔ بالکل غلط، ایسی تو کوئی ہدایت نہیں ملی۔ اور اب اس کا اصرار تھا کہ وہ ان ہدایات کا بغور مطالعہ کرے۔ ان میں کہیں بھی ایسی کوئی شق موجود نہیں۔ ۔۔۔ایسی سنجیدگی مسز نکولس کی عادت میں داخل تھی۔



’’ہاں دیکھو تو۔ کیسی ہیرا بچی ہے۔ ہنستی مسکراتی، اس کا حسِ مزاح بھی اچھا ہے۔ پیاری سی، پیار کرنے والی، بہت پیاری۔ہمارے ساتھ ہمارے اسٹور میں جاکر ہر طرح سے ہمارا ہاتھ بٹاتی ہے۔ خریداروں کا ہرطرح سے خیال رکھتی ہے۔ ٹیلیفون کے جواب بہت پیار سے دیتی ہے۔ جو ہم کرتے ہیں ہمارے ساتھ وہی کرتی ہے۔ ہمارے ساتھ اس طرح گھل مل گئی ہے جیسے ہمارے خاندان کا ایک فرد ہو۔‘‘


اور دوسری صبح اس کا تعارف مہمان لڑکی سے کروایا گیا ۔


مختصر، دبلی پتلی، بے حقیقت اور خاموش طبع لڑکی ۔

’’تمہاری یہ مہمان کس قسم کی ہے اور اس کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔‘‘ جم نکولس نے اس خاموش دزدیدہ سی شکل اور ریشمی آنکھوں والی لڑکی کی طرف کنکھیوں سے دیکھا کو اپنی خاموشی کی وجہ سے پراسرار اور ناقابلِ فہم سی نظر آتی تھی اور ا س وقت کچھ فاصلے پر گھنے درخت کے سائے میں بیٹھی لان کے سبزے کو تک رہی تھی۔


یہ! یہ تو! بس عجیب سی ہے بالکل خاموش اور عجیب قسم کی ہے۔‘‘ ولما کی رائے اس کے بارے میں مختصر ضرور تھی ، لیکن کچھ اچھی بھی نہ تھی۔


’’میں بتاؤں ولما جب لڑکی ٹین ایج سے نکلنے ہی والی ہوتی ہے ، تو اس کو اپنے سوا ہر کوئی عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔


’’اوں انکل!‘‘ ولما اپنی ضرورت سے زیادہ لمبان کے باوجود بچوں کی طرح بکھر گئی۔


وہ خاموش سی لڑکی جم نکولس کو حد سے زیادہ محتاط نظر آئی ۔ دھیرے سے اٹھنا، دھیرے سے بیٹھنا۔ چمک دار بالوں کی موٹی سی چوٹی کو اپنے نحیف و نزار کاندھوں کے درمیان یوں اٹھائے جیسے یہ بھی کوئی بھاری بوجھا ہو۔


وہ بولتی تو یوں دھیرے دھیرے سوچ کر جیسے کوئی بیٹھا موتی پرو رہا ہے۔


’’اچھا تو او رکیا عادت تھی اس کی۔۔۔اب اس وقت اتنے مہینوں بعد اس کی کسی بار کو یاد کرنا ذہن کو مشقت میں مبتلا کرنا تھا اور وہ بلا وجہ ہی اس مشقت میں مبتلا تھا اچھے خاصے خوش گوار موسم کے باوجود اس کو خنکی اور باہر کی ہوا کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی تھی اس نے بڑھ کر دریچہ کھول دیا۔ ہوا کے آزاد اور نکھرے نکھرے جھونکے کی ہمراہی میں ڈوبتے سورج کی چند کرنیں بھی دبی دبی سہمی سہمی اندر چلی آئیں اور اچانک ہی جم نکولس کو محسوس ہوا جیسے وہ لڑکی اپنے مخصوص دبے دبے انداز میں اندر آگئی ہو جو ولما کے بقول واقعی عجیب سی تھی۔ وہی جو بے تلکفی سے بیٹھی جم نکولس یا اس کے بھائی کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر بے اختیار دوپٹے سے سر ڈھانک لیا کرتی تھی اور کسی بات پر قہقہہ لگاتے لگاتے ان کو دیکھ کر رک جاتی تھی۔ اس کی اس حرکت پرولما ہنس پڑتی اور اب اس وقت ایک چھوٹی سی بالکل ہی معمولی سی لڑکی کے متعلق اتنا کچھ سوچ لینا ہی بہت تھا۔


جم نکولس اپنی جگہ واپس آکر بیٹھ گیا ۔ ٹیلی ویژن اب بالکل خاموش تھا اور بے حرکت، یہ وقت تھا جب اس کو اپنے شعبے کے طلبہ کے خصوصی سیمینار میں شرکت کے لیے تیار ہونا تھا۔


یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کب ذہنی رو پلٹی اور وہ پھر سوچنے لگا۔

اس لڑکی میں ایک اور بات بڑی عجیب تھی کہ جب مرد باہر سے گھر آتے تو اس پر عجیب قسم کا انتظام اور ذمہ داری طاری ہوجاتی تھی اور کچھ نہیں تو گھبراہٹ اور انتظام کے مارے فرنیچر اور دوسری چیزوں کو ہاتھوں سے درست کرنے لگتی ۔ بھئی صحیح بات تو یہ ہے کہ اس کا بس چلتا تو وہ آنے والوں کے کوٹ اتارنے اور جوتوں کے فیتے کھولنے بیٹھ جاتی مگر خیر یہ نوبت کبھی نہ آسکی۔جم نکولس یہ سوچ کر ہنس پڑا۔ اور ہاں جب اس کو احساس ہوتا کہ لوگ اس کی حرکتوں کو تعجب سے دیکھ رہے ہیں تو وہ شرمندہ سی ہوکر اپنی جگہ پر جا بیٹھتی اور دونوں ہاتھوں کو یوں گود میں رکھ لیتی گویا ان کو یوں نہ رکھا تو پھر کچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف ہوجائیں گے۔ تاہم وہ یوں بیٹھے بیٹھے گھر کی عورتوں کی طرف بڑی معترض نظروں سے دیکھتی رہتی جو گھر کے مردوں کی آمد پر بدستور اپنے مشغلوں اور کاموں میں مصروف رہتیں اور ان کا استقبال ایک خفیف اور کبھی گرم جوش تبسم سے کرلینا ہی بہت سمجھتی تھیں اور ایک دن تو حد ہوگئی۔ ہوا یہ کہ مسز نکولس یعنی میری بھاوج۔۔۔۔



اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی نے اس کی سوچوں کے سلسلے کو منقطع کردیا۔ کال سے فارغ ہوا تو پھر سوچنے لگا۔ یوں اچانک سوچوں کا سلسہ کٹ جانے سے کوئی واقعہ ذہن کے پردوں سے محو تو نہیں ہوجاتا اور اس دن کی بات جس دن گھر پر ولما اور سبیکا ، دونوں لڑکیاں اور وہ خود رہ گیا تھا۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی بس یوں ہی کچھ زکام تھا۔ ذرا گلا خراب تھا، کچھ طبیعت بھاری تھی اور بھاری سے بھی زیادہ نندا نندا سی ہورہی تھی۔ کھانے کا وقت ہورہا تھا اور بھوک بھی خوب لگی ہوئی تھی۔ یوں تو کھانے کو سبزیوں کے، گوشت اور پھلوں کے بے شمار ڈبے ، تازہ پھل اور پنیر ریفریجریٹر میں بھرے پڑے تھے، لیکن اس کا دل گرم گرم تازہ کھا نا ، مثلاً سوپ یا روسٹ کی ہوئی ، بھاپیں اٹھتی ہوئی مرغی کھانے کو چاہ رہا تھا۔ اس وقت کھانے کی اشتہا سے زیادہ اس کے دل میں یہ تمنا شدت سے سر اٹھا رہی تھی کہ کوئی گرم گرم خوش ذائقہ کھانا اس کے پاس بیٹھ کر بڑی توجہ سے اس کو کھلائے، مگر وہ کون ہوسکتا تھا، جب کہ بھاوج کلب میں مدعو تھی اور مددگار لڑکی جو گھر کی صفائی وغیرہ کرنے آتی تھی ، دو دن کی چھٹی پر تھی اور دو نوں لڑکیاں ٹیلیویژن دیکھنے میں مصروف۔ لڑکیوں کے خیال کے ساتھ ہی اس نے سوچا۔ ولما کو پکڑنا چاہیے۔ یہ لڑکی اتنی بڑی ہوگئی ہے اور اب تک نکمی ہے۔


چنانچہ کرسی کے ادھر ادھر لٹکتی ہوئی گون کی ڈوریاں سمیٹ کر کمر کے گرد لپیٹتا ہوا وہ وہاں پہنچا۔


پکے کھانے کا ذکر سن کر ہی ولما بکھر گئی تھی۔’’ کولڈ میٹ، پنیر، اور سینڈوچز کی موجودگی مین کچھ اور پکانے کی کیا ضرورت ہے۔ انکل ڈارلنگ، پھر کسی دن سہی آپ کی پسند کا کھانا‘‘۔


اس نے ٹیلیویژن بند کردیا تھا اور اٹھ کر لیونگ روم کے کونے میں رکھے ہوئے ایکویریم میں ڈوبتی ابھرتی سرخ، سنہری اور کالی مچھلیوں کا تماشا دیکھنے لگی تھی۔ مایوسی کے عالم میں کھڑے کھڑے جم نکولس نے محسوس کیا کہ وہ چھوٹی سی مختصر ریشمی آنکھوں والی لڑکی ہمیشہ کی طرح بے چین سی ہوکر کھڑی ہوگئی۔ شاید وہ اس خیال سے کہ گھر کا مرد اور وہ بھی جس کا بزرگوں میں شمار ہے، بھوکا کھڑا ہے۔ بے کل سی ہوکر کسمسائی اور دھیرے سے بولی ، ’’ انکل جم! اگر آپ کوئی خیال نہ کریں ، تو میں پکا دوں آپ کے لیے کوئی چیز؟‘‘


وہ جو یوں بھی بہت لمبا تھا اس کے مقابل خود کو اور بھی زیادہ لمبا اور بے ڈول محسوس کرنے لگا تھا۔ یہی بات کوئی ولما جیسی لمبی چوڑی ہٹی کٹی لڑکی کہتی تو وہ خوشی خوشی منظور کرلیتا، مگر یہ تو بہت چھوٹی اور مختصر سی لڑکی تھی باکل جیسے ننھی سی ڈری ڈری کالی آنکھوں والی چوہیا۔


وہ دل ہی دل میں ہنسا اور اس کی طرف جھک کر بولا ’’ تو کیا یہ واقعہ ہے کہ تم بھی کچھ پکا سکتی ہو؟‘‘


’’ہاں انکل! میں دوچار چیزیں تو یقیناً پکا سکتی ہوں۔‘‘


’’مثلاًً!‘‘


’’مثلاً یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے آپ مجھے بتادیں گے اسی طرح پکا دوں ۔‘‘


اور اب وہ ظاہر ظہور ہنس رہا تھا۔’’ اور اچھا اگر مین یہ کہوں کہ مجھے تو سرے سے پکاناآ تا ہی نہیں تم اپنا پاکستانی کھانا پکاؤ تو؟‘‘


’’ہاں ایک بات یہ بھی ہوسکتی ہے!‘‘ اس کی کالی آنکھیں سنجیدہ تھیں اور لب بڑی سادگی سے مسکرا رہے تھے۔


’’تو پھر تم کیا کیا پکا لو گی؟‘‘


’’ م میں۔۔۔۔ ‘‘ وہ اٹکی۔’’ آلو کی سبزی۔‘‘ اس نے خود اعتمادی سے کہا ۔


’’اور؟‘‘


’’اور ! مٹر پلاؤ بھی۔‘‘ اس مرتبہ لہجہ سٹپٹایا ہوا تھا۔


’’اور کچھ؟‘‘


’’ہوں‘‘ اس نے سوچا اور باکل مری ہوئی آواز میں بولی، ’’شاید مرغی کا قورمہ بھی پکا لوں۔‘‘


’’اچھا تو مرغی کا قورمہ اور مٹر پلاؤ پکاؤ۔‘‘


وہ اچانک ہی ڈر سی گئی۔’’ تو کیا آپ کے پاس چاول، مرغی اور مٹر سب چیزیں اس وقت موجود ہیں؟‘‘ اس نے بے اعتباری سے پوچھا۔


دو ہفتے یہاں گزارلینے کے بعد بھی ابھی تک وہ یہاں کی سہولتوں اور فراوانی پر پوری طرح ایمان نہ لا پائی تھی۔


’’بالکل ہر ایک چیز موجود ہے۔ سوائے ایک پکانے والی کے۔‘‘وہ اس کی طرف اور بھی زیادہ جھک کر مسکرایا ۔‘‘ اور اب ایک چھوٹی سی پکانے والی بھی مجھے مل گئی ہے۔‘‘


باورچی کانے میں جب وہ اس کے ساتھ ساتھ کام کررہا تھا تو اس پر عجیب عجیب انکشاف ہوئے تھے۔ مثلاً یہ لڑکی بہت زیادہ ذہین اور اپنی عمر کے لحاظ سے اچھی خاصی پڑھی لکھی ، لیکن بیوقوفی کی حد تک سادہ مزاج تھی۔ مثلاً ایک دم ہی کوکنگ رینج اور مصالحہ پیسنے کی مشین کو دیکھ کر خوف زدہ سی ہوگئی تھی۔’’ بھئی انکل! یہ آپ کی مشین، میں کس طرح ان سے کام لوں گی؟‘‘


تم میری مشینوں کی پروا ہ نہ کرو۔ مشینوں کا جن یہ رہا مائی ڈیئر گرل۔‘‘ اس نے اپنے سینے کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔’’ تم صرف حکم دو۔‘‘


وہ خوش دلی سے کھلکھلاکر ہنس دی۔’’ اچھا تو حکم یہ ہے کہ اس کو پیس دیجیے۔‘‘ اس نے لہسن پیاز اور ادرک کے ٹکڑے اس کے حوالے کردئیے۔


پلک جھپکنے کی دیر تھی کہ شر شوں کی آواز کے ساتھ سرمے کی طرح باریک مصالحہ تیار تھا۔


’’ارے اتنی جلدی اتنا نفیس مصالحہ پیس لیا، کمال کیا۔‘‘ اس کی نگاہوں میں شاباشی تھی۔


’’خیر یہ تو اس مشین کا کمال ہے ! کیا خیال ہے تمہارا اس مشین کے متعلق؟‘‘


’’بس بالکل پریوں کی کہانیوں والی چھڑی ہے جادو کی۔‘‘


’’ہاں تو بس اب تیار ہوجاؤ، یوں سکھاؤں گا ساری مشینیں چلانا۔‘‘ اس نے چٹکی بجائی۔


’’میں کیا کروں گی یہ سیکھ کر۔‘‘ اس نے قناعت سے سر جھکالیا۔


’’انکل ! ہم تو پتھر کے سل بٹے پر یا لنگری میں پیس لیا کرتے ہیں ۔‘‘


تو تم ابھی پتھر ہی کے زمانے میں ہو سابیکا!


’’انکل میرا نام ’سبیکا ‘ہے۔‘‘ اس نے جلدی سے درست کیا اور اس کی بات کا جواب ٹال گئی ۔


وہ بھی ٹال گیا۔’’ سبیکا! تمہارے نام کے کیا معنی ہیں؟‘‘


’’میرے نام کا مطلب ہے،’ خالص سونے کی ڈلی‘۔ ‘‘


اس کی آواز نرم اور ریشمی تھی۔ اس کی مخملیں آنکھوں میں طمانیت اور آسودگی تھی جیسے اس کا یقین ہو کہ وہ اسمِ بامسمیٰ ہے ۔ جیسے وہ کہتی ہو کہ انکل مشینوں کے میسر نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ، اصل چیز تو محبت کی فراوانی ہے۔


’’سبیکا تم انگریزی بہت اچھی بولتی ہو۔‘‘


اس نے انکسار سے سر جھکا لیا۔ اس کی اس عادت پر تو وہ دل ہی دل میں شروع ہی سے لوٹ رہا تھا ۔


اس کو پتہ بھی نہ چلا تھا کہ اس لڑکی نے کس چیز میں کس وقت کیا چیز ڈالی تھی۔ اور کون سا مصالحہ ڈالا ۔ اب تو کچن کے علاوہ گھر بھر میں اشتہا انگیز خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں، ایسی کہ ولما دوڑتی ہوئی پہنچ گئی تھی۔


’’ارے، ارے، انکل کیا پکا ڈالا ، دونوں نے مل کر؟‘‘


اور سبیکا نے مٹر پلاؤ کے ساتھ کھانے والی دہی میں لہسن ، مرچ کانٹے کے ساتھ ملا کر پھینٹتے ہوئے کہا؛


’’میں نے کبھی اپنے آپ سے آلو کی سبزی کے سوا کوئی چیز نہیں پکائی تھی؛ البتہ پکانے والوں کی مدد اکثر کی تھی۔‘‘


کھانا ختم ہونے کے بعد ایک کام کرنے والی کو مستعد پاکر ولما اپنی پلیٹ صاف کرکے باغ میں سرک گئی تھی اور سبیکا نے مٹر پلاؤ اور مرغی کے خالی برتن سنبھالتے ہوئے ماہرانہ انداز میں بتایا تھا کہ ہمارے کھانوں میں صرف ایک خرابی ہے کہ برتن بہت چکنے ہوجاتے ہیں۔


اچانک ہی اس کا دل واقعی اس لڑکی سے کچھ پوچھنے کو چاہنے لگا جس نے اس کی شدید بھوک کے عالم میں بڑی توجہ سے خوشبودار اور گرم گرم کھانا کھلایا تھا۔ یہ مہربان اور حد درجہ خیال کرنے والی لڑکی اب اتنی چھوٹی تو نہیں معلوم ہورہی تھی لیکن وہ تو اس سے یہ تک نہ پوچھ پایا کہ تم کو یہ کچن اور ساری مشینیں پسند ہیں۔ اس لڑکی سے یہ سوال کرنے کی اسے ذرا بھی ہمت نہ ہوئی جو لنگری یا سل بٹے پر مصالحہ پیس کر ہی حد درجہ مطمئن اور قانع تھی، اس لیے کہ اس کے نام کے معنی تھے۔



’’خالص سونے کی ڈلی‘‘ اور وہ خود اسمِ بامسمیٰ تھی۔



’’سبیکا!‘‘


’’یس انکل! ا‘‘ اس نے چونک کر سعات مندی سے سر اٹھایا۔


’’جب تم یہاں سے جاؤ گی تو تم کو کیسا لگے گا؟‘‘


’’آپ جب بیروت سے واپس آئے تھے تو آپ کو کیسا لگا تھا؟‘‘ سبیکا نے بھی سوال کیا۔


میرا مطلب ہے کہ جب تم یہاں یعنی امریکہ سے اپنے وطن واپس پہنچو گی تو تمہارا ردِ عمل کیا ہوگا؟‘‘


وہ اس کے سوال کا مطلب پہلے بھی سمجھ چکی تھی ۔ پلیٹ پر چلتے چلتے اس کے ہاتھ رک گئے۔ اس نے ایک لحظہ ٹھہر کر جم نکولس کو دیکھا تھا اور اسی لمحے جم نکولس کو یہ احساس ہوا تھا کہ صداقت اس لڑکی کی صفت ہے۔


وہ اچانک ہی افسردہ ہوگئی۔


’’میرا تاثر کیا ہوگا۔۔۔ میں آپ کو کس طرح بتاؤں! ‘‘ شاید اس کو الفاظ نہیں مل رہے تھے۔


کچھ دیر وہ خاموش رہ کر بلا تمہید ہی اس سے مخاطب ہوئی۔


’’انکل آ پ کو ایک بات بتاؤں؟‘‘


’’ضرور!‘‘ جم نے بے دلی سے کہا۔


’’میرے یہاں آنے کا قطعی کوئی چانس نہ تھا اور شاید سلیکشن بورڈ کے ممبروں سے کوئی چوک ہوگئی تھیاور شاید خود ہمارے کالج کی پرنسپل نے بھی کسی غلطی کے ماتحت ہی میرا نام اور میرے متعلق یہ ریمارک بھیج دیا کہ اگر انتخاب کا کام میرے ذمہ ہوتا تو میں ایسی ہی لڑکیوں کو منتخب کرتی۔


آپ کو شاید میں نے بتایا بھی نہیں کہ ہم تو ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں، بالکل ہی معمولی طرح۔‘‘ایک دم وہ ہنس پڑی ۔ ’’ اور آپ کبھی اندازہ ہی نہ کرپائیں گے کہ کتنی معمولی طرح۔ پر ایک بات ہے کہ میری پھوپھی کا گھرانا ہم سے بہت مختلف ہے۔ ‘‘ سبیکا نے صاف کی ہوئی پلیٹ کو خشک ہونے کے لیے رکھ دیا اور دوسری پلیٹ اٹھالی۔ تب جم نے اکتاکر سوچا تھا۔ اف! کتنی بے ربط باتیں کرنے لگی یہ لڑکی اچانک ہی۔


لیکن سبیکا کی ہمیشہ کی طرح نرم اور ٹھہری ہوئی آواز سنائی دی۔’’ اور جب ہم اپنی پھوپھی کے گھر جاکر واپس آتے تھےتو عجیب سا احساس ہوتا تھا۔ اچھے خاصے بلب جو عام طور پر روشن نظر آتے تھے وہاں سے واپسی پر ٹمٹماتے ہوئے دئیے معلوم ہوتے تھے، دیواریں اور کمروں کےے دروازے ہمیشہ سے زیادہ دھبیلے ، افسردہ اور خاک آلودہ معلوم ہونے لگتے ۔ چھوٹا سا مختصر صحن ، بے حد خاکستری ، ویران اور گھٹا گھٹا محسوس ہونے لگتا۔ہم سب پر بے وجہ ہی جھنجھلاہٹ طاری ہوجاتی اور کئی دن یہ رہتا کہ بلا سبب ہی ایک دوسرے کو الزام دیا کرتے۔ وہاں سے واپس آکر نظر میں ان کے روشن اور سجے ہوئے کمرے، چر چر بولتی ہوئی سرخ مورم والے راستے اور سرسبز لان سمائے رہتے ۔ پھر رفتہ رفتہ غصہ آپ ہی ٹھنڈا پڑ جاتا اور ہم اپنے چھوٹے سے بالکل معمولی سے گھر میں مگن ہوجاتے۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔‘‘


’’تو کیا تم نے وہ گھر چھوڑدیا؟‘‘ جم نکولس یہ سوچ رہا تھا کہ لڑکی بات کا اصل جواب کس صفائی سے گول کرجاتی ہے۔


’’نہیں انکل! گھر تو وہی ہے مگر ہم نے پھوپھی کے گھر جانا چھوڑدیا۔‘‘


’’تو اس سے میری بات کے جواب کا کیا تعلق ہے؟‘‘ اس نے سبیکا کی بات کو سمجھ کر بھی سوال کیا ۔


’’ یہی کہ ہمیں بلا ضرورت آپ کے ملک میں۔۔۔۔‘‘


پھر مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان شروع ہوا تو ایک دن صبح وہ ناشتے کی میز پر سب کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔



’’ارے بھئی بھاوج! ولما! سبیکا!‘‘



کچھ دیر میں ولما نندا سی آنکھوں میں نیند کا خمار لیے کمرے میں آگئی۔



’’بھئی آج ناشتہ نہیں ملے گا کیا؟ کہو تو میں بنا دوں تمہارے لیے ناشتہ؟‘‘



’’نہیں انکل! سبیکا کے روزے شروع ہوگئے ہیں نا!‘‘



’’تو؟‘‘ وہ بڑ بڑایا۔



’’ تو یہ کہ آج پہلا روزہ ہے اور ہم سب نے سبیکا کے ساتھ روزہ رکھ لیا ہے۔‘‘



’’یعنی؟‘‘



’’یعنی آج ہم میں سے کوئی بھی ناشتہ نہیں کرے گا۔ کہیے تو آپ کے لیے ناشتہ بنا دوں؟‘‘



’’ نہیں بھئی رہنے دو۔ میں خود بنا لوں گا‘‘



اور پھر یہی سوچتے سوچتے اس نے بھائی کے گھر ٹیلیفون ملادیا۔ دو تین گھنٹیوں بعد ولما نے فون اٹھایا تو اس کی جان میں جان آئی۔ مختصر رسمی علیک سلک کے فوراً بعد وہ مطلب پر آگیا۔



’’بھئی ولما! وہ تمہاری پاکستانی مہمان ابھی ٹھہری ہوئی ہے یا واپس چلی گئی؟‘‘



’’انکل!‘‘ ولما نے ایک سسکی لی اور رونے لگی۔



’’ہائیں! کیا ہوا‘‘



جواب بڑی مشکل سے روتی ہوئی ولما کی زبان سے ٹکڑوں ٹکروں میں آیا جسے سن کر وہ خاموش ہوگیا۔ جانے کب تک ولما ہیلو ہیلو کرتی رہی اور جانے کب اس نے رسیور رکھ دیا۔ وہ یونہی فون کان سے لگائے کھڑا رہا۔ جانے کب دن کا اجالا رخصت ہوا اور جانے کب رات کا اندھیرا بڑی بڑی کھڑکیوں کے شیشوں سے اندر در آیا۔


وہ جسے چاہا گیا ۔ الطاف فاطمہ
 

فاخر

محفلین
انا لله و انا اليہ راجعون
الله ان كى مغفرت فرمائے آمین ثم آمین ۔ کئی ہندوستانی اخبارات میں بھی ان کے انتقال کی خبر شائع ہوئی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ مغفرت فرمائے۔ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی قبر کو روشن،ہودار،کشادہ اور ٹھنڈا رکھے۔ اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔ لواحقین کو صبرِ جمیل دے اور مرحومہ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور انھیں ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top