معروف صحافی و ادیب علی سفیان آفاقی آج شام 27 جنوری 2015 کو لاہور میں انتقال کرگئے‎

راشد اشرف

محفلین
معروف صحافی و ادیب علی سفیان آفاقی آج ستائیس جنوری 2015 کی شام پانچ بجے لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ چند دنوں سے علیل تھے۔ ان کی تشویش ناک حالت کی اطلاع گزشتہ کل راقم الحروف کو ڈاکٹر انور سدید کے ذریعے ملی تھی۔

علی سفیان آفاقی صاحب کا مختصر تعارف جریدہ مخزن کے دسویں اور آخری شمارے سے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔ آفاقی صاحب بائیس اگست 1933 کو وسط ہند کی مسلم ریاست بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے تھے۔
 

ساقی۔

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون

مجھے ان کے سفر نامے بہت پسند ہیں ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔
 

اوشو

لائبریرین
صحافی اور فلم ساز علی سفیان آفاقی انتقال کر گئے

150127233355_ali_sufyan_aafaqi01.jpg

معروف صحافی، فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نگار اور ادیب علی سفیان آفاقی منگل کی شام لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔
علی سفیان آفاقی 22 اگست 1933 کو بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ 14 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔
انھوں نے جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ تسنیم سے صحافت کی ابتدا کی لیکن جلد ہی یہ اخبار بند ہو گیا تو وہ ہفت روزہ چٹان میں کام کرنے لگے اور پھر نوائے وقت سے وابستہ ہو گئے۔
وہ 1953 میں روزنامہ آفاق سے وابستہ ہوئے۔
فلم ساز فاضلانی نے اپنی فلم میں نئی ہیروئن نگہت سلطانہ کو متعارف کرایا اور فلم باکس آفس پر کامیاب ہوگئی تو شوکت حسین رضوی نے نگہت کو اپنی فلم میں کام کرنے کے لیے لاہور بلا لیا۔
اس فلم میں نورجہاں ہیروئن تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں کچھ لوگوں نے نورجہاں کو بھڑکایا کہ نگہت شوکت رضوی پر ڈورے ڈال رہی ہے۔
نورجہاں نے اُسی وقت سٹوڈیو جا کر نہ صرف نگہت سلطانہ کو گالیاں دیں بلکہ مارا بھی اور سٹوڈیو سے بھی نکال دیا۔
سفیان آفاقی نے نگہت سلطانہ کا تفصیلی انٹرویو کیا جو دوسرے دن آفاق میں پورے صفحے پر شائع ہوا۔
پہلے تو مالکان نورجہاں کے اثر رسوخ کی بنا پر ناراض ہوئے لیکن جب انٹرویو کی وجہ سے اخبار کی دس ہزار سے زائد کاپیاں مزید شائع کرنی پڑیں تو اخبار میں فلم ایڈیشن کی باقاعدہ ابتدا کی گئی اور علی سفیان کو اُس کا انچارج بنا دیا گیا۔
آفاق سے وابستگی کی بنا پر ہی علی سفیان کے نام کے ساتھ آفاقی کا اضافہ ہوا۔
آفاقی نے 1957 میں فلموں کے لیے باقاعدہ کام کی ابتدا کی اور فلم ٹھنڈی سڑک کی کہانی لکھی۔ شباب کیرانوی کے لیے اس کامیڈی فلم نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
1958 میں جب جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگا اور اخبارات پر پابندیاں لگیں تو آفاقی صحافت چھوڑ کر مکمل طور پر فلموں کی طرف آ گئے۔
انھوں نے فلم ساز، ہدایت کار، مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے 38 فلمیں دیں۔
جن میں خاص طور سے ’آس‘، ’کنیز‘، ’میرا گھر میری جنت‘ بہت کامیاب رہیں۔
ان کی اپنی فلم ’آس‘ کو 1973 میں بہترین فلم، بہترین پروڈکشن، بہترین سکرپٹ اور بہترین مکالموں پر چار ایوارڈ حاصل ہوئے۔
ان کی دیگر فلموں میں فرشتہ، جوکر، تقدیر، عندلیب، دوستی، انتظار، اجنبی، آبرو، عاشی، آدمی، پلے بوائے، مس کولمبو اور کبھی الوداع نہ کہنا شامل ہیں۔
1989 میں انھوں نے لاہور سے ماہنامہ ہوش ربا ڈائجسٹ نکالا، بعد ازاں وہ ہفت روزہ فیملی میگزین سے بطور مدیر وابستہ ہوئے۔
1990 کی دہائی سے ہی انھوں نے کراچی سے نکلنے والے جریدے سرگزشت میں ’فلمی الف لیلہ‘ کے نام سے پاکستان کی فلمی دنیا کا احوال لکھنا شروع کیا۔ ان کی وفات تک اس سلسلے کی ڈھائی سو سے زیادہ اقساط شائع ہوچکی تھیں۔
علی سفیان آفاقی نے کئی سفرنامے اور کتابیں بھی لکھیں جو خاصی مقبول ہوئیں۔
ان کے سفرناموں میں یورپ کی الف لیلہ، طلسمات فرنگ، ذرا انگلستان تک، نیل کنارے، عجائباتِ فرنگ، امریکہ چلیں، ذرا انگلستان تک، کمال با کمال اور موم کا آدمی شامل ہیں۔
مرحوم آخر تک ہفت روزہ فیملی میگزین کے مدیر تھے۔

بی بی سی اردو
 

جاسمن

لائبریرین
انا لله وانا الیه راجعون. بهت اچھا لکھا انھوں نے. بھلے آدمی تھے. الله انھیں جنت الفردوس میں جگه دے. هر عذاب معاف فرمائے. قبر کو هوادار، اور کشاده کرے اور جنت کی کھڑکیاں کھول دے. لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور انھیں ان کے لئے صدقۂ جاریه بنائے. آمین!
 
Top