معروف ادیب و شاعر بلراج کومل کا انتقال

تعمیر

محفلین
معروف ادیب اور شاعر بلراج کومل انتقال کر گئے۔ خدا ان کی روح کو شانتی دے۔
حیرت کی بات ہے کہ گوگل سرچ کرنے پر کسی بھی انگریزی روزنامے میں اس خبر کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ حالانکہ انگریزی میڈیا غیرمسلم اردو قلمکاروں کی وفیات کو ترجیحا شائع کرتا ہے۔بیشتر اردو اخبارات نے بھی نظرانداز کیا ہے۔ صرف روزنامہ راشٹریہ سہارا میں شاید اس لیے خبر آئی کہ آنجہانی کا تعزیتی جلسہ دہلی اردو اکادمی نے منعقد کیا تھا۔
معروف ادیب بلراج کومل کا انتقال


اردو شعر و ادب کی معروف شخصیت ، ادیب ، شاعر ، نقاد اور افسانہ نگار بلراج کومل مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔
آنجہانی بلراج کومل 25/ ستمبر 1928 کو سیالکوٹ (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم وطن کے بعد انہوں نے دہلی کو اپنی رہائش گاہ بنایا اور اپنے علم ، محنت ، سچی لگن ، انکساری اور نرم گفتاری کے باعث لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔
ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی اردو شعر و ادب کی دنیا میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ اس سلسلے میں اردو اکیڈمی دہلی میں ایک تعزیتی میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں اکیڈمی سکریٹری انیس اعظمی کے علاوہ دیگر ذمہ داران و عہدیداران اور کئی علمی و ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ بلراج کومل کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اکیڈمی کے سکریٹری انیس اعظمی نے کہا کہ انجہانی بلراج کومل کا اکادمی سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ وہ بارہا اکادمی کی گورننگ کونسل کے رکن نامزد ہوئے۔ چونکہ ان کا تعلق ادب کے علاوہ محکمہ تعلیم سے بھی تھا اور دہلی کے تعلیمی اداروں سے ان کی گہری وابستگی تھی اس لیے تعلیم سے متعلق اکادمی کے منصوبوں کو کارگر بنانے میں انہوں نے جو گرانقدر مشورے دیے ان سے اکادمی آج تک فیضیاب ہو رہی ہے۔

بلراج کومل کا ادبی سفر تقسیم وطن کے ناگفتہ بہ حالات میں شروع ہوا۔ اردو ادب کے تئیں ان کے سنجیدہ رویہ کی وجہ سے ہی ان کا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہوتا تھا۔ بلراج کومل کو ہندوستان کی سب سے اعلیٰ اور موقر ادبی تنظیم ساہتیہ اکادمی نے ان کے شعری مجموعے "پرندوں بھرا آسمان" کو 1985 میں ایوارڈ سے نوازا تھا۔ 2011 میں انہیں حکومت ہند کی جانب سے پدم شری کا خطاب بھی ملا تھا۔ ان کی تصنیفات میں میری نظمیں ، رشتۂ دل ، اگلا ورق ، آنکھیں اور پاؤں (کہانیوں کا مجموعہ) اور ادب کی تلاش (تنقید) شامل ہیں۔ وہ ایک معروف مترجم بھی تھے۔ انہوں نے انگریزی ، ہندی ، اردو اور پنجابی کی تخلیقات ایک دوسری زبانوں میں منتقل کیے ہیں۔

بلراج کومل کی مشہور نظم "اکیلی" اردو محفل پر
 

الف عین

لائبریرین
بہت افسوس ہوا، ’تحریک‘ کے دفتر میں میں بھی ان سے مل چکا تھا، شاید 1970 میں۔ پیاری شخصیت کے اچھے شاعر تھے۔
 
Top