مطالعے کا زمانہ واپس لانا ہوگا ۔۔۔ مہرین نوید چاولہ

محمداحمد

لائبریرین
مطالعے کا زمانہ واپس لانا ہوگا
مہرین نوید چاولہ

جہاں تک مجھے یاد ہے، 15 برس قبل تک کتابیں زندگی کا ایک نہایت اہم جزو ہوا کرتی تھیں۔ آپ اسکول کے طالب علموں کو ستونوں سے ٹیک لگائے ایک ہاتھ میں ہیری پوٹر کی کتاب اور دوسرے ہاتھ میں لنچ دیکھتے تھے۔ گھر پر بڑی عمر کے افراد شام کو ناولوں یا رسالوں میں غرق ہوتے یا رات کے کھانے کے بعد باآواز بلند غالب یا اقبال کے اشعار پڑھتے۔

امریکا کے پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 1978ء سے لے کر اب تک مطالعے کا یہ رجحان کم ہوتا ہی دیکھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اسکول کے وہ طلبہ جنہیں پہلی جماعت میں مطالعہ کی بنیادی تعلیم دی جاتی ہے، وہ بھی چوتھی کلاس سے پہلے ٹھیک طرح سے تحریر کو پڑھ نہیں پاتے۔ افسوس کے ساتھ مطالعے کی کمی دماغی خلیوں پر بدترین اثرات، ہم گدازی، خود اعتمادی اور جذباتی ذہانت میں کمی کا باعث بنتی ہے، جبکہ والدین اور بچوں کا خیال رکھنے والے دیگر افراد اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں۔

بطور ایک ’او‘ لیول ٹیچر، میں اس بات پر زور دوں گی کہ مطالعے کے عمل میں ضروری نہیں صرف اور صرف کتابیں ہی شامل ہوں۔ لیکن کم از کم اخبار یا کالم پڑھنے کے لیے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی جائے، چونکہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا اس لیے اتنا مطالعہ بھی ان کے لیے کافی ہوگا۔ بہتر انداز میں اور مستقل مزاجی کے ساتھ مطالعہ آپ کو موجودہ اور ماضی کے حالات سے واقف رکھتا ہے، ساتھ ہی ثقافتی آگاہی میں اضافہ اور خود اظہاری کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔

میرے وہ طالب علم جن کے ذہن میں صرف کورس ورک ہی سوار رہتا ہے وہ بھی تحریر میں اور مناسب لفظوں کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرپاتے۔ چند میں تو خود اعتمادی کی بھی کمی ہوتی ہے۔ یہ قابلِ فہم بات بھی ہے کیونکہ وہ مختلف خیالات و عزائم اور لفظوں کے ذخیرے تک رسائی سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ مطالعہ ہی آپ کو یہ سکھاتا ہے کہ کس طرح چلنا ہے، کس طرح دوڑنا ہے اور کس طرح اڑنا ہے۔

بدقسمتی سے مطالعے میں کمی کی وجہ سوچنے کے طریقوں میں تبدیلی اور اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کا ابھار ہے، اور اس کمی نے بچوں اور بالغان دونوں کو ہی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ آج کے اس مسابقتی ماحول میں والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ٹیسٹ اور امتحانوں میں زیادہ سے زیادہ نمبر اٹھائیں۔ توجہ بچے کے گریڈ پر تو دی جاتی ہے لیکن اس کے حاصل کردہ علم پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ لہٰذا، اضافی مطالعہ جو بچے کو اس کے اسکول ورک سے بھٹکا سکتا ہے اس لیے اسے غیر ضروری اور بے فائدہ تصور کرلیا جاتا ہے۔

میرے طلبہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب میں نے انہیں مطالعہ کرنے کے لیے کتابوں کی فہرست دی۔ اس فہرست میں جارج اورویل سے لے کر لیو ٹالسٹائی، اور نائی پاؤل سے لے کر جھمپا لہری کی کتابیں شامل تھیں۔ طلبہ نے سوال کیا کہ، ’لیکن ان کتابوں کا مطالعہ ہمیں بہتر گریڈ لانے میں کس طرح مددگار ثابت ہوگا؟‘ جس پر میں نے جواب دیا کہ ’پڑھو اور پھر دیکھو۔‘ اور پھر ہر گزرتے ماہ کے ساتھ ان کے کام، بلکہ ان کی شخصیت میں بھی مطالعے کا اثر نظر آنے لگا۔ کتابیں بہتر گریڈ لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن ہمیں بہتر مطالعے پر توجہ علم و آگاہی کے لیے دینی چاہیے نہ کہ صرف بہتر گریڈز کے لیے۔

وہ والدین جنہوں نے سوچنے کے طریقوں میں تبدیلی کے باوجود (معجزانہ طور پر) خود کو اس تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے ان کے لیے سب سے بڑا دشمن سوشل میڈیا کی صورت میں موجود ہے۔ ستمبر میں دی ایٹلانٹک نے ایک مضمون شایع کیا، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح سوشل میڈیا کے ابھار نے مطالعے کے مشغلے کو منفی انداز میں متاثر کیا ہے اور تنہائی میں مطالعے میں غرق ہونے کے مشغلے یا کتابوں سے ملنے والی ثقافتی، تاریخی اور اخلاقی تعلیمات کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بجائے اب ہم مطالعہ ایسے کام کے طور پر لیتے ہیں، جو صرف اور صرف ٹیسٹ اور امتحان پاس کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

میں کلاس میں کبھی کبھی طلبہ کو ان کا فون استعمال کرتے ہوئے پکڑ لیتی ہوں، جنہیں شیکسپیئر کے ہملیٹ سے زیادہ اپنے فیس بک پر ملنے والے لائیکس میں دلچسپی ہوتی ہے۔ فورٹ نائٹ اور گرانڈ تھیفٹ آٹو جیسی نئی گیمز کے ساتھ اپنے بچے کی روٹین میں وقت کا توازن قائم رکھنے میں والدین کو اب شاید پہلے کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔

یہ تشویش ناک بات ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ انحصاری بچوں میں ابتدائی سنِ شعور کی تاخیر کا باعث بن چکی ہے۔ ایٹلانٹک کے مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح آج کے 18 برس کے بالغان بھی 15 سالہ بچے کی طرح پیش آتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے آس پاس ہونے والے حالات و واقعات سے ناواقفیت، جو مطالعے سے آتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری وجہ ہے زیادہ وقت تنہائی اور سوشل میڈیا پر گزارنا۔

ٹین (Teen) ڈپریشن اور خودکشی کی شرح اس وقت پہلے کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے اور یہ بات قابلِ فہم بھی ہے۔ ہمارے بچوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ خود سے ملنے، مناسب ورزش اور مطالعے جیسی اہم ترین عادات کو ترک کردیا ہے۔ ہمارے بدلتے کلچر کی توجہ اپنی تلاش (self actualisation) کے بجائے سطحی طرزِ زندگی، گلیمر سے بھرپور سیلفیوں اور شہرت پر مرکوز ہے۔ ہمیں خود کو بچانے کے لیے کتابوں کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنے اندر مطلوبہ علم و فہم اور حوصلہ پیدا کریں، جو ہمیں خود سے باوفا رکھنے میں مدد کرے۔

یہ نہایت ضروری ہے کہ والدین اور ٹیچرز مطالعے کو ایک کام کے بجائے ترجیح بنائیں۔ والدین خود مطالعہ کرکے بچوں کے لیے مثال بنیں۔ ماہانہ کتاب یا روزنامے کا بندوبست آسانی سے ہوسکتا ہے۔ بچے سزاؤں اور ڈانٹ ڈپٹ سے زیادہ بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ابتدائی مرحلے میں ہی مطالعے کا مشغلہ اختیار کرلینا چاہیے تاکہ بڑھتی عمر کے ساتھ مطالعے کی عادتیں مزید پختہ ہوسکیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑے بچوں کے لیے سوشل میڈیا اور گیمنگ کا وقت محدود کردیں۔ ابتدائی طور پر یہ وقت روزانہ ایک گھنٹے تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ ٹیچرز انتظامیہ کی زیرِ نگرانی تعلیمی ماحول میں اپنے مطالعے کے تجربات طالب علموں کو بتاسکتے ہیں، کتاب کلبس کو قائم کرسکتے ہیں اور کلاس کے دوران بک ریویوز کا اہتمام بھی کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنے کے لیے کلاس میں موجودہ حالات پر مبنی مضامین کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ان کاموں میں وقت اور محنت درکار ہوگی لیکن اس کے اثرات زبردست ہوں گے۔ ہمیں ترقی کے لیے مطالعہ کرنا ہوگا ورنہ ہم بطور ایک کمیونٹی اور بالآخر بطور ایک ملک پیچھے رہ جائیں گے۔ کچھ بھی نہ پڑھنے سے بہتر ہے کہ دیر سے ہی صحیح کسی اچھی تحریر کو پڑھنے کی ابتدا کی جائے۔

یہ مضمون 4 نومبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

بشکریہ ڈان نیوز
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے مجھے یہ لگتا ہے کہ بہت سے پاکستانی جو پہلے دن بھر میں ایک سطر بھی نہیں پڑھتے تھے اب وٹس ایپ اور فیس بک کی بدولت چار پانچ سو الفاظ تو روز کے پڑھ ہی لیتے ہوں گے۔

یہ البتہ الگ بات ہے کہ ایسی تحاریر کا معیار انتہائی خراب ہوا کرتا ہے اور اُن میں سے اکثر کسی نہ کسی "پراپیگنڈہ وار" کا حصہ ہوتی ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
یہ البتہ الگ بات ہے کہ ایسی تحاریر کا معیار انتہائی خراب ہوا کرتا ہے اور اُن میں سے اکثر کسی نہ کسی "پراپیگنڈہ وار" کا حصہ ہوتی ہیں۔
اسی سے متعلقہ کہ ماضی کی جس کتب بینی کا حوالہ دیا جاتا ہے اس سلسلے میں عوامی رجحانات کیا تھے؟
ایک تحریر
مکمل متفق ہونا تو ضروری نہیں البتہ ایک اچھے پہلو کی جانب راہ ضرور دکھاتی ہے.
کتاب بے زاری سے پرائم منسٹر ہاؤس یونیورسٹی تک

سعید ابراہیم



191630_2687872_updates.JPG

یہ محض بہانہ ہے کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے کتاب سے دور کردیا ہے۔

سماج کا علم و عمل اور غوروفکر سے رشتہ ٹوٹ جائے تو پھر روزمرہ بولی جانے والی زبان میں بہت سے لفظ لاشوں میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے انسانیت، خدمت، ایثار، قربانی، حُب الوطنی، مقصدیت وغیرہ وغیرہ۔ ایسے الفاظ کلیشے کہلاتے ہیں، جو لکھنے پڑھنے اور بولنے میں تو بڑے بھاری بھرکم ہوتے ہیں مگر تاثیر سے خالی۔ دیکھتے دیکھتے ان میں ایک اور لفظ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اور وہ لفظ ہے مطالعہ۔

علم کو جب سے ہم نے جدت کے شوق میں نالج کہنا شروع کیا ہے، اس کا مفہوم بھی اتنا اُتھلا اور سطحی ہوگیا کہ ہم نے بری بھلی انفارمیشن کو ہی نالج سمجھ لیا ہے۔ جب کہ انفارمیشن تو سراسر علم کا خام مال ہے جس سے غور و فکر کے بعدعلم کشید کیا جاتا ہے۔

بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی نے علم کے بہت سے نئے ذرائع متعارف کروا دئیے ہیں جن کی بنا پر ہم پڑھنے کے علاوہ سن اور دیکھ کر بھی بہت سی اہم جانکاری حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ سب مطالعہ کا نعم البدل ہرگز نہیں بن سکتے۔ مطالعے اور کتاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

اکثر سننے میں آتا ہے کہ ہمارے ہاں بھلے وقتوں میں کتابیں پڑھنے کا بڑا رواج تھا۔ گلی گلی آنہ لائبریریاں کھلی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان لائبریریوں سے سوائے چسکے دار کتابوں کے اور کیا دستیاب تھا۔ ظاہر ہے لائبریری والا فلسفے، تاریخ، تنقید اور سائنسی تحقیق کی کتابیں کیوں رکھے کہ ان کا کوئی طلبگار ہی نہیں تھا۔ کچے پکے ذہن تو کسی نہ کسی صورت جبلتوں کی تسکین کے سامان کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آج وہ ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو کل جبلتوں کو انگیخت کرنے والی کتابیں اور باتصویر مجلے ڈھونڈا کرتے تھے۔ اکثر کچے اذہان منٹو اور عصمت کو بھی اسی غرض سے پڑھا کرتے تھے، ہاں یہ الگ بات کہ ذہنی بلوغت نے یہ احساس دلا دیا ہو کہ ان افسانہ نگاروں کے لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا۔



مطالعے کی عادت کے جڑھ پکڑنے کے دو ہی مراکز ہیں، ایک گھر اور دوسرا اسکول۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی دونوں مراکز بچے کو مطالعے سے بیزار کرنے میں پیش پیش رہے۔ میں اکثر اپنے رشتہ داروں اور رابطہ میں آنے والے طلباء حتّیٰ کہ اساتذہ نامی مخلوق سے ایک سوال کیا کرتا ہوں کہ ان کے گھر میں کتنی اور کس طرح کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ ان کا عمومی جواب ہوتا ہے، تین چار اور وہ بھی مذہبی نوعیت کی۔یا پھر پرانے ڈائجسٹ۔ خال ہی کوئی ایسا ملا جس کے گھر میں کتابوں کا معقول ذخیرہ ہو اور وہ بھی اس لیے کہ گھر میں کوئی ایک فرد ہوتا ہے جس نے مطالعے کا شوق پال رکھا ہوتا ہے۔ ورنہ جواب دینے والا تو یہ بتانے سے بھی قاصر ہوتا ہے کہ ان کتابوں کی نوعیت کیا ہے۔

ڈائجسٹ سے یاد آیا ستر کی دہائی میں ’سب رنگ‘ کے تتبع میں رنگا رنگ ڈائجسٹوں کی وباء چلی تھی، جو ہزاروں کی تعداد میں چھپا کرتے اور پڑھے بھی جاتے۔ ان میں مقابلے پر مافوق الفطرت طاقتوں کے مالک کرداروں کی کہانیاں شائع ہوتیں اور یا پھر تاریخی ادب کے نام پر تاریخ سے کھلواڑ کیا جاتا۔ تاریخ کو چٹخارے کا ذائقہ دے کر قارئین کو تاریخ کے بارے میں گمراہ کرنے کا کامیاب تجربہ ہمارے نسیم حجازی پہلے ہی کرچکے تھے۔

ان سب کے باوصف حقائق کے جویا کچھ ایسے جنونی بھی تھے جو فلسفہ، تاریخ اور تنقیدی شعور کو بڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ ان میں نیاز فتحپوری، سبطِ حسن ، علی عباس جلالپوری اور ڈاکٹر مبارک علی کے نام لیے جاسکتے ہیں جنہوں نے بلاشبہ مطالعے کی سنجیدہ روایت کو راسخ کیا۔ ورنہ تو ہم نے فکشن اور شاعری پڑھنے کو ہی مطالعہ سمجھ رکھا تھا۔

یہ والدین، اساتذہ اور تعلیمی نصاب تھے جو بچے کو سنجیدہ مطالعے کی جانب مائل کرسکتے تھے، مگر تینوں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا۔ والدین اور اساتذہ کی عظیم اکثریت کو تو خیر مطالعے کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں جبکہ نصابِ تعلیم مرتب کرنے والوں کی اُتم کوشش یہی رہی کہ بچے کو شروع میں ہی کتاب سے بیزار کردیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اس پر قومی زبان کے نام پر ایک اجنبی زبان لاگوکردی جائے جو بچے کو اس کی اپنی مادری زبان کے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے ابتدا ہی سے اس کا اعتماد چھین لے اور دوسرا یہ کہ کتابوں میں ایسا مواد بھرتی کیا جائے جس کا بچے کے حقیقی تجربات سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ مزید یہ کہ زبان کا استعمال اتنا بے رس اور جنّاتی ہو کہ رٹاّ لگانا مجبوری بن جائے۔ اور یوں مطالعہ ایک بے زار کن تجربہ بن کر رہ جائے۔

اگرچہ قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق ہر سرکاری اسکول میں لائبریری کا ہونا شرط ہے مگر علم سےبیزار اساتذہ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بچے ادھر کا رُخ ہرگز نہ کریں۔ یہ محض بہانہ ہے کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے کتاب سے دور کردیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یوروپ میں بہت پہلے کتابوں کی اشاعت اور مطالعہ قصۂ پارینہ ہوچکے ہوتے۔ بات یہ ہے لوگوں کو جان بوجھ کر مطالعے کی عادت سے دور رکھا گیا ۔مبادہ وہ ایسی کتابیں پڑھنے لگیں جو اُن میں تنقیدی شعور جگا دیں اور وہ حکمرانوں سے اپنے حقوق اور ان کے فرائض کا حساب کتاب طلب کرنے لگیں۔

کوشش یہی کی گئی اور وہ کامیاب بھی رہی کہ عوام النّاس کو جذباتیت اور جہالت کی رَو سے باہر نہ آنے دیا جائے۔ تعلیمی نصاب کو ان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق مرتب کرنے اور انھیں تعلیم دینے کی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے اب کوشش یہ ہے کہ پرائم منسٹر اور گورنر وں کی رہائش گاہوں کو یونیورسٹیوں میں بدلنے جیسے نمائشی اور آرائشی اقدامات کی ’خوش خبریاں‘ سنا کر عوام کو مزید بے وقوف بنایا جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اسی سے متعلقہ کہ ماضی کی جس کتب بینی کا حوالہ دیا جاتا ہے اس سلسلے میں عوامی رجحانات کیا تھے؟
ایک تحریر
مکمل متفق ہونا تو ضروری نہیں البتہ ایک اچھے پہلو کی جانب راہ ضرور دکھاتی ہے.
کتاب بے زاری سے پرائم منسٹر ہاؤس یونیورسٹی تک

سعید ابراہیم



191630_2687872_updates.JPG

یہ محض بہانہ ہے کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے کتاب سے دور کردیا ہے۔

سماج کا علم و عمل اور غوروفکر سے رشتہ ٹوٹ جائے تو پھر روزمرہ بولی جانے والی زبان میں بہت سے لفظ لاشوں میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے انسانیت، خدمت، ایثار، قربانی، حُب الوطنی، مقصدیت وغیرہ وغیرہ۔ ایسے الفاظ کلیشے کہلاتے ہیں، جو لکھنے پڑھنے اور بولنے میں تو بڑے بھاری بھرکم ہوتے ہیں مگر تاثیر سے خالی۔ دیکھتے دیکھتے ان میں ایک اور لفظ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اور وہ لفظ ہے مطالعہ۔

علم کو جب سے ہم نے جدت کے شوق میں نالج کہنا شروع کیا ہے، اس کا مفہوم بھی اتنا اُتھلا اور سطحی ہوگیا کہ ہم نے بری بھلی انفارمیشن کو ہی نالج سمجھ لیا ہے۔ جب کہ انفارمیشن تو سراسر علم کا خام مال ہے جس سے غور و فکر کے بعدعلم کشید کیا جاتا ہے۔

بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی نے علم کے بہت سے نئے ذرائع متعارف کروا دئیے ہیں جن کی بنا پر ہم پڑھنے کے علاوہ سن اور دیکھ کر بھی بہت سی اہم جانکاری حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ سب مطالعہ کا نعم البدل ہرگز نہیں بن سکتے۔ مطالعے اور کتاب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

اکثر سننے میں آتا ہے کہ ہمارے ہاں بھلے وقتوں میں کتابیں پڑھنے کا بڑا رواج تھا۔ گلی گلی آنہ لائبریریاں کھلی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان لائبریریوں سے سوائے چسکے دار کتابوں کے اور کیا دستیاب تھا۔ ظاہر ہے لائبریری والا فلسفے، تاریخ، تنقید اور سائنسی تحقیق کی کتابیں کیوں رکھے کہ ان کا کوئی طلبگار ہی نہیں تھا۔ کچے پکے ذہن تو کسی نہ کسی صورت جبلتوں کی تسکین کے سامان کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے آج وہ ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو کل جبلتوں کو انگیخت کرنے والی کتابیں اور باتصویر مجلے ڈھونڈا کرتے تھے۔ اکثر کچے اذہان منٹو اور عصمت کو بھی اسی غرض سے پڑھا کرتے تھے، ہاں یہ الگ بات کہ ذہنی بلوغت نے یہ احساس دلا دیا ہو کہ ان افسانہ نگاروں کے لکھنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا۔



مطالعے کی عادت کے جڑھ پکڑنے کے دو ہی مراکز ہیں، ایک گھر اور دوسرا اسکول۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی دونوں مراکز بچے کو مطالعے سے بیزار کرنے میں پیش پیش رہے۔ میں اکثر اپنے رشتہ داروں اور رابطہ میں آنے والے طلباء حتّیٰ کہ اساتذہ نامی مخلوق سے ایک سوال کیا کرتا ہوں کہ ان کے گھر میں کتنی اور کس طرح کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ ان کا عمومی جواب ہوتا ہے، تین چار اور وہ بھی مذہبی نوعیت کی۔یا پھر پرانے ڈائجسٹ۔ خال ہی کوئی ایسا ملا جس کے گھر میں کتابوں کا معقول ذخیرہ ہو اور وہ بھی اس لیے کہ گھر میں کوئی ایک فرد ہوتا ہے جس نے مطالعے کا شوق پال رکھا ہوتا ہے۔ ورنہ جواب دینے والا تو یہ بتانے سے بھی قاصر ہوتا ہے کہ ان کتابوں کی نوعیت کیا ہے۔

ڈائجسٹ سے یاد آیا ستر کی دہائی میں ’سب رنگ‘ کے تتبع میں رنگا رنگ ڈائجسٹوں کی وباء چلی تھی، جو ہزاروں کی تعداد میں چھپا کرتے اور پڑھے بھی جاتے۔ ان میں مقابلے پر مافوق الفطرت طاقتوں کے مالک کرداروں کی کہانیاں شائع ہوتیں اور یا پھر تاریخی ادب کے نام پر تاریخ سے کھلواڑ کیا جاتا۔ تاریخ کو چٹخارے کا ذائقہ دے کر قارئین کو تاریخ کے بارے میں گمراہ کرنے کا کامیاب تجربہ ہمارے نسیم حجازی پہلے ہی کرچکے تھے۔

ان سب کے باوصف حقائق کے جویا کچھ ایسے جنونی بھی تھے جو فلسفہ، تاریخ اور تنقیدی شعور کو بڑھانے کے لیے کوشاں تھے۔ ان میں نیاز فتحپوری، سبطِ حسن ، علی عباس جلالپوری اور ڈاکٹر مبارک علی کے نام لیے جاسکتے ہیں جنہوں نے بلاشبہ مطالعے کی سنجیدہ روایت کو راسخ کیا۔ ورنہ تو ہم نے فکشن اور شاعری پڑھنے کو ہی مطالعہ سمجھ رکھا تھا۔

یہ والدین، اساتذہ اور تعلیمی نصاب تھے جو بچے کو سنجیدہ مطالعے کی جانب مائل کرسکتے تھے، مگر تینوں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا۔ والدین اور اساتذہ کی عظیم اکثریت کو تو خیر مطالعے کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں جبکہ نصابِ تعلیم مرتب کرنے والوں کی اُتم کوشش یہی رہی کہ بچے کو شروع میں ہی کتاب سے بیزار کردیا جائے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اس پر قومی زبان کے نام پر ایک اجنبی زبان لاگوکردی جائے جو بچے کو اس کی اپنی مادری زبان کے بارے میں احساسِ کمتری میں مبتلا کرکے ابتدا ہی سے اس کا اعتماد چھین لے اور دوسرا یہ کہ کتابوں میں ایسا مواد بھرتی کیا جائے جس کا بچے کے حقیقی تجربات سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ مزید یہ کہ زبان کا استعمال اتنا بے رس اور جنّاتی ہو کہ رٹاّ لگانا مجبوری بن جائے۔ اور یوں مطالعہ ایک بے زار کن تجربہ بن کر رہ جائے۔

اگرچہ قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق ہر سرکاری اسکول میں لائبریری کا ہونا شرط ہے مگر علم سےبیزار اساتذہ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بچے ادھر کا رُخ ہرگز نہ کریں۔ یہ محض بہانہ ہے کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی نے کتاب سے دور کردیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یوروپ میں بہت پہلے کتابوں کی اشاعت اور مطالعہ قصۂ پارینہ ہوچکے ہوتے۔ بات یہ ہے لوگوں کو جان بوجھ کر مطالعے کی عادت سے دور رکھا گیا ۔مبادہ وہ ایسی کتابیں پڑھنے لگیں جو اُن میں تنقیدی شعور جگا دیں اور وہ حکمرانوں سے اپنے حقوق اور ان کے فرائض کا حساب کتاب طلب کرنے لگیں۔

کوشش یہی کی گئی اور وہ کامیاب بھی رہی کہ عوام النّاس کو جذباتیت اور جہالت کی رَو سے باہر نہ آنے دیا جائے۔ تعلیمی نصاب کو ان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق مرتب کرنے اور انھیں تعلیم دینے کی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے اب کوشش یہ ہے کہ پرائم منسٹر اور گورنر وں کی رہائش گاہوں کو یونیورسٹیوں میں بدلنے جیسے نمائشی اور آرائشی اقدامات کی ’خوش خبریاں‘ سنا کر عوام کو مزید بے وقوف بنایا جائے۔

اچھا آرٹیکل ہے ۔

لیکن پس پردہ سیاسی مقاصد تحریر کو یکطرفہ بنا رہے ہیں۔

بہت سی باتیں درست بھی ہیں البتہ!

جہاں تک رسالوں ڈائجسٹوں کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ اس قسم کی چیزیں جو نوجوانی میں دلچسپ معلوم ہوتی ہیں انسان کے مطالعے کی عادت کو پختہ بنانے میں مدد دیتی ہیں، اور انہی چیزوں سے شروع کرنے والے نہ جانے کیا کیا پڑھ جاتے ہیں۔

مطالعے کا مذاق پیدا ہونے کے بعد کون کیا کیا پڑھے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اچھا آرٹیکل ہے ۔

لیکن پس پردہ سیاسی مقاصد تحریر کو یکطرفہ بنا رہے ہیں۔

بہت سی باتیں درست بھی ہیں البتہ!

جہاں تک رسالوں ڈائجسٹوں کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ اس قسم کی چیزیں جو نوجوانی میں دلچسپ معلوم ہوتی ہیں انسان کے مطالعے کی عادت کو پختہ بنانے میں مدد دیتی ہیں، اور انہی چیزوں سے شروع کرنے والے نہ جانے کیا کیا پڑھ جاتے ہیں۔

مطالعے کا مذاق پیدا ہونے کے بعد کون کیا کیا پڑھے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
درست ہے۔ جتنا مطالعے میں ہمہ جہتی ہو گی اتنا ہی سوچ اور فکر میں نکھار آئے گا۔
رسالے اور ڈائجسٹ بھی سوچ کو ایک نیا رخ دیتے ہیں۔
 
جتنا مطالعے میں ہمہ جہتی ہو گی اتنا ہی سوچ اور فکر میں نکھار آئے گا۔
بالکل درست
کیا زمانہ یاد آ گیا
کیمیاء کی کتاب میں اشتیاق احمد کا ناول اور کان دروازے کی آہٹ پر۔
کتنے ہمہ جہت لمحات ہوتے تھے۔
 
بھیا یہ بھی حقیقت ہے کہ وقت یکساں نہیں رہتا ۔
ایک وقت تھا جب ہم رات دیر تک ڈائجسٹ پڑھا کرتے تھے ۔ماہنامہ سلسلے وار ناول ذوق شوق سے مطالعہ کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا ۔آہ اب وہ پہلے جیسی فرصتیں نہیں رہی ۔زندگی کے کئی ایک معاملات میں ہم اب تبدیلی لاچکے ہیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بالکل درست
کیا زمانہ یاد آ گیا
کیمیاء کی کتاب میں اشتیاق احمد کا ناول اور کان دروازے کی آہٹ پر۔
کتنے ہمہ جہت لمحات ہوتے تھے۔
ہاہاہا۔ میں نے ایسا انٹر کے امتحانات میں کیا تھا۔ بڑے بھائی قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ پڑھ رہے تھے اور جو کتاب وہ پڑھیں، وہ میں نے بھی پڑھنی ہوتی تھی۔ انھوں نے کہا پیپرز کے بعد لے لینا۔ لیکن پیپر ختم ہونے میں کافی دن تھے سو جہاں جہاں موقع ملتا تھا ان کے کمرے سے چوری کر کے پڑھتی تھی ۔ نتیجہ پیپر ختم ہونے سے پہلے شہاب نامہ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بالکل درست
کیا زمانہ یاد آ گیا
کیمیاء کی کتاب میں اشتیاق احمد کا ناول اور کان دروازے کی آہٹ پر۔
کتنے ہمہ جہت لمحات ہوتے تھے۔
ویسے کیا یہ درست نہیں؟
مجھے اپنے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ میں نے سکول، کالج کے دنوں میں بچوں کی کتابوں سے لے کر عمران سیریز، جاسوسی و سپنس ڈائجسٹ، ریڈرز ڈائجسٹ، نیوز لیٹرز، ہفتہ وار میگزین، کرنٹ افیئرز ڈائجسٹ وغیرہ جو پڑھے ہیں، ان کی وجہ سے مجھے بہت کچھ سمجھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔
 

فاخر

محفلین
کتابوں سے عدم دلچسپی صرف سرحد پار کا ہی المیہ نہیں ہے ،بلکہ اس کی زد میں ادھر کے بھی لوگ ہیں ۔ جب سے نیٹ اور فیس بک واٹس ایپ کی لعنت عام ہوئی ہے لوگوں نے کتاب پڑھنا ہی چھوڑ دیا ۔ اتنا تو ستم تو تھا ہی اس پر مستزاد یہ کہ پی ڈی ایف کلچر نے کتاب پڑھنے والے طبقہ کو اور بھی متاثر کیا۔ نوبت ایں جا رسید کہ کتابیں اب لائبریری کی زینت بن کر رہ گئی ہیں اور اب اسی لائبریری میں کھڑے ہوکر مخطوطات کی الماریوں کے درمیان کی سیلفی شوق سے بناتے ہیں اور اس کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں ۔ پڑھنے والوں کا مذاق اور مزاج ہی بدل گیا شکوہ نئی نسل سے ہے اور ہم بھی اسی زمرے میں ہیں ۔
 

فہد اشرف

محفلین
اچھا اس بارے میں شماریات کیا کہتی ہے؟
کیا کسی کے پاس ڈیٹا ہے کہ 90 کی دہائی میں ہندوستان/ پاکستان (یا کسی اور ملک) میں سالانہ کتنی کتابیں چھپتی یا بکتی تھیں اور اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں کتنی کتابیں چھپ اور بک رہی ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
بہت زبردست مضمون ہے۔ سب حقائق ہیں لیکن جہاں تک میں سمجھتی ہوں۔۔۔۔خدانخواستہ۔۔۔یہ تبدیلیاں بڑھیں گی تو سہی۔۔۔اب مشکل ہی ہے کہ لوگ پھر سے مطالعہ کی طرف مائل ہوں۔
جب اساتذہ اور والدین دونوں ہی کتاب کی بجائے فیس بک اور دیگر پہ بیٹھے رہتے ہوں۔۔۔ایسے میں ہم کیا توقع کریں گے۔ ہے تو یہ بہت اداس اور پریشان کرنے والی بات لیکن ایسا ہی ہے۔
ایسے میں سطحی علم رکھنے والی نسل تیار ہورہی ہے۔
مجھے کئی بار ایسے نوجوانوں سے انٹرویوز لینے کا اتفاق ہوا کہ جن کی تعلیمی قابلیت ایم اے/ایم ایس سی/ بی ایس/ ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تھی۔ وزیراعظم کا نام بھی کئی لوگ نہیں بتا پائے۔ اسلام کے حوالہ سے انتہائی ابتدائی معلومات بھی نہیں۔ اور اپنے مضمون کے حوالہ سے بھی بہت ہی افسوسناک صورتحال۔
فیصد معلوم کرنا تک نہیں آتی۔
کیا کریں ایسے حالات میں!!
بس تھکتے ہیں۔۔۔حوصلہ ہارتے ہیں ۔۔۔پھر سے حوصلہ کرتے ہیں اور خود میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے ارد گرد کو کسی حد تک ۔۔۔
 
بہت زبردست مضمون ہے۔ سب حقائق ہیں لیکن جہاں تک میں سمجھتی ہوں۔۔۔۔خدانخواستہ۔۔۔یہ تبدیلیاں بڑھیں گی تو سہی۔۔۔اب مشکل ہی ہے کہ لوگ پھر سے مطالعہ کی طرف مائل ہوں۔
جب اساتذہ اور والدین دونوں ہی کتاب کی بجائے فیس بک اور دیگر پہ بیٹھے رہتے ہوں۔۔۔ایسے میں ہم کیا توقع کریں گے۔ ہے تو یہ بہت اداس اور پریشان کرنے والی بات لیکن ایسا ہی ہے۔
ایسے میں سطحی علم رکھنے والی نسل تیار ہورہی ہے۔
مجھے کئی بار ایسے نوجوانوں سے انٹرویوز لینے کا اتفاق ہوا کہ جن کی تعلیمی قابلیت ایم اے/ایم ایس سی/ بی ایس/ ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تھی۔ وزیراعظم کا نام بھی کئی لوگ نہیں بتا پائے۔ اسلام کے حوالہ سے انتہائی ابتدائی معلومات بھی نہیں۔ اور اپنے مضمون کے حوالہ سے بھی بہت ہی افسوسناک صورتحال۔
فیصد معلوم کرنا تک نہیں آتی۔
کیا کریں ایسے حالات میں!!
بس تھکتے ہیں۔۔۔حوصلہ ہارتے ہیں ۔۔۔پھر سے حوصلہ کرتے ہیں اور خود میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے ارد گرد کو کسی حد تک ۔۔۔
آپا جی یہ بڑی تلخ حقیقت ہے ، قابلیت کے نام پر علم کا قتل عام ہو رہا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کافی حد تک درست ہے۔ آجکل کی جوان نسل سوائے نصابی کُتب کے کسی اور کتاب میں بالکل دھیان نہیں دیتی۔ سارا وقت سکرینز کے سامنے ضائع کر رہے ہیں۔
 
Top