مشہور شخصیات کی قیمتی یادیں 2

عین عین

لائبریرین
کراچی میں مقیم معروف شاعر، ادیب، مترجم اور ماہر تعلیم اور درویش صفت انسان پروفیسر آفاق صدیقی کی یادوں میں محفوظ ایک واقعہ!
گفت گو : عارف عزیز
”انسانی زندگی میں حسن وجمال کی بے حد قدرو قیمت ہے، خاص طور پر حُسن وجمال کی کیفیات کو دنیا بھر کے ادب میں سمیٹا گیا اور نثر اور نظم میں اسے بے شمار برتا گیا۔ اس موضوع پر بہت لکھا گیا اور لکھا جائے گا۔“ نام ور شاعر، نقاد، محقق اور استاد پروفیسر آفاق صدیقی اپنی زندگی کے اثر انگیز واقعے کی بابت دریافت کرنے پر یوں گویا ہوئے۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا:
” یہ اُس وقت کا قصہ ہے جب میں کم عمر تھا۔ یہ واقعہ میری زندگی کی چند بہترین یادوں میں سے ایک ہے۔ آج بھی میں اس کے اثر سے باہر نہیں آسکا۔ ان دنوں میں ہندوستان کے قصبے مین پوری کے مشنری اسکول میں پڑھتا تھا۔ ایک روز اسکول سے لوٹا تو باہر سے دیکھا کہ ابّا (مولوی محمد اسحاق) کے ساتھ عجیب و غریب شخص بیٹھا ہوا ہے جس کی ہیئت اور شکل و صورت نے مجھے عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیا۔ میں نے گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہی دوڑ لگا دی اور اپنی بڑی بہن کے پاس پہنچ کر ان سے بولا، ’آپاآپادیکھیں ابّا کے پاس کوئی بھوت بیٹھا ہے۔‘ میری بہن نے حیرت سے مجھے دیکھا، اٹھ کر باہر جھانکا اور اطمینان سے بیٹھ گئیں۔ اتنی دیر میں والد صاحب بھی وہاں آگئے، بہن نے انہیں کہا ’ابّا آپ کا بیٹا ڈر گیا ہے۔‘ والد صاحب نے مجھ سے دریافت کیا ’کیوں کیا بات ہوئی؟‘ میں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ کے ساتھ جو شخص بیٹھا تھا، وہ مجھے بھوت لگتا ہے۔ میری بات سن کر وہ بہت ہنسے اور پھر بتایا کہ وہ جگر صاحب تھے، بہت بڑے شاعر ہیں۔ اسی طرح کئی اور باتیں ان کے بارے میں مجھے بتائیں۔“
اس بات کو چند ہی روز گزرے تھے کہ آفاق صدیقی کو ان کے والد صاحب ایک مشاعرے میں لے گئے جہاں جگر مراد آبادی بھی موجود تھے۔ اس مشاعرے میں پہلی مرتبہ جگر صاحب کا کلام ان کے مخصوص ترنم کے ساتھ سننے کا موقع ملا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے حُسن وجمال سے متعلق ایک نئی بات معلوم ہوئی۔ میں نے جانا کہ حُسن فقط دیدنی نہیں بلکہ یہ ہمارے محسوسات کا معاملہ بھی ہے۔ اس روز معلوم ہوا کہ حُسن کی بعض صورتیں صرف محسوس کی جاسکتی ہیں۔ اس کی مثال خوش بو ہے جو نظر میں نہیں سماتی، جسے چُھوا نہیں جاسکتا، لیکن ہم سانسوں کے ذریعے اس کا ادراک کرلیتے ہیں اور اس کے ان دیکھے وجود کو سراہتے ہیں۔ یہ بات مجھ جیسے کم عمر کے لیے معمولی نہیں تھی۔ عمر کے اس دور میں میں حسن و جمال کی بابت جس تصور سے آگاہ ہوا، اس نے آج بھی میرا احاطہ کر رکھا ہے۔“
جگر مراد آبادی کی شاعری اور ان کے مخصوص ترنم نے آفاق صدیقی کو اتنا متاثر کیا کہ وہ مشاعروں میں ان کا ترنم اپناتے اور اشعار سناتے رہے۔ آفاق صدیقی کے مطابق خود جگر صاحب بھی ان سے اپنی غزلیں ترنم کے ساتھ سنتے اور انہیں خوب داد دیتے۔
(روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شایع ہوا)
 
Top