گرمی کی ایک چلچلاتی دوپہر کا واقعہ
سپریم کورٹ کے وسیع و عرض صحن سے گزرتے ہوئے اچانک وہ ٹھہر گیا۔ سامنے والا کمرہ جیوری کے معزز حکام کا کمرہ تھا۔ اس نے اپنی نکٹائی درست کی۔ خوبصورت سلیٹی کلر کے جیمنی بریف کیس کو، جسے اس نے سوئزرلینڈ کے 25سالہ ورک شاپ سے خریدا تھا، داہنے ہاتھ میں تھام لیا اور اس جانب دیکھنے لگا جدھرسے پولیس کے دو سپاہی ایک منحنی سے آدمی کو ہتھکڑی پہنائے لئے جا رہے تھے۔
سموئل یہ بھی آدمی ہے۔ ۔ ۔ وہ بے اختیار ہو کر ہنسا ____جیسے اس دبلے پتلے سے آدمی کو ہتھکڑیوں میں دیکھتے ہوئے ہنسنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔
’’آدمی۔ ۔ ۔ تم کیا سمجھتے ہو سموئل، اس نے کوئی جرم کیا ہوگا۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہو۔ یہ آدمی ایک مکھی بھی نہیں مارسکتا۔
’’آپ کا دعویٰ صحیح ہے یورآنر، سموئل نے قدرے کھل کر اس کی طرف دیکھا____‘‘
’’یہ مکھی بھی نہیں مار سکتا۔ مگر پچھلے دنوں آپ نے وہ چرچا سنی ہوگا۔ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ اپنی سگی دو بیٹیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کیا یہ شخص۔ ۔ ۔ ‘‘
سموئل نے سر کو جنبش دی۔ ’’یور آنر، یہ وہی شخص ہے۔‘‘
***
منحنی سادبلا پتلا آدمی۔ چہرہ عام چہرے جیسا____ آگے کے بال ذرا سااُڑے ہوئے___ بالوں پر سفیدی نمایاں ہو چکی تھی۔ سانولارنگ، کرتا پائجامہ پہنے۔ ایک ہاتھ سے اپنے چہرے کو بہت ساری چبھنے والی نگاہوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہی اسے لے کر کورٹ روم میں داخل ہو گئے۔
اس نے گھڑی دیکھی۔ ’’بینک تو بارہ بجے بند ہوتا ہے نا۔ ۔ ۔
’’یس یورآنر‘‘
’’مجھے یورآنر مت کہا کرو۔ میں ہوں نا، ایک بہت عام سا آدمی۔ معمولی آدمی، کہتے کہتے وہ ٹھہرا___ تم نے کبھی اس طرح کا کوئی مقدمہ دیکھا ہے سموئل؟
’’نہیں میں نے نہیں دیکھا۔‘‘
’آہ۔ میں نے بھی نہیں دیکھا۔‘
میں سمجھ سکتا ہوں سر،۔ ۔ ۔ سموئل جھک جھک کر سرہلارہا تھا۔ ۔ ۔
***
اب وہ کورٹ روم میں تھے۔ جیوری کے ممبر موٹی موٹی کتابوں، فائلوں کے ساتھ اپنی جگہ لے چکے تھے۔ بیچ بیچ میں کوئی وکیل اٹھ کھڑا ہوتا۔ جج درمیان میں بات روک کر گمبھیر آواز میں کچھ کہتا۔ جیوری کے ممبر نظر اٹھا کر اس منحنی سے شخص کو دیکھ کر کچھ اشارہ کرنے لگتے۔
پھر بہت ساری نظریں کٹہرے میں کھڑے ہوئے ملزم کی جانب اٹھ جاتیں۔ وہ آدمی، وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ وہ چہرے سے عیاش اور ’پاجی‘ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چہرے سے اس قماش کا قطعی نہیں لگ رہا تھا۔ چہ میگوئیوں، شور کرتی آوازوں کے بیچ دو لڑکیاں اپنی جگہ سے اٹھیں۔ ایک کی عمر کوئی سترہ سال کی ہوگی ۔ دوسری کی پندرہ سال___ دونوں کے چہرے پر ایک خطرناک طرح کا تیور تھا جیسے کسی زمانے میں افریقی نسل کے سیاہ فام ’جمپانا‘ نام کے بندر کے چہرے پر پایا جاتا تھا۔
اسے وحشت سی ہوئی___ چلو سموئل۔ باہر چلتے ہیں۔ ۔ ۔
’مگر یور آنر‘۔ ۔ ۔ سموئل کے چہرے پر ہلکی سی ناراضگی پل بھر کو پیدا ہوئی____ جسے حسب عادت اپنی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پی گیا۔ ۔ ۔ ’جیسی آپ کی مرضی یورآنر۔‘
***
دونوں سڑک پر آ گئے۔ اس کی آنکھوں میں سراسیمگی اور حیرانی کا دریا بہہ رہا تھا۔
’’تم وہاں رکنا چاہتے تھے سموئل۔ کیوں؟ میں سمجھ سکتا ہوں اس نے سر کو جنبش دی، مگر بتاؤ، آخر کو وہ آدمی____ کیوں تمہارے ہی جیسا تھا، نا۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’سموئل گڑبڑا گیا___ پھر فوراً سنبھل کر بولا۔ ’’ہاں بالکل سر، ہمارے آپ کے جیسا۔ ۔ ۔ آدمی____ جیسے سبھی آدمی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’چہرے پر ملال ہوگا۔ ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ ہوگا ہی۔ ۔ ۔ تم نے دیکھا نا، سموئل، وہ کٹہرے میں کیسا نظریں بچائے کھڑا تھا۔‘‘
’’یس یورآنر۔ ۔ ۔ ‘‘
’’میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی سموئل___ آخر خود پر لگائے گئے الزامات کی وہ کیا صفائی بیان کر رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہا ہوگا کہ‘‘۔ ۔ ۔ اس کے چہرے کے تیور بدل رہے تھے___ آدمی کو ایک زندگی میں ایک ہی کام کرنا چاہئے۔ یا تو بس اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار ہو یا پھر شادی کرکے گھر بسا لینا چاہئے۔ دونوں میں سے ایک کام ___یہ کیا۔ ۔ ۔ کہ شادی ہوئی اور ماں کی گود سے کود کر بچی دندناتی ہوئی تاڑ جتنی لمبی ہو گئی___ اور لوگوں کی نگاہوں میں ٹینس بال کی طرح پھسلنے لگی۔ ادھر۔ ۔ ۔ کبھی ادھر۔ ۔ ۔
سموئل ہنسا، وہ دیکھئے سر!
سامنے سے دو کانونٹ کی پراڈکٹ ٹھہاکہ لگاتی ہوئی گزر گئیں۔ ایک پل کو اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ جسم میں ایک تیزابی ہلچل ہوئی۔بجلی کو ندی___ گرجی اور خاموش ہو گئی۔
’’ایسی لڑکیاں۔ ۔ ۔ ہم آپ کسی نظر سے دیکھیں مگر میرا دعویٰ ہے۔ ۔ ۔ ان کا ایک باپ ہوگا۔ گھر میں چائے پیتا ہوا۔ اخباروں پر جھکا۔ بیوی سے کسی نامناسب بحث میں الجھا ہوا___ اوربیٹیوں کو دیکھ کر اشارتاً کوئی بے معنی سا سوال پوچھتا ہوا۔ یا۔ ۔ ۔ بریک فاسٹ لنچ، ڈنر یا چائے بنادینے کی بے چارگی بھری فرمائش کرتا ہوا۔ایک عام باپ۔ ۔ ۔ جیسا کہ وہ تھا۔ ۔ ۔ جیساکہ اسے ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ اور جیسا کہ سب ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
سموئل نے داڑھی کھجلائی___ پھر یوں چپ ہوگیا جیسے ابھی غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے جو بھی بول پھوٹے ہیں وہ اس کے لئے شرمسار ہو۔ ۔ ۔ اس نے بھی دھیرے سے گردن ہلائی جیسے گہرے صدمے سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہو۔
اس نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ گردن ہلائی اور جیسے، آنکھوں کے آگے بہت کچھ روشن ہوگیا۔ ماں کے ’حمل‘ سے کودکر، آن میں کودتی پھاندتی تاڑ جتنی بڑی ہو جانے والی لڑکی۔ ۔ ۔
یہ لزا بار بار آنکھوں کے آگے کیوں منڈلاتی ہے اور وہ۔ ۔ ۔ ایک لاچار باپ۔ ۔ ۔ چھپ کیوں نہیں سکتا۔ نہیں دیکھے اسے۔ ایک بار بھی____ بچپن میں اُچک کر کندھوں پر سوار ہو جانے والی لزا____ اچانک ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی، کتنی ڈھیر ساری بہاروں کے ساتھ ہواکے رتھ پر سوار ہو گئی تھی___ نہیں لزا، یہاں نہیں۔ یہاں مت بیٹھو۔ ۔ ۔ یہاں میں ہوں نا۔ ۔ ۔ جاؤ اپنا ہوم ورک کرو۔ اپنے کمرے میں جاکراسٹڈی کرو لزا۔یہاں سے۔ ۔ ۔ یہاں سے جاؤ، پلیز۔ ۔ ۔ عمر کے پاؤں پاؤں چلتی ہوئی لڑکی کے بڑے ہوتے ہی باپ اچانک نظریں کیوں چرانے لگتا ہے۔ ۔ ۔ ہوٹل، کلب، ریستوران کے ڈھیر سارے جانے انجانے لمس کے بیچ یہ رشتے کی نازک پتنگ اسے پریشان کیوں کر دیتی ہے۔ کیوں کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ کہ ایک باپ ہونے کے ناطے اسے سمجھانا پڑتا ہے خود کو۔ ۔ ۔ ایک اچھا لڑکا۔ ۔ ۔ ایک عمدہ آدمی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یہ عمدہ آدمی کہاں بستا ہے۔ ۔ ۔ کہاں ملتا ہے___ کیوں سموئل!‘‘
سموئل نے کوئی جواب نہیں دیا___ وہ کسی اور سوچ میں گم تھا___عمدہ آدمی۔ ۔ ۔ بہتر آدمی، بے لوث، بے غرض، مخلص، ہمدرد اور عمدہ آدمی___روانڈا کی سڑکوں پر بھی ایسے کسی آدمی سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ لندن، پیرس، برلن کی گلیوں میں بھی اسے سے ایسا کوئی آدمی نہیں ٹکرایا۔ افریقہ کی سڑکوں پر بھی نہیں___جہاں دھوپ سے جھلسے سیاہ فام چہروں پر اس نے ’بیٹک‘ کی نظم لکھی دیکھی تھی۔ ۔ ۔
’’اس دھرتی پر۔ ۔ ۔
ہم اپنے سفید دانتوں سے ہنستے ہیں۔
اس وقت بھی۔ ۔ ۔
جب ہمارا دل لہولہان ہورہا ہوتا ہے۔‘‘
کمپالا (یوگانڈا) کے ہوٹل میں سیاہ فام نگونگی نے اس کے بدن سے کھیلتے ہوئے اچانک پوچھا تھا۔ سر، ایک لمحے کو سوچئے اگر میں آپ کی سگی بیٹی ہوتی تو۔ ۔ ۔ وہ بستر سے چھلانگ لگا کر اتر گیا تھا۔ ننگ دھڑنگ۔ ۔ ۔ وہ کانپ رہا تھا۔ نگونگی ایک بے شرم سفاک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بوکھلائے چہرے کو دیکھ کر کھلکھلاکر ہنس پڑی تھی۔ ۔ ۔
’’سموئل، ہم یہ کمینہ پن کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’ہم۔ ۔ ۔ تھک جاتے ہیں سر۔ ۔ ۔ تھک جاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے پرے ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس نے گہرا سانس کھینچا۔ ۔ ۔ ’’ٹھیک کہتے ہو۔ ۔ ۔ ہم تھک جاتے ہیں۔ ۔ ۔ اس جسم میں کتنی طرح کی لذتیں دفن ہیں سموئل؟ ہاں دفن ہیں۔ ۔ ۔ اس نے پھر سانس کھینچا۔ ۔ ۔ کتنی طرح کی لذتیں۔ ۔ ۔ کتنے ملکوں کی۔ ۔ ۔ نرم۔ ۔ ۔ گرم اور ۔ ۔ ۔ ہم کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ ۔ ۔ یہ کہ چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم ایک غیر جسم سے چپکے ہوئے ہیں۔کھیل رہے ہیں____ جب ہم اپنے گلاس میں اسکاچ انڈیلتے ہیں۔ ۔ ۔ کاکروچ مارتے ہیں۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ ہر لمحہ۔ ۔ ۔ ہندوستان میں۔ ۔ ۔ پاکستان میں۔ ۔ ۔ کوئی سا بھی ملک____ باقی نہیں ہے۔جب ہم اپنی ٹائی درست کرتے ہیں۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ امریکہ، روس، جاپان، ویتنام۔ ۔ ۔ ایٹم بم اور میزائلس سے باہر نکلوتو وہی ایک جسم آجاتا ہے۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ اور لوگ اپنی سگی بیٹیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یورآنر، بینک آگیا ہے۔‘‘