مشرف عالم ذوقی کے منتخب افسانے۔ حصہ اول

الف عین

لائبریرین
اصل کتاب کی پچیس کہانیوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پیش ہے یہ پہلا حصہ

اعجاز عبید


 

الف عین

لائبریرین
دو بھیگے ہوئے لفظ​

’بہت تیز آندھی تھی۔ چھتیں اُڑ رہی تھیں۔ درخت ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہ تھے۔ بھیانک منظر تھا۔ کچّی دیواروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی کٹیا تھی۔ دو بوڑھے، بوڑھی تھے۔ باہر میدان میں اونچے اونچے پیڑوں کی دیکھ بھال کے لئے___ جیسے درخت نہیں ہوں، بچے ہوں اُن کے۔ ۔ ۔
’دیکھو۔ ۔ ۔ وہ درخت بھی۔ ۔ ۔ آہ۔ ۔ ۔ ‘ بوڑھی عورت چیخی۔ تم کچھ کرتے کیوں نہیں۔
’بھیانک طوفان ___کیا تم دیکھ نہیں رہی ہو۔ ۔ ۔ ‘
’ہاں، دیکھ رہی ہوں مگر۔ ۔ ۔ ‘
بوڑھی عورت، اپنے بوڑھے شوہر کا ہاتھ پکڑے اس خوفناک طوفان میں، اُسے لے کر باہر آ گئی ___اور ایک جوان درخت کے پاس ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی___
’میں نہیں جانتی۔ لیکن تمہیں اسے بچانا ہوگا۔ ۔ ۔ ‘
’دیکھو۔ کیسے ہل رہا ہے۔ ۔ ۔ یہ درخت بھی گر جائے گا___‘
’تمہیں بچانا ہوگا___‘ بوڑھی عورت زور سے گرجی___
دونوں نے موٹی رسیاّں تیار کیں۔ درخت کو دونوں طرف سے لپیٹا___ اور اس زوروں کے طوفان میں، دونوں نے اپنے ہلتے لڑکھڑاتے وجود کے باوجود اُس درخت کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ساری قوت لگا دی___‘
عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھی تھی۔ خدا معلوم، کہانیوں کے دونوں بوڑھے کردار اُس درخت کو ٹوٹنے سے بچا پانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں ___یا، اتنے سارے درختوں میں اُن کی ساری محنت صرف اسی درخت کے حصّے میں کیوں آئی تھی___؟ شاید، انسانی کمزوری اور محبت کے بہت سارے گوشے ایسے ہیں جسے علم نفسیات ابھی تک سمجھنے میں ناکام رہا ہے___
پتہ نہیں کیوں، کہانیوں کے انتخاب کی بات آئی تو اچانک کھلے چور دروازے سے اس کہانی نے دستک دی___ ’انتخاب کا مطلب جانتے ہو؟‘
’ہاں؟‘
’کن کہانیوں کو بچاؤ گے؟‘
’مطلب؟‘
’دیکھا نہیں وہ بوڑھے بوڑھی اتنے سارے درختوں میں، اُس ایک پیڑ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ۔ ۔ ‘
’ہاں، لگاؤ ہوگا‘
’ادب میں لگاؤ سے بات نہیں بنتی۔‘
کیسی سچی بات ہے___ آپ کا خوبصورت، سب سے پیارا بچہ زندگی کے امتحان میں، ہار جاتا ہے___ اُس کا بدصورت بھائی بازی مار جاتا ہے___ پریم چند کو کہانی ’کفن‘ کچھ زیادہ پسند نہیں تھی۔ اب ’کفن‘ کے بغیر اردو کہانی کی گفتگو آگے نہیں بڑھتی۔ ممکن ہے میرے بعد اگر کوئی دوسرا میری 300-350 کہانیوں میں سے 25کہانیوں کے انتخاب کی ذمہ داری قبول کرے تو صورت بالکل دوسری ہو___
اس لئے کس کو 'بچانا‘ ہے کس کو نہیں___
کس کو رکھنا ہے اور کس کو نہیں___؟
میں نہیں جانتا، اس انتخاب میں مجھے کتنی کامیابی ملی۔ مگر اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس انتخاب کے لئے مسلسل سوچتے اور غور کرتے ہوئے مجھے دو سال لگ گئے___
شاید ان کہانیوں کے انتخاب کا خیال ہی میرے ذہن میں نہیں آتا اگر میرے بھائی اور میرے مخلص دوست آصف فرخی نے یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی ہوتی۔ یہ اُن کا بڑپن ہے اور محبت بھی___
اور اس محبت کے لئے میں انہیں سلام کرتا ہوں۔

ذوقی
 

الف عین

لائبریرین

اس پُر ہیبت حقیقت کے مقابل، جسے تمام انسانی زمانوں میں ایک یوٹوپیا کی حیثیت حاصل رہی ہوگی، ہم، کہانیوں کے موجد، جن کے نزدیک ہر بات قابلِ یقین ہے، اس بات پر یقین کرنے کے بھی پوری طرح حق دار ہیں کہ ایک بالکل دوسری قسم کے یوٹوپیا کی تخلیق میں خود کو منہمک کر دینے کا وقت ابھی ہاتھ سے نہیں گیا۔ زندگی کا ایک نیا اور ہمہ گیر یوٹوپیا، جہاں کسی کو دوسروں کی موت کے حالات کا تعین کرنے کا اختیار نہیں ہوگا، جہاں محبت سچی، اور خوشی ممکن ہوگی اور جہاں سو سال کی تنہائی کی سزا بھگتنے والی قوموں کو، آخر کار اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، اس زمین پر ایک اور موقع دیا جائے گا۔
گابرئیل گارسیامارکیز ____

 

الف عین

لائبریرین
اصل واقعہ کی زیراکس کاپی​

’’وہ جو،
ہر طرح کے ظلم، قتل عام اور بربریت/
کے پیچھے ہیں،/
تلاش کرو/
اور ختم کر دو/
اس لئے کہ وہ اس نئی تہذیب کی داغ بیل/
ڈالنے والے ہیں/
جو تمہاری جانگھوں یا ناف کے نیچے سے ہو کر گزرے گی۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
گرمی کی ایک چلچلاتی دوپہر کا واقعہ
سپریم کورٹ کے وسیع و عرض صحن سے گزرتے ہوئے اچانک وہ ٹھہر گیا۔ سامنے والا کمرہ جیوری کے معزز حکام کا کمرہ تھا۔ اس نے اپنی نکٹائی درست کی۔ خوبصورت سلیٹی کلر کے جیمنی بریف کیس کو، جسے اس نے سوئزرلینڈ کے 25سالہ ورک شاپ سے خریدا تھا، داہنے ہاتھ میں تھام لیا اور اس جانب دیکھنے لگا جدھرسے پولیس کے دو سپاہی ایک منحنی سے آدمی کو ہتھکڑی پہنائے لئے جا رہے تھے۔
سموئل یہ بھی آدمی ہے۔ ۔ ۔ وہ بے اختیار ہو کر ہنسا ____جیسے اس دبلے پتلے سے آدمی کو ہتھکڑیوں میں دیکھتے ہوئے ہنسنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔
’’آدمی۔ ۔ ۔ تم کیا سمجھتے ہو سموئل، اس نے کوئی جرم کیا ہوگا۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہو۔ یہ آدمی ایک مکھی بھی نہیں مارسکتا۔
’’آپ کا دعویٰ صحیح ہے یورآنر، سموئل نے قدرے کھل کر اس کی طرف دیکھا____‘‘
’’یہ مکھی بھی نہیں مار سکتا۔ مگر پچھلے دنوں آپ نے وہ چرچا سنی ہوگا۔ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ اپنی سگی دو بیٹیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کیا یہ شخص۔ ۔ ۔ ‘‘
سموئل نے سر کو جنبش دی۔ ’’یور آنر، یہ وہی شخص ہے۔‘‘
***
منحنی سادبلا پتلا آدمی۔ چہرہ عام چہرے جیسا____ آگے کے بال ذرا سااُڑے ہوئے___ بالوں پر سفیدی نمایاں ہو چکی تھی۔ سانولارنگ، کرتا پائجامہ پہنے۔ ایک ہاتھ سے اپنے چہرے کو بہت ساری چبھنے والی نگاہوں سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہی اسے لے کر کورٹ روم میں داخل ہو گئے۔
اس نے گھڑی دیکھی۔ ’’بینک تو بارہ بجے بند ہوتا ہے نا۔ ۔ ۔
’’یس یورآنر‘‘
’’مجھے یورآنر مت کہا کرو۔ میں ہوں نا، ایک بہت عام سا آدمی۔ معمولی آدمی، کہتے کہتے وہ ٹھہرا___ تم نے کبھی اس طرح کا کوئی مقدمہ دیکھا ہے سموئل؟
’’نہیں میں نے نہیں دیکھا۔‘‘
’آہ۔ میں نے بھی نہیں دیکھا۔‘
میں سمجھ سکتا ہوں سر،۔ ۔ ۔ سموئل جھک جھک کر سرہلارہا تھا۔ ۔ ۔
***
اب وہ کورٹ روم میں تھے۔ جیوری کے ممبر موٹی موٹی کتابوں، فائلوں کے ساتھ اپنی جگہ لے چکے تھے۔ بیچ بیچ میں کوئی وکیل اٹھ کھڑا ہوتا۔ جج درمیان میں بات روک کر گمبھیر آواز میں کچھ کہتا۔ جیوری کے ممبر نظر اٹھا کر اس منحنی سے شخص کو دیکھ کر کچھ اشارہ کرنے لگتے۔
پھر بہت ساری نظریں کٹہرے میں کھڑے ہوئے ملزم کی جانب اٹھ جاتیں۔ وہ آدمی، وہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ وہ چہرے سے عیاش اور ’پاجی‘ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ وہ چہرے سے اس قماش کا قطعی نہیں لگ رہا تھا۔ چہ میگوئیوں، شور کرتی آوازوں کے بیچ دو لڑکیاں اپنی جگہ سے اٹھیں۔ ایک کی عمر کوئی سترہ سال کی ہوگی ۔ دوسری کی پندرہ سال___ دونوں کے چہرے پر ایک خطرناک طرح کا تیور تھا جیسے کسی زمانے میں افریقی نسل کے سیاہ فام ’جمپانا‘ نام کے بندر کے چہرے پر پایا جاتا تھا۔
اسے وحشت سی ہوئی___ چلو سموئل۔ باہر چلتے ہیں۔ ۔ ۔
’مگر یور آنر‘۔ ۔ ۔ سموئل کے چہرے پر ہلکی سی ناراضگی پل بھر کو پیدا ہوئی____ جسے حسب عادت اپنی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پی گیا۔ ۔ ۔ ’جیسی آپ کی مرضی یورآنر۔‘
***
دونوں سڑک پر آ گئے۔ اس کی آنکھوں میں سراسیمگی اور حیرانی کا دریا بہہ رہا تھا۔
’’تم وہاں رکنا چاہتے تھے سموئل۔ کیوں؟ میں سمجھ سکتا ہوں اس نے سر کو جنبش دی، مگر بتاؤ، آخر کو وہ آدمی____ کیوں تمہارے ہی جیسا تھا، نا۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’سموئل گڑبڑا گیا___ پھر فوراً سنبھل کر بولا۔ ’’ہاں بالکل سر، ہمارے آپ کے جیسا۔ ۔ ۔ آدمی____ جیسے سبھی آدمی ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’چہرے پر ملال ہوگا۔ ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ ہوگا ہی۔ ۔ ۔ تم نے دیکھا نا، سموئل، وہ کٹہرے میں کیسا نظریں بچائے کھڑا تھا۔‘‘
’’یس یورآنر۔ ۔ ۔ ‘‘
’’میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی سموئل___ آخر خود پر لگائے گئے الزامات کی وہ کیا صفائی بیان کر رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہا ہوگا کہ‘‘۔ ۔ ۔ اس کے چہرے کے تیور بدل رہے تھے___ آدمی کو ایک زندگی میں ایک ہی کام کرنا چاہئے۔ یا تو بس اپنے کام سے جنون کی حد تک پیار ہو یا پھر شادی کرکے گھر بسا لینا چاہئے۔ دونوں میں سے ایک کام ___یہ کیا۔ ۔ ۔ کہ شادی ہوئی اور ماں کی گود سے کود کر بچی دندناتی ہوئی تاڑ جتنی لمبی ہو گئی___ اور لوگوں کی نگاہوں میں ٹینس بال کی طرح پھسلنے لگی۔ ادھر۔ ۔ ۔ کبھی ادھر۔ ۔ ۔
سموئل ہنسا، وہ دیکھئے سر!
سامنے سے دو کانونٹ کی پراڈکٹ ٹھہاکہ لگاتی ہوئی گزر گئیں۔ ایک پل کو اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ جسم میں ایک تیزابی ہلچل ہوئی۔بجلی کو ندی___ گرجی اور خاموش ہو گئی۔
’’ایسی لڑکیاں۔ ۔ ۔ ہم آپ کسی نظر سے دیکھیں مگر میرا دعویٰ ہے۔ ۔ ۔ ان کا ایک باپ ہوگا۔ گھر میں چائے پیتا ہوا۔ اخباروں پر جھکا۔ بیوی سے کسی نامناسب بحث میں الجھا ہوا___ اوربیٹیوں کو دیکھ کر اشارتاً کوئی بے معنی سا سوال پوچھتا ہوا۔ یا۔ ۔ ۔ بریک فاسٹ لنچ، ڈنر یا چائے بنادینے کی بے چارگی بھری فرمائش کرتا ہوا۔ایک عام باپ۔ ۔ ۔ جیسا کہ وہ تھا۔ ۔ ۔ جیساکہ اسے ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ اور جیسا کہ سب ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
سموئل نے داڑھی کھجلائی___ پھر یوں چپ ہوگیا جیسے ابھی غیر ارادی طور پر اس کے منہ سے جو بھی بول پھوٹے ہیں وہ اس کے لئے شرمسار ہو۔ ۔ ۔ اس نے بھی دھیرے سے گردن ہلائی جیسے گہرے صدمے سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہو۔
اس نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ گردن ہلائی اور جیسے، آنکھوں کے آگے بہت کچھ روشن ہوگیا۔ ماں کے ’حمل‘ سے کودکر، آن میں کودتی پھاندتی تاڑ جتنی بڑی ہو جانے والی لڑکی۔ ۔ ۔
یہ لزا بار بار آنکھوں کے آگے کیوں منڈلاتی ہے اور وہ۔ ۔ ۔ ایک لاچار باپ۔ ۔ ۔ چھپ کیوں نہیں سکتا۔ نہیں دیکھے اسے۔ ایک بار بھی____ بچپن میں اُچک کر کندھوں پر سوار ہو جانے والی لزا____ اچانک ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی ہوئی، کتنی ڈھیر ساری بہاروں کے ساتھ ہواکے رتھ پر سوار ہو گئی تھی___ نہیں لزا، یہاں نہیں۔ یہاں مت بیٹھو۔ ۔ ۔ یہاں میں ہوں نا۔ ۔ ۔ جاؤ اپنا ہوم ورک کرو۔ اپنے کمرے میں جاکراسٹڈی کرو لزا۔یہاں سے۔ ۔ ۔ یہاں سے جاؤ، پلیز۔ ۔ ۔ عمر کے پاؤں پاؤں چلتی ہوئی لڑکی کے بڑے ہوتے ہی باپ اچانک نظریں کیوں چرانے لگتا ہے۔ ۔ ۔ ہوٹل، کلب، ریستوران کے ڈھیر سارے جانے انجانے لمس کے بیچ یہ رشتے کی نازک پتنگ اسے پریشان کیوں کر دیتی ہے۔ کیوں کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ کہ ایک باپ ہونے کے ناطے اسے سمجھانا پڑتا ہے خود کو۔ ۔ ۔ ایک اچھا لڑکا۔ ۔ ۔ ایک عمدہ آدمی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یہ عمدہ آدمی کہاں بستا ہے۔ ۔ ۔ کہاں ملتا ہے___ کیوں سموئل!‘‘
سموئل نے کوئی جواب نہیں دیا___ وہ کسی اور سوچ میں گم تھا___عمدہ آدمی۔ ۔ ۔ بہتر آدمی، بے لوث، بے غرض، مخلص، ہمدرد اور عمدہ آدمی___روانڈا کی سڑکوں پر بھی ایسے کسی آدمی سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔ لندن، پیرس، برلن کی گلیوں میں بھی اسے سے ایسا کوئی آدمی نہیں ٹکرایا۔ افریقہ کی سڑکوں پر بھی نہیں___جہاں دھوپ سے جھلسے سیاہ فام چہروں پر اس نے ’بیٹک‘ کی نظم لکھی دیکھی تھی۔ ۔ ۔
’’اس دھرتی پر۔ ۔ ۔
ہم اپنے سفید دانتوں سے ہنستے ہیں۔
اس وقت بھی۔ ۔ ۔
جب ہمارا دل لہولہان ہورہا ہوتا ہے۔‘‘
کمپالا (یوگانڈا) کے ہوٹل میں سیاہ فام نگونگی نے اس کے بدن سے کھیلتے ہوئے اچانک پوچھا تھا۔ سر، ایک لمحے کو سوچئے اگر میں آپ کی سگی بیٹی ہوتی تو۔ ۔ ۔ وہ بستر سے چھلانگ لگا کر اتر گیا تھا۔ ننگ دھڑنگ۔ ۔ ۔ وہ کانپ رہا تھا۔ نگونگی ایک بے شرم سفاک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے بوکھلائے چہرے کو دیکھ کر کھلکھلاکر ہنس پڑی تھی۔ ۔ ۔
’’سموئل، ہم یہ کمینہ پن کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’ہم۔ ۔ ۔ تھک جاتے ہیں سر۔ ۔ ۔ تھک جاتے ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے پرے ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس نے گہرا سانس کھینچا۔ ۔ ۔ ’’ٹھیک کہتے ہو۔ ۔ ۔ ہم تھک جاتے ہیں۔ ۔ ۔ اس جسم میں کتنی طرح کی لذتیں دفن ہیں سموئل؟ ہاں دفن ہیں۔ ۔ ۔ اس نے پھر سانس کھینچا۔ ۔ ۔ کتنی طرح کی لذتیں۔ ۔ ۔ کتنے ملکوں کی۔ ۔ ۔ نرم۔ ۔ ۔ گرم اور ۔ ۔ ۔ ہم کچھ بھی نہیں دیکھتے۔ ۔ ۔ یہ کہ چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم ایک غیر جسم سے چپکے ہوئے ہیں۔کھیل رہے ہیں____ جب ہم اپنے گلاس میں اسکاچ انڈیلتے ہیں۔ ۔ ۔ کاکروچ مارتے ہیں۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ ہر لمحہ۔ ۔ ۔ ہندوستان میں۔ ۔ ۔ پاکستان میں۔ ۔ ۔ کوئی سا بھی ملک____ باقی نہیں ہے۔جب ہم اپنی ٹائی درست کرتے ہیں۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ امریکہ، روس، جاپان، ویتنام۔ ۔ ۔ ایٹم بم اور میزائلس سے باہر نکلوتو وہی ایک جسم آجاتا ہے۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ اور لوگ اپنی سگی بیٹیوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یورآنر، بینک آگیا ہے۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
مہنگے ہوٹل کی ایک رات اور ٹرائل​
’’اچھا، وہ کیا جرح کررہا ہوگا سموئل! ذرا سوچو، اس کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لئے کیا رہ جاتا ہے۔ اچھا ایک منٹ کے لئے مان لو۔ ۔ ۔ وہ آدمی میں ہوں۔ ۔ ۔ تم وکیل ہو جج ہو یا کچھ بھی مان لو۔ ۔ ۔ ماننے کو تو کچھ بھی مانا جاسکتا ہے سموئل۔ ۔ ۔ یوں پاگلوں کی طرح مجھے مت گھور کر دیکھو۔ ۔ ۔ مان لو۔ ۔ ۔ اور سمجھ لو، ٹرائل شروع ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اگر شروع ہوتا ہے تو کیسے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’یورآنر۔ سموئل نے کچھ کہنے کے لئے حامی بھری، اس نے روک دیا___
’’نہیں ،یہاں یورآنر تم ہو سموئل۔ ۔ ۔ اور سمجھو مقدمہ شروع ہوچکا ہے۔ جیوری کے ممبر بیٹھ چکے ہیں۔ کٹہرے میں، میں کھڑا ہوں___ ایک لاچار اپرادھی باپ جس نے اپنی سگی بیٹیوں سے۔ ۔ ۔ نہیں مجھے یہ جملہ ادا کرنے میں دشواری ہورہی ہے سموئل۔ ۔ ۔ تاہم۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس نے آنکھیں بند کیں۔ جیسے اپنے تمام تاثرات چہرے پر لاکر جمع کررہا ہو۔
’’ہاں تو میں۔ ۔ ۔ ایک لاچار کمینہ باپ۔ ۔ ۔ کسی ایک جبروکشمکش کے لمحے کے ٹوٹ جانے کے دوران۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ مجھے اعتراف ہے کہ ____وہ حواکی کوکھ سے نہیں، میرے خون سے نکلی تھی۔ جنی تھی___ مجھے اعتراف ہے کہ ___نہیں،مجھے کہنے نہیں، آرہا۔ ۔ ۔ اور کیسے آسکتا ہے۔ ۔ ۔ آپ سب مجھے ایسے گھور رہے ہیں۔ ۔ ۔ سب کی نگاہیں___ عیاشی کی اس سے بھدی مثال اور کمینگی کی اس سے زیادہ انتہا اور کیا ہوسکتی ہے۔ مجھے سب اعتراف ہے۔مگر۔ ۔ ۔ میں کیسے سمجھاؤں۔ ۔ ۔ بس ایک جبروکشمکش کے ٹوٹ جانے والے لمحے کے دوران۔ ۔ ۔ ‘‘
’’آرڈر۔ ۔ ۔ آرڈر۔ ۔ ۔ ملزم جذباتی ہورہا ہے____ ملزم کو چاہئے کہ اپنے جذبات پر قابورکھے۔‘‘
سموئل کے چہرے پر کٹھورتا تھی۔
’’مورکھتا۔ملزم جب وہاں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا تو یہاں___ خیر، میں کہہ رہا تھا___ میں پچھلے دنوں ویتنام گیا تھا۔سیاحت میرا شوق ہے۔ ۔ ۔ تو میں کہہ رہا تھاکہ میں ویتنام۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اس پورے معاملے کا ملزم کے ویتنام جانے اور سیاحت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’میں مانتا ہوں می لارڈ۔ ۔ ۔ مگر جو واقعہ یا حادثہ ایک لمحے میں ہوگیا۔ ایک بے حد کمزور لمحے میں____ اس کے لئے مجھے ویتنام تو کیا، فلسطین، ایران، عراق، امریکہ، روس، روانڈا سب جگہوں پر جانے دیجئے____ میں گیا اور میں نے دیکھا۔ ۔ ۔ سب طرف لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ ہر لمحے میں۔ ۔ ۔ جب ہم ہنستے ہیں روتے ہیں___ باتیں کرتے ہیں، قہوہ یا چائے پیتے ہیں___ قتل عام ہورہے ہیں۔ ۔ ۔ لوگ مررہے ہیں۔ ۔ ۔ مارے جارہے ہیں۔ ۔ ۔
سموئل نے ناگواری سے دیکھا___ بیوقوفی بھری باتیں۔ کوری جذباتیت___ اس کیس میں ایک ریپ ہوا ہے۔ ۔ ۔ ریپسٹ ایک۔ ۔ ۔ باپ ہے۔ جس نے اپنی۔ ۔ ۔ کہیں تم گے (GAY)، لیسبن (Lesbian) یا فری کلچر کے حق میں تو نہیں ہو۔ ۔ ۔ ؟
’’نہیں۔ آہ تم غلط سمجھے سموئل، اس نے گردن ترچھی کی___ شاید میں سمجھا نہیں پارہا ہوں۔ ۔ ۔ ابھی تم نے جن کلچرز کاذ کر چھیڑا، وہ سب دکھ کی پیداوار ہیں۔ ۔ ۔ دکھ۔ ۔ ۔ جو ہم جھیلتے ہیں___ یا جھیلتے رہتے ہیں___ مہاتما بدھ کے مہان بھشکر من سے لے کر بھگوان کی آستھاؤں اور نئے خداؤں کی تلاش تک___ پھر ہم کسی روحانی نظام کی طرف بھاگتے ہیں___ کبھی اوشو کی شرن میں آتے ہیں۔ ۔ ۔ کبھی گے (GAY) بن جاتے ہیں تو کبھی لیسبین۔ قتل عام ہورہے ہیں۔ ۔ ۔ اور بھاگتے بھاگتے اچانک ہم شدبد کھوکر کنڈوم کلچر میں کھوجاتے ہیں___ ہم مررہے ہیں سموئل اور جو نہیں مررہے ہیں وہ جانے انجانے ایچ آئی وی پازیٹیو(H.I.V. POSITIVE) کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ہمارا ملزم اپنا دفاع نہیں کر پارہا ہے۔ اس لئے مقدمہ خارج۔‘‘
وہ غصّے سے سموئل کی طرف مڑا___ ایک باپ پشیمانی کی انتہا پر کھڑا ہے اور تم اسے اپنی بات مکمل کرنے کا موقع بھی ہیں دینا چاہتے۔ ویدک ساہتیہ کولو۔ دھرم کے بعد کام کا ہی استھان ہے۔ موکش کا نمبر اس کے بعد کا ہے۔ گیتا میں کہا گیا ہے، شری کرشن سب جگہ ہیں۔ ۔ ۔ انسانوں کے اندر وہ کامیکچھا کے روپ میں موجود ہیں___ کھجوراہوکے مندروں میں سمبھوگ کے چتر اس بات کے ثبوت ہیں کہ سمبھوگ پاپ نہیں ہے___ اگر پاپ ہوتا، اپوتر ہوتا تو اسے مندروں میں جگہ کیوں کر ملتی سموئل___؟
’’بھیانک۔ ۔ ۔ بہت بھیانک۔ ۔ ۔ ‘‘
’’مان لو کوئی کہتا ہے۔ ۔ ۔ فلاں چیز میری ہے۔ ۔ ۔ میں جو چاہوں کروں۔ ۔ ۔ تم اس بارے میں کیا جو اب دو گے سموئل۔ ۔ ۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ بیوی میری ہے۔ ۔ ۔ فرج میری ہے۔ ۔ ۔ میں جو چاہوں کروں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’بھیانک۔ ۔ ۔ بہت بھیانک۔ ۔ ۔ سموئل کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے۔
’’اور مان لو سموئل دنیا ختم ہو جاتی ہے بس ایک ایٹم بم یا اس سے بھی کوئی بھیانک ہتھیار۔ ۔ ۔ ویتنام کے شلعے تو سیگون ندی سے اٹھ کر آسمان چھو گئے تھے۔ مان لو، صرف دوہی شخص بچتے ہیں اور دنیا کا سفر جاری رہتا ہے۔ایک باپ ہے اور دوسری ۔ ۔ ۔ ‘‘
بہت بھیانک۔ ۔ ۔ سموئل چیخا___ بس کرو۔ ۔ ۔ میں اور تاب نہیں لاسکتا۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ جبر، کشمکش کا ٹوٹ جانے والا لمحہ اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتا ہے سموئل___ ایک بچی___ ’چھوٹی ہے۔ ۔ ۔ باپ اسے دلار کررہا ہے___ پیار کررہا ہے، بڑی ہوتی ہے___ اسکول جاتی ہے۔ ۔ ۔ بیل کی طرح بڑھتی ہے___ کونپل کی طرح پھوٹتی ہے___ گا ہے بہ گا ہے باپ کی نظریں اس پر پڑتی ہیں___ وہ اس سے بچنا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ بچنے کے لئے وہ شادی کی بات چھیڑتا ہے___ وہ کئی کئی طرح سے اسے رخصت کرنے کی بات سوچتا ہے___ اور بس چھپنا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ بچنا چاہتا ہے ____پھر ڈرنے لگتا ہے اپنے آپ سے۔ ۔ ۔ جیسے ایک نئی صبح شروع کرنے والے اخبار اور اخبار کی خون اگلتی سرخیوں سے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’تم ایک گناہ کی وکالت کررہے ہو____‘‘ سموئل پھر چیخا۔
’’نہیں، اس نے جھرجھری بھری____‘‘ جنگ ہمیں تباہ کررہی ہے سموئل۔ ۔ ۔ اور کنڈوم ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ جیسے ہی چپ ہوا، کچھ دیر کے لئے دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔
 

الف عین

لائبریرین
اختتام
معزز قارئین! اگر آپ اسے سچ مچ کہانی مان رہے ہیں تو اس کہانی کا اختتام بہت بھیانک ہے۔ ۔ ۔ بہتر ہے آپ اسے نہ پڑھیں اور صفحہ پلٹ دیں۔
مقدمہ ختم ہوا تو دونوں اپنے معمول میں لوٹ آئے۔ ۔ ۔
اس کے چہرے پرمسکراہٹ تھی۔ ۔ ۔ بدلی بدلی سی مسکراہٹ۔ ۔ ۔ ’’سموئل، ہر مقدے کا ایک فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ میں سمجھتا ہوں، تمہیں فیصلہ ابھی اسی وقت سنانا چاہئے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یس یورآنر۔ ۔ ۔ سموئل بے دردی سے ہنسا۔ ذرا توقف کے بعد اس نے ایک بوتل کھول لی۔ اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ ۔ ۔ ’’دوپیگ بناؤں یورآنر۔ ۔ ۔
’’فیصلہ کا کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟‘‘ اس کی آنکھوں میں مدہوشی چھارہی تھی۔ ۔ ۔
سموئل نے دوپیگ تیار کرلئے۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چیز نکالی۔ وہ اسے دکھاکر مسکرایا۔یہ امریکن کمپنی کا بنا ہوا کنڈوم کا پیکٹ تھا۔ وہ مسکرایا۔ ۔ ۔ تو یہ ہے فیصلہ یورآنر۔ ۔ ۔ وہ آچکی ہے۔ ۔ ۔ آواز لگاؤں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’تم ایسے ہر معاملے میں، بہت دیر کرتے ہو سموئل۔ ۔ ۔ کہاں ہے وہ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
اس نے گلاس ٹکڑائے۔ ۔ ۔ سموئل نے دروازہ کی طرف دیکھا۔ منہ سے سیٹی بجانے کی آواز نکالی۔ اسی کے ساتھ دروازے سے ایک لڑکی برآمد ہوئی۔ ۔ ۔
معزز قارئین! ذرا ٹھہر جائیے۔اس انجام کے لئے میرا دل سو سوآنسو رو رہا ہے مگر۔ ۔ ۔ اس لڑکی کو آپ بھی پہچانتے ہیں۔ ۔ ۔ !
///////////////////////////////
 

الف عین

لائبریرین
(۱)
باہر گہرا کہرا گر رہاتھا___ کافی ٹھنڈی لہر تھی۔ میز پر رکھی چائے برف بن چکی تھی۔ کافی دیر کے بعد باپ کے لب تھرتھرائے تھے۔ ۔ ۔ ’میرا ایک گھر ہے‘ اور جواب میں ایک شرارت بھری مسکراہٹ ابھری تھی۔ ’اور میں ایک جسم ہوں___ اپنے آپ سے صلح کرلو گے تب بھی ایک جنگ تو تمہارے اندر چلتی ہی رہے گی۔ ذہن کی سطح پر، ایک آگ کے دریا سے تو تمہیں گزرنا ہی پڑے گا۔ اپنے آپ سے لڑنا نہیں جانتے۔ گھر۔ ۔ ۔ بچے۔ ۔ ۔ ایک عمر نکل جاتی ہے۔ ۔ ۔ ‘
باپ اس دن جلدی گھر لوٹ آئے تھے۔ شاید، ایک طرح کے احساس جرم سے متاثر، یہ ٹھیک نہیں۔ ۔ ۔ وہ بہت دیر تک اندھیرے کمرے میں اپنی ہی پرچھائیوں سے لڑتے رہے۔ کمرے میں اندھیرا اور سکون ہو تو اچھا خاصا میدان جنگ بن جاتا ہے۔ خود سے لڑتے رہو۔ ۔ ۔ میزائلیں چھوٹتی ہیں___ تو پین چلتی ہیں___ اور کبھی کبھی اپنا آپ اتنا لہولہان ہو جاتا ہے کہ۔ ۔ ۔ تنہائیوں سے ڈرلگنے لگتا ہے۔ ۔ ۔ مگر تھکے ہوئے پریشان ذہن کو کبھی کبھی انہیں تنہائیوں پر پیار آتا ہے۔ یہ تنہائیاں قصے ’’جنتی‘‘ بھی ہیں اور قصے سنتی بھی ہیں___
کمرے میں اتری ہوئی یہ پرچھائیاں دیر تک باپ سے لڑتی رہی تھیں۔ ۔ ۔ پاگل ہو۔ ۔ ۔ تم ایک باپ ہو۔ ۔ ۔ ایک شوہر ہو۔ ۔ ۔ باپ گہری سوچ میں گُم تھے۔ جسم کی مانگ کچھ اور تھی شاید۔ مگر نہیں۔ ۔ ۔ شاید یہ جسم کی مانگ نہیں تھی۔ جسم کو تو برسوں پہلے اداس کر دیا تھا انہوں نے___ بس ایک کھردری تجویز___ جیسے بوڑھے ہونے کے احساس سے خود کو بچائے رکھنے کی ایک ضروری کارروائی بس___ زندگی نے شاید اداسی کے آگے کا، کوئی خوبصورت سپنا دیکھنا بند کر دیاتھا___
اور ایک دن جیسے باپ نے زندگی کی دور تک پھیلی گپھا میں اپنے مستقبل کا اختتامیہ پڑھ لیا تھا۔ ۔ ۔ ’بس۔ ۔ ۔ یہی بچے۔ ۔ ۔ انہی میں سمائی زندگی اور۔ ۔ ۔ یہی اختتام ہے۔ ۔ ۔ فل اسٹاپ؟‘
وہ اندر تک لرز گئے تھے۔
باپ اس کے بعد بھی کئی دنوں تک لرزتے رہے تھے۔ دراصل باپ کو یہ روٹین لائف والا جانور بننا کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ مگر شادی کے بعد سے، جیسے روایت کی اس گانٹھ سے بندھے رہ گئے تھے۔ بس یہیں تک۔ پھر بچے ہوئے اور اندر کا وہ رومانی آدمی، زندگی کی ان گنت شاہراہوں کے بیچ کہیں کھوگیا، باپ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔
 

الف عین

لائبریرین
(۲)
باپ کے اس بدلاؤکا بیٹے کو احساس تھا۔ ہوسکتا ہے، گھر کے دوسرے لوگ بھی باپ کی خاموشی کو الگ الگ طرح سے پڑھنے کی کوشش کررہے ہوں، مگر باپ اندر ہی اندر کون سی جنگ لڑرہے ہیں، یہ بیٹے سے زیادہ کوئی نہیں جانتاتھا۔ یہ نفسیات کی کوئی ایسی بہت باریک تہہ بھی نہیں تھی، جسے جاننے یا سمجھنے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑی ہو۔ باپ کی اندرونی کشمکش کو اس نے ذرا سے تجزیے کے بعد ہی سمجھ لیا تھا۔ ۔ ۔
باپ میں ایک مرد لوٹ رہا ہے؟
شاید باپ جیسی عمر کے سب باپوں کے اندر، اس طرح سوئے ہوئے مرد لوٹ آتے ہوں؟
باقی بات تو وہ نہیں جانتا مگر باپ اس ’مرد‘ کو لے کر الجھ گئے ہیں___ ذرا سنجیدہ ہو گئے ہیں۔ تو کیا باپ بغاوت کرسکتے ہیں۔؟
بیٹے کو احساس تو تھا کہ باپ کے اندر کامرد لوٹ آیا ہے مگر وہ اس بات سے ناآشنا تھا کہ باپ گھر والوں کو اس مردانگی کا احساس کیسے کرائیں گے؟ باپ کو، گھر والوں کو اس مردانگی کا احساس کرانا بھی چاہئے یا نہیں___ ؟
ہوسکتا ہے آپ یہ پوچھیں کہ بیٹے کو اس بات کا پتہ کیسے چلا کہ باپ کے اندر کا ’مرد‘ لوٹ آیا ہے؟۔ ۔ ۔ تاہم یہ بھی صحیح ہے کہ باپ میں آنے والی اس تبدیلی کو گھر والے طرح طرح کے معنی دے رہے تھے۔ جیسے شاید ماں یہ سوچتی ہوکہ پنکی اب بڑی ہو گئی ہے، اس لئے باپ ذرا سنجیدہ ہو گئے ہیں۔
لیکن بیٹے کو اس منطق سے اتفاق نہیں اور اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ باپ کی حیثیت بیٹے کو پتہ ہے___ دس پنکیوں کی شادی بھی باپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، باپ کے پاس کیا نہیں ہے، کار، بنگلہ اور ایک کامیاب آدمی کی شناخت___ لیکن بیٹے کو پتہ ہے اس شناخت کے بیچ، اچانک کسی تنہا گوشے میں کوئی درد اتر آیا ہے۔
باپ کے اندر آئی ہوئی تبدیلیوں کا احساس بیٹے کو بار بار ہوتا رہا۔ ۔ ۔ جیسے اس دن۔ ۔ ۔ باپ اچانک رومانٹک ہو گئے تھے۔
***
’’تمہیں پتہ ہے، باتھ روم میں یہ کون گارہا ہے؟‘‘ اس نے ماں سے پوچھا تھا، ایک بے حدروایتی قسم کی ماں۔
ماں کے چہرے پر سلوٹیں تھیں۔
’’میں نے پاپا کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا، کیوں ماں؟‘‘
ماں کے چہرے پر بل تھے۔ ۔ ۔
’’وہ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ماں کے لہجے میں ڈر تھا۔
’’کیوں؟‘‘
’’انہیں کبھی اس طرح گاتے ہوئے۔ ۔ ۔ ‘‘
بیٹے کو ہنسی آگئی۔ ’’کمال کرتی ہو تم بھی ماں___ یعنی باپ کو کیسا ہونا چاہئے۔ ہر وقت ایک فکرمند چہرے والا، جلادنما۔ ۔ ۔ غصیلا، آدرش وادی‘‘۔ ۔ ۔ بیٹا مسکراتے ہوئے بولا۔ ۔ ۔ ’’باپ میں بھی تو جذبات ہوسکتے ہیں‘‘ بیٹے نے پروا نہیں کی۔ ماں اس کے آخری جملے پر دکھی ہو گئی تھی۔ ۔ ۔ شاید ماں کو اس کے آخری جملے سے شبہ ہوا تھا۔ پورے بیس سال بعد ۔ باپ کے تئیں۔ ۔ ۔ کہیں باپ میں۔ ۔ ۔
ماں نے فوراً ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی تسلی کا سامان کیا تھا۔ ۔ ۔ ’کوئی زور دار رشوت ملی ہوگی۔‘ ماں کو پتہ تھا کہ کسی سرکاری افسر کو بھی اتنا سب کچھ آرام سے نہیں مل جاتا، جتنا کہ اس کے شوہر نے حاصل کیا ہوا تھا۔
باپ اس دن رومانٹک ہو گئے تھے۔ پھر بعد میں کافی سنجیدہ نظر آئے___ جیسے تپتی ہوئی زمین پر بارش کی کچھ بوندیں برس جائیں۔ بیٹا دل ہی دل میں مسکرایا تھا۔ ۔ ۔ ہو نہ ہو یہ مینہ برس جانے کے بعد کا منظر تھا۔ باپ کی زندگی میں کوئی آگیا ہے۔ پہلے باپ کو اچھا لگا ہوگا اس لئے باپ تھوڑے سے رومانی ہو گئے ہوں گے۔ پھر باپ کو احساس کے آکٹوپس نے جکڑ لیا ہوگا۔ ۔ ۔ بیٹے کو اب باپ کی ساری کارروائیوں میں مزہ آ رہا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
(۳)
باپ کو یہاں تک، یعنی اس منزل تک پہنچنے میں کافی محنت کرنی پڑی تھی___ جدوجہد کے کافی اوبڑ کھابڑ راستوں سے گزرنا پڑا تھا۔ بیٹے کو پتہ تھا کہ باپ شروع سے ہی رومانی رہا ہے___ جذباتی___ آنکھوں کے سامنے دور تک پھیلا ہوا چمکتا آسمان۔ بچپن میں چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی لکھی ہوں گی۔ ان نظموں میں اس وقت رچنے بسنے والے چہرے بھی رہے ہوں گے۔ تب گھر کے اداس چھپروں پر خاموشی کے کوے بیٹھے ہوتے تھے۔ باپ کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ خوشبوؤں کے درختوں پر رہنے والی رومانی تتلیوں کی تلاش میں اسے ذرا سا پریکٹیکل بننا ہوگا۔ باپ ہوشیار تھا۔ اس نے پتھریلے راستے چنے___ نظموں کی نرم ونازک دنیا سے الگ کا راستہ۔ ایک اچھی نوکری اور گھر والوں کی مرضی کی بیوی کے ساتھ زندگی کے جزیرے پر آگیا۔ مگر وہ رومانی لہریں کہاں گئیں یا وہ کہیں نہیں تھیں۔ ۔ ۔ یا اس عمر میں سب کے اندر ہوتی ہیں___ باپ کی طرح۔ اور سب ہی انہیں اندر چھوڑ کر بھول جاتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں کبھی کوئی سیلاب نہیں آتا تھا۔ مگر باپ کی آنکھوں میں سیلاب آچکا تھا، اور وہ بھی اچانک___ اور وہ بھی ایسے وقت جب پنکی جوان ہوچکی تھی اور بیٹے کی آنکھوں میں رومانی لہروں کی ہلچل تیز ہو گئی تھی۔ ٹھیک بیس سال پہلے کے باپ کی طرح۔ لیکن بیس سال بعد کا یہ وقت اور تھا، باپ والا نہیں۔
بیٹے کے ساتھ باپ جیسی اداس چھپر کی داستان نہیں تھی۔ بیٹے کے پاس باپ کا بنگلہ تھا۔ ایک کار تھی۔ کار میں ساتھ گھومنے والی یوں تو کئی لڑکیاں تھیں، مگر سمندر کی بہت ساری لہروں میں سے ایک لہر اسے سب سے زیادہ پسند تھی۔ بیٹے کو سب سے زیادہ گدگداتی تھی۔ ۔ ۔ اور بے شک بیٹا اس کے لئے، اس کے نام پر رومانی شاعری بھی کرسکتا تھا۔
بیٹے کے سامنے مشاہدہ ’منطق اور تسلیوں کے سب دروازے کھلے تھے۔ بیٹا، انٹرنیٹ، کلون اور کمپیوٹر پر گھنٹوں باتیں کرسکتا تھا، اسے اپنے وقت کی ترقی کا اندازہ تھا۔ بہت ترقی یافتہ ملک کا شہری نہ ہونے کے باوجود، خود کو ترقی یافتہ سمجھنے کی بہت سی مثالیں وہ گھڑ سکتا تھا۔
ہاں، یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی وہ پھسل بھی جاتا تھا۔ جیسے، اس دن۔ ۔ ۔ اس خشک شام۔ ۔ ۔ کافی شاپ میں بیٹے کی نظر اچانک اس طرف چلی گئی۔ اس طرف___ مگر جو وہ دیکھ رہا تھا وہ صد فی صد سچ تھا۔ اس نے دانتوں سے انگلیوں کو دبایا۔ نہیں جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا، وہ قطعی طور پر نظروں کا دھوکہ نہیں تھا___ اس کے ٹیبل کے بائیں طرف والی ٹیبل، ٹیبل پر رینگتا ہوا ایک مردانہ ہاتھ۔ ۔ ۔ کافی کی پیالیوں کے بیچ تھرتھراتا ہوا ایک زنانہ ہاتھ۔ ۔ ۔ سخت کھردری انگلیاں، دھیرے سے ملائم انگلیوں سے ٹکرائیں۔
’’چھپکلی!‘‘ بیٹے کے اندر کا ترقی یافتہ آدمی سامنے تھا۔
’’کیا؟‘‘ لڑکی اچھل پڑی تھی۔
’’نہیں۔ ۔ ۔ ‘‘
’’تم نے ابھی تو کہا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’نہیں۔ ۔ ۔ کچھ نہیں بس یہاں سے چلو‘‘
بیٹا سیٹ چھوڑ کر اٹھ گیا تھا۔ لڑکی حیران تھی___
’’کیوں چلوں، ابھی ابھی تو ہم آئے ہیں۔‘‘
لڑکی کی آنکھوں میں شرارت تھی___ ’’کوئی اور ہے کیا؟‘‘
اٹھتے اٹھتے ،پلٹ کر لڑکی نے اس سمت دیکھ لیا تھا، جہاں۔ ۔ ۔
دونوں باہر آگئے۔ باہر آکر لڑکی کے لہجے میں تلخی تھی___
’’کون تھا وہ؟‘‘
’’کوئی نہیں‘‘
’’پھر باہر کیوں آگئے؟‘‘
’’بس یوں ہی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یوں ہی نہیں۔ سنو‘‘___ لڑکی اس کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی مسکرآ رہی تھی۔ ۔ ۔
’’کوئی تمہاری جان پہچان کا تھا؟‘‘
وہ چپ رہا۔ ۔ ۔
لڑکی کی آنکھوں میں ایک پل کو کرسی پر بیٹھے اس شخص کا چہرہ گھوم گیا___
’’سنو اس کا چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگا‘‘
’’تم ناحق شک کررہی ہو‘‘
’’سنو، وہ تم تو نہیں تھے؟‘‘ لڑکی ہنس دی۔
’’پاگل!‘‘ لڑکے کا بدن تھرتھرایا۔
’’اچھا، اب میں جان گئی کہ اس کا چہرہ جانا پہچانا کیوں لگا‘‘ لڑکی زور زور سے ہنس پڑی۔ ۔ ۔ اور میں نے یہ کیوں کہ کہا کہ۔ ۔ ۔ وہ تم تو نہیں تھے‘‘
’’پھر۔ ۔ ۔ ‘‘ لڑکے کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک اٹھیں___
’’کیوں کہ وہ تمہارے۔ ۔ ۔ تمہارے ڈیڈتھے، تھے نا؟ اب جھوٹ مت بولو مگر ایک بات سمجھ نہیں سکی۔ تم بھاگ کیوں آئے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
لڑکی حیران تھی۔ ۔ ۔ ’’تمہاری طرح تمہارے ڈیڈ کو، یا ہمارے پیرینٹس کو یہ سب کرنے کا حق کیوں نہیں؟‘‘
بیٹے کو اب دھیرے دھیرے ہوش آنے لگا تھا۔ ’’آؤ کہیں اور بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
(۴)
باپ ان دنوں عجیب حالات سے دوچار تھا۔ باپ جانتا تھا کہ ان دنوں جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہورہا ہے، اس کے پیچھے ایک لڑکی ہے۔ لڑکی جو پنکی کی عمر کی ہے تاہم باپ جیسا اسٹیٹس(Status) رکھنے والوں کے لئے اس طرح کی باتیں کوئی خبر نہیں بنتی ہیں، مگر باپ کی بات دوسری تھی۔ باپ اس معاشرے سے تھا، جہاں ایک بیوی اور ایک خوشگوار گھریلو زندگی کا ہی سکہ چلتا ہے۔ یعنی جہاں ہر بات کسی نہ کسی سطح پر خاندانی پن سے جڑ جاتی ہے۔ زندگی کے اس الجھے ہوئے پل سے گزرتے ہوئے باپ کو اس بات کا احساس ضرور تھا کہ وہ لڑکی یونہی نہیں چلی آئی تھی۔ دھیرے دھیرے ایک ویکیوم یا خالی پن اس میں ضرور سما گیا تھا جس کی خانہ پری کے لئے کسی چور دروازے سے وہ لڑکی، اس کے اندر داخل ہوکر اس کے ہوش وحواس پر چھا گئی تھی۔ کہیں ایک عمر نکل جانے کے بعد بھی ایک عمر رہ جاتی ہے، جو زندگی کے تپتے ریگستان میں کسی امرت یا کسی ٹھنڈے پانی کے جھرنے کی آرزو رکھتی ہے۔ باپ نے سب کچھ تو حاصل کر لیا تھا، مگر اسے لگتا تھا، سب کچھ پالینے کے باوجود وہ کسی مشینی انسان یا روبوٹ سے الگ نہیں ہے___ اور یہ زندگی صرف اتنی سی نہیں ہے۔ وہ ایسے بہت سے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کے خلاف تھا، جن کے پاس جینے کے نام پر کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ یا جو اپنی تمناؤں اور آرزوؤں اور زندگی کے تئیں سبھی طرح کے رومان کو سلاکر اداس ہو جاتے ہیں___ باپ کے نزدیک ایسے لوگوں کو بس یہی کہا جاسکتا تھا۔ ایک ناکام آدمی! لیکن اچانک باپ کو لگنے لگا تھا۔ ۔ ۔ کیا وہ بھی ایک ناکام آدمی ہے؟
دراصل باپ کے اندر ’تبدیلی‘ لانے میں اس سپنے کا بھی ہاتھ رہا تھا۔ ۔ ۔ کہنا چاہئے وہ ایک بھیانک سپنا تھا اور باپ کے لئے کسی ذہنی حادثے سے کم نہیں۔ کیا ایسے سپنے دوسروں کو بھی آتے ہیں یا آسکتے ہیں؟ دنیا سے اگر اچھائی برائی ، گناہ وثواب جیسی چیزیں ایک دم سے کھوجائیں تو؟ اس سے زیادہ ذلیل سپنا۔ نہیں، کہنا چاہئے باپ ڈر گیا تھا، وہ ایک عام سپنا تھا___ جیسے سپنے عنفوان شباب میں عام طور پر آتے رہتے ہیں۔ سپنے میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی، بلکہ بہت ہی معمولی سا سپنا۔ جو بہت سے ماہرین نفسیات جیوی ریڈلس، پیٹرہاوز اور فرائڈ کے مطابق۔ ناآسودہ خواہشات والے بوڑھے شخص کے لئے یہ کوئی غیر معمولی حادثہ نہیں___ یعنی سپنے میں کسی سے زنا بالجبر___ باپ سے سپنے میں ایسے ہی جرم کا ارتکاب ہوا تھا___ لڑکی خوف زدہ حالت میں پیچھے ہٹتی گئی تھی۔ باپ پر پاگل پن سوار تھا۔ ۔ ۔ چر۔ ۔ ۔ ر۔ ۔ ۔ سے آواز ہوئی، خوف زدہ لڑکی کا گداز جسم اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ تپتے ریگستان میں جیسے ٹھنڈے پانی کی ایک بوند۔ بوند۔ ۔ ۔ ٹپ سے گری۔ ۔ ۔
سقراط اور ارسطو سے لے کر سگمنڈ فرائڈ تک، سبھی کا یہ ماننا ہے کہ۔ ۔ ۔ سپنوں میں کہیں نہ کہیں دبی خواہشات اور جنسی افعال رہتے ہیں۔ ۔ ۔ تو کیا جو کچھ سپنے میں ہوا۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔
تو کیا یہ باپ کی کوئی دبی خواہش تھی؟ نا آسودہ خواہشات فقط جنسی ہیجانات ہی ہوتے ہیں، باپ کو پتہ تھا۔
سپنوں کے بارے میں باپ کا کوئی گہرا مطالعہ تو نہیں تھا پھر بھی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے باپ ایسی باتوں سے آشنا تھا۔ کلیئرواینٹ، ٹیلی پیتھی، پریکا گنیشن، ریٹروکا گنیشن سے لے کر سپنوں میں ہونے والی جنسی خواہش وغیرہ کے بارے میں اسے مکمل جانکاری تھی، باپ کو لگا، عصمت دری کا مرتکب شخص وہ نہیں، کوئی پریت آتما ہے؟ (ایسی پریت آتماؤں کو پیرانفسیاتی زبان میں انکیوبی اور سکیوبی نام دیئے گئے ہیں۔ یہ شیطانی روحیں عورت اور مرد میں سوئی روحوں کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتی ہیں۔ ۔ ۔ تو کیا وہ سچ مچ باپ نہیں تھا۔ ۔ ۔ وہ کوئی بدروح تھی؟)
لیکن یہ تسلی کچھ زیادہ جاندار نہیں تھی۔ اس نے نفسیات اور پیرا نفسیات کے سارے چیتھڑے بکھیر دیئے تھے۔ باپ کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ اس لئے کہ سپنے میں جس لڑکی کے ساتھ باپ نے زنا بالجبر کیا تھا ، وہ لڑکی پنکی تھی۔ ۔ ۔

دیر تک باپ کا بدن کسی سوکھے پیڑ کی مانند تیز ہوا سے ہلتا رہا تھا۔ انسان کے ذہنی حرکات وسکنات کو قابو کرنے والے جذبے کا نام ہے LIBIDO ___یہ مرد، عورت کے ملن سے ہی ممکن ہے۔ اپنے من چا ہے ساتھی کے ساتھ جنہیں اس خواہش کی تکمیل میسر ہوتی ہے وہ ذہنی اعتبار سے صحت مند ہو جاتے ہیں___ اپنی پسند کی تسکین حاصل نہ ہو تو ذہن میں دبی خواہش ڈراونے خوابوں کو جنم دیتی ہے۔ تو کیا باپ نا آسودہ تھا؟ بہت دنوں تک عورت کے بدن کی شبیہیں جیسے اوکھلی، دوات، کمرا، کنواں وغیرہ اس کے سپنوں میں ابھرتے رہے اور ان سپنوں کا خاتمہ کہاں ہواتھا۔ ۔ ۔ وہ بھی ایک ایسے ’’زانی‘‘ کے ساتھ۔ اس نے پوری ننگی عورت کے ساتھ مباثرت کی تھی___
باپ گہرے سناٹے میں تھا۔ ایسے گہرے سناٹے میں، جہاں اس طرح کے تجزیے بھی غیرضروری معلوم ہونے لگتے ہیں کہ۔ ۔ ۔ وہ ابھی تک صحت مند ہے؟ جوانی ابھی اس میں باقی ہے۔ ۔ ۔ ابھی تک اس میں پت جھڑ نہیں آیا۔ بیوی کی طرح۔ ۔ ۔ وہ کسی ٹھنڈے سوکھے کنویں میں نہیں بدلا۔ جانگھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جسم میں، خون کی تمام لہروں پر اس کی نظر رہتی ہے۔ ایک گرم جسم شاید اس کے جوان بیٹے سے بھی زیادہ گرم، بیوی نے برسوں پہلے جیسے یہاں، سکھ کے اس مرکز پر دیوار اٹھا دی تھی۔ اس کے پاس سب سے زیادہ باتیں تھیں پنکی کے بارے میں، پنکی کے لئے اچھا سا شوہر ڈھونڈنے کے سپنے کے بارے میں شاید بیوی کے پاس مستقبل کے نام پر کچھ اور بھی بوڑھے سپنے رہے ہوں، مگر۔ ۔ ۔
اس دن پنکی شاورسے نکلی تھی، نہاکر۔ شاید باپ کسی ایسے ہی کمزور لمحے میں، وقت سے پہلے اپنی بیٹی کی شادی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ باپ نے نظر نیچی کر لی تھی پنکی کے جسم سے میزائلیں چھوٹ رہی تھیں۔ اس نے شلوار اور ڈھیلے گلے کا جمپر پہن رکھا تھا۔ وہ سر جھکائے تولیے سے بال سکھآ رہی تھی۔ پہلی ہی نظر میں اس نے آنکھ جھکالی تھی، آہ! کسی بھی باپ کے لئے ایسے لمحے کتنے خطرناک اور چیلنج سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ۔ ۔
تو کیااس اَن چا ہے سپنے کے لئے یہ منظر ذمہ دار تھا، یا۔ ۔ ۔ اس کے اندر دبی خواہش نے اسے ظالم حکمراں میں بدل دیا تھا۔ ۔ ۔
خالی دماغ شیطان کا گھر___ باپ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا چاہتا تھا۔ گزرے ہوئے بہت سارے خوبصورت لمحوں یا بچھڑی ہوئی ا س رومانی دنیا میں ایک بار پھر اپنی واپسی چاہتا تھا۔ اپنی حدوں کو پہچاننے کے باوجود۔ ۔ ۔ شاید اسی لئے لڑکی کی طرف سے ملنے والی لگاتار دعوتوں کو ٹھکرانے کے بعد، اس دن، اس نے، اسے پہلی بار منظوری دی تھی۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
(۵)
’’چلو!کہیں باہر چائے پینے چلتے ہیں۔‘‘
بیٹا کچھ دیر تک خاموش رہا۔
لڑکی کے لئے تجسس کا موضوع دوسرا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’تمہیں پہلی بار کیسا لگا اپنے باپ کو دیکھ کر۔‘‘ وہ تھوڑا مسکرائی تھی۔ ’’عشق فرماتے ہوئے دیکھ کر؟‘‘
’’باپ ہمیں دیکھ لیتے تو، کیسا لگتا انہیں‘‘۔
لڑکی کو یہ جواب کچھ زیادہ پسند نہیں آیا___
لڑکا کچھ اور سوچ رہا تھا۔ ’’اچھا مان لو، وہ باپ کی گرل فرینڈ نہ ہو۔ وہ بس باپ کے دفتر میں کام کرنے والی ایک عورت ہو۔ ۔ ۔ ‘‘
’’عورت نہیں۔ ایک کمسن، جوان اور خوبصورت لڑکی، جیسی میں ہوں‘‘___ لڑکی ہنسی۔ ’’میری عمر کی۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’کیا اس عمر کی لڑکیاں دفتروں میں کام نہیں کرتیں؟‘‘
’’کرتی کیوں نہیں۔ باپ جیسے لوگ ان کے ساتھ چائے پینے بھی آتے ہوں گے، مگر وہ۔ ۔ ۔ میرا دعویٰ ہے، جس طرح تمہارے پاپا نے۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا، میرا یقین ہے، وہ تمہارے پاپا کی گرل فرینڈ ہی ہوگی۔‘‘
’’اچھا بتاؤ، مجھے کیسا لگنا چاہئے تھا؟‘‘
’’مجھے نہیں پتہ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اچھا بتاؤ۔ اگر وہ تمہارے پاپا ہوتے تو۔ ۔ ۔ ؟‘‘
لڑکی نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ’’میرے پاپا ممی میں طلاق ہوچکی ہے۔ میں ممی کے ساتھ رہتی ہوں، اس لئے کہ پاپا کی زندگی میں کوئی اور آگئی تھی۔ ہوسکتا ہے وہ اس کے ساتھ ایسے ہی گھومتے ہوں جیسے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’اس حادثے کے بعد تمہارے ممی نے کسی کو نہیں چاہا؟‘‘
’’نہیں، لیکن یہ ممی کی غلطی تھی جو یہ سوچتی ہیں کہ جوان ہوتی لڑکی کی موجودگی میں کسی کو چاہنا گناہ ہے۔ کبھی کبھی مجھے ممی پر غصہ آتا ہے۔ صرف میرے لئے ایک پوری زندگی انہیں دیوداسی کی طرح گزارنے کی کیا ضرورت تھی۔ میرے لئے، میرے ساتھ رہنے والی زندگی کا خاتمہ اس طرح ہو جائے، یہ مجھے گوارا نہیں۔‘‘
’’مان لو اگر تمہاری ممی کا کوئی رومانس شروع ہو جاتا تو۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’ایک سدیش انکل تھے۔ ۔ ۔ ممی کا خیال رکھتے تھے مگر ممی نے سخت لفظوں میں انہیں آنے سے منع کر دیا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کیا تمہیں یقین ہے کہ ممی کے اندر، تمہاری طرح ایک جوان عورت بھی ہوگی؟‘‘
’’مجھے یقینہے کہ ممی سدیش انکل کو بھولی نہیں ہوں گی اور یہ کہ۔ ۔ ۔ ان کے اندر کوئی نہ کوئی بھوک ضرور دبی ہوگی۔ میں جانتی ہوں، ممی اس بھوک کو لئے ہوئے ہی مر جائیں گی۔‘‘
بیٹے کی آنکھوں میں اُلجھن کے آثارتھے۔ تو کیا باپ بھی اسی طرح برسوں سے اپنی بھوک دبائے ہوئے ہوں گے؟
’’تمہاری ممی کیسی ہیں؟‘‘
’’ہمارے لئے بہت اچھی۔ ہاں !پاپا کے لئے نہیں۔ ۔ ۔ لگتا ہے۔ ممی اس عمر میں صرف ہمارے لئے رہ گئی ہیں۔ وہ پاپا کے لئے نہیں ہیں۔‘‘
لڑکی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’پاپا کی زندگی میں ’کئی‘ آجائیں تو بھیانک بات نہیں۔ ایسے بہت سے مرد ہمارے سماج میں ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ بہت سی گھروالیاں بھی یہ سب جانتے ہوئے چپ رہ جاتی ہیں۔ اس سے گھر نہیں ٹوٹتا۔ باپ کی زندگی میں کوئی دوسرا آجائے، تب خطرے کی بات ہے۔ اس دوسرے کے آنے سے گھر ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ جیسا، میرے باپ کے ساتھ ہوا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’پتہ نہیں، باپ کیا کریں گے۔ ۔ ۔ ‘‘ لڑکے کو فکر تھی۔ ’’لیکن ایک بات کہوں یہ دہرے پن کا زمانہ ہے، دہرے پن کا۔‘‘
لڑکی ہنسی___ سیدھی سچی بات کہوں تو ’’دوغلابن کر ہی جی سکتے ہو تم۔ آرام سے___ زندگی میں بیلینس کے لئے دوہرے پن کاکردار ضروری ہے یعنی آپ ایک وقت میں دو جگہ ہوسکتے ہیں۔ الگ الگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے۔ سیدھے سیدھے کہوں تو، اگر آپ بیوی ہیں تو آپ کو بھولنا ہوگا کہ گھر سے باہر آپ کا شوہر کیا کرتا ہے اور اگر شوہر ہیں تو بھول جائیے کہ باقی وقت آپ کی بیوی کیا کرتی ہے۔ اس مارکیٹنگ ایج میں اگر آپ اخلاقی اقدار یا روایات کی بات کریں گے تو خسآ رہ آپ کا ہی ہوگا۔‘‘
لڑکا بولا۔ ’’شاید اتنا کچھ قبول کرنا سب کے لئے آسان نہ ہو۔ ۔ ۔ ‘‘
’’تمہارے باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آچکی ہے، یہ قبول کرتے ہوئے تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘
لڑکے نے بہت سوچنے کے بعد کہا___ ’’ابھی اس میز پر بیٹھ کر میں اس کا جواب صحیح طور پر نہیں دے پاؤں گا۔‘‘
***
باپ کے لئے یہ ایک غیر متوقع سمجھوتہ تھا۔ یعنی اس سپنے سے اس لڑکی تک کا سفر۔ لڑکی کا ساتھ پاکر جیسے اس کا پورا جسم گنگنا اٹھا تھا۔ نہیں، اس سے بھی زیادہ۔ باپ کا جسم جیسے اچانک وائلن میں بدل گیا ہواور وائلن کے تار جھنجھناکر مستی بھری دھنیں پیدا کررہے ہوں۔
لڑکی کم عمر تھی، باپ نے پوچھا___
’’تم نے اپنی عمر دیکھی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ لڑکی ڈھٹائی سے مسکرائی۔ ’’اور تم نے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’تمہاری جیسی عمر کو میری ہی عمر کی ضرورت ہے‘‘
’’اور تمہاری عمر کو۔ ۔ ۔ ؟‘‘ باپ اس فلسفے پر حیران تھا۔
لڑکی مدہوش تھی۔ ’’نئے لڑکے ناتجربہ کار ہوتے ہیں___ مورتی کی تراش خراش سے واقف نہیں ہوتے۔ اس عمر کو ایک تجربہ کار مرد کو ہی سوچنا چاہئے۔ جیسے تم۔‘‘ لڑکی ہنسی تھی۔

گھر آکر بھی باپ کو لڑکی کی ہنسی یاد رہی۔ اس دن لڑکی کے صرف ہاتھوں کے لمس اور خوشبو نے، گھر میں طرح طرح سے اس کی موجودگی درج کرادی تھی۔ جیسے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھاتے ہوئے دفعتاً غیر شعوری طور پر اس کے ہاتھ ’طبلہ‘ بن گئے تھے۔ جیسے باتھ روم میں وہ یونہی گنگنانے لگا تھا۔ جیسے۔ ۔ ۔ اور بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ مگر شاید اب وہ یاد کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔ ۔ ۔ کیونکہ اب اس لمس یا خوشبو سے گزرتے ہوئے وہ ساری رات اپنی ’اگنی پریکشا‘ دینے پر مجبور تھا۔ پتہ نہیں، بیوی کو اس بدلاؤ پر حیران ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ مگر بیوی ڈر چکی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ اس کا شوہر کسی سخت ذہنی الجھن میں گرفتار ہے۔ وہ اپنے باپ کے گھر کی روایت کو نبھانے یا بیوی کا دھرم نبھانے پرمجبور تھی___ اور وہ بار بار شوہر کے آگے پیچھے گھوم کر کچھ ایسی مضحکہ خیز صورت حال پیدا کررہی تھی جیسے کسی چھوٹے بچے پر پاگل پن کا دورہ پڑا ہو اور ماں اپنی مکمل ممتا بچے پر انڈیل دینا چاہتی ہو۔شوہر کے بدلاؤ پر اس کا ذہن کہیں اور جانے کی حالت میں نہیں تھا۔
’’پنکی کے لئے پریشان ہو؟‘‘
باپ کی مٹھیاں سختی سے بھنچ گئی۔ ابھی ابھی تو وہ یک ڈراؤنے سپنے کے سفر سے واپس لوٹا تھا۔
’’مت سوچو زیادہ‘‘
’’نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں‘‘
’’قرض چڑھ گیا ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’نوکری پر۔ ۔ ۔ کوئی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ باپ کا لہجہ ذرا سا اکھڑا ہوا تھا۔
’’لاؤسر میں تیل ڈال دوں۔‘‘
باپ نے گھور کر دیکھا۔ بیوی کے چہرے کی جھریاں کچھ زیادہ ہی پھیل گئی تھیں۔ سر پر تیل بھی چپڑا ہوا تھا۔ تیل ڈالنے سے سر کے بال اور بھی چپک گئے تھے___
’’نہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے، اس وقت مجھے اکیلاچھوڑدو۔‘‘
دوسرے دن بھی ماں پریشان رہی۔
بیٹے نے ماں کو دیکھ کر چٹکی لی۔ ۔ ۔ ’’تم نے کچھ محسوس کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تم محسوس کر بھی نہیں سکتی ہو!‘‘
’’کیوں؟‘‘ ماں کے لہجے میں حیرانی تھی۔
’’کیونکہ تمہارے مقابلے میں، باپ ابھی تک جوان ہے۔‘‘
ماں کو خوفزدہ چھوڑ کر بیٹا آگے بڑھ گیا۔ ۔ ۔
اسی دن شام کے وقت بیٹے نے اپنی محبوبہ سے کہا۔
’’سب کچھ خیال کے مطابق ہی چل رہا ہے‘‘
’’کیسا لگ رہا ہے تمہیں؟‘‘
’’کہہ نہیں سکتا، مگر لگتا ہے، کشش کے لئے ہر عمر ایک جیسی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یاہرعمر کی کشش ایک جیسی ہوتی ہے‘‘
’’شاید۔ ۔ ۔ مگر شاید میں اتنے تذبذب میں نہ ہو تاباپ کی عمر میں پہنچ کر‘‘
’’ہر عمر ایک جیسی ہوتی ہے۔ حادثات اپنا چہرہ بدلتے رہتے ہیں‘‘ بدلتے صرف حادثات ہیں لڑکی بولی۔ ’’خیر اس دن میں نے تم سے پوچھا تھا۔ ۔ ۔ تمہارے باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آچکی ہے یہ قبول کرتے ہوئے تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘
’’ابھی تک کچھ سوچ پانے کی حالت میں نہیں ہوں‘‘
لڑکی پھر ڈھٹائی سے ہنس دی۔ ۔ ۔ ’’اور شاید آگے بھی نہ ہو ا س لئے کہ باپ پر غورفکر کرتے ہوئے تم صرف باپ پر غور نہیں کررہے ہو بلکہ باپ کے ساتھ اپنے، پنکی، ماں اور صورت حال پر بھی غور کررہے ہو۔ ا ن سب کو ہٹاکر صرف باپ کے بارے میں سوچو۔‘‘
’’لیکن ایسا کیسے ممکن ہے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
لڑکی نے پتہ نہیں کس سوچ کے تحت کہا۔ ’’اسے ممکن بناؤ ورنہ ایک بار پھر یہ دنیا جڑنے کے بجائے ٹوٹ جائے گی۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
(۶)
باپ کو کوئی فیصلہ نہیں لینا تھا۔ بلکہ اندر بیٹے بوجھل آدمی کو ذرا سا خوش کرنا تھا۔ کسی کا ذرا سا ساتھ اور بدلے میں بہت سی خوشیاں یا بے رنگ کاغذ پر نقاشی کرنی تھی۔ ایک کامیاب آدمی کے اندر چھپے ناکام اور ڈرپوک آدمی کو ٹھنڈے اور خوشگوار ہوا کے جھونکے کی تلاش تھی اور یہ کوئی ایسی بے ایمانی بھی نہیں تھی۔ اس میں کوئی مکروفریب بھی نہیں تھا۔ ریگستان کی تپتی زمین پر جیسے کسی امرت بوند کی تلاش۔ شاید اسی نا آسودہ جنسی خواہش نے اس اذیت ناک سپنے کو جنم دیا تھا۔ باپ اس نئی رفاقت کو کامیابی کی کنجی بھی مان سکتا تھا کہ تسکین میں ہی کامیابی چھپی ہے۔ تسکین ذہنی طور پر اسے غیر صحتمند نہیں رہنے دیتی۔ وہ آرام سے پنکی کی شادی کرتا۔ بیوی سے دوچار اچھی بری باتیں، بیٹے کے ساتھ تھوڑا ہنسی مذاق اور زندگی آرام سے گزرنے والی سیڑھیاں پہچان لیتی۔
مگر باپ کی آزمائش بھی یہیں سے شروع ہوئی تھی۔ وہ بھیانک اذیت سے گزر رہا تھا۔ صرف ایک لمس یا خوشبو سے وہ خود اپنی نظروں سے کتنی بار ننگا ہوتے ہوتے بچا تھا۔ اس کی عمر، کی تفصیل اس کے اصول، اس کا خاندانی پن۔ باپ کئی راتیں نہیں سویا، اس کے بعد باپ کئی دنوں تک اس لڑکی سے نہیں ملا۔
ظاہر ہے، آزمائش میں باپ ہار گیا تھا۔ مکمل شکست، باپ کا جرم ثابت ہوچکا تھا۔ باپ کو پھر سے گھر والوں کی نظر میں پہلے جیسا بننا تھا۔ باپ کو اس ’غیر انسانی زاویے، سے باہر نکلنا تھا۔
اور باپ دھیرے دھیرے باہر نکلنے بھی لگا تھا اور کہنا چاہئے۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
(۷)
’’باپ نارمل ہوچکا ہے۔‘‘
بیٹے نے اس کہانی کا کلائمکس لکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘ لڑکی چونک گئی تھی۔
’’ہاں، اس میں توازن لوٹ آیا ہے۔ وہ برابر برابر ہنستا ہے یعنی جتنا ہنسنا چاہئے، وہ برابر برابر۔ ۔ ۔ یعنی اتنا ہی مسکراتا ہے، جتنا مسکرانا چاہئے اور کبھی کبھی، کسی ضروری بات پر اتنا ہی سنجیدہ ہو جاتا ہے، جتنا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’یعنی وہ لڑکی اس کی زندگی سے دور جاچکی ہے؟‘‘
’’یا اسے باپ نے دور کر دیا؟‘‘
لڑکی کی آنکھوں میں جیسے گھنگور اندھیرا چھا گیا ہو۔ وہ ایک لمحے کے لئے کانپ گئی تھی۔ شاید ایک قطرہ آنسو اس کی آنکھوں میں لرزاں تھا___
’’کیا ہوا تمہیں؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ ماں کا خیال آگیا‘‘
’’اچانک۔ مگر کیوں۔ ۔ ۔ ؟‘‘
لڑکی نے موضوع بدل دیا۔ ’’اب سوچتی ہوں میری ماں مکمل کیوں نہیں ہوسکی۔ میری ماں بدنصیب ہے۔‘‘
***
 

الف عین

لائبریرین
///////

دادا اور پوتا​

(اپنے پانچ سالہ بیٹے عکاشہ کے لئے جس کی خوبصورت اور ’خطرناک‘ شرارتوں سے اس کہانی کا جنم ہوا)

///////
 

الف عین

لائبریرین
(۱)
کچھ دنوں سے بڈھے اور پوتے میں جنگ چل رہی تھی۔ بڈھا چلّاتا رہتا تھا اور پوتا اس کی ہر بات نظر انداز کرجاتا تھا۔ ۔ ۔
’سنو، میرے پاس وقت ہیں۔‘
’کیوں وقت نہیں ہے؟‘
’بس کہہ دیا نا، وقت نہیں ہے۔‘
’ایک ہمارا بھی زمانہ تھا۔ ۔ ۔ ‘
بڈھا کہتا کہتا ٹھہر جاتا۔ بھلا جوان پوتے کے پاس اتنا سب کچھ سننے کے لئے وقت ہی کہاں تھا۔ بڈھا اس وقت پیدا ہوا تھا جب لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا اور پوتے نے اس وقت آنکھیں کھولی تھیں جب دنیا تیزی سے بدلنے لگی تھی۔ ۔ ۔
***
بڈھے کو پوتے پر رشک آتاتھا اور بیٹے سے اسی قدر اکتاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ ۔ ۔ اس کی امید کے برخلاف بیٹا ذرا سا بھی موقع پاتے ہی اس کے آگے پیچھے گھومتا ہوا فرمانبرداری ثابت کرنے میں جٹ جاتا۔ ۔ ۔
’ابا، آپ کو چائے ملی؟‘
’مل گئی۔ ۔ ۔ ‘
’کھانا ہوگیا‘
’ہاں‘
’کچھ چاہئے تو نہیں آپ کو؟‘
’نہیں‘
’طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپ کی؟‘
’میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم جاؤ، اپنا کام کرو۔
***
بڈھے کو بیٹے کی بات سے کوفت محسوس ہوتی۔ اسے لگتا، بیٹا درمیان کی اڑان میں کہیں پھنسا رہ گیا ہے___ اور پوتا، اس کی اڑان کا تو نہ کوئی اُور ہے نہ چھور___بیٹا ایک محدود زمین میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کررہا ہے۔ پوتے کے سامنے ایک کھلا آسمان ہے۔ ۔ ۔ بیٹا، اپنی، اس کی (یعنی بڈھے کی) نسل اور ان دو نسلوں کی اخلاقیات کے بیچ کہیں الجھ کر رہ گیا ہے۔ ۔ ۔ اور پوتا، اس کی نظروں میں ایسا شاطر پرندہ، جو ایسی تمام بندشوں کے پر کترنا جانتا ہو۔بڈھے کو بیٹے پر رحم آتا تھا اور پوتے کے لئے اس کے اندر ایک خاص طرح کا جذبہ رقابت تھا، جو اب جوش مارنے لگا تھا۔
***
بڈھے کو احساس تھا، وہ غلط وقت میں پیدا ہوا ہے۔ تب کتنی معمولی معمولی چیزیں اس کے لئے خوشی بن جایا کرتی تھیں۔ وہ ایک مدت تک دھوپ، ہوا، آنگن اور آنگن کے پیڑکو ہی دنیا سمجھتا آیا تھا۔ باہر کی سب چیزیں ایک لمبی مدت تک، یعنی اس کے کافی بڑا ہو جانے کے بعد تک جادو گر کا بن ڈبہ ہی رہیں۔ یعنی جس کے بارے میں وہ سوچ سکتا تھا۔ خوش ہوسکتا تھا، چونک سکتا تھا اور مچل سکتا تھا___ اماں، ابا، بھائی بہنوں کی فوج، اس کی کل کائنات بس اتنی تھی۔ ۔ ۔ اور کیا چاہئے۔ ۔ ۔ بڈھا اسی دنیا میں گم رہا کہ اس وقت کے سارے بچے اسی دنیا میں گم تھے۔ ۔ ۔ وہ اسی کائنات میں غوطہ کھاتا رہا کہ اس وقت کے سارے بچے۔ ۔ ۔
دھوپ، ہوا، آنگن اور پیڑ۔ ۔ ۔ ایک دن گھر کی دیوار اونچی اٹھ گئی___ دھوپ رخصت ہو گئی___ ہوا کا آنا بند وگیا۔آنگن پاٹ دیا گیا اور پیڑ کاٹ ڈالا گیا___
بڈھے نے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اب وہاں ایک پختہ کارمرد تھا اور دنیا دھیرے دھیرے بدلنے لگی تھی۔ ۔ ۔
لیکن شاید نہیں۔ یہ بڈھے کا وہم تھا۔ دنیا اسی طرح اپنے محور پر ٹکی ہوئی تھی، جیسے پہلے تھی۔ ۔ ۔ جیسے بڈھے کے باپ کے وقت میں تھی۔
***
توبڈھا ’ان‘ بہت سارے لوگوں میں سے ایک تھا جو بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جایا کرتے ہیں۔ پھر اس نے یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ورثہ میں اپنے بیٹے کے حوالے کر دیں۔ بیٹے کے زمانے میں وقت صرف اس قدر بدلا تھا کہ زمین زیادہ پتھریلی ہو گئی تھی۔ بڈھے باپ کی طرح اسے سب کچھ آسانی سے نہیں مل گیا تھا۔ ۔ ۔ اسے باپ سے زیادہ مشقت کرنی پڑی۔ کچھ زیادہ جدوجہد کرنی پڑی۔ ۔ ۔ تب اس کے چھوٹے سے شہر میں تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں آنے لگی تھیں۔ ۔ ۔ خاندان کے بڑھنے پر بٹوآ رہ اور گھر کا چھوٹا ہونا لازمی تھی۔ یہی وہ چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں جسے بڈھا___ دنیا کے ایک دم بدل جانے کے طور پر دیکھ رہا تھا۔
لیکن دراصل دنیا تب بدلی تھی جب۔ ۔ ۔
***
بیٹا اپنی آدھی زندگی کی ناؤ کھے چکا تھا۔ بڈھا اب اکیلا تھا۔ بیوی گزر چکی تھی۔ بیٹے کو مشقت اور جدوجہد کے بدلے میں ایک اچھی زندگی ملی تھی___ مگر نیا شہر ملا تھا۔ نئے شہر میں کالونیاں تھیں۔ ان میں کہیں ایک گھر بیٹے کا بھی تھا۔
اس گھر میں آنگن نہیں تھا___
اس گھر میں پیڑ نہیں تھے___
اس گھر میں دھوپ کم کم آتی تھی۔ ہوا کا گزرنا بھی کم کم ہوتا تھا___
پوتے نے اسی گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ ۔ ۔ آنگن، پیڑ، ہوا، دھوپ نہ ہوتے ہوئے بھی پوتے نے زبردست ہاتھ پاؤں نکالے تھے۔
پوتے کا ہر دن ایسا تھا جو اس کے بیٹے کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔
جو بڈھے کی زندگی میں نہیں آیا تھا۔ ۔ ۔
پوتا بلا خطر کچھ بھی کرسکتا تھا۔ ۔ ۔ اور شاید اسی لئے، اسے دیکھتا، پڑھتا ہوا بڈھے قدم قدم پر اس سے کڑھتا رہتا تھا۔ ۔ ۔
 

الف عین

لائبریرین
(۲)
اور حقیقت ہے، پوتے نے جب آنکھیں کھولیں، اس وقت دنیا بے حد تیزی سے بدلنے لگی تھی۔
پوتے نے بے حد چھوٹی نازک عمر میں ہی اپنے پر نکال لئے۔ ایک دن پڑھتے پڑھتے وہ تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔
’کہاں جا رہے ہو؟ بڈھے نے پوچھا۔
’کھیلنے جا رہا ہوں‘
بڈھے نے بیٹے سے کہا۔ ۔ ’اسے روکو۔ ۔ وہ کھیلنے جا رہا ہے۔ ۔ ‘
بیٹے نے آنکھیں پھیرتے ہوئے کہا___ ’’وہ نہیں مانے گا۔ ۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے آپ دیکھتے نہیں۔ ۔ ‘‘
’ہاں، میں سب دیکھ رہا ہوں‘
بڈھے نے گہرا سانس بھر کر کھلے دروازے کو دیکھا۔ پوتا نظر سے اوجھل ہو چکا تھا۔
***
بے حد ننھی، کچی سی عمر میں اور اس کالونی میں یہ پوتے کا پہلا دن تھا۔ جب نرسری میں پڑھتے ہوئے اس نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ ۔ اس دن بڈھا دیر تک سوچتا رہا___ بچپن میں ایسی آزادی اس کے حصے میں کیوں نہیں آئی؟‘
وہ پہلا دن تھا، جب بڈھے نے پوتے سے جلن محسوس کی تھی۔
***
پوتا تھوڑی دیر بعد کھیل کر واپس آیا، تو بڈھا دروازے پر اس کا راستہ روک کر کھرا ہو گیا۔
اس کی متجسس آنکھوں میں سوالات تھے___
’تمہارے پاس کیا ہے جو میرے پاس نہیں ہے‘
’ہٹو، جانے دو‘
’نہیں،پہلے بتاؤ۔ ۔ تمہارے پاس کیا ہے جو میرے پاس۔ ۔ ‘
پوتے نے پھر دہرایا۔ ۔ نہیں جانے دو گے؟‘
’نہیں۔ ۔ ‘
’ٹھینگا‘
پوتا مست ہوا کے جھونکوں کی طرح دوبارہ بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ بڈھا دیکھتا رہ گیا۔ ۔ شاید فرار کے اتنے راستے، بغاوت کا یہ مادہ، جو پوتے میں تھا، بڈھے میں نہیں آیا تھا۔ ۔ وہ دیر تک دو قدم آگے بڑھ کر پوتے کو سیڑھیوں سے نیچے اتر کر دوڑ کر، سرپٹ بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا___
یہ سلسلہ دراز ہوتا رہا۔ ۔
انحراف، احتجاج اور بغاوت کی کشادہ سڑک پر پوتے کے قدم بھاگتے رہے۔ بڈھا خود سے دریافت کرنے میں مصروف رہا۔
’اس میں ایسا کیا ہے، جو میرے پاس نہیں ہے‘
اور کہنا چاہئے، بار بار اٹھنے والے اسی ایک سوال نے اسے پوتے کے بہت قریب کر دیا تھا۔ ۔ اور پوتا بھی اسی دشمنی، رقابت کے پردے میں بڈھے کو ’کچھ‘ بھی بتاتے یا پوچھتے ہوئے گھبراتا یا شرماتا نہیں تھا۔ ۔ مثلاً جیسے پوتا پوچھتا۔ ۔
’تم اپنے وقت میں ایسے نہیں تھے؟‘
’نہیں۔‘
’پھر تم کرتے کیا تھے؟‘
’ہم چپ رہتے تھے۔ بڑوں کے سامنے بولنا منع تھا۔‘
اور۔ ۔ ؟‘
’پیدا ہوتے ہی ہمیں ایک ٹائم واچ دے دی جاتی تھی۔ اس وقت اٹھنا ہے، فلاں وقت میں یہ کام انجام دینا ہے۔ ۔ ‘
’اور لڑکی۔ ۔ ؟‘
پوتا ہنستا ہے۔
بڈھا آنکھیں تریرتا ہے۔ ۔ ’’ہمیں چھت پر بھی جانا منع تھا۔ تمہارا باپ بھی چھت پر نہیں جاسکتا تھا۔ لڑکی کا نام لینا تو بہت دور کی چیز ہے۔‘‘
’تم لوگ گھامڑ تھے___‘ اس بار پوتے کو غصہ آتا ہے۔
***
دادا جوابی کارروائی کے طور پر، گفتگو کے ہر نئے موڑ پر بیٹے کے ساتھ شیئر کرتا___
’___وہ اڑ رہا ہے۔‘
’یہ عمر اس کے اڑنے کی ہی ہے___‘ بیٹا اپنے کام میں مصروف رہتا۔
’___وہ ہنس رہا ہے۔‘
’وہ ہنس سکتا ہے۔ ۔ یہ عمر ہی۔ ۔ ‘
’ ___نہیں، وہ ایسے نہیں ہنس رہا ہے جیسے ہم لوگ۔ ۔ ‘
بڈھا کہتے کہتے غصہ ہوتا ہے۔ ۔ ’وہ اڑ رہا ہے۔ ۔ وہ بڑا ہو رہا ہے۔ ۔ وہ پھسل رہا ہے۔ ۔ ‘
بیٹا ہر بار اپنی مصروفیت میں آنکھیں جھکائے، ویسے ہی جواب دیتا___
’وہ ایسا کرسکتا ہے۔ ۔ ‘
ظاہر ہے،ایسے موقع پر بڈھے کو اپنے غصے کو چھپانا، ناممکن ہو جاتا۔ ۔ اورجیسے ایسے ہر موقع پر غصہ ور بڈھا خود سے دریافت کیا کرتا۔
’آخر اس میں ایسا کیا ہے، جو اس کے پاس نہیں تھا۔‘
 
Top